کچھ علم جنسیات کے شعور بارے: ڈاکٹر مجاہد مرزا کا کالم

اناڑی

محفلین
http://www.topstoryonline.com/mujahid-mirza-column-121106

کچھ علم جنسیات کے شعور بارے: ڈاکٹر مجاہد مرزا کا کالم


علم جنسیات کا تعلق محض علم الافعال یعنی فزیالوجی اور علم نفسیات سے ہی نہیں ہے بلکہ اس کی جڑیں اگر پیوست ہیں تو وہ معاشرے کی بنت کے اندر ہی پیوست ہیں۔ معاشرے میں اگر تعلیم اور عمومی شعور کا فقدان ہوگا یا یہ دونوں کجروی پر مبنی ہونگے تو دنیا میں جانداروں بالخصوص انسانوں کی تخلیق و تولید کے علاوہ تسکین و تلذّذ سے بندھا یہ عمل اور اس کے بارے میں علم کجروی اور نقائص سے معمور ہوگا۔
بظاہر تو یہی لگے گا کہ جنسیات جو کہ پانچ بنیادی جبلتوں یعنی بھوک ،پیاس، تنفس،تحفظ ذات اور جنس میں سے ایک ہے، اس کے بارے میں بتانے اور سکھانے کی کیا ضرورت ہے؟ لیکن ایسا نہیں ہے کیونکہ سانس لینے کے علاوہ باقی تمام جبلتوں بشمول اضافی جبلتوں کے معاشرے اور مروجات کے حوالے سے سکھانے پڑتے ہیں۔ بچے کو سکھایا جاتا ہے کہ کونسے مشروب کو کب اور کتنا پینا بہتر ہوتا ہے یا یہ کہ کھانے کے انتخاب اور استعمال میں کیا معیارات اور احتیاطیں بروئے کار لانا مناسب ہوتا ہے۔ خودحفاطتی کے ضمن میں کیا کیا پیشگی اقدامات کیے جانے ضروری ہوتے ہیں تاحتٰی حوائج ضروریہ جو بھوک سے جڑی اضافی جبلّت ہے، سے فراغت کی خاطر ممنوعات کیا ہیں؟ لیکن جنسیات ایک ایسا موضوع ہے جس کے بارے میں بات کرنے کو برصغیر کی قدیم روایات کی نسبت سے شجر ممنوعہ کی حیثیت دے دی گئی۔ مذہب اسلام کا اس بارے میں امتناعی رویہ یوں نہیں ہے کہ قرآن میں فرج اور زنا کے الفاظ جن کا اگر مقامی زبانوں میں ترجمہ کیا جائے تو ناگفتنی ہوگا، عام استعمال ہوئے ہیں اور آج بھی عرب معاشرہ جنس کے بارے میں بات کرنے کو معیوب خیال نہیں کرتا۔ یہ اور بات ہے کہ اس گفتگو میں عورتوں کا براہ راست شامل ہونا معیوب نہیں تو اچھا بہر حال نہیں سمجھا جاتا۔
مگر دلچسب بات یہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں میں جنسیات کے بارے میں عورتوں کو شعور دینے کا واحد منبع “بہشتی زیور” تھا اور ہے، جو ایک مذہبی کتاب ہے۔ اس کتاب پر کبھی نظر ثانی نہیں کی گئی اور نہ ہی اس میں اس حوالے سے دیے گئے شعور کی قدامت پسندانہ کجروی کو دور کیا گیاہے۔ رہی بات مردوں بالخصوص نوجوانوں کی جن کی اکثریت کا یا تو علم وتعلیم سے واسطہ نہیں ہے اور جو پڑھے لکھے ہیں بھی ان کا اس بارے میں علم، مغرب میں وہاں کے ماحول کے حوالے سے لکھی گئی تحریروں یا زیادہ سے زیادہ مبیّنہ “فحش” فلموں سے اخذ کردہ ہے۔
ہمارے ہاں عمومی الجھنوں یعنی کمپلیکسز کے علاوہ جنسی الجھنیں کچھ کم نہیں ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں تمام دیواریں،”آپ کو جوان بنادوں” قسم کے اشتہاروں، سنیاسیوں، حکمائے حاذق اور طلائے مچھلی قسم کے اشتہاروں سے بھری پڑی ہیں۔ مختلف قسم کے مضر کشتہ جات کے استعمال سے گردوں کے خراب اور بالآخر ختم ہو جانے میں کہیں زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔ ایسے ہی اشتہاروں سے ملنے والے مہیج میں اور بہت سارے عوامل ہیجان کا اضافہ کر دیتے ہیں۔ کیونکہ جنسی عمل ایک فطری خواہش ہوتا ہے چنانچہ اس بارے میں علم کی کمی کے حامل دونوں اصناف سے وابستہ نوجوانوں کے اختلاط سے جہاں متعدی و مزمّن امراض میں اضافہ ہوا ہے وہاں غیر قانونی اسقاط حمل کے سبب خواتین کی صحت پر برے اثرات تو پڑے سو پڑے بعض اوقات ان کی جان پہ بھی بن آتی ہے یا وہ واقعی مر جاتی ہیں، علاوہ ازیں وہ ہمیشہ کے لیے تولید سے عاری بھی ہو سکتی ہیں۔
