کل کے حکمران اور آج کے لٹیرے

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

عسکری

معطل
اردو فورم کی سینیئر مینجمنٹ سے میری اپیل ہے کہ وہ ایک معزز بزرگ ممبر سر فاروق درویش صاحب کے بارے ( بڑی بوڑھیوں ) قابل اعتراض ریمارکس اور پرسنل اٹیک کا نوٹس لیں، یہ کہاں کا ادب اور کہاں کی سکالری ہے کہ غیر پارلیمانی انداز میں ہتک آمیز طنز کئے جائیں۔ افسوس ہے ایسے ادبی لوگوں کی زبان پر جو سر درویش کے خلاف جمیل الرحمن اور رفیع رضا جیسے شاتم اسلام اور گستاخ قرآن لوگوں جیسی زبان بولنے اور تمسخر اڑانے پر اتر آئے ہیں۔

کیا یہ اردو ادب یہ بے ادب زبان سکھاتا ہے؟
(بجائے حوالوں اور دلائل کے بات کرنے کے یہ حضرت تو شروع ہو گئے بڑی بوڑھیوں کی طرح کوسنے دینے۔ ہاہاہاہا​
لہٰذا ہماری جانب سے "سلاما"​
فاتح الدین بشیر)
محترمہ آپ کو بھی اپنی ٹیم عزیز ہے ھھھھھھھھھ ورنہ جو القابات ان کی طرف سے دیے گئے بغیر نام لیے وہ بھی کچھ کم نہیں تھے آپ نے خود بھی جڑ دیا کمیونسٹ کا طعنہ ھھھھھھھھ اب کاہے کی ہل ہل ہے؟ ویسے اگر یہ کچھ زیادہ ہے تو آدھا فورم بین کرو جی سب نے کبھی نا کبھی ہماری ایسی انسلٹ کی ہے ۔ یہاں کوئی سینئر جونیئر نہیں ہے ہر ممبر کو پورا حق ہے بات کرنے اپنے دلائل دینے مزاق کرنے کا ۔جیسے کہ ہم سب انٹرنیٹ کا بل دیتے ہیں ھھھھھھھھھھھھھھھ
 

فاتح

لائبریرین
اردو فورم کی سینیئر مینجمنٹ سے میری اپیل ہے کہ وہ ایک معزز بزرگ ممبر سر فاروق درویش صاحب کے بارے ( بڑی بوڑھیوں ) قابل اعتراض ریمارکس اور پرسنل اٹیک کا نوٹس لیں، یہ کہاں کا ادب اور کہاں کی سکالری ہے کہ غیر پارلیمانی انداز میں ہتک آمیز طنز کئے جائیں۔ افسوس ہے ایسے ادبی لوگوں کی زبان پر جو سر درویش کے خلاف جمیل الرحمن اور رفیع رضا جیسے شاتم اسلام اور گستاخ قرآن لوگوں جیسی زبان بولنے اور تمسخر اڑانے پر اتر آئے ہیں۔

کیا یہ اردو ادب یہ بے ادب زبان سکھاتا ہے؟
(بجائے حوالوں اور دلائل کے بات کرنے کے یہ حضرت تو شروع ہو گئے بڑی بوڑھیوں کی طرح کوسنے دینے۔ ہاہاہاہا​
لہٰذا ہماری جانب سے "سلاما"​
فاتح الدین بشیر)
لیجیے جناب "بڑے بوڑھے اور بڑی بوڑھیاں" اب تک تو ہر معاشرے میں قابل احترام مانے جاتے تھے، آج ان محترمہ کو یہ الفاظ "قابلَ اعتراض" اور پرسنل اٹیک" لگنے لگے۔ اور جو صاحبان اس محفل میں یہاں موجود ہی نہیں (جمیل الرحمٰن اور رفیع رضا) ان کی غیر موجودگی میں ان پر حملے کرنا بے حد ادبی حرکت ہے۔ ہے نا؟:)
 

فاتح

لائبریرین
فاروق درویش صاحب اور حماد بھائی کے درمیان بہت اچھی اور مزے کی بات چیت ہو رہی تھی۔ مجھے افسوس ہے کہ فاتح بھائی نے اس مزے کو کرکرا کر دیا۔ امید کرتا ہوں کہ وہ رجوع کر لیں گے۔
شمشاد بھائی! حیرت ہے کہ جب تک لوگ ہماری ہاں میں ہاں ملاتے رہیں یا ہمارے خیالات کی تائید کرتے رہیں وہاں تک ہمیں وہ مزے کی بات چیت لگتی ہے اور جونھی کسی نے اختلافی نکتہ اٹھایا یا جہاں کسی کے تلخ تبصروں پر دوسرا "سلاما" کہہ کر اٹھ جائے وہاں ہمارا مزا کرکرا ہو جاتا ہے۔ حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
 

