طارق شاہ
محفلین

جگر مُراد آبادی
کام آخر جذبۂ بے اِختیار آ ہی گیا
دل کچُھ اِس صُورت سے تڑپا، اُن کو پیار آ ہی گیا
جب نِگاہیں اُٹھ گئِیں، الله رے معراجِ شوق!
دیکھتا کیا ہُوں، وہ جانِ انتظار آ ہی گیا
ہائے! یہ حُسنِ تصوّر کا فریبِ رنگ و بُو
میں یہ سمجھا، جیسے وہ جانِ بہار آ ہی گیا
ہاں سزا دے، اے خُدائے عِشق، اے توفیقِ غم !
پھر زبانِ بے ادب پر، ذکرِ یار آ ہی گیا
اِس طرح خوش ہوں کسی کے وعدۂ فردا پہ میں
در حقیقت جیسے مجھ کو اعتبار آ ہی گیا
ہائے، کافردل کی یہ کافر جنُوں انگیزِیاں !
تم کو پیار آئے نہ آئے، مجھ کو پیار آ ہی گیا
درد نے کروٹ ہی بدلی تھی کہ، دل کی آڑ سے
دفعتاََ پردہ اُٹھا اور پردہ دار آ ہی گیا
دل نے اِک نالہ کِیا آج اِس طرح دِیوانہ وار
بال بکھرائے کوئی مستانہ وار آ ہی گیا
جان ہی دے دی جگر نے آج پائے یار پر
عمر بھر کی بے قراری کو قرار آ ہی گیا
جگرمُرادآبادی