ہمارا معاشرہ ہے ہی ایسا کہ شادی کی پہلی رات کو بہنیں ہی اپنے بھائی کو حجلہ عروسی کی جانب دھکیل رہی ہوتی ہیں لیکن ویسے لڑکی ہو یا لڑکا کسی کی مجال ہے کہ دوسری جنس کے حامل کسی دوست کو بلا خوف گھر میں لا سکے چہ جائیکہ علیحدہ کمرے میں جا سکے۔ شادی کے تین ماہ بعد ابھرے ہوئے شکم کے ساتھ بہنیں بیٹیاں میکے آتی ہیں تو باپ اور بھائی کو اس کے اس عمل پہ اعتراض نہیں ہوتا جس کے سبب شکم کی ساخت میں تبدیلی رونما ہوئی ہوتی ہے بلکہ الٹا خوش ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس لڑکی شادی سے پہلے کسی سے محبت کا تذکرہ ہی کر دے تو بھائی چاقو سونت لیتے ہیں، باپ منہ چھپا لینے کو مردانگی خیال کرتا ہے۔
دہرے معیارات کے باعث ہی مردوں اور عورتوں دونوں میں جنسیات سے متعلق ایسے ایسے قدیم النوع توہمات پائے جاتے ہیں، جن کے بارے میں سنتے ہیں تو ہنسی آتی ہے اور سوچتے ہیں تو غصے کے ساتھ ساتھ ان بیچاروں پر ترس بھی آتا ہے۔
بہت عرصہ پہلے کی بات ہے کہ لاہور میں ایک ماہر امراض نسواں و زچگی مرد ڈاکٹر تھے، جن کی بہن زچگی کی پیچیدگی میں مبتلا تھی، لیکن ان کے والدین نے باوجود اس کے کہ انہوں نے کہا کہ میں آنکھوں پہ پٹی باندھ کر اسے اذیت سے نجات دلانے کی کوشش کرتا ہوں، انہیں ایسا کرنے کی اجازت نہ دی تھی اور بہن مر گئی تھی۔ پھر چالیس سال پہلے جب معروف ڈاکٹر راشد لطیف نشتر ہسپتال میں ماہر امراض نسواں مقرر ہوئے تو آوٹ ڈور سونا ہو گیا تھا لیکن وقت کے ساتھ نہ صرف وہ پاکستان میں پہلا “ٹیسٹ ٹیوب بے بی” پیدا کرانے والے ڈاکٹر بنے بلکہ مرد ماہرین امراض نسواں کی ایک کھیپ کی کھیپ تیار ہو گئی۔
اسی طرح 1979میں جب میری بیوی کی پہلی زچگی کا وقت قریب آیا تو سروسز ہسپتال کی کینٹین میں ڈاکٹر آن ڈیوٹی ڈاکٹر ثاقب میرے ساتھ بیٹھا چائے پی رہا تھا کہ اس کی “کال بیپ” ہوئی تھی، اس بیچارے نے بھی ہچکچاتے ہوئے پوچھا تھا،”سر میں (آپ کی بیوی کا بچہ پیدا کرانے) جاؤں؟” ظاہر ہے میں نے کہا تھا،”جاؤ بلکہ تیزی سے جاؤ۔”
آج ملک میں ماہرین جنسیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ڈاکٹروں میں بھی اگر کوئی یہ کام سرانجام دے رہے ہیں تو وہی ماہرین جن کا تعلق نسوانی یا نفسیاتی عوارض سے ہے یا پھر وہی بابے، سنیاسی، حکیم ، جب کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کے لیے باقاعدہ ہیومن ریلیشنز ( سیکس) کنسلٹنٹس” ہوں اور انسانی تعلقات کے اس اہم حصے کے بارے میں مشاورت دینے والوں کو طب اور نفسیات دونوں ہی آنے چاہیں۔ اس نوع کے مشیر سرکاری اور نجی دونوں ہی طرح کے ہسپتالوں میں تعینات ہونے چاہیں۔
وگرنہ نتیجہ کیا ہوتا ہے وہ یوں کہ 1986 میں جب میرا بیٹا چھ سال کا تھا تو میں نے اس سے پوچھا کہ تم دوست سکول میں کس معاملے پر زیادہ باتیں کرتے ہو، پہلے تو وہ بتانے سے انکار کرتا رہا، بالآخر شرما لجا کر بولا” سیکس سے متعلق”۔ ہائیں! لیکن میں نے حواس بجا رکھے اور اسے کہا کہ تم اپنی ماما (جو خود ڈاکٹر ہے) کو نہ بتانا، آج سے میں تمہیں سیکس کے بارے میں بتایا کروں گا۔” آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس کا جواب کیا تھا، اس نے کہا تھا،”پاپا مجھے تو پہلے ہی سب پتہ ہے”۔ “وہ کیسے؟” میں نے پوچھا تھا،”ماما،ایسی کتاب نہ لانے دیتی، اس لیے میں نے ساتھ کی دکان پر پڑی سیکس کی کتاب پڑھ ڈالی ہے” ہاں وہ تب کتاب تو واقعی پڑھ سکتا تھا لیکن اسے کیا اور کیسے سمجھ آیا ہوگا، پتہ نہیں البتہ آج وہ باڈی بلڈنگ پہ زور دیتا ہے۔
 
Top