کہو، وہ چاند کیسا تھا؟ فاخرہ بتول

راجہ صاحب

محفلین



اس نے پوچھا وچن نبھایا ہے ؟
خود کو میں نے کہا ، مٹایا ہے

میں نے جل کر کہا بھلا ڈالا
اس نے تب آئینہ دکھایا ہے

جب کہا غم نہیں بچھڑنے کا
تب وہ دھیرے سے مسکرایا ہے

اِس قدر خوش ہو کس لیئے پوچھا ؟
وہ یہ بولا ، تجھے ستایا ہے

میں پوچھا جفا پسند پو تم؟
سر کو اقرار میں ہلایا ہے

ساتھ چلنے کا میں نے جب پوچھا
اس نے انکار کر دکھایا ہے

زندگی کیا ہے جب کبھی پوچھا
اس نے اِک حادثہ بتایا ہے

پوچھا جب دل لگی کے بارے میں؟
اس کے چہرے پہ رنگ آیا ہے

جب یہ پوچھا رقیب کیسا تھا؟
چوم کر پھول گنگنایا ہے

کیا ملا تم کو بیوفائی سے؟
وہ یہ بولا مزا تو آیا ہے

میں نے پوچھا ہوا ہے قتل کوئی؟
اس نے میرا پتہ بتایا ہے

 

راجہ صاحب

محفلین


برف سی نین جزیروں میں جمی ہے کیونکر ؟
دھوپ نکلے گی تو پھر اِس کا مداوا ہو گا

کتنا خاموش سمندر ہے ذرا دیکھو تو ؟
اِس کی تہہ میں بھی یقیناً کوئی لاوا ہو گا

دل کے ہر تار میں کیوں گیت انوکھا جاگا؟
شہرِ گل سے تمہیں لگتا ہے بلاوا ہو گا


 

راجہ صاحب

محفلین


سہیلی، اب بتا تو نے کہا تھا کچھ بتاؤ گی !
سکھی، سوچا ہے اب کے خواب کا چہرہ بناؤں گی

سہیلی، تیرے ساجن نے کسی سے ناطہ جوڑا تو ؟
سکھی، پروا نہیں کوئی ، نہیں خاطر میں لاؤں گی

سہیلی، جانتی ہے مرد تو بیدرد ہوتا ہے
سکھی، وہ ڈول جائے گا میں جب کاجل لگاؤں گی

سہیلی، اس کو بھاتی ہے صدا کلیاں چٹکنے کی
سکھی مبہووت ہو جائے گا میں، جب گنگناؤں گی

سہیلی، تیرے ساجن کو ہرن کی چال بھاتی ہے
سکھی، اِس چال سے ایمان اس کا ڈگمگاؤں گی

سہیلی، خواب وادی میں اسے بھیجے گی تو کیونکر؟
سکھی، میں ریشمی باتوں کا جب جاور جگاؤں گی

سہیلی، سب گِلے شکوے بھلا وہ کب بھلائے گا؟
سکھی، پلکوں کی جھالر کو میں جب یکدل اٹھاؤں گی

سہیلی، تیری باتوں میں نہیں آیا تو کیا ہو گا ؟
سکھی، ہونٹوں کی لالی سے میں اس کو آزماؤں گی

سہیلی، یہ بھی ممکن ہےکہ تجھ کو چھوڑ جائے وہ
سکھی، اِس زلف کی زنجیر سے میں باندھ لاؤں گی

سہیلی، گر یہ ساری کوششیں بیکار نکلیں تو؟
سکھی، اشکوں سے بھی تو کام کچھ نہ کچھ چلاؤں گی

سکھی، ہر بات ساجن کی تجھے معلوم ہے کیسے ؟
سہیلی، اب تو جانے دے، میں پھر آکر بتاؤں گی

 

راجہ صاحب

محفلین





میں نے خوشبو کی حقیقت پوچھی
پھول خاموش رہا دیر تلک


()


اس نےپوچھا کہ مجھے یاد کیا ؟
میں نے تب ہنس کے کہا، دیر تلک




 