فاتح

لائبریرین
War of succession
Shah Jahan fell ill in 1657, and because he was the most famous Mughal commander, Aurangzeb's elder sister Roshanara appropriated his seal to ensure that he would not authorize, initiate or involve himself in any possible war of succession[18]. When Shah Jahan's second son Shah Shuja declared himself emperor in Bengal. Imperial armies sent by the heir apparent Dara Shikoh and Shah Jahan were quick to restrain this effort, and Shah Shuja retreated to Bengal.
Soon after, Shah Shuja's youngest brother Murad Baksh, with secret promises of support from Aurangzeb, declared himself emperor in Gujarat. Aurangzeb, ostensibly in support of Murad Baksh, and marched north from Aurangabad, gathering support from his allied nobles and generals. Following a series of victories, Aurangzeb declared that Dara Shikoh had illegally usurped the throne. Shah Jahan, determined that Dara Shikoh would succeed him, handed over control of the empire to him. A Rajput named Raja Jaswant Singh, was defeated by Aurangzeb at Dharmatpur near Ujjain and then concentrated his forces and attention on defeating his elder brother Dara Shikoh. A series of bloody battles followed, with troops loyal to Aurangzeb defeating Dara Shikoh's armies particularly during the Battle of Samugarh. In a few months, Aurangzeb's forces surrounded the Mughal capitol city of Agra. Fearing for his life, Dara Shikoh departed for Delhi, leaving Shah Jahan behind. After Aurangzeb shut down the Sakia that supplied water to the city, the aged emperor surrendered the Agra Fort to the besieging forces, but Aurangzeb refused any meeting with his father and instead met with the recently arrived Ottoman ambassador Manzada Husein Agha, explaining his rise to the throne, the ambassador propitated Aurangzeb to bring an end to the internal conflict among the Mughals.[19]
Later, Aurangzeb declared that his brother and Mughal heir apparent Dara Shikoh was no longer a Muslim, Aurangzeb also accused Dara Shikoh of poisoning the Mughal Grand Vizier Saadullah Khan, during the reign of Shah Jahan, both of these statements however remained contrary to any factual evidence. After being betrayed by his own commander, Dara Shikoh and his son Suleiman Shikoh were captured by Mughal forces and then paraded in silver chains inside the city of Agra causing considerable distress among the locals, later both of them were executed by the orders of the new Mughal Emperor Aurangzeb.
In a sudden reversal, Aurangzeb arrested his brother and long time ally Murad Baksh, whose supporters defected to Aurangzeb in return for rich gifts.[20] Meanwhile, Dara gathered his forces, and moved to the Punjab. The army sent against Shuja was trapped in the east, its generals Jai Singh and Diler Khan, submitted to Aurangzeb, but allowed Dara's son Suleman to escape. Aurangzeb offered Shah Shuja the governorship of Bengal. This move had the effect of isolating Dara Shikoh and causing more troops to defect to Aurangzeb. Shah Shuja, who had declared himself Mughal Emperor in Bengal began to annex more territory prompting Aurangzeb to march from Punjab with a new and large army that fought during the Battle of Khajwa, where Shah Shuja and his Chain mail armored War elephants were routed by the forces loyal to Aurangzeb. Shah Shuja then fled to Arakan (in present-day Burma), where he was executed by the local rulers.[21] Murad Baksh was finally executed, ostensibly for the murder of his former divan clerk named Ali Naqi, in 1661.[22]
With Shuja and Murad disposed of, and with his father Shah Jahan immured in Agra, Aurangzeb pursued Dara Shikoh, chasing him across the north-western bounds of the empire. After a series of battles, defeats and retreats, Dara Shikoh was betrayed by one of his generals, who arrested and bound him. In 1659, Aurangzeb arranged his formal coronation in Delhi. He had Dara Shikoh openly marched in chains back to Delhi where he had him executed on arrival on the 30th of August, 1659. Having secured his position, Aurangzeb kept his frail father Shah Jahan at the Agra Fort where Shah Jahan died in 1666 and was denied a state funeral.
پس ثابت ہوا کہ نہ تو یہ اسلام اور کفر کی جنگ تھی اور نہ ہی نیکی اور بدی کی بلکہ اقتدار کے بھوکے بھائی کتوں کی طرح آپس میں لڑ مر رہے تھے۔ اورنگزیب نے دارا شکوہ اور شجاع کو اقتدار حاصل کرنے کے لیے قتل کیا اور باپ کو بھی محض اس لیے زندان میں ڈال دیا تا کہ سلطنت پر قابض ہو سکے اور تب تک باپ کو جیل کی کوٹھڑی میں رکھا جب تک وہ مر نہ گیا لیکن اس قدر رحم دل تھا کہ باپ کو جس کوٹھڑی میں قید کیا اس کے ایک روشن دان سے تاج محل نظر آتا تھا جس پر اس نے باپ سے کہا "لے تُو نے بڑے ارمان سے میری ماں کا مقبرہ تاج محل بنوایا تھا، اب مرتے دم تک دیکھتا رہ اس مقبرے کو" اور جب باپ مر گیا تو "مر گیا مردود، فاتحہ نہ درود" کے مصداق اس کی میت کو بھی کسی قسم کا شاہی پروٹوکول دینے سے انکار کر دیا۔​
اور ہاں سب سے چھوٹے بھائی مراد کو (جس نے باقی دو بھائیوں کو قتل کرنے میں اورنگزیب کا حتل الوسع ساتھ دیا تھا) بھی دھوکے سے قتل کر دیا تا کہ مستقبل میں اقتدار کی کسی ممکنہ جنگ کا ٹنٹا ہی ختم ہو جائے۔​
اب آتے ہیں ذرا اورنگزیب کی بیویوں کے ناموں کی جانب جو یہ بتاتے ہیں کہ نام نہاد ولی اللہ کس قبیل کا شخص تھا کہ جسے جو لڑکی خوبصورت لگی اسے پکڑ کر بیوی بنا لیا خواہ وہ ہندو ہو خواہ مسلمان:​
  1. راج بائی
  2. دلرس بانو
  3. ہیرا بائی
  4. اورنگ آبادی
  5. اُدے پوری
کیا لاکھوں مربع میل پر پھیلی سلطنت میں موجود کروڑوں مسلمان لڑکیوں پر اس کی نظرِ انتخاب نہ ٹھہر سکتی تھی؟ مگر بادشاہ تو بادشاہ ہیں جی۔ :)

کیا ہمیں یہ دعا کرنی چاہیے کہ اورنگزیب کو نیک اور فرشتہ صفت ماننے والوں کو اللہ تعالیٰ اورنگزیب کی تقلید کی توفیق عطا فرمائے۔
خبردار! کوئی میرے متعلق یہ گھٹیا بد دعا نہ کرے۔۔۔ اللہ میرے بھائیوں اور والد کو لمبی صحت والی زندگیاں عطا فرمائے اور اگر خدانخواستہ ایسا کوئی موقع آئے تو مجھے توفیق دے کہ ان کی حفاظت کے لیے میں اپنی جان دے سکوں۔ آمین!
 

