کیا آپ نے کبھی کسی کو چھیڑا

قیصرانی

لائبریرین
شاعری کا انتخاب کیا نہیں، ہو گیا :)
ہمارے لڑکپن میں نہ صرف محبت جیسی غلطیوں کے لیے وقت ہوتا تھا بلکہ شعر پڑھنے اور لکھنے کے لیے بھی دل میں کسک گاہے بگاہے جاگتی رہتی تھی۔ آج کل کے لڑکے تو ان خرافات میں پڑھتے ہی نہیں :)
یہ کس نے کہا؟ آپ نے فراز کی مقبولیت کا گراف اچانک بلند ہوتے نہیں دیکھا (وفات کے بعد) :p
ویسے پڑتے تھا کہ پڑھتے؟
 

سلمان حمید

محفلین
بالکل جی۔۔۔ اچھا کرتے ہیں۔۔۔ خرافات میں پڑھنا نہ پڑھنے والی بات ہی ہوتی ہے۔۔۔ :D
یہ کس نے کہا؟ آپ نے فراز کی مقبولیت کا گراف اچانک بلند ہوتے نہیں دیکھا (وفات کے بعد) :p
ویسے پڑتے تھا کہ پڑھتے؟

پڑتے تھے۔ اردو کی غلطیوں کے لیے معذرت :p
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
دوست کرتوت اب بھی وہی ہوتے تو کمال نہ ہو جاتا۔ کرتوت ہی تو بدل گئے جس کا افسوس ہے :(
یعنی اب ہم عمر ہم جماعت سے بات کرتے ہوئے ڈر نہیں لگتا۔۔۔۔ لڑکیوں کے چھیڑنے پر تیز دھڑکن لیے وہاں سے بھاگتے نہیں ہو۔۔۔۔۔ ان کی شوخی کی خوشی پر حیرت زدہ نہیں رہتے۔۔۔۔ بازار میں نگاہیں مل جائیں تو دل بھر کر تاڑتے ہو۔۔۔ ہر پاس سے گزرتی حسینہ کو خوب تکتے ہو۔۔۔۔ اور محبوب کا سراپا اب بالوں سے شروع نہیں ہوتا یا پھر چہرے پر ختم نہیں ہوتا۔۔۔۔۔ :p
۔۔۔۔ مزید کیا کیا بدلا ہے۔۔۔ وہ لکھنے کی ضرورت ہے مجھے کیا۔۔۔۔۔ :D :devil:
 

سلمان حمید

محفلین
یعنی اب ہم عمر ہم جماعت سے بات کرتے ہوئے ڈر نہیں لگتا۔۔۔ ۔ لڑکیوں کے چھیڑنے پر تیز دھڑکن لیے وہاں سے بھاگتے نہیں ہو۔۔۔ ۔۔ ان کی شوخی کی خوشی پر حیرت زدہ نہیں رہتے۔۔۔ ۔ بازار میں نگاہیں مل جائیں تو دل بھر کر تاڑتے ہو۔۔۔ ہر پاس سے گزرتی حسینہ کو خوب تکتے ہو۔۔۔ ۔ اور محبوب کا سراپا اب بالوں سے شروع نہیں ہوتا یا پھر چہرے پر ختم نہیں ہوتا۔۔۔ ۔۔ :p
۔۔۔ ۔ مزید کیا کیا بدلا ہے۔۔۔ وہ لکھنے کی ضرورت ہے مجھے کیا۔۔۔ ۔۔ :D :devil:
ہاں دوست ہاں۔ اور کیا کیا سننا چاہتا ہے؟ ہاں میں بدل گیا، ہاں یہ وقت بدل گیا، اور زمانہ بھی تو بدل ہی گیا نا۔
کیوں کیا تو نہیں بدلا؟ :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین

