کھڑا ڈنر

ساجد

محفلین
کھڑا ڈنر ہے غریب الدیار کھاتے ہیں
بن۔ے ہوئ۔ے شتر ب۔ے مہ۔ار کھات۔ے ہیں
اور اپنی م۔یز پ۔رہ۔و ک۔ر سوار کھ۔ات۔ے ہیں
کچھ ایسی شان سے جیسے ادھار کھاتے ہیں
شکمِ غریب کی یوں فسٹ ایڈ ہوتی ہے
ڈنر ک۔ے سائ۔ے م۔یں ف۔وجی پریڈ ہوتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھڑے ہیں میز کنارے جو اک پلیٹ لئیے
ان۔ہی ن۔ے ک۔وفت۔ے اپن۔ے لئی۔ے سم۔یٹ لئ۔یے
ادھر ادھر کے جو کھانے تھے سب سمیٹ لئیے
کھ۔ڑا تھ۔ا پیچھ۔ے س۔و میں رہ گیا پلی۔ٹ لئی۔ے
یہ میزہو گئی خالی اب اور کیا ہو گا
"پُلاؤ کھائیں گ۔ے احب۔اب فات۔حہ ہو گا"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھی ایک مرغ کی ٹانگ اور رقیب لے بھاگا
می۔را نصی۔ب بھی جاگا ، پہ دی۔ر می۔ں جاگا
کب۔اب اٹھ۔ایا تو اس میں لپ۔ٹ گی۔ا دھاگا
ڈن۔ر کی۔ا کہ ن۔ہ پیچھ۔ا ہے ج۔س کا ن۔ہ آگ۔ا
یہ کیا خبر تھی؟ میں آیا تھا جب ڈنر کھانے
حق۔یقت۔وں کو سنبھ۔الے ہوئ۔ے ہی۔ں افسان۔ے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ایک میزخواتین گرد صف آرا
لبوں پہ ان کے رواں گفتگو کا فوارہ
میں ایک گوشے میں سہما کھڑا ہوں بے چارہ
ک۔ہ ی۔ہ ہٹ۔یں ت۔و اٹھ۔اؤں م۔یں ن۔ان کا پ۔ارہ
اسیرِ حلقہ خوباں جو مرغ و ماہی ہیں
ت۔و ہم شہی۔دِ ستم ہائے ک۔م نگاہی ہیں
۔
(معروف شاعر ، مصور ،پیراک ،معلم، خطاط ،سفیرِ پاکستان (پریس اتاشی) ،جمناسٹک کے ماہر اور پیروڈی نگار سید محمد جعفری کی پیروڈی سے ایک اقتباس)
 
کھڑا ڈنر ہے غریب الدیار کھاتے ہیں
بن۔ے ہوئ۔ے شتر ب۔ے مہ۔ار کھات۔ے ہیں
اور اپنی م۔یز پ۔رہ۔و ک۔ر سوار کھ۔ات۔ے ہیں
کچھ ایسی شان سے جیسے ادھار کھاتے ہیں
شکمِ غریب کی یوں فسٹ ایڈ ہوتی ہے
ڈنر ک۔ے سائ۔ے م۔یں ف۔وجی پریڈ ہوتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھڑے ہیں میز کنارے جو اک پلیٹ لئیے
ان۔ہی ن۔ے ک۔وفت۔ے اپن۔ے لئی۔ے سم۔یٹ لئ۔یے
ادھر ادھر کے جو کھانے تھے سب سمیٹ لئیے
کھ۔ڑا تھ۔ا پیچھ۔ے س۔و میں رہ گیا پلی۔ٹ لئی۔ے
یہ میزہو گئی خالی اب اور کیا ہو گا
"پُلاؤ کھائیں گ۔ے احب۔اب فات۔حہ ہو گا"

بہت عمدہ منظر کشی
 

مغزل

محفلین
قبلہ خاصی مشکل سے پڑھ سکا ، کہ لفظوں کے درمیان خلا کا خیال نہیں رکھا گیا، یا پھر میرے پاس فونٹ کا مسئلہ ہوگا،ویسے بہت عمدہ
 
Top