عسکری

معطل
لیجیے جناب "بڑے بوڑھے اور بڑی بوڑھیاں" اب تک تو ہر معاشرے میں قابل احترام مانے جاتے تھے، آج ان محترمہ کو یہ الفاظ "قابلَ اعتراض" اور پرسنل اٹیک" لگنے لگے۔ اور جو صاحبان اس محفل میں یہاں موجود ہی نہیں (جمیل الرحمٰن اور رفیع رضا) ان کی غیر موجودگی میں ان پر حملے کرنا بے حد ادبی حرکت ہے۔ ہے نا؟:)
یہ تو کچھ بھی نہیں اس ایم ایس سروس میں جو پی ٹی اے نے قابل اعتراض لسٹ بنا کر بین کر دیے ہیں ان کے مقابلے میں ھھھھھھھھھھھھھھھ
 
دور حکومت ( 1658ء تا 1707ء) مغلیہ خاندان کا شہنشاہ ۔ نام محی الدین ۔ اورنگزیب لقت، اس کے والد شاہجہان نے اسے عالمگیر کا خطاب دیا۔ 3 نومبر ،1618ء کو مالوہ کی سرحد پر پیدا ہوا۔ اس کی والدہ ارجمند بانو بیگم تھیں۔ جو ممتاز محل کے نام سے مشہور تھیں۔ اورنگ زیب کی عمر دو سال کی تھی کہ شاہجہان نے اپنے باپ جہانگیر کے خلاف بغاوت کردی ۔ اور بیوی بچوں کو لے کر چار سال تک بنگال اور تلنگا میں پھرتا رہا۔ آخر جہانگیر کے کہنے پر اپنے بیٹوں داراشکوہ اور اورنگ زیب کو دربار میں بھیج کر معافی مانگ لی۔ جہانگیر نےدونوں‌بچوں کو ملکہ نورجہاں کی نگرانی میں بھیج دیا۔
اورنگزیب کو سید محمد، میر ہاشم اور ملا صالح جیسے علام کی شاگردی کا موقع ملا۔ مغل بادشاہوں میں اورنگزیب عالم گیر پہلا بادشاہ ہے جس نے قرآن شریف حفظ کیا اور فارسیمضمون نویسی میں نام پیدا کیا۔ اس کے علاوہ گھڑ سواری ، تیراندازی ، اور فنون سپہ گری میں بھی کمال حاصل کیا۔ سترہ برس کی عمر میں 1636ء دکن کا صوبیدار مقرر ہوا۔ اس دوران میں اس نے کئی بغاوتوں کو فرو کیا۔ اور چند نئے علاقے فتح کیے۔ بلخ کے ازبکوں کی سرکوبی جس جوانمردی سے کی اس مثال تاریخ عالم میں مشکل سے ملے گی۔
شاہجہان کی بیماری کے دوران میں داراشکوہ نے تمام انتظام حکومت اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ دارا کی اس جلدبازی سے شاہجہان کی موت کی افواہیں پھیلنے لگیں اور ملک میں ابتری پھیل گئی ۔ شاہ شجاع نے بنگال میں اپنی بادشاہت قائم کرلی اور آگرہ پر فوج کشی کے ارادے سے روانہ ہوا۔ بنارس کے قریب دارا اور شجاع کی فوجوں میں‌جنگ ہوئی جس میں دارا کو فتح اور شجاع کو شکست ہوئی۔ اورنگزیب نے مراد سے مل کر داراکے مقابلے کی ٹھانی۔ اجین کے قریب دنوں فوجوں کا آمنا سامنا ہوا۔ اورنگزیب عالمگیر کو فتح ہوئی۔ ساموگڑھ کے قریب پھر لڑائی ہوئی جس میں اورنگزیب کو دوبارہ کامیابی ہوئی۔
اورنگزیب ابوالمظفر محی الدین کے لقب سے تخت پر بیٹھا اس نے ہندوؤں اور مسلمانوں کی فضول رسمیں ختم کیں اور فحاشی کا انسداد کیا اور خوبصورت مقبروں کی تعمیر و آرائش ممنوع قرار دی۔ قوال ، نجومی ، شاعر موقوف کر دیتے گئے۔ شراب ، افیون اور بھنگ بند کردی ۔ درشن جھروکا کی رسم ختم کی اور بادشاہ کو سلام کرنے کا اسلامی طریقہ رائج کیا۔ سجدہ کرنا اور ہاتھ اٹھانا موقوف ہوا۔ سکوں پر کلمہ لکھنے کا دستور بھی ختم ہوا۔ کھانے کی جنسوں پر ہرقسم کے محصول ہٹا دیے۔ 1665ء میں آسام ، کوچ بہار اور چٹاگانگ فتح کیے اور پرتگیزی اور فرنگی بحری قزاقوں کا خاتمہ کیا۔ 1666ء میں سرحد کے شاعر خوشحال خان خٹک کی شورش اور متھرا اور علیگڑھ کے نواح میں جاٹوں کی غارت گری ختم کی۔ نیز ست نامیوں کی بغاوت فرو کی ۔ سکھوں کے دسویں اور آخری گرو گوبند سنگھ نے انند پور کے آس پاس غارت گری شروع کی اور مغل فوج سے شکست کھا کر فیروز پور کے قریب غیر آباد مقام پر جا بیٹھے۔ جہاں بعد میں مکتسیر آباد ہوا۔ عالمگیر نے انھیں اپنے پاس دکن بلایا یہ ابھی راستے میں تھے کہ خود عالمگیر فوت ہوگیا۔


