ذوق کہتے ہیں جھوٹ سب کہ نہیں پاؤں جھوٹ کے - ذوق

کاشفی

محفلین
غزل
(ذوق)

کہتے ہیں جھوٹ سب کہ نہیں پاؤں جھوٹ کے
جھوٹے تو بیٹھتے بھی نہیں پاؤں ٹوٹ کے

چلتا ہو ذوق قید سے ہستی کے چھوٹ کے
یہ قید مار ڈالے گی دم گھوٹ گھوٹ کے

ڈھالا جو تجھ کو حسن کے سانچے میں اے صنم
آنکھوں کی جائے بھر دئیے موتی سے کوٹ کے

بے درد سینہ کوٹنا خالی نہیں مزا
دل میں بھرا ہے درد مرے کوٹ کوٹ کے

کیوں کر حباب ہو سکے دریائے بیکراں
دریا سے جب تلک نہ ملے ٹوٹ پھوٹ کے

اُس شمع رو سے رات کو رخصت ہوئے جو ذوق
روئے ہیں دل کے آبلے کیا پھوٹ پھوٹ کے
 

کاشفی

محفلین
شکریہ بیحد جناب سخنور صاحب۔۔۔ اگر آپ کو کہیں کوئی غلطی نظر آئے تو پلیز تصحیح ضرور فرمائیں۔۔ ممنون ہونگا۔۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
شکریہ کاشفی صاحب۔ یہ شعر دیکھیے گا۔
چلتا ہو ذوق قید سے ہستی کے چھوٹ کے
یہ قید مار ڈالے گی دم گھوٹ گھوٹ کے

کیا اس شعر میں گھوٹ کی بجائے گھونٹ نہیں ہے؟
 

فاتح

لائبریرین
کاشفی صاحب۔ بہت شکریہ۔
مطلع کے مصرع ثانی میں "جھوٹے تو بیٹھے بھی نہیں پاؤں ٹوٹ کے" کی بجائے شاید بیٹھتے ہو گا، گو کہ "پاؤں ٹوٹ کر بیٹھنا" کا محاورہ مجھے سمجھ نہیں آیا۔
 
Top