کوئٹہ: فائرنگ اور بم دھماکوں میں متعدد ہلاک و زخمی

زین

لائبریرین
کوئٹہ میں فائرنگ کے واقعات میں تین افراد جاں‌بحق ہوگئے جبکہ ایف سی کی گاڑی پر حملے میں چار اہلکار زخمی ہوگئے جوابی کارروائی میں ایک حملہ آور مارا گیا جبکہ سیٹلائٹ ٹائون میں پراسرار دھماکے میں ایک شخص ہلاک ہوگیا ۔

بدھ کو صوبائی دارلحکومت کوئٹہ میں مسلح افراد دن بھر دندناتے رہے اور کئی مقامات پر فائرنگ اور بم دھماکوں کے واقعات رونما ہوئے ۔ فائرنگ کا پہلا واقعہ دن ایک بجکر تیس منٹ پر مغربی بائی پاس کے قریب اخترآباد میں پیش آیا جہاں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے مزدوروں پراس وقت فائرنگ کی گئی جب وہ ایک دیوار کی تعمیر میں مصروف تھے فائرنگ کے نتیجے میں محمد علی اور زوار شاہ جاں بحق اوروارث شاہ شدید زخمی ہو گیا۔جاں بحق ہونےوالوں کا تعلق ہزارہ ٹاﺅن سے بتایا گیا ہے جن کی لاشیں بی ایم سی ہسپتال پہنچادی گئیں ۔ پولیس ذرائع کے مطابق واقعہ فرقہ وارانہ دہشت گردی کا نتیجہ ہوسکتا ہے ۔

دوسرے واقعے میں بروری کے علاقے اے ون سٹی میں بلوچستان کانسٹیبلری کے ریٹائرڈ ایس پی محمد عثمان رودینی عرف ٹکا خان کو گولی ماردی گئی ،سیکورٹی فورسز ذرائع نے بتایا کہ جاں بحق ہونےوالے سابق ایس پی کا تعلق پنجگور سے ہے جبکہ وہ کوئٹہ میں اے ون سٹی میں رہائش پذیر تھے ، انہیں گھر سے نکلتے ہوئے پہلے سے گھات لگائے نامعلوم افراد نے نشانہ بنایا۔

علاوہ ازیں بروی روڈ کے قریب وحدت کالونی کے تیسرے اسٹاپ پرفرنٹیئر کور کے اہلکاروں پر حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں چار اہلکار زخمی ہوگئے ،جوابی فائرنگ میں ایک حملہ اورمارا گیا۔ کمانڈنٹ ایف سی غزہ بند سکاﺅٹس کرنل شہزاد ہ عامر نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وحدت کالونی سٹاپ نمبر تین کے قریب ایف سی کی دو گاڑیاں معمول کے گشت پر تھیں کہ ان پر فائرنگ کی گئی جس پر اہلکاروںنے فوری طورپر پوزیشنیں سنبھالیں اورجوابی فائرنگ کی ،حملہ آوروں نے اس دوران دستی بموں سے بھی حملے کئے جس سے چار اہلکار معمولی زخمی ہوئے تاہم اہلکاروں نے جواں مردی سے ملزمان کا تعاقب کیا اور کھیتوں میں ایک حملہ آور مجید لانگو کو فائرنگ کرتے ہوئے ہلاک کردیا جبکہ باقی ملزمان فرار ہونے میںکامیاب ہوگئے انہوںنے بتایا کہ واقعہ کے بعد ایف سی نے علاقے میں ایک مشتبہ مکان سے بھاری مقدار میں اسلحہ و گولہ بارود برآمد کرلیا ۔

ذرائع کے مطابق ہلاک ہونے والے ملزم مجید لانگو کا تعلق کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی سے بتایا جاتا ہے۔ مجید لانگو کے بھائی امیر بخش لانگو کا تعلق بھی بی ایل اے سے تھا جو کچھ عرصہ قبل مستونگ میں ٹریفک حادثہ میں‌ہلاک ہوا ۔ سیکورٹی ذرائع کے مطابق امیر بخش لانگو بلوچستان کے سابق وزیر تعلیم شفیق احمد خان کے قتل میں ملوث تھے ۔


