لیاقت علی عاصم کوئی دھوپ دوپہر کی، کوئی شام کی اُداسی ------------- لیا قت علی عاصم

مغزل

محفلین
لیاقت علی عاصم کی ایک غزل

پھرے دشت دشت شاید در و بام کی اُداسی
مرے بعد کیا کرے گی مرے نام کی اُداسی

مرے ہم سفر تھے کیا کیا، میں کسی کو اب کہوں کیا
کوئی دھوپ دوپہر کی، کوئی شام کی اُداسی

کہیں اور کا ستارہ مری آنکھ پر اُتارا
مجھے آسماں نے دی ہے بڑے کام کی اُداسی

مجھے یاد آرہی ہے وہ سفر کی خوش گواری
مرا دل دکھا رہی ہے یہ قیام کی اُداسی

وہ غزال رنگ آنکھیں جو پلٹ گئیں تو دیکھا
ہوئی اک نظر میں اوجھل کئی گام کی اُداسی

یہ شفق شراب منظر مری آنکھ کا تخیل
مری بیکسی کی کاوش سرِ شام کی اُداسی

وہی میکدہ ہے عاصم وہی انتظارِ ساقی
وہی گوشہ ء تمنا وہی جام کی اُداسی

لیاقت علی عاصم
 
Top