کہو، وہ چاند کیسا تھا؟ فاخرہ بتول

راجہ صاحب

محفلین
کشمیر کے پس منظر پر کہی گئی نظم


"سدا اِک رت نہیں رہتی"


پرندے جاگ اٹھے ہیں
انہیں اب جال میں بے آب و دانہ ،
اِس طرح پابند کرنے کا ارادہ ترک کو ڈالو
انہیں بھی چاہیے آزاد سی کچھ سرمئی شامیں،
انہیں اجلے سویرے ، رت بہاروں کی بلاتی ہے
انہیں بھی کچے آنگن کی وہ مٹی یاد آتی ہے
انہیں خوشبو بھرے سندیسے بھاتے ہیں گلابوں کے
انہیں بھی یاد آتے ہیں حوالے کچھ کتابوں کے
پرندے جاگ اٹھے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو اِن کے آشیاں تھے سبز پیڑوں پر ،
سسکتے بین کرتے ہیں
بہت بے چین کرتے ہیں
جو تتلی کے پروں سے بڑھ نازک خواب تھے ان کے ،
وہ انگاروں میں جلتے ہیں
وہ سب شعلوں میں پلتے ہیں
مگر اب ان کی بیداری کا موسم ہے
کہ یہ جو سرخ آندھی ہے ،
فقط اِک ریت کی گرتی ہوئی دیوار جیسی ہے
ہمیشہ ہجر کی زنجیر پیروں میں نہیں بجتی
ہمیشہ وصل کی تحریر آنکھوں میں نہیں جلتی
ہمیشہ پھولوں سے آکر ہوا خوشبو نہیں کہتی
سدا اِک رت نہیں رہتی
نہیں رہتی ۔۔۔۔۔۔۔ نہیں رہتی
 

راجہ صاحب

محفلین



دل میں درد محبت کیسے بوتی رہتی ہے؟
جیسی پلکوں بیچ سدا سے جوتی رہتی ہے

اس نے پوچھا، کیا لکھا ہے ہاتھ کی ریکھا میں؟
میں نے کہا، اپنی قسمت ہے ، سوتی رہتی ہے

بولو کس نے ترکِ محبت کی بنیاد رکھی ؟
موسم کی تبدیلی ہے یہ ہوتی رہتی ہے

روتے روتے ہنس دینے میں آخر راز ہے کیا؟
غم میں راحت کی آمیزش ہوتی رہتی ہے

پلکوں سے اشکوں کی رفاقت آخر ٹھہری کیوں؟
بدلی سے بھی پوچھو نا کیوں روتی رہتی ہے


 

راجہ صاحب

محفلین



کہا اس نے کہ تم تعبیر ہو اور خواب سا ہوں میں
ہو تم بے خواب مدت سے ، ازل سے جاگتا ہوں میں

جو پوچھا دل کا سودا کب کیا ، کیسے کیا تم نے؟
وہ بولا ایک پل ٹھہرو یہی تو سوچتا ہوں میں

جو میں نے دَشت میں جاکر پکارا ، ہے خدا کوئی؟
تو ہر ذرّہ پکار اٹھا کہ اس کو جانتا ہوں میں

بھلا اس در پہ جاکر کس لئیے خالی پلٹ آئے؟
کہا، منزل کو چھو کر بھی لگا اِک راستہ ہوں میں

ابھی سوچا ہی تھا ڈھونڈوں افق کے پار کا رستہ
تو دل بولا، مِرا سوچو، کبھی کا لاپتہ ہوں میں

ہوا بولی سمندر سے، تِرا بھی کوئی بچھڑا ہے ؟
کہا ، جاجا کے ساحل پر اسی کو ڈھونڈتا ہوں میں

 

راجہ صاحب

محفلین


کہو، تم کیوں جھجکتے ہو ؟
کہا، خود جان سکتے ہو

کہو، یہ درد کیسا ہے ؟
کہا، احساس رکھتے ہو

بھلا کیا دل کے اندر ہے؟
کہا، تم ہی دھڑکتے ہو

محبت کس کو کہتے ہیں؟
کہا، کیا زہر چکھتے ہو

کہا، محفوظ رکھے رب
کہا، بیدرد لگتے ہو

بھلا دل گم ہوا کب سے؟
کہا، جب سے بھٹکتے ہو

کہو، شمعیں جلیں کیسے ؟
کہا، پروانہ بنتے ہو؟

کہو، اب کیا رہا باقی؟
کہا، پھر کس سے ڈرتے ہو؟

کہا، وہ بھول سکتا ہو؟
کہا، کیا بات کرتے ہو؟

کہا، منزل مقابل ہے؟
کہا، پھر کیوں بھٹکتے ہو؟


 