دریں اثناءواقعہ کے بعد مجید لانگو کے ورثاءاور مشتعل افراد لاش لینے ہسپتال پہنچے ، ہسپتال عملے کی جانب سے انکار کے بعد مشتعل افراد نے توڑ پھوڑ شروع کردی اور ہسپتال کے دروازوں اور کھڑکیوں کو نقصان پہنچایا ۔



اس سے قبل بدھ کی صبح کوئٹہ میں ایک مکان میں دھماکے سے ایک شخص ہلاک جبکہ مکان کا کچھ حصہ مکمل طور پر تباہ ہوگیا ہے۔پولیس کے مطابق سیٹلائٹ ٹائون تھانہ کی حدود اتحاد کالونی میں انور نامی شخص کے گھر میں زوردار دھماکہ ہوا جس سے مہمان خانے سمیت دو کمرے مکمل طور پر تباہ ہوگئے اور ملبے تلے دب کر خلیل احمد نامی شخص شدید زخمی ہو گیا جسے سول ہسپتال کوئٹہ پہنچایا گیا تاہم وہ زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسا۔

دھماکے کے بعد پولیس، فرنٹیئر کور اور بم ڈسپوزل کاعملہ موقع پر پہنچ گیا۔ پولیس کے مطابق تباہ شدہ کمروں سے بارودی مواد اور کالعدم تنظیم لشکرجھنگوی کے بینر برآمد ہوئے ہیں۔پولیس افسران کے مطابق دھماکہ بارودی مواد پھٹنے سے ہوا اور مذکورہ شخص بم بنانے کی کوشش کر رہا تھا۔ تاہم اہلخانہ کا کہنا ہے کہ دھماکہ گیس کے اخراج کے باعث ہوا ہے۔پولیس کے مطابق مذکورہ مکان کے رہائشیوں سے تفتیش کے بعد اصل صورتحال واضح ہو جائےگی ۔

دریں اثناء ضلع ڈیرہ بگٹی کی تحصیل سوئی میں ریموٹ کنٹرول بم دھماکے کے نتیجے میں 2افراد زخمی ہوگئے جنہیں‌ ہسپتال پہنچادیا گیا جہاں ان کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔

اُدھر ضلع خضدار میں نامعلوم افراد نے سول ہسپتال پر دستی بم پھینک دیاجو زوردار دھماکے سے پھٹ گیا۔دھماکے سے ہسپتال کی دیواروں کو نقصان پہنچا اوردروازوں و کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔ پولیس نے نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کرکے تفتیش شروع کردی ہے ۔

بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کے واقعات کے باعث عوام عدم تحفظ کا شکار ہے ،وزارت داخلہ کے ذرائع کے مطابق بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں جنوری 2010سے دس مارچ تک 38افراد جاں بحق اور 58افراد زخمی ہوئے جن میں پانچ پولیس اور سات ایف سی اہلکار بھی شامل ہیں۔ جبکہ جرائم کے دیگر واقعات میں چودہ افراد ہلاک اور ایک سو بارہ زخمی ہوئے ۔
 

مغزل

محفلین
اس واقعے کی خبر ہمیں کراچی میں فون پر ملی تھی ، میرے ایک شاعر دوست وہاں سے تشریف لائے ہوئے تھے ، فون کے بعد بیچارے فوراً گھرکو روانہ ہوئے کہ یہ واقع ان کے گھرے متصل ہی ہوا تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
قانون ہے کہاں؟ اگر کہیں ہے بھی تو صرف غریب غرباء کے لیے۔

اور جو لاکھوں روپے کی بندوقیں لیے پھرتے ہیں وہ یقیناً غریب نہیں ہیں۔
 
Top