کہو، وہ چاند کیسا تھا؟ فاخرہ بتول

راجہ صاحب

محفلین
کہو، وہ چاند کیسا تھا؟​




فاخرہ بُتول​


الحمد پبلی کیشنز
___________________
رانا چیمبرز ۔ سیکنڈ فلور ۔(چوک انار کلی) ۔ لیک روڈ ۔ لاہور​
 

راجہ صاحب

محفلین
فہرست

کچھ سچی سچی باتیں عدیم ہاشمی
کہا میں نے۔۔۔۔۔(پیش لفظ)
بتاؤ دل کی بازی میں بھلا کیا بات گہری تھی؟
مکالماتی نظم ۔کہو، وہ چاند کیسا تھا؟
کہا اس نے، زمانہ درد ہے اور تُم دوا جیسے
ساجن کو کیا بھولی صُورت بھا سکتی ہے
مکالماتی نظم ۔ بیا کل ورگ
کب اداسی پیام ہوتی ہے ؟
اس نے کہا، ہے کلیوں کی مجھ کو تو جُستجو
مکالماتی نظم ۔ محبت چاند بُنتی ہے
بول سکھی ، دِل نے کس پل اُکسایا ہو گا؟
تیری آنکھوں میں فصلِ ہجر کیسے بو گیا کوئی؟
یہ کیسی بے خودی ہے ؟
مکالماتی نظم ۔ تمہیں بھی یاد تو ہو گا؟
کہو، کیا جل رہاہے اِس جہاں میں آشیاں اُس کا ؟
ساون کیسے تڑپاتا ہے بول سہیلی بول
جو دل میں ہے سچ بتلانا؟
مکالماتی نظم ۔ ہِجر کا موسم ٹھہر گیا ہے
کیا ہر پل ہر ساعت ہے ؟
ہاتھ کا کنگن کاہے اِتنا شور مچائے؟
ساحل سے ساگر کس پل ٹکرایا ہو گا؟
چُپ چُپ کیوں ہو ؟
کبھی پڑھ لو سمندر پہ لکھا جو نام ہوتا ہے
مکالماتی نظم ۔ فلک کی نظریں
دل نے پھر غم کا راگ چھیڑا ہے
کہو، فلک ! میرے محبوب جیسا کوئی کہیں تھا؟
بول سکھی، کیوں چاہت کا مقسُوم جُدائی ؟
اس نے پوچھا عہد نبھایا ہے ؟
برف سی نین جزیروں میں جمی ہے کیونکر ؟
سہیلی، اب کہو تم نے کہا تھا کچھ بتاؤنگی !
اُس سے پوچھا تھا وفا کی بابت
نظم ۔ چلو ساحل پہ جا کر
وفا کے راہروں کو کیوں سدا برباد دیکھا ہے ؟
پیار کا گھاؤ سُنو ، یُوں نہیں کھایا کرتے
صبا سے مل کر چُنری کاہے مجھ کو ستائے؟
سُنو، اہل وفا نے ہی ہمیشہ کیوں جفا پائی ؟
بتاؤ کون تھا ، کیسا تھا جس سے سلسلہ ٹھہرا؟
بول سکھی، کب تک چاہت کو ٹھکرائے گی؟
نظم ۔ سدا اِک رُت نہیں رہتی
دل میں درد محبت کیسے بوتی رہتی ہے ؟
کہا، اس نے کہ تم تعبیر ہو اور خواب سا ہوں میں
کہو، تم کیوں جھجکتے ہو ؟
کیوں ساجن کی آس نہیں ہے؟
بولو ہیں رنگ کتنے زمانے کے اور بھی؟
نظم ۔ بُھلا دیا نا۔۔۔۔۔۔؟
غیر کے ہات میں ہات ہمارا ؟
تو دل میں کیا تھا تمھارے، ساجن اگر نہیں تھا ؟
سُنو وہ جب ستاتا ہے
کہو، تم نے کبھی خوابوں کے رنگوں کو چُرایا ہے ؟
بولو، بھیگی رُت میں کوئل کیوں روئے ہے؟
اُس نے کہا، کیا چُپ چُپ رہنا اچھا لگتا ہے؟
مکالماتی نظم ۔ مگر اِتنا نہیں ہوتا
کہو، وہ یار کیسا تھا ؟
احساس اپنے ہونے کا کس پل ہوا نہیں؟
آؤسجن سے ملواؤں
پُوچھا، بتاؤ اوج پہ کیوں درد آج ہے ؟
مکالماتی نظم ۔ یہ بھی تو سوچو
 

