ساغر صدیقی کوئی نالہ یہاں رسا نہ ہوا -ساغر صدیقی

کوئی نالہ یہاں رسا نہ ہوا
اشک بھی حرفِ مدعا نہ ہوا

تلخی درد ہی مقدر تھی
جامِ عشرت ہمیں عطا نہ ہوا

ماپتابی نگاہ والوں سے
دل کے داغوں کا سامنا نہ ہوا

آپ رسمِ جفا کے قائل ہیں
میں اسیرِ غمِ وفا نہ ہوا

وہ شہنشہ نہیں بھکاری ہے
جو فقیروں کا آسرا نہ ہوا

رہزن عقل و ہوش دیوانہ
عشق میں کوئی رہنما نہ ہوا

ڈوبنے کا خیال تھا ساغر
ہائے ساحل پہ ناخدا نہ ہوا

ساغر صدیقی
 

فاتح

لائبریرین
ڈوبنے کا خیال تھا ساغر
ہائے ساحل پہ ناخدا نہ ہوا
واہ! ساغر کی اس خوبصورت غزل کے انتخاب پر آپ کا شکریہ
 

فرخ منظور

لائبریرین

رانا

محفلین
شکر ہے سخنور صاحب نے تصحیح کردی ورنہ میں تو سمجھا کہ شائد "دھاگے" الجھ گئے ہیں۔:)
 
Top