راجہ صاحب

محفلین



اس نے پوچھا تھا وفا کی بابت
درد بڑھتا گیا ، بڑھتا ہی گیا

کچھ کیا شمع نے اور پروانہ
رقص کرتا گیا ، کرتا ہی گیا

اس نے پوچھا کہ مرے دل میں ہے کیا ؟
دل جو دھڑکا تو ، دھڑکتا ہی گیا

چھین کر نیند وہ بولا، کیونکر ؟
خواب مرتا گیا ، مرتا ہی گیا

مِرے اشکوں کا سبب مت پوچھو
جام چھلکا تو ، چھلکتا ہی گیا



 

راجہ صاحب

محفلین
(مکالماتی نظم)


چلو ساحل پہ جا کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔


چلو ساحل پہ جاکر اپنی پلکوں سے ،
سنہرا جال بنتے ہیں
سمندر میں اتر کر،
سیپیوں سے کچھ سریلے تال بنتے ہیں
چلو اب انگلیوں کی نرم پوروں سے،
ذرا خوشبو کو چنتے ہیں
ذرا ہم درد کو چھوتےہیں ، اس کیبات سنتے ہیں
چلو ساحل پہ جاکر ۔۔۔۔۔۔
گلابوں کی کنواری پتیوں پر شبنمی موتی،
چمک اٹھتے ہیں لخطے کو ،
مگر پھر بجھ بھی جاتے ہیں
کہ دشتِ آرزو کی ریت آنکھوں میں کھٹکتی ہے
چلو ساحل پہ جاکر ۔۔۔۔۔۔
رو پہلی چاند کی کرنوں کو مٹھی بیچ بند کر کے،
ہواؤں سے بھی ساتوں سر چراتے ہیں
چلو مٹی کا اِک چھوٹا سا دونوں گھر بناتے ہیں
گھڑی بھر کو سِہی پر کھل کے دونوں مسکراتے ہیں
جو لکھے جا چکے ہیں پتھروں پر، خشک پتوں پر،
وہ ماہ و سال گنتے ہیں
چلو ساحل پہ جاکر اپنی پلکوں سے ،
سنہرا جال بنتے ہیں
 

راجہ صاحب

محفلین




وفا کے راہرو کو کیوں سدا برباد دیکھا ہے؟
کہا، طوفان میں گِھر کر کوئی آباد دیکھا ہے؟

نہیں ناتہ اگر کوئی تو کیوں آئے تھے سپنے میں ؟
جواب آیا نہیں تھا میں، مرا ہمزاد دیکھا ہے

سنو، کیسے محبت پر ہوا ایمان پھر قائم؟
بتایا، ایک پتھر کو بہت ناشاد دیکھا ہے

زمانے میں کوئی دیکھا ہے جس نے دل کی نا مانی؟
کہا، کچھ ٹھیک سے مجھ کو نہیں ہے یاد دیکھا ہے

سنو، کیوں دید کا دیدار سے رشتہ سدا ٹھرا؟
کہا، خوشبو سے پھولوں کو کبھی آزاد دیکھا ہے؟


 

راجہ صاحب

محفلین




پیار کا گھاؤ سنو، یوں نہیں کھایا کرتے
مشورے آپ کے، ہم کو نہیں بھایا کرتے

اتنے خاموش ہو کیوں ، شوخئی مسکان کہاں ؟
دل ہو برباد تو پھر لب نہیں گایاکرتے

دشتِ نیناں میںسمندر کو بسایا کیونکر ؟
آپ ہی ان میں کوئی خواب بسایا کرتے

کہا، تتلی سے بھی کچے ہیں گلوں کے رشتے
بولا، خاروں کو نہیں ایسے بتایا کرتے

مِٹ گیا آنکھ کی پتلی سے کہا اس نے ، وہ عکس
کہا، ایسے نہیں اپنوں کو ستایاکرتے


 

راجہ صاحب

محفلین




ہوا سے مل کر چنری کاہے مجھ کو ستائے؟
سجنی، اڑ اڑ کر تجھ کو یہ کچھ سمجھائے

رنگ ہتھلی پر مہندی کا کیسا لا گے ؟
لگتا ہے اِک شعلہ سا اس پر لہرائے

ہونٹوں کی یہ لالی آخر کیا کہتی ہے؟
سجنی، گیت ملن کا کوئی تو بھی گائے

بولو، ماتھے کی یہ بندیا کیوں چھیڑے ہے؟
یہ کہتی ہے تو ساجن کا ساتھ نبھائے

کان کا جھمکا ہولے ہولے کیا کہتا ہے؟
تیرا سجنا شہر سے تجھ کو ملنے آئے !