راجہ صاحب

محفلین
کُچھ سچی سچی باتیں



شعر کہنا اور شعر پر گفتگو کرنا بالکل دو مختلف باتیں ہیں ۔ شعر پر گفتگو کرنے کے بعد اکثر شاعروں کا پول کھل جاتا ہے۔ یا کم از کم یہ پتہ ضرور چل جاتا ہے کہ یہ شاعر ادبی طور پر کتنے پانی میں ہے ۔
فاخرہ بتُول سے جب بھی شاعری پر بات ہوئی اس کی شاعری کی قدر میرے دل میں اور زیادہ بڑھ گئی ۔ فاخرہ بتُول صرف شعر نہیں لکھتی وہ شعر پر گفتگو کرتے وقت بھی شاعری کرتی ہے۔ شاعری کی ممکنات کو اس انداز سےExploreکرتی ہے کہ خواہ مخواہ بات کو طُول دینے کو جی چاہنے لگتا ہے ورنہ تو خواتین کے ساتھ رومانی باتوں کے علاوہ کسی بات کا مزہ ہی نہیں آتا اور اکثر خواتین کو تو رومانی باتیں بھی نہیں آتیں ۔ صرف رومان میں مبتلاء ہونا ہی آتا ہے ۔ گفتگو آدمی ان کی طرف سے بھی خود ہی کرتا ہے البتہ راولپنڈی کے تدریسی شاعر اور ادیب جو کالجوں میں اردو کے شعبوں کو سنبھالے ہوئے ہیں ۔ ادب پر ایسی گفتگو کرتے ہیں کہ آدمی تھوڑی دیر کیلئے ملٹن، پاؤنڈ اور ورڈورتھ کے لیریکل بیلیڈز کے دیباچے کو بھی بھول جاتا ہے اور شعر سنئیے تو پوری اردو شاعری سے توبہ کرنے کو جی چاہتا ہے ۔ پطرس بخاری کے ،، کتے ،، ذہن میں بھونکنے لگتے ہیں ۔ ان کی تنقید پڑھیئے تو آدمی کو ان سے تعلقات پر شرم آنے لگتی ہے یعنی اردو میں کم از کم ماسٹرز کی ڈگری کے بعد آدمی پروفیسر بنتا ہے اور حال یہ ہے کہ سر سیّد کالج کے پروفیسر اور بزعم خود شاعر کی غزل کی ردیف ہے ۔"دریا کے اس طرف " گویا طرف کو مذکر استعمال کیا ہوا ہے ۔ دریا کے اس پار کے معنوں میں مرے کہنے پر شاعر موصوف نے حیرت کا اضہار کیا اور کہا کہ میں تو آج تک ایسا ہی کہتا آیا ہوں اور میرا خیال ہے کہ یہی ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ادھر تنقید میں یہ حال ہے کہ نقاد موصوف نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے ۔ طالب علموں کو پڑھاتے ہیں اور " مور ناتواں " کا ترجمہ پڑھاتے ہیں "کمزور مور" گویا " ہیضہ مور " "مور کا انڈا " (اے سبحان اللہ)

الحمداللہ کہ فاخرہ بتُول سے گفتگو کرتے وقت مجھے ان مراحل سے نہیں گزرنا پڑا ۔ شعر سنتے سنتے نہ تو شاعری سے توبہ کرنے کو دل چاہا اور نہ ہی ادب پر گفتگو کرتے وقت تعلقات پر اس قسم کی ندامت محسوس ہوئی ۔ فاخرہ کی ادبی گفتگو یعنی Conversation Antellectual اور اسکی شاعری کا Level اتنا مساوی ہے کہ "اس غیرت ناہید" کی ہر بات دیپک کہنے کو جی چاہتا ہے ۔

فاخرہ کی کتاب کا دیباچہ لکھنے سے پہلے میں یہ باتیں اُن سے کر چکا ہوں کہ اگر تم اپنی مکالماتی شاعری کا دیباچہ مجھ سے لکھواؤ گی تو تم پر سب سے پہلے یہ الزام آئے گا کہ تم نے عدیم قاسمی سے شعر لکھوائے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ حالانکہ معاملہ اس کے برعکس بھی ہو سکتا ہے ۔ فاخرہ بتُول اس قدر Genuine بلکہ خوفناک حد تک Genuine شاعرہ ہے ۔ اور اس قدر تیزی سے ہر طرح کا شعر لکھتی ہے کہ اگر یہ کہا جائےکہ عدیم قاسمی نے اپنی مکالماتی غزلیں فاخرہ بتُول سے لکھوائی ہیں تو اسے اور مجھے جاننے والے اگر یقین نہیں کریں گے تو سوچیں گے ضرور۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پھر میں نے فاخرہ سے کہا کہ مکالماتی غزلیں لکھ کر تم کیا حاصل کر لو گی جو میں نے کر لیا ہے ۔

