کچھ ادبی لطیفے۔ تشکر علی گڑھ اردو کلب

الف عین

لائبریرین
یہ بیش تر لطائف طارق/المان غازی صاحبان نے پوسٹ کئے تھے۔

ایک زمانہ تھا کہ فلمی دنیا اس طرح سے ایک طلسماتی دنیا نظر آتی تھی کہ شوٹنگ دیکھنے کا شوق ہر شخص کو ہوتا تھا۔ اکثر باریش اور مذ ہبی حضرات بھی اس خواہش پر قابو نہیں پا سکے ایک بار اتفاق سے ماہرالقادری صاحب اپنے اس شوق کی تسکین کے لئے کسی کے ساتھ اسٹوڈیو پہنچ گئے کہ وہاں ان کا جاننے والا کون ملے گا۔ اتفاق سے اسی دن شورش کاشمیری بھی پہلی مرتبہ شوٹنگ دیکھنے پہنچے اور دونوں کی ملاقات ہوئی تو ماہرالقادری نے ہنستے ہوئے فی البدیہہ یہ شعر کہا
دل لگانے کا جہاں موقع بھی تھا کوشش بھی تھی
ہائے وہ محفل جہاں شورش بھی تھا شورش بھی تھی
 

الف عین

لائبریرین
پطرس بخاری ریڈیو اسٹیشن کے ڈائریکٹر تھے ایک مرتبہ مولانا ظفر علی خان صاحب کو تقریر کے لئے بلایا تقریر کی ریکارڈنگ کے بعد مولانا پطرس کے دفتر میں آ کر بیٹھ گئے۔ بات شروع کرنے کی غرض سے اچانک مولانا نے پوچھا۔ پطرس یہ تانپورے اور تنبورے میں کیا فرق ہوتا ہے۔ پطرس نے ایک لمحہ سوچا اور پھر بولے۔ مولانا آپ کی عمر کیا ہوگی؟ اس پر مولانا گڑ بڑا گئے اور بولے۔ بھئی یہی کوئی پچھتر سال ہوگی۔ پطرس کہنے لگے۔ مولانا جب آپ نے پچھتر سال یہ فرق جانے بغیر گذار دئے تو دو چار سال اور گذار لیجئے۔
 

الف عین

لائبریرین
میرے پڑ داد مولانا عبداللہ انصاری، پہلے ناظم دینیات، علی گڑھ ،کے قرابتی بھائی، مولانا خلیل احمد محدث سہارنپوری، جنہوں نے صحاح ستہ کی کتاب سنن ابی داؤد کی شرح بذل المجہود عربی میں لکھی ہے، خطوط میں دستخط سے پہلے خود کو ننگِ اسلاف (بڑوں کے لئے باعث شرم و عار) لکھا کرتے تھے. ان کے ایک بھتیجے، مولانا محمد فاروق مظاہر العلوم، سہارنپور میں پڑھنے کے لئے آئے. وہاں سے گھر خط لکھا، جس میں اپنے بڑوں کی روائت کی پاسداری میں دستخط سے پہلے خود کو ننگ اسلاف لکھا. ان کی والدہ نے خط پڑھوا کر سنا تو آبدیدہ ہوگئیں اور چہرہ سے غصہ بھی ہویدا تھا. خط پڑھنے والے نے کہا، خط میں تو کوئی ایسی بات نہیں تھی جس پر رونا یا غصہ آئے. تو بولیں، یہ رونےکی بات نہیں؟ آج کل کے لڑکے ایسے آپ خود ہوگئے کسی کا بڑے چھوٹے کا لحاظ باقی نہیں رہا. پوچھا آخر فاروق میاں نے ایسی کیا بات لکھ دی جو آپ اتنا ناراض ہو رہی ہیں؟

جواب دیا:

دنیا سے شرم غیرت اٹھ گئی. پہلے مولانا خلیل احمد ، مولانا رشید احمد گنگوہی ،جیسے عالی رتبہ بزرگ خود کو ننگ اسلاف لکھتے تھے، اور اب یہ کل کے لڑکے ان کی برابری کر رہے ہیں اور خود کو ننگ اسلاف لکھنے لگے.