سیما علی

لائبریرین
پے در پے مجھے کچھ ایسے واقعات یاد آرہے ہیں ۔ جن میں سے کچھ کا تعلق میرے والد کے انہی دوست سے بنتا ہے ۔ جن کا ایک قصہ میں نے کل سنایا تھا ۔ اس واقعہ کا تعلق بھی انہی سے ہے ۔ ;)
ایک دن میرے والد صاحب کے انہی دوست نے ایک نئی زیرو میٹر موٹر سائیکل خریدی ۔ اور اپنے گھر کے سامنے ، اسے سارا دن چلائے بغیر اس پر ایسے بیٹھے رہے جیسے کوئی راجہ سنگھاسن پر بیٹھتا ہے ۔ میں جب بھی وہاں سے گذروں مجھے دیکھ کر ایک آنکھ بھینچ کر کپڑے سے اپنی موٹر سائیکل صاف کرنے لگ جاتے ۔ مجھے ان کے اس اسٹائل سے بڑی تپ چڑھتی تھی ۔ شام کو وہ اپنی اسی موٹر سائیکل پر ہمارے گھر پر آئے اور ابو کا پوچھنے لگے ۔ میں اپنے دوستوں کے ساتھ گھر کے باہر کھڑا ہوا تھا ۔ میرے ایک دوست نے پوچھا " انکل موٹر سائیکل کتنے کی لی ۔ ؟ " انہوں نے اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہا کہ " پورے 35 ہزار کی ہے " ۔ میں نے کہا " انکل ۔۔۔ 100 روپے اور ملا کر نئی خرید لیتے ۔ " :grin:
میرا خیال ہے اس دفعہ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ پھر میرے ساتھ کیا ہوا ۔ ؟ ;)
بہت شاندار:cool::cool::cool::cool:
 

جاسمن

لائبریرین
یہ تو آپ نےبیحد دلچسپ سلسلہ شروع کیا ہے ۔ چلیں میں بھی کچھ شئیر کرتا ہوں ۔

ابو کے ایک دوست تھے ۔ بہت تند مزاج اور بہت جلد تپنے والے ۔ پتا نہیں ان کو مجھ سے کیا پُرخاش تھی کہ میرے بارے میں ابو سے اکثر شکایت لگایا کرتے تھے کہ میں وہاں کھڑا ہوا تھا ، میں وہاں بیٹھا ہوا تھا ۔ دن کو گیا رہ بجے میرے گھر کے سامنے سے گذرا تھا ، کیوں کیا آج کل کالج نہیں جا رہا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ ابو بھی ان کی " شکایت " پر میری خوب کھنچائی کرتے تھے ۔ ایک دن میں Living Room میں ایک نئے شیطانی کھیل کی ایجاد میں بیٹھا ہوا تھا کہ موصوف نے درواز ہ کھٹکایا ۔ میں باہر گیا تو انہوں نے ابو کا پوچھا میں نے کہا مسجد نماز پڑھنے گئے ہوئے ہیں ۔ انہوں نے غصے سے کہا کہ " تم کیوں نہیں گئے " ۔۔۔ دل تو چاہا کہ کہوں آپ یہاں کیا کر رہے ہیں مگر چپ رہا ۔ خیر وہ اندر آگئے تو انہوں نے دیکھا کہ میز پر ماچس کی تیلیاں اور ایک ماچس کا ڈبہ پڑا ہوا ہے ۔ کہنے لگے برخوردار سگریٹ پینے لگے ہو کیا ۔۔۔ مجھ سے رہا نہیں گیا اور سوچا کہ اب ان کی آج کلاس لی جائے پھر جو ہو سو ہو دیکھا جائے گا ۔ میں نے کہا : " نہیں انکل ۔۔۔۔ ایک کھیل کھیل رہا تھا ۔ "
" یہ کس قسم کا کھیل ہے " انہوں نے شکی لہجے سے پوچھا ۔
یہ ایک فوجی کھیل ہے اگر آپ چاہیں تو کھیل سکتے ہیں ۔
شکی تو وہ تھے ہی لہذا ۔۔۔ یہ دیکھنے کے لیئے کہ میں واقعی کھیل کھیل رہا تھا یا پھر سگریٹ والی بات صحیح تھی تو انہوں نے کھیلنے پر رضامندی ظاہر کردی ۔
میں نے ماچس کی کچھ تیلیاں میز پر ایک ساتھ رکھ کر ایک لکیر سی بنا دی ۔ اور اسے باڈر کا نام دیا ۔ پھر لکیر کی دوسری طرف ( یعنی ان کی طرف ) ماچس کی ڈبیہ میں ماچس کی ایک تیلی ایسے آگے پھنسا دی جیسے کہ وہ ماچس کی ڈبیہ گویا ایک ٹینک ہو ۔ اور خود اپنی طرف دو تیلیاں لیکر ایک کو رنگروٹ اور ایک کو جرنیل کا نام دیکر کر اپنے ہاتھ میں پکڑ لیں ۔
میں نے کہا " انکل یہ باڈر ہے ۔ آپ کے پاس ٹینک ہے ۔۔۔ لہذا آپ منہ سے ٹینک کی آواز نکالتے ہوئے اس ٹینک کو آہستہ آہستہ کھسکاتے ہوئے بارڈر کی طرف لائیں ۔ ایک لمحہ انہوں نے میری طرف بڑی عجیب نظروں سے دیکھا مگر پھر یہ منہ سے آواز نکال کر آہستہ آہستہ " ٹینک " آگے بڑھانا شروع کردیا ۔
میں نے اپنی ہاتھ میں پکڑی ہوئی ایک تیلی ( جرنیل ) کو ہلایا اور دوسری تیلی ( رنگروٹ ) کو کہا کہ جاؤ دیکھ کر آؤ کہ اطلاع ملی ہے باڈر کی طرف دشمن کا ایک ٹینک آرہا ہے ۔
رنگروٹ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا باڈر کی طرف گیا اور سرحد کے اس پار دیکھا اور پھر اسی طرح واپس آیا اور کہا ۔
جناب سرحد پر کوئی خطرہ نہیں ۔۔۔ ایک بیوقوف ماچس کا ٹینک بنا کر لارہا ہے ۔ :grin:
اس واقعے کے بعد بس اتنا ہوا کہ ابو نے اس جنگ کے نتیجے میں‌ ، مجھے اس طرح تمغوں سے نوازا کہ میں کئی دن تک تشریف رکھنے کی صلاحیت سے محروم ہوگیا ۔