اورنگزیب قرآن پاک پڑھتے ہوئے
عالمگیر نے 1666ء میں راجا جے سنگھ اور دلیر خان کو شیوا جی کے خلاف بھیجا۔ انھوں نے بہت سے قلعے فتح کر لے۔ شیواجی اور اس کا بیٹا آگرے میں نظربند ہوئے۔ شیواجی فرار ہو کر پھر مہاراشٹر پہنچ گیا۔ اور دوبارہ قتل و غارت گری شروع کی۔ 1680ء میں شیواجی مرگیا تو اس کا بیٹا سنبھا جی جانشین ہوا یہ بھی قتل و غارت گری میں مصروف ہوا۔ عالمگیر خود دکن پہنچا۔ سنبھا جی گرفتار ہو کر مارا گیا ۔ اس کا بیٹا ساہو دہلی میں نظربند ہوا۔ دکن کا مطالعہ کرکے عالمگیر اس نتیجے پرپہنچا کہ بیجاپور اور گولکنڈا کی ریاستوں سے مرہٹوں کو مدد ملتی ہے اس نے 1686ء میں بیجاپور اور 1687ء میں گولگنڈا کی ریاستیں ختم کر دیں۔ اس کے بعد مرہٹوں کے تعاقب میں‌ ہندوستان کے انتہائی جنوبی حصے بھی فتح کر لیے۔ مغلیہ سلطنت پورے ہندوستان میں پھیل گئی۔
عالمگیر احمد نگر میں بیمار ہوا اور 3 مارچ، 1707ء کو نوے برس کی عمر میں فوت ہوا۔ وصیت کے مطابق اسے خلد آباد میں فن کیا گیا۔ خلدآباد سے قریب ایک مقام ہے جس کا نام اورنگ آباد ہے، اورنگ آباد میں اورنگ زیب کی مختلف یادگاریں آج بھی محفوظ ہیں۔ بڑا متقی ، پرہیز گار ،مدبر اور اعلیٰ درجے کا منتظم تھا۔ خزانے سے ذاتی خرچ کے لیے ایک پائی بھی نہ لی۔ قرآن مجید لکھ کر ٹوپیاں سی کر گزارا کرتا تھا۔ سلجھا ہوا ادیب تھا۔ اُس کے خطوط رقعات عالمگیر کے نام سے مرتب ہوئے۔ اس کے حکم پر نظام سلطنت چلانے کیلیے ایک مجموعہ فتاوی تصنیف کیا گیا جسے تاریخ میں فتاوی عالمگیری کہا گیا۔ فتاویٰ عالمگیری فقہ اسلامی میں ایک ممتاز مقام رکھتی ہے۔ بعض علما نے سلطان اورنگزیب کو اپنے دور کا مجدد بھی قرار دیا۔ پانچ بیٹے اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں‌۔ مشہور شاعر زیب النساء مخفی ان کی دختر تھیں۔ بیٹا محمد معظم باپ کی سلطنت کا وارث ہوا۔
 
اسلام کی تاریخ کو اٹھا کر دیکھئے‘ آپ کو کئی ایسے خدا ترس، نیک اور پارسا بادشاہ ملیں گے جنہوں نے خود کو حاکم نہیںسمجھا بلکہ سب سے بڑے حاکم خدائے بزرگ و برتر، اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق زندگی گزاری۔ مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر بھی انہی نیک حکمرانوں میں سے تھا، اصلی نام محی الدین تھا۔ مغل بادشاہ میں سب سے پہلا بادشاہ ہے جسے قرآن مجید حفظ تھا، فارسی مضمون نویسی، گھڑ سواری، تیر اندازی اور فنون سپہ گری میں کمال درجے کا ماہر تھا۔ اس کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ مملکت کے خزانوں پر اختیار کے باوجود ایک پیسہ بھی اپنے مصرف میں نہ لاتا، اپنی گزر اوقات کلام مجید لکھ کر اور ٹوپیاں بُن کر کیا کرتا تھا، اورنگزیب نے نظام سلطنت کو مستحکم کیا اور رفاحی و فلاحی اور علمی کام کرائے۔
 
کاکروچ برطانیہ کے کاکروچ مؤرخوں نےاورنگ زیب عالمگیر کے خلاف اپنے روائتی کاکروچ جھوٹ بول کر مسلمانوں اور ھندوؤں میں بد گمانی اور نفرت پیدا کیاور اس طرح پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو کی بنیاد رکھی
 