محمد طارق غازی
 

الف عین

لائبریرین
عام طور پر ہندی داں حضرات کے ساتھ یہ مسئلہ رہتا ہے کہ یہ حضرات عموماّ اردو الفاظ یا ناموں میں ز اور ج کی آ وازوں کو آپسمیں بدل دیتے ہیں۔ اس پر ایک واقعہ یاد آ یا جو ہمارے محترم دوست و شاعر تاجدار تاج صاحب نے ہمیں سنایا تھا۔ ان کا تعلق بھی دیو بند سے ہے۔ ایک مرتبہ ایک جسلے میں صدارت ایک جلیل صاحب کر رہے تھے۔ اس میں وہاں کے ایک مشہور زمیندار شام لال جی بھی تھے جو مہمان خصوصی تھے۔ جلسے کی نظامت تاجدار صاحب کر رہے تھے۔ جلیل صاحب نے تاجدار صاحب کے کان میں کہا کہ اب دیکھئے یہ شال لال جی تقریر کریں کے اور یقینی طور پر مجھے ذلیل {جلیل کے بجائے} کریں گ۔ تاجدار صاحب نے کہا آپ فکر نہ کیجئے یسا نہیں ہوگا ۔ اور واقعی جب شال لال جی آئے تو انہوں نے صحیح نام لیا یعنی جلیل صاحب کہہ کر مخاطب کیا۔ جلسے کے بعد جلیل صاحب نے پوچھا کہ یہ کرشمہ کیسے ہو گیا۔ تاجدار ساحب نے کہا بہت آ سانی سے۔ میں نے ہندی میں آپ کا نام انہیں ذلیل صاحب لاکھ کر دیا ہے اس لئے انہوں نے اسے جلیل صاحب پڑھا۔
 

الف عین

لائبریرین
ریل کے سفر میں سب سے اوپر والی برتھ پر مجاز، درمیان میں جوش ملیح آ بادی اور نچلی برتھ پر فراق گو رکھپوری سفر کر رہے تھے۔ معا” جوش نے فراق سے پوچھا: رگھو پتی اس وقت تمہاری عمر کیا ہوگی۔ فراق نے جواب دیا : یہی کوئی دس برس، جوش خاموش ہو گئے تو فراق نے جوش سے پوچھا: شبیر حسن تمہاری عمر کیا ہوگی۔ جوش نے بر جستہ جواب دیا یہی کوئی پانچ چھہ سال۔ اس پر اوپر کی برتھ پر لیٹے ہوئے مجاز نے اپنا منھ چاد ر میں چھپاتے ہوئے کہا بزرگو اب مجھ سے عمر مت پوچھنا کیونکہ میں تو ابھی پیدا ہی نہیں ہوا۔
 
میرے پڑ داد مولانا عبداللہ انصاری، پہلے ناظم دینیات، علی گڑھ ،کے قرابتی بھائی، مولانا خلیل احمد محدث سہارنپوری، جنہوں نے صحاح ستہ کی کتاب سنن ابی داؤد کی شرح بذل المجہود عربی میں لکھی ہے، خطوط میں دستخط سے پہلے خود کو ننگِ اسلاف (بڑوں کے لئے باعث شرم و عار) لکھا کرتے تھے. ان کے ایک بھتیجے، مولانا محمد فاروق مظاہر العلوم، سہارنپور میں پڑھنے کے لئے آئے. وہاں سے گھر خط لکھا، جس میں اپنے بڑوں کی روائت کی پاسداری میں دستخط سے پہلے خود کو ننگ اسلاف لکھا. ان کی والدہ نے خط پڑھوا کر سنا تو آبدیدہ ہوگئیں اور چہرہ سے غصہ بھی ہویدا تھا. خط پڑھنے والے نے کہا، خط میں تو کوئی ایسی بات نہیں تھی جس پر رونا یا غصہ آئے. تو بولیں، یہ رونےکی بات نہیں؟ آج کل کے لڑکے ایسے آپ خود ہوگئے کسی کا بڑے چھوٹے کا لحاظ باقی نہیں رہا. پوچھا آخر فاروق میاں نے ایسی کیا بات لکھ دی جو آپ اتنا ناراض ہو رہی ہیں؟

جواب دیا:

دنیا سے شرم غیرت اٹھ گئی. پہلے مولانا خلیل احمد ، مولانا رشید احمد گنگوہی ،جیسے عالی رتبہ بزرگ خود کو ننگ اسلاف لکھتے تھے، اور اب یہ کل کے لڑکے ان کی برابری کر رہے ہیں اور خود کو ننگ اسلاف لکھنے لگے.