"پلکیں بھیگی بھیگی سی" اور " چاند نے بادل اوڑھ لیا" کے بعد "کہو وہ چاند کیسا تھا " ایک بالکل مختلف کتاب ہے ۔ یہ مکالماتی شاعری اردو ادب میں دوسرا مکالمہ ہے ۔ جی ہاں ۔۔۔۔۔ پہلا مکالمہ میری کتاب تھی اور اس کے بعد فرحت شاہ پھر شفیق اور پھر مجیب کی کتابیں اور پھر "کہو کتنی محبت ہے" اگرچہ چھپ کر مارکیٹ میں آ چکی ہیں لیکن یہ یقیناً ایک ہی مکالمہ کی مختلف صورتیں تھیں ۔ اس لئے کہ ہم سب جن میں "میں" فرحت شاہ، شفیق احمد، انجم خلیل، اختر عثمان (فارسی مکالماتی غزل ، جو اردو ادب میں پہلی بار لکھی گئی)ناصر زیدی اور پنجابی میں پہلی مکالماتی غزل کے حوالے سے خرم خلیق اور دیگر احباب شامل ہیں ۔ سب کے سب تذکیری مکالمہ کے متکلم ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔فاخرہ بتُول پہلی شاعرہ ہے جس نے نسوانی مکالمہ کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔اِس لئے نہیں کہ وہ خاتون ہے بلکہ اِس لئے کہ اِس کی غزل اور اِس کی مکالماتی نظم مکمل طور پر نسائی اظہار کی بھرپور صورت کے طور پر سامنے آئی ہے ۔فاخرہ کی شاعری اور اردو ادب میں مکمل طور پر اوریجنل مکالماتی شاعری کی ایک عمدہ اور انفرادی مثال ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فاخرہ نے ہندی زبان کی آمیزش سے بالخصوص اپنی مکالماتی غزل کو گیت کے آہنگ سے نیا رنگ دیا ہے ۔۔۔۔۔۔ہندی آمیزش کی بے شمار مثالیں روایتی غزل اور نظم دونوں ہی میں موجود ہیں ۔ ان میں ہندی آمیزش ضرور ہے لیکن یہ نہ وہ روایتی غزل گیت کے رنگ میں رنگی گئی اور نہ ہی اِن غزلوں میں وہ نسوانی اظہار موجود ہے جو ہندی گیت کا خاصہ ہے ۔ اِس کی مثال یا تو امیر خسرو کے ہاں تجرباتی غزل یا ریختہ میں ہندی اور فارسی کے ایک ایک مصرعے کی آمیزش کی صورت میں ملتی ہے ان کی غزل کا صرف ایک شعر مثال کے طور پر حاضر ہے جبکہ یہ التزام ساری غزل ہی موجود ہے ۔

ز حال مسکیں مکن تغافل و رائے نیناں بنائے بتیاں
سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں

یا ان کی پہلیوں اور گیتوں میں موجود ہے یا اب فاخرہ کی مکالماتی غزل میں اس کا بھرپور اظہار کیا گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔میرا بائی اور بھگت کبیر کے دوہے اس ضمن میں اِس لئے نہیں آتے کہ میں غزل کی فارم کے بارے میں اس آمیزش کا ذکر کر رہا ہوں ورنہ ہندی گیت اور دوہے ہندوستانی ادب میں اتنی کثرت سے ہیں کہ ان کا شمار ہی نہیں ۔ فاخرہ کی مکالماتی غزل اپنے اظہار اور رنگ کے اعتبار سے یقیناً ایک انفرادیت کی حامل ہے بلکہ میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اس وقت جتنی بھی مکالماتی غزل سامنے آئی ہےفاخرہ کی غزل ان سب غزل گو حضرات کی غزل سے نسوانی اظہار کے اعتبار سے بالکل مختلف ہے ۔۔۔۔۔۔۔اور فاخرہ کی مکالماتی نظم میرے لئے بھی ایک Surprise حیثیت رکھتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔فاخرہ اس اعتبار سے پہلی شاعرہ ہے جس کی مکالماتی غزل اور مکالماتی نظم کا یہ "پہلا مجموعہ کلام" ہے ۔ فی لحال یہ طے کرنا کہ اس شاعری کے مصائب و محاسن کیا ہیں ، بہت مشکل امر ہے ۔ اس لئے کہ اس نئی شاعرہ کے لئے یقینی طور پرنئی تنقید، نیا وژن اور نئے نقاد کی ضرورت ہے ۔
آنکھوں سے یہ نیا سخن نہ تو پڑھا جائے گا نہ اس کے محاسن پرانی آنکھوں پر منکشف ہوں گے ۔ اس ادب کے لئے پرانے تعصب کی عینک نہیں چلے گی ۔ اس غزل کو روایتی غزل کے پیمانوں سے نہیں ناپا جا سکتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ لوگ جو روایتی غزل یعنی غزل جدید کے خزانے پر کنڈلی مار کر بیٹھے ہیں وہ صرف اپنی غزل جدید یا اپنی(غزل یزید) کے محاسن کو ہی سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہیں ۔ (جی ہاں ادبی مافیا کے یزید صفت لوگوں نے جدید غزل کو یزید غزل ہی بنا دیا ہے) ان کی آنکھیں روایتی غزل کی روشنی سے ہی اتنی کور ہو چکی ہیں کہ اب ان سانپوں کو اس زرنو کی چمک دکھائی ہی نہیں دے سکتی ۔
فاخرہ بتُول کی مکالماتی غزل اور اس کی مکالماتی نظم یقینی طور پر مکالماتی ادب میں ایک اگلا قدم ہے اور نظم کے حوالے سے یقیناً یہ ایک نیا دریچہ ہے جو فاخرہ نے صحن سُخن میں وا کیا ہے ۔ اِس وقت اِن نظموں اور غزلوں کا بہت اچھا یا صرف اچھا ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا ۔ اس وقت اِن غزلوں اور نظموں کا ہونا ہی بہت معنی رکھتا ہے ۔ (اس سے پہلے اوراق میں مکالماتی نظمیں شائع ہوئی ہیں لیکن کسی مجموعے کی صورت میں ابھی کوئی مکالماتی نظم موجود نہیں ہے )۔ اس وقت اِن نظموں اور غزلوں کی اپنی ایک الگ حیثیت ہے ۔ اس وقت اردو ادب میں جبکہ غزل میں مکمل طور پر یکسانیت چھا چکی ہے ۔ جدید غزل کے حوالے سے ہر طرف چھٹ بھیئوں کا بول بالا ہے ۔ ہر طرف ندیم، فراز، صلاح الدین ندیم، دین محمد بوٹا، امجد اسلام امجد، جیسے غزل گو حضرات کو ثقہ اور صف اول کے شاعروں میں گردانا جائے وہاں غزل کی یہ یکسانیت کیسے ٹوٹ سکتی ہے ۔ اب غزل اتنی بھی کمزور اور اتنی بھی گئی گزری صنف نہیں ہے کہ ایرا غیرا اسے ساٹھ کی دہائی سے باہر لے آئے ۔۔۔۔۔۔۔۔سب لوگ جدید غزل کے نام پر ساٹھ کی دہائی کی غزل کی جگالی کئے جا رہے ہیں اور ادبی مافیا کے فرعون جدید غزل کی جگہ یزید غزل لکھنے میں دن رات مصروف ہیں ۔
ایسی صورت حال میں مکالماتی غزل ، آزاد غزل یا کوئی بھی نئی غزل جو ان چھٹ بھیئوں کی غزل سے الگ ہو یقیناً اس حبس غزل میں ایک تازہ ہوا کے جھونکے کی حیثیت رکھے گی اور فاخرہ بتول کی یہ کتاب صرف تازہ ہوا کا جھونکا ہی نہیں آج کی شاعری میں ایک گرانقدر اضافہ بھی ہے ۔
میں ان غزلوں کے بارے میں مزید اس لئے کچھ نہیں کہوں گا کہ معاملہ مکالماتی غزل کا ہے اور میرا کہا ہوا اس ضمن میں ایک تعصب اور جانبداری کی حیثیت رکھے گا ۔ میں صرف یہ کہوں گا کہ اگر میں مکالماتی شاعری میں نسوانی غزل لکھتا تو فاخرہ بتُول سے بہتر اظہار نہیں کر سکتا تھا ۔ میں اس مجموعے پر فاخرہ بتُول کو مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔ اور جو پتھراؤ مکالماتی غزل کے حوالے سے مجھ پر ہوا ، ادبی مافیا کی طرف سے اس پتھراؤکی توقع فاخرہ بتُول کے لئے بھی رکھتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ اس لئے کہ وہ نہ تو کسی مدیر ، دیباچہ نگار، کالمسٹ، افسانہ نگار، اور شاعر کی منہ بولی ہے نہ شاگرد ۔ ورنہ ممکن ہےاس کی بچت بھی ہو جاتی اور وہ مقام بھی دے دیا جاتاجس کی وہ حق دار ہے ۔
اب تو جو ہونا ہے وہ ہونا ہے اسے کون روک سکتا ہے ۔ نئے لوگوں پر پُرانے لوگ پتھراؤ کرتے ہی رہے ہیں اور کرتے ہی رہیں گے ۔ نئے رویے ادب میں آتے ہی رہے ہیں اور آتے ہیں رہیں گے ۔ یہ نام نہاد ادب کے رکھوالے جو غزل پر کنڈلی مار کر بیٹھے ہیں ۔ ان کا سر کسی وقت بھی نئے رویے یا نئے رجحان سے کچلا جا سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب ان پرانے سانپوں کا زہر ختم ہو چکا ہے اور اگر ہےبھی تو نئے رجحان ساز لوگوں کے پاس اس کا تریاق بکثرت موجود ہے ۔