راجہ صاحب

محفلین


کیوں ساجن کی آس نہیں ہے؟
اس کو مِرا احساس نہیں ہے

کیا ہے ہجر ، وچھوڑا ، فرقت؟
عشق، مجھے تو راس نہیں ہے

دھڑکن دل سے روٹھ گئی کیوں؟
کلیوں میں جو باس نہیں ہے

شبنم سی ہے کیوں پھولوں پر؟
آس بعید ہے ، پاس نہیں ہے

کیا ساجن واپس آئے گا؟
اب آنکھوں کو پیاس نہیں ہے

 

راجہ صاحب

محفلین


بولو ہیں رنگ کتنے زمانے کے اور بھی
اس نے کہا ہیں بھید بتانے کے اور بھی

بولا، تمھارے دل میں محبت نے گھر کیا؟
میں نے کہا ہیں روگ لگانے کےاور بھی

میں نے کہا، وفا کی کبھی داستاں سنی؟
بولا، ہیں قصے سننے سنانے کے اور بھی

اظہار سے بلند ہے، میں نے بتایا عشق
بولا، مزے ہیں اِس کو جتانے کے اور بھی

بتلایا، راہِ عشق ہے دشوار، سوچ لو !
کہنے لگا ہیں راستے آنے کے اور بھی


 

راجہ صاحب

محفلین
(مکالماتی نظم)


بھلا دیا نا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟

اداس رت میں ،
لہو کی بوندوں میں ،
بس اداسی ہی جاگتی ہے
کہیں پڑھا تھا کہ پھر سنا تھا
تو یوں بھی ہوتا ہے یہ اداسی ،
تمام یادوں کی نرم و نازک سی کونپلوں کو ،
کبھی اچانک ہی نوچ لیتی ہے ،
بے خیالی میں، بے خودی میں
سنو یہ دھڑکا لگا ہے من کو ،
نہ ایسا ہو کہ تم ایسی رت میں ہمیں بھلا دو
یہی تو تم سے کہا تھا جاناں !
وہی ہوا ناں۔ ۔ ۔ ۔بھلا دیا نا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟
 

راجہ صاحب

محفلین


غیر کے ہات میں ہات ہمارا؟
وہم تمھارا ہو سکتا ہے

کیوں جاگے ہے شب بھر چندا؟
ہجر کا مارا ہو سکتا ہے

کیا چمکے پلکوں میں پل پل ؟
ٹوٹا تارا ہو سکتا ہے

کون وفا کی دولت مانگے؟
دل بے چارا ہو سکتا ہے

کیسے ساگر بیچ وہ ڈوبا ؟
دور کنارہ ہو سکتا ہے

بولو کیا ہے بند آنکھوں میں؟
خواب تمھارا ہو سکتا ہے

پوچھو ہو تم پیار کی بابت؟
جھوٹا لارا ہو سکتا ہے

تم نے ہمیں ہے چاند پکارا؟
استعارہ ہو سکتا ہے



 

راجہ صاحب

محفلین



تو دل میں کیا تھا تمھارے ،ساجن اگر نہیں تھا؟
بتایا، خالی تھا سیپ جس میں گہر نہیں تھا

ذرا بتاؤ بھٹکتے رہنے کی ٹھان لی کیوں؟
جواب آیا، وہ آرزو کا نگر نہیں تھا

جو پوچھا، اس نے پلٹ کے دیکھا تھا جاتے لمحے؟
بتایا، ایسا بھی آنسوؤں میں اثر نہیں تھا

بتاؤ ، تم نے شکست دل کی قبول کیوں کی؟
جواب آیا، تھا مان جس پر وہ سر نہیں تھا

نہیں تھا تم سے جو پیار اس کو، تو کیا تھا آخر؟
جواب آیا، تھا پیار لیکن، امر نہیں تھا

ہے یاد تم نے تو اس کو اپنا کہا تھا اِک دن؟
سنو، یقیناً کہا تھا اپنا، مگر نہیں تھا

بتاؤ، منزل کے پاس آکر ، پلٹ گئے کیوں؟
جواب آیا کہ اس گلی میں وہ گھر نہیں تھا


 