ہاہاہاہاہا۔ یہ اپنے بچوں کو ضرور پڑھانا ہے میں نے۔ اتنا مزے کاواقعہ ہے۔
محمد بھی ماچس کی تیلیوں سے بہت سالوں سے کھیلتا ہے۔ کتنی بار "بم" بنائے اس نے۔ چھت پہ جا کر "بم پھاڑے". پورے پورے ماچس کے بڑے پیکٹ ختم کر دیتا ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
پے در پے مجھے کچھ ایسے واقعات یاد آرہے ہیں ۔ جن میں سے کچھ کا تعلق میرے والد کے انہی دوست سے بنتا ہے ۔ جن کا ایک قصہ میں نے کل سنایا تھا ۔ اس واقعہ کا تعلق بھی انہی سے ہے ۔ ;)
ایک دن میرے والد صاحب کے انہی دوست نے ایک نئی زیرو میٹر موٹر سائیکل خریدی ۔ اور اپنے گھر کے سامنے ، اسے سارا دن چلائے بغیر اس پر ایسے بیٹھے رہے جیسے کوئی راجہ سنگھاسن پر بیٹھتا ہے ۔ میں جب بھی وہاں سے گذروں مجھے دیکھ کر ایک آنکھ بھینچ کر کپڑے سے اپنی موٹر سائیکل صاف کرنے لگ جاتے ۔ مجھے ان کے اس اسٹائل سے بڑی تپ چڑھتی تھی ۔ شام کو وہ اپنی اسی موٹر سائیکل پر ہمارے گھر پر آئے اور ابو کا پوچھنے لگے ۔ میں اپنے دوستوں کے ساتھ گھر کے باہر کھڑا ہوا تھا ۔ میرے ایک دوست نے پوچھا " انکل موٹر سائیکل کتنے کی لی ۔ ؟ " انہوں نے اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہا کہ " پورے 35 ہزار کی ہے " ۔ میں نے کہا " انکل ۔۔۔ 100 روپے اور ملا کر نئی خرید لیتے ۔ " :grin:
میرا خیال ہے اس دفعہ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ پھر میرے ساتھ کیا ہوا ۔ ؟ ;)