عدیم ہاشمی
 

راجہ صاحب

محفلین
کہا میں نے ۔۔۔۔۔۔۔۔


"پلکیں بھیگی بھیگی سی"اور "چاند نے بادل اوڑھ لیا" مارکیٹ میں آئیں تو بہت سے دوستوں نے خط اور ٹیلی فون کے ذریعی مبارکباد کہہ کر میرا حوصلہ بڑھایا ۔ اور بہت سے دوستوں نے میری شاعری کے تناظر میں سوالات کئے ۔ زیادہ تر مجھ سے دو سوال کئے گئے ۔(1)محبت کیا ہے؟ (2)شاعری کیا ہے؟ میں نے سوچا "کہو وہ چاند کیسا تھا" میں ان تمام دوستوں کے سوالوں کے جوابات دے دیئے جائیں ۔ محبت خدا کا دوسرا رُوپ ہے لیکن محبت اس رنگین چشمے کی ماند بھی ہوتی ہے جس کو آنکھوں پر لگانے کے بعد محبوب کی ہر خامی چُھپ جاتی ہے لیکن جب یہ چشمہ اُترتا ہے تو حیقیت واضح ہوتی ہے لیکن تب تک بہت دیر ہو چُکی ہوتی ہے ۔
شاعری محبت کا دوسرا رُوپ ہے ۔ انجانے میں ، جگر میں کُھب جانے والے اَن دیکھے تیروں سے ٹپکتی ہوئی لہُو کی بُوندوں کو پلکوں سے چُن لینے کا نام شاعری ہے ۔
"محبت اور شاعری" کے بارے میں میرے یہی نظریات ہیں اور غلط بھی ہو سکتے ہیں ۔ "پلکیں بھیگی بھیگی سی" کا پہلا ایڈیشن مارکیٹ میں آیا تو بہت سے دوستوں نے میری اِس کوشش کو سراہا لیکن کچھ "دوستوں" کو میری یہ گُستاخی پسند نہ آئی (معذرت کے ساتھ)دراصل میں نے کسی بھی "بڑے شاعر" کی بیٹی اور بہن وغیرہ بننے بلکہ "شاگرد" تک بننے سے صاف انکار کر دیا تھا ۔ لہذا بے استادوں کو کون پسند کرتا ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سے واقعی "بڑے شاعروں" نے میری حوصلہ افزائی فرمائی اور میں ان کی شُکر گزار بھی ہوں ۔ عام لوگوں کو (جو حقیقت میں "خاص لوگ" ہوتے ہیں اور جن کی رائے ہمارے لئے بہت معتبر ہوتی ہے) میری کاوش بہت پسند آئی اور ان ہی کی وجہ سے "پلکیں بھیگی بھیگی سی" کا دوسرا ایڈیشن الحمداللہ بذریعہ "الحمد" مارکیٹ میں آ گیا ہے اور ہاں اب تو "چاند نے بادل اوڑھ لیا " بھی مارکیٹ میں آ چکی ہے اور دوستوں نے اسے پسند بھی کیا ہے "کہو وہ چاند کیسا تھا؟" یقیناً آپ کو پسند آئے گی ۔ یہ کتاب "پلکیں بھیگی بھیگی سی "اور "چاند نے بادل اوڑھ لیا" سے مختلف ہے ۔ میری دُعا ہے اللہ پنجتن پاک کے صدقے میں مجھے اس مرتبہ بھی دوستوں کے سامنے سرخرُو فرمائے (آمین) ۔ اور ہاں آپ کی رائے اور مشوروں کا مجھے پہلے سے زیادہ انتظار رہے گا۔ آخر میں تمام دوستوں کا ایک مرتبہ پھر شکریہ ۔


فاخرہ بتول
BB-644/A/1
گلی نمبر 3 محلہ عیدگاہ راولپنڈی
 

راجہ صاحب

محفلین
بتاؤ دل کی بازی میں بھلا کیا بات گہری تھی؟
کہا، یُوں تو سبھی کچھ ٹھیک تھا پر مات گہری تھی