راجہ صاحب

محفلین


سنو، وہ جب ستاتا ہے
کہا، دل ڈوب جاتا ہے

کہا، دل ڈوبتا ہے کب؟
بتایا، جب ستاتا ہے

کہو، کب پھول کھلتے ہیں؟
کہا، جب مسکراتا ہے

دھڑکتا ہے کہو دل کب؟
کہا، جب پاس آتا ہے

کہو، دل میں ہے کیا اس کے؟
کہا، وہ کب بتاتا ہے

سنو، برہم سا ہے شاید؟
کہا، یونہی بناتا ہے

کہا، کچھ تو ہوا گا؟
کہا، وہ آزماتا ہے

بری شے عشق ہے کیونکر ؟
کہا، شب بھر جگاتا ہے

کہو، وہ بزم کیسی تھی؟
کہا، وہ کب بلاتا ہے

کہو، اس سے بچھڑنے کی؟
بچھڑنا کس کو بھاتا ہے؟

کہو، ملنے کی خواہش ہے؟
کہا، بیدرد ناتہ ہے

بتاؤ راکھ میں ہے کیا؟
ستارہ جھلملاتا ہے

لرز جاتی ہیں کب پلکیں؟
نظر وہ جب جماتا ہے

ٹھہر جاتی ہے دھڑکن کب؟
نظر سے جب گراتا ہے


 

راجہ صاحب

محفلین


کہو تم نے کبھی خوابوں کے رنگوں کو چرایا ہے؟
کہا، ہاں جب ہواؤں پر کوئی چہرہ بنایا ہے

کہو، یہ کیوں لگا جیسے ہوائیں بین کرتی ہیں؟
کہا، پت جھڑ کے پتوں نے کہیں نوحہ سنایا ہے

کہو، یہ کیوں لگا چاروں طرف اِک ہو کا عالم ہے؟
کہا، جب درد نے دھڑکن سے مل کر گیت گایا ہے

کہو، یہ کب لگا اب ریت سی چبھتی ہے آنکھوں میں؟
کہا، جب پیاس کو صحرا ؤں کے ہونٹوں پہ پایا ہے

کہو، کیسے لگا اِک زرد آندھی آنے والی ہے؟
کہا، جب پھول شاخوں پر کہیں بھی مسکرایا ہے

کہو، کب سے نہیں شکوہ اجڑنے کا کوئی تم کو؟
کہا، جب بارشوں نے میری آنکھوں کو بسایا ہے

کہو، کیسے لگا طوفان کوئی آنے والا ہے؟
کہا، ساحل پہ جاکر ریت کا جب گھر بنایا ہے



 

راجہ صاحب

محفلین


بولو، بھیگی رت میں کوئل کیوں روئے ہے؟
رو کر نینوں کے سب زخموں کو دھوئے ہے

کیا کہتی ہے اَن ہونی سے بولو ہونی؟
جو ہونا ہے آخرکار وہی ہوئے ہے

کیوں اگتی ہیں من میں غم کی فصلیں بولو؟
کہتے ہیں کاٹے گا وہ ہی جو بوئے ہے

پلکوں بیچ سے نیند چرالی کس نے بولو؟
جاگتی آنکھوں سے بھی اکثر جو سوئے ہے

کیوں ہے وصل کی خوشبو سے وحشت سی من کو؟
جس کی خواہش ہو بالآخر وہ کھوئے ہے


 

راجہ صاحب

محفلین


اس نے کہا ، کیا چپ چپ رہنا اچھا لگتا ہے؟
میں نے کہا، ہاں کچھ ناں کہنا اچھا لگتا ہے

اس نے کہا، ہنستی آنکھوں میں جگنو ہوتے ہیں
میں نے کہا، اشکوں کا بہنا اچھا لگتا ہے

اس نے کہا، کیا ہجر کے تم مفہوم سے واقف ہو؟
میں نے کہا، یہ درد ہے ، سہنا اچھا لگتا ہے

اس نے کہا، کیوں تم چندا کو غور سے تکتے ہو؟
میں نے کہا، یہ غم کا ہے گہنا ، اچھا لگتا ہے



 

راجہ صاحب

محفلین
(مکالماتی نظم)


مگر اتنا نہیں ہوتا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔


کہو، احساس ہوتا ہے ،
بچھڑے کا ، بکھرنے کا، اجڑنے کا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔؟
اگر ایسا نہیں تو کس لئیے بےچین ہوتے ہو اتنے ؟
جواب آیا ،
سنو ، اقرار ہے مجھ کو ، مجھے احساس ہوتا ہے،
مگر اتنا نہیں ہوتا
یہ دل ہر پل بہت بیکل ، بہت مضطر،
بہت بیتاب ہوتا ہے
مگر اتنا نہیں ہوتا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 
Top