محمد طارق غازی

سب سے زیادہ ادبی لطیفے کا ایوارڈ دیا جانا چاہیے اسے
 

الف عین

لائبریرین
ایک مشاعرے میں بزرگ شاعر نوح ناروی اپنا کلام پڑھ رہے تھے۔ ان کے نقلی دانتوں کی بتیسی شائد ڈھیلی تھی اچانک شعر پڑھتے ہوئے نیچے گر گئی۔ نوح صاحب جیسے ہی بتیسی اٹھانے کے لئے جھکے مجاز نے مائک پر آ کر نہات ادب سے کہا: حضرات ان آپ استاد سے ایک خالص زبان کا شعر سنئے۔
 

الف عین

لائبریرین
ساغر نظامی کی بہن بھی شاعرہ تھیں اور مینا تخلص رکھتی تھیں۔ ماجد حیدرابادی سے چونکہ ساغر صاحب کی چشمکیں چلتی رہتی تھیں اس لئے ساغر صاحب مشاعرے میں اس شرط پر جاتے تھے کہ ماجد صاحب کو نہیں بلایا جائے گا۔ ایک مشاعرے میں صدارت ساغر نظامی کی تھی۔ چونکہ ماجد صا حب مدعو نہیں تھے اس لئے وہ مشاعرہ سننے کے لئے سامعین میں آ کر بیٹھ گئے۔ لوگوں کو جب پتہ چلا تو سب نے شور مچا دیا کہ ماجد صاحب کو ضرور سنیں گے اور مجبورا” منتظمیں کو ماجد صاحب کو دعوت سخن دینی پڑی۔ ماجد صاحب مائک پر آئے تو کہنے لگے کہ چونکہ مجھے مدعو نہیں کیا گیا تھا اس لئے کوئی غزل ساتھ نہیں ہے البتہ دو شعر فی البدییہ کہے ہیں جناب صدر اجازت دیں تو پیش کروں۔ اجازت ملتے پر یہ دو شعر سنائے
پھر آ گیا ہے لوگو بر سا ت کا مہینا
لازم ہوا ہے اب تو سب کو شراب پینا
پہنچا جو میکدے میں حیران رہ گیا میں
الٹا پڑا تھا ساغر اوندھی پڑی تھی مینا
 

الف عین

لائبریرین
ایک بار کسی دعوت میں بہت سے شعرا و ادبا مدعو تھے کھانا آنے سے قبل اس بات پر پر گفتگو ہو رہی تھی کہ صاحب طرز انشا پردازی یا شاعری اکتسابی چیز نہیں ہے کہ انسان اسے محنت سے حاصل کرلے اور وہ اپنے انداز تحریر سے پہچانا جائے بلکہ ایک وہبی صفت ہے جو فطری طور پر اسے ملتی ہے اسی لئے ہم بعض دفعہ یہ کہتے ہیں کہ یہ غزل غالب یا علامہ اقبال کے رنگ میں ہے یا یہ مولانا آزاد کی سی نثر ہے۔ اتفاق سے سب سے پہلے رائتہ لا کر رکھا گیا تو مجاز کہنے لگے کہ اب دیکھئے رائتے ہی کو لے لیجئے اگر اسے مختلف شعرا استعمال کرتے تو کیسے کرتے۔ جیسے علامہ اقبال کہتے
حیف شاہیں رائتہ کھانے لگا
یا جوش ہوتے تو یوں کہتے:
وہ کج کلاہ جو کھاتا ہے رائتہ اکثر
اور اختر شیرانی کہتے
رائتہ جب رخ سلمیٰ پہ بکھر جاتا ہے
اور میں تو یوں ہی کہتا کہ
ٹھہرئے ایک ذرا رائتہ کھالوں تو چلوں

اس لطیفے کوایسےبھی بیان کیا گیا ہے کہ
فراق یوں کہتے
ٹپک رہا ہے انگلیوں سے رائتہ کچھ کچھ
اور مجاز کہتے
ابھی چلتا ہوں ذرا رائتہ کھا/پی لوں تو چلوں
 