سُنو بارش ! کبھی خود سے بھی کوئی بڑھ کے دیکھا ہے؟
جواب آیا، اِن آنکھوں کی مگر برسات گہری تھی

سُنو، پیتم نے ہولے سے کہا تھا کیا، بتاؤ گے؟
جواب آیا، کہا تو تھا مگر وہ بات گہری تھی

دیا دل کا سمندر اُس نے تُم نے کیا کیا اس کا؟
ہمیں بس ڈوب جانا تھا کہ وہ سوغات گہری تھی

وفا کا دَشت کیسا تھا، بتاؤ تُم پہ کیا بِیتی ؟
بھٹک جانا ہی تھا ہم کو ، وہاں پر رات گہری تھی

تُم اس کے ذکر پر کیوں ڈوب جاتے ہو خیالوں میں؟
رفاقت اور عداوت اپنی اس کی سات گہری تھی

نظر آیا تمہیں اُس اجنبی میں کیا بتاؤ گے؟
سُنو، قاتل نگاہوں کی وہ ظالم گھات گہری تھی​
 

راجہ صاحب

محفلین
(مکالماتی نظم)

کہو وہ چاند کیسا تھا ؟


کہو ، وہ دَشت کیسا تھا ؟
جِدھر سب کچھ لُٹا آئے
جِدھر آنکھیں گنوا آئے
کہا ، سیلاب جیسا تھا، بہت چاہا کہ بچ نکلیں مگر سب کچھ بہا آئے
کہو ، وہ ہجر کیسا تھا ؟
کبھی چُھو کر اسے دیکھا
تو تُم نے کیا بھلا پایا
کہا ، بس آگ جیسا تھا ، اسے چُھو کر تو اپنی رُوح یہ تن من جلا آئے
کہو ، وہ وصل کیسا تھا ؟
تمہیں جب چُھو لیا اُس نے
تو کیا احساس جاگا تھا ؟
کہا ، اِک راستے جیسا ،جدھر سے بس گزرنا تھا ، مکاں لیکن بنا آئے
کہو ، وہ چاند کیسا تھا ؟
فلک سے جو اُتر آیا !
تمھاری آنکھ میں بسنے
کہا ، وہ خواب جیسا تھا ، نہیں تعبیر تھی اسکی ، اسے اِک شب سُلا آئے
کہو ، وہ عشق کیسا تھا ؟
بِنا سوچے بِنا سمجھے ،
بِنا پرکھے کیا تُم نے
کہا ، تتلی کے رنگ جیسا ، بہت کچا انوکھا سا ، جبھی اس کو بُھلا آئے
کہو ، وہ نام کیسا تھا ؟
جِسے صحراؤں اور چنچل ،
ہواؤں پر لکھا تُم نے
کہا ، بس موسموں جیسا ، ناجانے کس طرح کس پل کسی رو میں مِٹا آئے
 

راجہ صاحب

محفلین
کہا اُس نے ، زمانہ درد ہے اور تُم دوا جیسے
لگا، "تُم سے محبت ہے" مجھے اُس نے کہا جیسے

طلب کی اُس نے جب مجھ سے محبت کی وضاحت تو
بتایا، دَشت کے ہونٹوں پہ بارش کی دُعا جیسے

سُنو کیوں دل کی بستی کی طرف سے شور اُٹھتا ہے ؟
بتایا، حادثہ احساس کے گھر میں ہوا جیسے

کہو اے گُل ! کبھی خوشبو کا تُم نے عکس دیکھا ہے ؟
کہا ، قوسِ قزح کے سارے رنگوں کی صدا جیسے

سُنو ، خواہش کی لہروں پر سنبھلنا کیوں ہوا مُشکل ؟
بتایا پانیوں پر خواب کی رکھی بنا جیسے

بھلا تُم رُوح کی اِن کِرچیوں میں ڈھونڈتے کیا ہو ؟
کہا ، یہ اتنی روشن ہیں کہ سُورج ہے دیا جیسے

سُنو آنکھوں ہی آنکھوں کا بیاں کیسا لگا تُم کو ؟
لگا ، پھولوں سے سرگوشی سی کرتی ہو صبا جیسے​
 