ہاہاہاہا۔ یہ واقعہ بھی بہت مزے کا ہے۔
 

سید عمران

محفلین
جب دوسرے یہاں کسی اور کی چھیڑ چھاڑ کا ذکر کررہے ہیں تو ہم بھی کریں گے۔۔۔

ایک دن کا ذکر ہے ہم دفتر میں تھے۔ اس روز ٹیلی فون آپریٹر چھٹی پر تھا۔ باس نے بلایا اور کہا آج آپ نے ٹیلی فون والی ٹیبل پر بیٹھ کر اپنا کام بھی نمٹانا ہے اور فون کالز بھی ریسیو کرنی ہیں۔ ہماری خوش قسمتی اسی دوران کسی لڑکی نے کال کی۔ ہمیں ہدایت تھی کہ فون اٹھاتے ہی ہیلو کہہ کر کمپنی کا نام دہرائیں۔ خیر ہم نے ہیلو کہہ کر کہا ایم سی ایل۔ وہ بولی جی؟ ہم سمجھ گئے غیر متعلقہ کال ہے۔ پھر بھی پوچھ لیا آپ کو کس سے بات کرنی ہے؟
جواب ملا: ’’آپ سے!‘‘
ہم نے کہا: ’’رانگ نمبر۔‘‘
پھر گھنٹی بجی۔ پھر کہا:
’’آپ بات کیوں نہیں کرتے؟‘‘
ہم نے کہا؛’’ مس ہم اس وقت آفس کے ہال میں بیٹھے ہیں۔ ہزارہا نظریں ہم پر مرکوز ہیں۔ بات کریں تو کیا اور منجھی ڈھائیں تو کہاں؟‘‘
ہنسنے لگی۔ ہم نے فون بند کردیا۔ پھر کال کی:
’’آپ کی آواز بہت اچھی ہے۔‘‘
جواب میں ہم نے کہنا چاہا ہم اس سے بھی زیادہ اچھے ہیں۔ مگر ہائے ری مجبوریاں۔ دل کے ارماں دل میں رہ گئے، ہم مجمع میں بیٹھے تڑپتے رہ گئے۔ موجودہ ماحول میں مزید گفتگو کا کوئی فائدہ نہیں تھا لہٰذا فون بند کردیا۔ پھر کال کی۔ ابھی بات شروع ہی ہوئی تھی کہ باس کا ڈرائیور تیزی سے اٹھا اور باس کے کمرہ کی جانب بڑھ گیا۔
ہم دیکھ رہے تھے کہ ہر کال پر اس کی آنکھیں بارہ نمبر کے چشمے کے پیچھے سے چمک چمک اٹھتی تھیں۔ ہمیں شک تو کیا پورا یقین تھا کہ باس سے ہماری شکایت لگانے گیا ہے۔ لیکن ہمارا خیال غلط ثابت ہوا۔ وہ بے چارہ اپنے تئیں ہماری ہمدردی میں گیا تھا۔ ابھی ہم کال سے جان چھڑانے کا سوچ ہی رہے تھے کہ ڈرائیور باس سمیت سامنے موجود تھا۔ باس سے کہنے لگا:
’’سر دیکھیں کوئی لڑکی ان بے چارے، معصوم سے، سیدھے سادے، شریف آدمی کو کال کرکے تنگ کررہی۔‘‘
اس کی جانب سے ملنے والے اس بے وقت کے کیریکٹر سرٹیفکیٹ پر ہم غصہ سے کھول کر رہ گئے۔ باس نے جھٹ ہمارے ہاتھ سے ریسیور چھینا اور بولے:
’’آپ کون بات کر رہی ہیں؟ میں اپنے کمرے میں کال ٹرانسفر کرتا ہوں۔ وہاں اطمینان سے بات کرتے ہیں۔‘‘
ہمیں کمرے سے باس کی آواز آرہی تھی:
’’میں ستّر سال کی عمر کا آدمی ہوں۔ بتاؤ مجھ سے شادی کروگی؟‘‘
وہ دن ہے اور آج کا دن ہم اس کی کال کا انتظار کررہے ہیں مگر نہ صبح آئی نہ شام آئی!!!
 
آخری تدوین:

شمشاد

لائبریرین
آپ کو پہلی ہی فون کال پر اپنا تعارف کرواد دینا چاہیےتھا، کہ اتنے سال کا ہوں۔
کوئی بات نہیں۔ اب پھر سے ٹیلی فون آپریٹر کی چھٹی والے دن کا انتظار کریں۔
 
Top