کس کے لئیے ہے بولو یہ چوڑی کی کھن کھن ؟
جس کے شانوں پر تو زلفون کو لہرائے

آنچل کیوں بیتاب ہے گھونگت بن جانے کو؟
گوری، اس کو خواب کسی نے ہیں دکھلائے

چاندی میں سندور ملایا کس نے بولو؟
جس نے سرخ گلابوں کے ہیں رنگ چرائے

کیوں تکتا ہے چندا بدلی سے چھپ چھپ کر؟
تیرے روپ سنہرے سے چندا شرمائے



 

راجہ صاحب

محفلین




سنو، اہل وفا نے ہی ہمیشہ کیوں جفا پائی؟
کہا، جیسے شہیدوں نے فنا ہو کر بقا پائے

بھلا یہ چاند ، تارے، صبح کیوں چہرہ چھپاتے ہیں؟
بتایا، رتجگو کی ماہ و انجم نے سزا پائی

کہو، ملفوف کیونکر ہر کلی ہر گل میں ہے خوشبو؟
کہا، دھڑکن نے جیسے دل میں بسنے کی ادا پائی

سوال اٹھا، دوئی کا کرب آخر کیوں کیا پیدا؟
جواب آیا کہ جذبوں نے اسی سے انتہا پائی

کہو، کیسے جفاؤں کا یہ کالا جال ٹوٹے گا؟
کہا، اس کے اسیروں نے تو سنتے ہیں وفا پائی

کہو، کیوں کرّوفر اچھا نہیں راہِ محبت میں؟
کہا، جو یار کے در پر جھکا اس نے انا پائی


 

راجہ صاحب

محفلین




بتاؤ کون تھا ، کیسا تھا جس سے سلسلہ ٹھہرا؟
کہا کرکے وفا کا خون آخر بے وفا ٹھہرا

بھلا پھولوں سے بھنورے کس زباں میں بات کرتے ہیں؟
کہا، خوشبو سے خوشبو کا انوکھا رابطہ ٹھہرا

ذرا بتلاؤ اِک انجان پر اتنی عنایت کیوں؟
کہا، دل کے صحیفے میں یہی تو معجزہ ٹھہرا

سنو کیسا لگا اس شخص سے ملنا ، بچھڑ جانا؟
ملا تو اجنبی تھا وہ ، بچھڑ کر آشنا ٹھہرا

بھلا محبوب سو پردوں میں بھی کیونکر نمایاں ہے ؟
ازل سے تا ابد دل کے ، وہ کعبے کا خدا ٹھہرا

پلٹ کر ہر طرف سے کیوں نظر اس شخص پر ٹھہری؟
وفا کے سلسلوں کی وہ ، مسلسل انتہا ٹھہرا



 

راجہ صاحب

محفلین




بول سکھی، کب تک چاہت کو ٹھکرائی گی؟
دل کہتا ہے پریت نہ کریو پچھتائے گی

وہ کہتا ہے بھیج دوں اس کوگہنے لینے
سوچ لے اتنے روز جدائی سہہ پائے گی؟

دیکھ سکھی، جانے والے کو روکوں کیسے؟
زلف کے جال کو کام میں آخر کب لائے گی

تنہائی کا قاتل ہالہ ٹوٹے کیسے؟
تنہائی سے بچنا ورنہ پچھتائے گی

چاند، ستارے آن سلامی دیں گے کس پل؟
جس پل گھونگٹ کو تو اوٹ سے شرمائے گی



 
Top