راجہ صاحب

محفلین
ساجن کو کیا بھولی صُورت بھا سکتی ہے ؟
پگلی، چاند ستاروں کو شرما سکتی ہے

سُورج سے کیا بڑھ کر پیار میں شکتی ہے ؟
پگلی، پانی میں تو آگ لگا سکتی ہے

کیوں نیندوں میں رات کو جُگنو جگمگ جاگیں
پگلی، نیند کی دیوی کو سمجھا سکتی ہے

کھنک مِرے لہجے کی اتنی سُندر کیوں ؟
پگلی بارش تیرا گیت چُرا سکتی ہے

کیوں بھنورے کے جال میں کلیاں آتی جائیں؟
پگلی ، بادل سے بجلی کترا سکتی ہے

رات کے تھال میں بولو کتنے تارے دیکھے؟
پگلی ، ریت کے ذروں کو گِنوا سکتی ہے

کیوں کہتا ہے جگ سے میل نہیں ہے بہتر؟
پگلی ، لوگوں کی باتوں میں آ سکتی ہے

پریت کی نگری جانے پر پابندی کیوں ہے ؟
پگلی ، راہ کٹھن ہے تُو گھبرا سکتی ہے

سُرخ گُلاب کے بدلے اس کو کیا میں بھیجوں ؟
پگلی ، سندرتا سے کام چلا سکتی ہے

سُورج کے چہرے پر کالا بادل کیوں؟
پگلی ، مکھڑے سے تو زُلف ہٹا سکتی ہے

اب تک مَن نِردوش اسے کہتا ہے کیونکر؟
پگلی ، دُھول کو کیسے پھُول بنا سکتی ہے​
 

راجہ صاحب

محفلین
(مکالماتی نظم)

بیا کل روگ

بیاکل روگ کیسا تھا ؟
انوکھا جوگ جیسا تھا؟
نہیں پل بھر رہا قائم
وہ اِک سنجوگ کیسا تھا؟
سمندر میں کسی تنہا جزیرے کی طرح شاید
ادُھورے خواب کی مانند ،
کسی بھی چاند کی مژگاں پہ چمکا تھا ،
ستارے کی طرح پَل بھر
گُلابی پتیوں پر اوس کی بُوندوں کی صُورت میں
مگر جاناں ! ذرا سوچو
تمہیں کیسے بتاؤ میں ،
وہ دل کا روگ کیسا تھا
 

راجہ صاحب

محفلین
کب اُداسی پیام ہوتی ہے ؟
جب محبت تمام ہوتی ہے

کس کے چہرے پہ صبح جاگے ہے ؟
جس کی آنکھوں میں شام ہوتی ہے

عشق بنتا ہے کس گھڑی صّیاد ؟
جب وفا زِیر دام ہوتی ہے

ٹیس بنتی ہے آگہی کیسے ؟
خود سے جب ہم کلام ہوتی ہے

کیا کمی ہے طلب کی راہوں میں ؟
گفتگو نا تمام ہوتی ہے

دل کو بھاتی ہے کب صبا بولو؟
جب کسی کا پیام ہوتی ہے

یہ محبت ہے کیا بتاؤ گے؟
خاص شے ہے جو عام ہوتی ہے​
 

راجہ صاحب

محفلین

اُس نے کہا ، کہ کلیوں کی مُجھ کو تو جُستجو
بھنورے سے مِلتی جُلتی ہے میں نے کہا یہ خُو

پُوچھا، بتاؤ درد کو چُھو کر لگا ہے کیا ؟
آیا جواب ، پوروں سے رسنے لگا لہو

دیکھا ہے کیا فلک پہ وہ تنہا اُداس چاند؟
آیا جواب ، اُس کو کسی کی ہے جُستجو !

ہوتی ہے کیوں یہ اَشکوں کی برسات رات بھر
آیا جواب ، آنکھوں کا ہوتا ہے یُوں وضو

پُوچھا گیا نصیب کے سُورج کا کیا بنا ؟
میں نے کہا وہ سو گیا ، ایسا بنا عدو

پُوچھا ، نمی سے ، دُھند سی آنکھوں میں کس لئے ؟
آیا جواب ، ہجر کی ان میں ہوئی نمو

پُوچھا ، بچھڑتے پل کی کوئی اَن کہی ہے یاد ؟
تارِ نفس پہ لکھی ہے اب تک وہ گفتگو

پوچھا ، سنو وصال کی چٹخی ہے کیوں زباں؟
میں نے کہا ، فراق کا صحرا تھا رُوبرو​
 

راجہ صاحب

محفلین
(مکالماتی نظم)