الف عین

لائبریرین
تخلص بھوپالی فطری طور پر ظریف اور بذلہ سنج واقع ہوئے تھے۔ ان کی بات چیت میں بھی بڑی شوخی ہوتی تھی۔ ان کے دو واقعات حال ہی میں نظر سے گزرے وہ پیش ہیں۔ ایک مرتبہ وہ مولانا علی میاں رحمت اللہ علیہ کے پاس بیٹھے تھے اچانک ایک صاحب آئے اور اطلاع دی کہ پنڈت نہرو کا انتقال ہو گیا، اس کے ساتھ ہی انہوں نے مولانا سے سوال کیا کہ اب مسلمانوں کا کیا ہو گا۔ مولانا نے تخلص صاحب کی طرف دیکھا گویا وہ چاہتے ہیں کہ تخلص صاحب ہی اس کا جواب دیں۔ تخلص صاحب نے بر ملا کہا: میں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ اب پنڈت نہرو کا کیا ہوگا۔
 

الف عین

لائبریرین
ایک بار اور تخلص بھوپالی مولانا کی مجلس میں بیٹھے تھے کہ ایک صاحب آئے اور کہنے لگے کہ حضرت آپ سعودی عرب تشریف لے جا رہے ہیں اس درمیان اگر میں مر جاؤں تو کتبے پر کیا لکھواؤں۔ مولانا نے مسکرا کر تخلص کی طرف دیکھا تو انہوں نے کہا میرا خیال ہے آپ کتبے پر یہ لکھوائیے کہ یہاں پیشاب کرنا منع ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
لطیفہ مجھے ظ.انصاری صاحب نے سنایا تھا. ان کا ہفتہ وار آئنہ بند ہوا تو اس کے عملہ کے ایک صاحب نے کہیں نوکری دلوانے کی درخواست کی. ظ. انصاری صاحب نے حیدرآباد کے روزنامہ سیاست کے مدیر عابد علی خان مرحوم کے نام سفارشی خط لکھ کر ان صاحب کو حیدرآباد بھجوا دیا. یہ وہ زمانہ تھا جب وئتنام کی جنگ زور پر تھی اور امریکی فضائیہ روزانہ شہری علاقوں پر بمباری کر رہی تھی. ان ہوائی حملوں کے لئے انگریزی میں سرکاری اصطلاح (air strikes) تھی.عابد علی خاں نے امتحاناً ان صاحب کو ایک چھؤٹی سی خبر ترجمہ کے لئے دی. ان صاحب نے ترجمہ کیا:

امریکہ نے وئتنام میں ہوائی ہڑتالیں کر دیں

عابد علی خان نے ترجمہ شدہ خبر ڈاک سے اور ان صاحب کو ٹرین سے ظ.انصاری صاحب کے پاس بھیج دیا.
 

مدرس

محفلین
زبر دست الف عین صا حب جزاک اللہ خیرا

بہت عمدہ مجھے ایسے ہی ادبی لطیفوں‌کے پڑھنے کا ذوق ہے
 

الف عین

لائبریرین
ابوبکر مصور (بزم مینائی) بمبئی کی میمن برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ ظاہر ہے مادری زبان گجراتی تھی لیکن
عبدالرزاق سعید صاحب (عبد الاحد ساز کے والد)، نسیم مینائی، شباب مینائی وغیرہ جیسے میمن حضرات کی طرح اردو شاعری سے شغف کے سبب زبان پر عبور حاصل کیا اور بحیثئت شاعر مشہور ہوئے۔ ابوبکر صاحب لکھپتی تھے اور ہمیشہ چار گھوڑوں کی بگھی میں سفر کرتے تھے۔ اور عموما” رئیس اعظم کے نام سے مشاعروں میں پکارے جانے کو پسند کرتے تھے۔ ان کی ضد میں صبا الہ آ بادی نے خود کو مشاعروں میں غریب اعظم کہلوانا شروع کر دیا تھا۔ مصور صاحب نے جب اپنا دیوان ترتیب دیا تو بمبئی کے تمام شعرا کو جمع کیا بہت شاندار دعوت کی اور سب کو مجموعہ کلام کے لئے کوئی نام تجویز کرنے کی دعوت دی۔ کچھ نام بتائے گئے جوانہیں پسند نہیں آئے کہنے لگے۔ بھئی میں بال جبریل قسم کا کوئی نام چاہتا ہوں۔ منیر الہ آ بادی جل گئے کہنے لگے : تو پھر پشم عزرائیل رکھ لیجئے۔ اس پر خوب قہقہے لگے۔
 

تلمیذ

لائبریرین
یہ دھاگہ سامنے آنے پر تمام لطائف پڑھ کر بہت مزہ آیا ہے۔ شکریہ محترم،
کچھ مزید عطاہوں۔
 
Top