اورنگ زیب عالمگیر ایک مصلح اور دور اندیش حکمران
فرانکوس برنیئر، جو کہ فرانس کے مشہور سیاح گزرے ہیں، نے 1657 سے لے کر 1668 کے دوران ہندوستان کا سفر کیا۔ اس وقت برصغیر پر اورنگ زیب عالمگیر (d. 1707) کی حکومت تھی جو کہ ہندوستان کے آخری مضبوط بادشاہ ہوئے ہیں۔ جب اورنگ زیب ہندوستان کے شہنشاہ بنے، تو ان کے ایک استاذ دربار میں اعلی عہدے کی آرزو لئے بادشاہ کے پاس آئے اور ان کی خوشامد شروع کر دی۔
اورنگ زیب نے اپنے استاذ سے اس زمانے کے تعلیمی نظام کے مسائل پر گفتگو کی۔ ان کے خیالات سے ہمارے نظام تعلیم کی خامیاں بھی سامنے آ جاتی ہیں۔ پچھلے ساڑھے تین سو برس میں یہ صورتحال بہتر نہیں ہو سکی ہے۔ برنیئر جو کہ اس موقع پر موجود تھے، اورنگ زیب کی تقریر کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ملا جی! کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ میں آپ کو سلطنت کا اعلی ترین عہدہ دے دوں؟ تو آئیے ہم آپ کے ممتاز مقام کا جائزہ لیتے ہیں۔ مجھے اس سے انکار نہیں ہے کہ آپ اس عہدے کے حق دار تھے اگر آپ نے میرے ناپختہ ذہن میں کام کی معلومات کی آبیاری کی ہوتی۔ آپ مجھے ایک بھی اعلی تعلیم یافتہ نوجوان سے ملا دیجیے تو میرے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گا کہ اس کی تعلیم میں اس کے باپ کا حصہ زیادہ ہے یا اس کے استاذ کا۔ میں نے آپ کے زیر تعلیم رہ کر کیا علم حاصل کیا؟
آپ نے مجھے یہ بتایا تھا کہ فرنگستان (اس دور میں پورے یورپ کو فرنگستان کہا جاتا تھا) محض ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے جہاں سب سے زیادہ طاقتور بادشاہ پرتگال کا تھا، اس کے بعد ہالینڈ کا بادشاہ طاقتور ہوا اور اب انگلینڈ کا بادشاہ سب سے زیادہ طاقتور ہے۔ یورپ کے دیگر فرمانرواؤں جیسے اسپین اور فرانس کے بادشاہ کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ وہ ہمارے چھوٹے موٹے راجاؤں کی طرح ہیں۔
آپ نے فرمایا کہ ہندوستان کے شہنشاہ پوری دنیا سے زیادہ عظیم اور باجبروت ہیں۔ صرف یہی ہیں جو کہ ہمایوں، جہانگیر اور شاہ جہاں ہوئے۔ یہی وہ عظیم بادشاہ ہیں جنہوں نے پوری دنیا کو فتح کیا اور ساری دنیا کے بادشاہ ان کے باجگزار ہیں۔ ایران، ازبکستان، تاتارستان، برما، پیگو، تھائی لینڈ، چین اور ملائشیا کے بادشاہ تو ہندوستان کے بادشاہ کا نام سن کر ہی کانپنے لگتے ہیں۔
آپ کا علم جغرافیہ قابل تعریف ہے۔ تاریخ پر آپ کی نظر بہت ہی گہری ہے۔ کیا میرے استاذ کے لئے یہ ضروری نہیں تھا کہ وہ مجھے روئے زمین کی ہر قوم کی خصوصیات سے آگاہ کرتا؟ ہر قوم کے وسائل کیا ہیں؟ اس کی قوت کس چیز میں پوشیدہ ہے؟ اس کی جنگ کا طریقہ کیا ہے؟ اس کا مذہب اور اخلاق و آداب کیا ہیں؟ اس ملک میں کس طرز کی حکومت قائم ہے اور اس کے مفادات کہاں کہاں واقع ہیں؟ تاریخ کے مسلسل مطالعے کے ذریعے آپ کو مجھے اس بات سے آگاہ کرنا تھا کہ حکومتیں کس طرح بنتی ہیں، انہیں کس طرح عروج حاصل ہوتا ہے اور وہ کن عوامل کے باعث زوال پذیر ہوا کرتی ہیں۔ ایسے کون سے واقعات، حوادث اور غلطیاں ہوا کرتی ہیں جن کی بدولت بڑی تبدیلیاں اور عظیم انقلاب رونما ہوا کرتے ہیں؟
انسانیت کی تاریخ کا یہ تفصیلی علم تو بہت دور کی بات ہے، میں تو آپ سے اپنی اس سلطنت کے بانیوں اور اپنے آباؤاجداد کے نام تک نہیں سیکھ سکا۔ آپ نے مجھے ان کی زندگیوں سے مکمل طور پر لاعلم رکھا۔ ان پر کیا واقعات گزرے؟ اور ان کی وہ کیا غیر معمولی صلاحیتیں تھیں جن کی بدولت انہوں نے بے پناہ فتوحات حاصل کیں؟ یہ سب آپ نے مجھے نہیں بتایا۔
ایک بادشاہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے گرد و نواح میں بسنے والی اقوام کی زبانوں سے واقف ہو۔ آپ نے مجھے عربی پڑھنا اور لکھنا سکھائی۔ آپ نے میری زندگی کا بڑا حصہ ایسی زبان کی تعلیم میں صرف کر دیا جسے دس سے بارہ سال تک استعمال کئے بغیر کوئی شخص بھی اس میں مہارت کا دعوی نہیں کر سکتا۔۔۔۔
ایک شہزادے کی تعلیم میں کیا کیا مضامین پڑھائے جانے چاہییں۔ آپ نے اسے مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے اسے ضروری قرار دیا کہ اس شہزادے کو صرف و نحو اور فقہ میں مہارت حاصل ہونی چاہیے۔ اس علم کی ضرورت ایک قاضی کو تو ہو سکتی تھی مگر آپ نے میری جوانی کا بہترین وقت الفاظ کو سیکھنے کے اسی خشک اور بے فائدہ میں ضائع کر دیا۔
آپ نے میرے والد، شاہ جہاں کو بتایا کہ آپ مجھے فلسفے کی تعلیم دے رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ کے علم کو میں کئی سال تک رٹتا رہا جس کے نتیجے میں بے کار اور احمقانہ مسائل میرے دماغ کو چھلنی کرتے رہے۔ ان مسائل کے حل سے کوئی ذہنی سکون حاصل نہ ہو سکتا تھا۔ ان مسائل کا کوئی تعلق عملی زندگی سے نہ تھا۔ ان مشکل اور فضول مسائل کو انتہائی محنت سے سمجھا جا سکتا تھا اور جیسے ہی یاد کر لیا جاتا، یہ ذہن سے فوراً محو ہو جاتے تھے۔ اس کا نتیجہ سوائے ذہنی مشقت اور عقل کی تباہی کے اور کچھ نہ تھا۔ اس کے نتیجے میں ایک شخص باغی اور ذہنی مریض ہی بن سکتا تھا۔ (ان کے فلسفے میں ہمارے فلسفے سے بھی زیادہ نامعقول اور احمقانہ تصورات موجود تھے، برنیئر)
جی ہاں، آپ نے میری زندگی کے قیمتی ترین سال اپنے پسندیدہ مسائل اور نظام میں کھپا دیے اور جب میں آپ سے فارغ التحصیل ہوا تو ان فضول اور نامعقول اصطلاحات کے ساتھ اہم علوم میں کوئی کامیابی حاصل نہ کر سکتا تھا۔ یہ اصطلاحات تو ایک نوجوان کی مردانہ صلاحیتوں کو زنگ لگا دینے اور اس کے حوصلوں کو پست کر دینے کے لئے کافی تھیں۔ (ان کے فلسفی ہمارے فلسفیوں سے زیادہ الٹے سیدھے تصورات پیش کیا کرتے تھے، برنیئر)۔
فلسفے کی یہ اصطلاحات اس لئے ایجاد کی گئیں تاکہ فلسفے سے ناآشنا افراد پر جھوٹا رعب جمایا جا سکے۔ آپ کے جیسے حضرات یہ خیال دوسروں پر مسلط کرتے ہیں کہ صرف ہمیں ہی ایسی حکمت و دانش حاصل ہے۔ ان کا فلسفے کا یہ ذخیرہ تاریک اور غیر واضح ہے جو ان پراسرار علوم کو چھپائے ہوئے ہے جو صرف ان فلسفیوں ہی کو معلوم ہیں۔
اگر آپ نے مجھے ایسے فلسفے کی تعلیم دی ہوتی جو کہ ذہن کو معقول انداز میں سوچنے کے قابل بناتا اور صرف مضبوط دلائل کی بنیاد پر ہی مطمئن ہو سکتا، اگر آپ نے مجھے ایسا سبق دیا ہوتا جو کہ روح کا تزکیہ کرتا اور اسے اتنا مضبوط بناتا کہ یہ تقدیر کے لکھے ہوئے کو باآسانی سہہ جائے، اگر آپ مجھے انسان کی فطرت سے ہی آگاہ کر دیتے، مجھے کائنات کی فطرت کے بنیادی اصولوں سے ہی روشناس کروا دیتے، آفاق کا حقیقی اور یقینی علم مجھے عطا کرتے اور یہ بتا دیتے کہ اس کائنات کے مختلف حصے کس طرح ایک ترتیب کے ساتھ حرکت میں ہیں، تو میں آپ اس سے زیادہ احسان مند ہوتا جیسا کہ اسکندر، ارسطو کا احسان مند تھا۔ میں آپ کو اس سے کہیں مختلف انعام دیتا جو ارسطو کو اسکندر سے ملا تھا۔
میری خوشامد کرنے والے استاذ صاحب! مجھے جواب دیجیے۔ کیا آپ کی یہ ذمہ داری بھی نہ تھی کہ کم از کم زندگی میں ایک ہی بار مجھے وہ علوم ہی سکھا دیے ہوئے جو کہ ایک بادشاہ کے لئے ضروری ہیں۔ آپ مجھے یہی بتا دیتے کہ مستقبل میں مجھے اپنی بقا اور تخت و تاج کے لئے اپنے ہی بھائیوں کے خلاف تلوار اٹھانا پڑے گی۔ یہ بات تو اتنی معروف ہے کہ ہندوستان کے ہر بادشاہ کے بیٹوں کا مقدر یہی بن چکا ہے۔
کیا آپ نے کبھی بھی مجھے جنگی علوم کی تعلیم دی؟ کسی شہر کا محاصرہ کیسے کرنا ہے؟ میدان جنگ میں افواج کو کس طرح ترتیب دینا ہے؟ یہ میری خوش نصیبی ہے کہ ان معاملات میں میں نے آپ سے زیادہ عقل مند دماغوں سے مشورہ کر لیا۔ اب بہتر یہی ہے کہ آپ اپنے گاؤں تشریف لے جائیں تاکہ کسی شخص کو یہ معلوم نہ ہو سکے آپ کیا ہیں اور آپ کے علم کے نتائج کیا ہیں۔
(فرانکوس برنیئر، مغل سلطنت میں سفر سے اقتباسات، ترجمہ: محمد مبشر نذیر)
غور فرمائیے!
· مغل بادشاہ اور نیک سیرت و دور اندیش حکمران نے اپنے دور کے تعلیمی نظام میں موجود جن خامیوں کا ذکر کیا ہے، ان کی ایک فہرست تیار کیجیے۔
· ہمارے آج کے نصاب تعلیم میں کیا اصلاحات درکار ہیں؟
 