محبت چاند بنتی ہے ۔۔۔۔۔۔


محبت اَن گنت تاروں سے مل کر چاند بنتی ہے
جھلک دِکھلا کے چھُپ جانا
کبھی جانا کبھی آنا تو فطرت ہے ستاروں کی
بتاؤ کیوں کہا تُم نے ۔۔۔۔۔۔۔۔؟
کہا یہ بھی کہ پلکوں بیچ سپنے اِس طرح بے چین ہوتے ہیں ،
کہ جیسے ریت کے ذرّے بگولوں میں ،
جواب اُس نے دیا مُجھ کو ،
کبھی خوشبو کو شبنم میں بھی گوندھا ہے ہواؤں نے ؟
کبھی پھُولوں کے رنگوں کو بھی چُوما ہے صداؤں نے؟
 

راجہ صاحب

محفلین

بول سکھی ، دل نے کس پل اُکسایا ہو گا ؟
پگلی ، جس پل اُس کا درشن پایا ہو گا

بول سکھی ، کیوں چندہ تُجھ کو تانکے جھانکے؟
پگلی ، اس کو آخر کچھ تو بھایا ہو گا

بول سکھی ، نینوں سے نیند چُرائی کس نے ؟
پگلی ، وصل کا جس نے خواب دکھایا ہو گا

بول سکھی ، وہ رُوٹھا رُوٹھا کیوں لاگے ہے ؟
پگلی ، بیری لوگوں نے سکھلایا ہو گا

بول سکھی ، کیوں منوا جل کر طُور بنا ہے ؟
پگلی ، پیتم نے جلوہ دِکھلایا ہو گا

بول سکھی ، کیوں سُرخ گُلاب کسی نے بھیجا؟
پگلی ، پیت کا سندیسہ بھجوایا ہو گا

بول سکھی ، یہ تَن مَن کس کی بھینٹ چرھاؤں ؟
پگلی ، جس کے کارن جیون پایا ہو گا

بول سکھی ، کیوں نٹ کھٹ سکھیاں چھڑیں مجھ کو ؟
پگلی ، تو نے بھید انہیں بتلایا ہو گا

بول سکھی ، منڈیر پہ کاگا کیوں بولے ہے ؟
پگلی ، تیرے در پر جوگی آیا ہو گا !

بول سکھی ، وہ بن ٹھن کر کیوں نکلا گھر سے ؟
پگلی ، بیرن سوتن نے بُلوایا ہو گا​
 

راجہ صاحب

محفلین

تِری آنکھوں میں فصلِ ہجر کیسے بو گیا کوئی؟
مجھے اپنا بنا کر اب کسی کا ہو گیا کوئی

لہُو جیسے ہوئے ہیں اَشک تیرے کس طرح بولو ؟
بتایا ، چھید میرے دل کے اندر ہو گیا کوئی

سُنو جب چھو لیا آنچل کسی نے تو لگا کیسا ؟
لگا خوشبو کی بارش میں دُکھوں کو دھو گیا کوئی

سُنو اس درد نگری کا کوئی تو بھید بتلاؤ ؟
پلٹ کر پھر نہیں آیا وہاں پر جو گیا کوئی

بتاؤ ہجر میں کاٹے ہیں روز و شب بھلا کیسے؟
لگا ، کانٹوں پہ آنکھیں دھر کے جیسے سو گیا کوئی

بھلا وہ شخص پل بھر کو نظر اب کیوں نہیں آتا؟
سُنو ملنے کی خواہش میں کبھی کا کھو گیا کوئی​
 

راجہ صاحب

محفلین

یہ کیسی بے خودی ہے ؟
مقابل وہ گلی ہے

ہے کیا آنکھوں میں بولو ؟
نمی ہے ، روشنی ہے

بتاؤ وصل ہے کیا ؟
یہی تو زندگی ہے

یہ کیا پلکوں پہ جاگا ؟
یہ کربِ آ گہی ہے

یہ اتنا تلخ لہجہ ؟
کسک بے حد سہی ہے

کبھی جینے کا سوچا ؟
کمی شاید یہی ہے

ہے دل کیوں ڈوبتا سا ؟
خلش جو بڑھ گئی ہے

ہے کیا جیون میں آخر ؟
فقط تیری کمی ہے

ہے کیا تحریر دل پر ؟
وفا ، جو اَن کہی ہے​
 

راجہ صاحب

محفلین
مکالماتی نظم)


تمہیں بھی یاد تو ہوگا ؟



تمہیں بھی یاد تو ہوگا ؟
کسی کے پیار کو ٹھکرا کے تم نے بے نیازی سے ،
کہا تھا جب
کسی ھی خواب کی تعبیر مٹھی میں نہیں ہوتی
کوئی بھی ہجر پلکوں پر ،
سدا اٹکا نہیں رہتا
ہمیشہ درد وابستہ نہیں رہتا کسی دل سے
کبھی تم نے کہا تھا یہ
تمہیں بھی یاد تو ہو گا ؟؟
 
Top