کہیں تو چھوڑ گیا ہوگا کچھ نشاں اپنے

نوید صادق

محفلین
کہیں تو چھوڑ گیا ہوگا کچھ نشاں اپنے
وہ اک فسانہ سا گذرا جو درمیاں اپنے

ہوئے جو گنگ بدلتی رتوں کی حیرت سے
وہ لمحے ہوں گے کبھی آپ ترجماں اپنے

یہ بے زبان نہیں، اِن کی خامشی کو سمجھ
نشان چھوڑ گئے ہیں جو رفتگاں اپنے

وہی تو آتے دنوں کا ترے اثاثہ تھے
وہی جو خواب کیے تو نے رائگاں اپنے

خراج لیں گی تری خوش گمانیاں تجھ سے
کبھی جو آئنہ تجھ پر ہوئے زیاں اپنے

ہری رہے تری شاخِ بدن خزاں میں بھی
کہ برگ و بار ہیں جس کے قصیدہ خواں اپنے

ملیں گے تجھ سے کسی اور رُت کی حیرت میں
اگرچہ وقت کا ساگر ہے درمیاں اپنے

(طارق بٹ)
 

محمد وارث

لائبریرین
السلام علیکم نوید صاحب۔

پسندیدہ کلام کی 'ورق گردانی' کرتے ہوئے یہ غزل سامنے آئی ہے، کیا خوب غزل ہے!

استدعا یہ ہے کہ اگر طارق بٹ صاحب بھی آپ کے حلقۂ احباب میں سے ہیں تو انہیں بھی مدعو کیجیئے حضور محفل پر، نوازش!
 

محمداحمد

لائبریرین
ملیں گے تجھ سے کسی اور رُت کی حیرت میں
اگرچہ وقت کا ساگر ہے درمیاں اپنے

طارق بٹ صاحب واقعتاً بہت خوب لکھتے ہیں۔

بہت شکریہ نوید بھائی! طارق بٹ اور مسعود منور "مجلسِ ادب" کے دو ایسے نام ہیں جن سے میں‌ بہت متاثر ہوں۔ اگر ہو سکے تو اِن حضرات کو بھی یہاں آنے کی دعوت دی جائے۔
 
Top