ہم امت ِ محمدی ، غلامان ِ مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہیں سو ہم اسلام دشمن ہندوآتہ اور گستاخ ِ قرآن ِ حکیم قادیانیت کے زندیقوں کی مینیجمنٹ کے تحت چلنے والی کی بھارتی ویب سائٹ http://www.destinationinfinity.org پر شائع کی جانے والی من گھڑت اسلام دشمن تاریخ اور اکابرین ِ دین و ملت کے بارے بال ٹھاکرے زدہ مواد کو بھی مرزا غلام احمق قادیانی کی لغو و اسلام دشمن شیطانی تحریروں کی طرح ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتے ہیں
 

شمشاد

لائبریرین
شمشاد بھائی! حیرت ہے کہ جب تک لوگ ہماری ہاں میں ہاں ملاتے رہیں یا ہمارے خیالات کی تائید کرتے رہیں وہاں تک ہمیں وہ مزے کی بات چیت لگتی ہے اور جونھی کسی نے اختلافی نکتہ اٹھایا یا جہاں کسی کے تلخ تبصروں پر دوسرا "سلاما" کہہ کر اٹھ جائے وہاں ہمارا مزا کرکرا ہو جاتا ہے۔ حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں

فاتح بھائی یہ آپ کی غلط فہمی ہے کہ کوئی میری ہاں میں ہاں ملائے تو میں اس کی تائید کروں گا۔

آپ ایک دفعہ چھوڑ کر دس دفعہ اختلاف کریں لیکن اختلاف کرنے کا کچھ اصول ہونا چاہیے۔ یہ نہیں کہ ایکدم اٹھا کر طعنے دینے شروع کر دیں۔

آپ خود ہی انصاف کیجیے گا کہ فاروق صاحب اور حماد بھائی کی گفتگو سیاق و سباق سے ہو رہی تھی اور کہاں آپ کا مراسلہ، اور آخر میں "سلاما"، میں دہرانا نہیں چاہتا۔

آپ کی اطلاع کے لیے عرض کرتا چلوں کہ اردو محفل کی انتظامیہ بالکل غیرجانبدار ہے۔

اور عمران کے لیے، یہ ایک سنجیدہ موضوع ہے، اس پر اگر تو سنجیدگی سے حصہ لینا ہے تو بصد شوق، ورنہ آجکل کے ایس ایم ایس وغیرہ کا حوالہ دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔
 
غیر مسلم مورخین اور مسلم حکمراں ایک تجزیہ
ہندوستان میں عام طور اسلام، مسلمان، قرآن، شریعت، پردہ، جہاد، دہشت گردی، جیسے اسلام اورمسلمانوں سے جڑے کئی عنوانات مستقل طور پر زیر بحث رہتے ہیں اور ان بحثوں میں زیادہ تر مباحث جو اسلام اور مسلمانوں سے متعصب ہوتی ہیں ، انہیں میڈیا میں بہترین مقام حاصل رہتا ہے۔ لیکن کئی ایسی حقیقتیں بھی ہیں جو ہندوستان میں مسلمانوں کی سچائی ، حق پرستی کی گواہی دیتی نظر آتی ہے۔ کئی جرنلسٹ ماہرین و دانشوران ایسے بھی گزرے ہیں، جنہوں نے اس حقیقت کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ اسلام اور مسلمان، ہندوستان کی تعمیر و ترقی میں ایک کلیدی رول رکھتے ہیں۔ ایسے حقیقت پسندانہ دانشوران میں ڈاکٹر شمبھو ناتھ پانڈے (1906-1998) بھی ہیں، جو ایک ماہر و مورخ کی حیثیت سے معروف ہستی ہیں، وہ اپنے دور میں اترپردیش کے MLC,MLA رہ چکے ہیں۔ ریاست اڑیسہ کے گورنر بھی رہ چکے ہیں۔ پدم شری ایوارڈ یافتہ ہیں، کئی ایک کتابیں بھی آپ نے تحریر فرمائیں۔ مہاتما گاندھی اور جواہر لال نہرو کے خاص ساتھیوں میں آپ کا بھی نام آتا ہے۔ڈاکٹر پانڈے نے ایک دفعہ اینگلو بنگالی کالج الہ آباد کی تاریخ کی کتاب کا مطالعہ کیا، جس کے مصنف ڈاکٹر ہرپرشاد شاستری، جو کلکتہ یونیورسٹی کے صدر شعبہ سنسکرت تھے، اس کتاب میں ٹیپو سلطان (1750-1799) کے تعلق سے یہ لکھا گیا کہ ’’ٹیپو سلطان نے 3000برہمنوں کو زبردستی اسلام قبول کروانے کی کوشش کی، جس کی وجہ سے ان تمام برہمنوں نے اجتماعی خود کشی کرلی‘‘۔ ایسا گھنونا الزام شیر میسور کے نام، جنہوں نے انگریزوں کے خلاف لڑتے لڑتے اپنی جان قربان کردی، جنہوں نے اپنی زندگی میں کبھی بھی ذات پات کا فرق نہ کیا، جن کے کمناڈر ان چیف اور وزیراعظم برہمن تھے، جن کی سلطنت کے 136ہندومنادر کی فہرست آج بھی موجود ہے، جنہیں شاہی خزانے سے سالانہ امداد حاصل تھی۔شاستری صاحب کی لکھی ہوئی زہر آلود کتاب کو آسام، بنگال،بہار، اڑیسہ ،اترپردیش اور راجستھان، مدھیہ پردیش میں ہائی اسکول کی سطح پر پڑھایا جارہا تھا، ڈاکٹر پانڈے کی جانب سے توجہ دلانے پر جناب اشوتوش چودھری وائس چانسلر کلکتہ یونیورسٹی نے اس کتاب کو کورس سے خارج کردیا۔ لیکن ڈاکٹر پانڈے 1972 میں یہ دیکھ کر چونک اٹھے کہ برہمنوں کی خودکشی کی جھوٹی کہانی اترپردیش میں تحتانوی سطح پر مضمون تاریخ میں پڑھاکر معصوم ذہنوں میں مسلمانوں کے خلاف زہربھرا جارہا ہے۔ایک اورحکمراں جن کاتعلق مغلیہ سلطنت سے ہے، جن کا نام اورنگ زیب ہے، 1618 میں پیدا ہوئے، ان کی سلطنت 1658-1707 تک رہا۔ جن پر یہ الزامات عائد کیے جاتے ہیں کہ ’’یہ ایک ظالم و جابر بادشاہ، غیر مسلموں سے تعصب رکھنے والے، بنیاد پرست و ظالم مسلم حکمراں تھے‘‘۔ ان سنگین غلط فہمیوں پر ڈاکٹر پانڈے نے تحقیق انجام دی۔ ڈاکٹر پانڈے 1948-1953 کے دوران بحیثیت میونسپل چیرمین الہ آباد بھی رہے، ان دنوں دو مندروں کے پجاریوں کے درمیان اراضی سے متعلق جھگڑا پیش آیا۔ جن میں سے ایک پجاری نے حقائق کے طور پر شاہی احکامات جو اورنگ زیب کے دور میں جاری کیے تھے، پیش کیے۔ ڈاکٹر پانڈے ان شاہی احکامات کی صداقت کی جانچ کے لیے اپنے دوست سرتیج بہادر سپرو کو کہا، جو ایک قانون داں اور عربی و فارسی سے واقفیت رکھتے تھے، اور وہ ایک برہمن بھی تھے۔ سرتیج بہادر نے شاہی احکامات کے فرامین کی جانچ مکمل کی اورنتیجہ اخذ کیا کہ یہ اورنگ زیب کی جانب سے جاری کردہ شاہی حکم ہے۔ڈاکٹرپانڈے کے لیے اب اورنگ زیب کی ایک نئی تصویراجاگر ہوئی۔ تب ہی انہوں نے ہندوستان کے مختلف اہم منادر کے پجاریوں کومکتوب لکھا کہ اورنگ زیب کی جانب سے جاری کردہ شاہی احکاماتی فرامین اگر کہیں موجود ہوں تو تو ان احکامات کی نقلیں (Photo copy) براہ کرم انہیں روانہ کریں۔ جس کے بعد کئی ہندو منادر، جین منادر، سکھوں کے گرودواروں سے اورنگ زیب کے شاہی احکاماتی فرامین کی نقلیں ڈاکٹرپانڈے کو موصول ہوئیں، جو 1659-1685 کے دور سے تعلق رکھتی تھیں، جن میں یہ تذکرہ تھا کہ شاہی خزانہ سے ان تمام منادر کے اخراجات کو پورا کیا جائے اور ترقیاتی کاموں میں پیشرفت کی جائے۔سب سے سنگین الزام جو اورنگ زیب پر لگایا جاتا ہے وہ وشوناتھ مندر کوڈھانے کے متعلق ہے، جس کی حقیقت کچھ اس طرح ہے کہ جب اورنگ زیب اپنے لشکر کو لے کر بنگال کی جانب وارانسی کے مقام سے گزر رہے تھے، وہاں کے ہندو راجاؤں نے آپ سے خواہش کی کہ ایک رات کے لیے وارانسی میںاپنے لشکر کے ساتھ پڑاؤ ڈال لیں، تاکہ ان کی رانیاں گنگا میں غسل کی رسم کو پورا کر کے وشواناتھ مندر میں عبادت کرسکیں۔ اس التجا کو اورنگ زیب نے قبول کرلی اور اپنے لشکر کو حفاظتی انتظامکے لیے وارانسی کے اطراف پانچ میل تک پھیلا دیا۔ تمام رانیاں پالکی میں پہنچ کر گنگا میں غسل کی ، رسم کو ادا کرنے کے بعد وشواناتھ مندر میں عبادت کر کے واپس لوٹ آئیں، سوائے کچھ ، مقام کی رانی کے۔ اورنگ زیب کے اہم کارندے روانہ کیے گئے تاکہ رانی کو تلاش کیا جاسکے۔ تلاش کے دوران یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ مندر میں موجود گنیش کا بت جو ایک حرکت کرنیو الی دیوار سے منسلک تھا، جس کے ہٹنے سے زیر زمین سیڑھیاں نظر آئیں، جس میں ’کچھ‘ کی مہارانی اپنے زیورات کو کھوکر بے عزت و پریشان حالت میں پائی گئیں۔ اس سازش میں وشواناتھ مندر کے تمام پجاری شامل تھے۔ راجاؤں کے مشورے پر اورنگ زیب نے انہیں سزا متعین کی۔ اس کے ساتھ ساتھ وشواناتھ مندر کو دوبارہ ، مسطح زمین سے بہتر تعمیر کی غرض سے ڈھادیا گیا، جس میں موجود بت کو منتقل کیا گیا، یہ فیصلہ اس لیے لیا گیا تاکہ مستقبل میں ایسی سازش کا کسی کو موقع نہ مل سکے۔اب بتائیے کہ اورنگ زیب ایک ظالم بادشاہ تھے یا ایک انصاف پسند اور امنپسند مسلم بادشاہ تھے۔ ایسے ہی کئی حقائق کا تذکرہ ڈاکٹر بی این پانڈے نے اپنی کتاب Islam & Indian Culture میں کرچکے ہیں، جس کے لیے ہم تمام ہندوستانی مشکور ہیں۔ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد کے بعد ہندوستان کی ترقی کی راہ ہموار ہوی، اس کا اندازہ ہم ذیل کے اقوال سے لگاسکتے ہیں۔مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابرنے ہندوستان کی تصویر جو ان کے آمد کے وقت تھی ’تزک بابری‘ میں اس طرح بیان کی ہے۔’’ہندوستان میں اچھے گھوڑے نہیں! اچھا گوشت نہیں، انگور نہیں، خربوزہ نہیں، برف نہیں، حمام نہیں، مدرسہ نہیں، شمع نہیں، شمع دان نہیں، مشعل نہیں، باغوں اور عمارتوں میں آب رواں نہیں ، عمارتوں میں نہ صفائی ہے نہ موزونی، عام آدمی ننگے پاؤں ایک لنگوٹی لگائے پھرتے ہیں، عورتیں دھوتی باندھتی ہیں، جس کا آدھا حصہ کمر سیلپیٹ لیتی ہیں، اورآدھا سر پرڈال لیتی ہیں‘‘۔ہندو تہذیب اور ہندو مذہب پر اسلام کے اثرات کا تدکرہ کرتے ہوئے مشہورفاضل مورخ ڈاکٹر کے ایم پانیکر (K.M Panikar) لکھتے ہیں کہ:’’یہ بات توواضح ہے کہ اس عہد میں ہندو مذہب پر اسلام کا گہرا اثر پڑا، ہندوؤں پر خدا پرستی کا تصور اسلام ہی کی بدولت پیدا ہوا اور اس زمانے کے تمام ہندوپیشواؤں نے اپنے دیوتاؤں کا نام چاہے کچھ بھی رکھا ہو خدا پرستی ہی کی تعلیم دی، یعنی خدا ایک ہے، وہی عبادت کے لائق ہے اور اسی کے ذریعہ ہم کو نجات مل سکتی ہے‘‘۔ (A Survey of Indian History)پنڈت جواہر لال نہرو نے اسلامی اخوت و مساوات کے تحفہ کا اعتراف ان الفاظ میں کیا ہے: ’’شمال مغرب سے آنے والے حملہ آوروں اوراسلام کی آمد ہندوستان کی تاریخ میں کافی اہمیت رکھتی ہے، اس نے ان خرابیوں کو جو ہندو سماج میں پیدا ہوگئی تھیں یعنی ذاتوں کی تفریق، چھوت چھات اورانتہا درجہ کی خلوت پسندی کو بالکل آشکارا کردیا، اسلام کے اخوت کے نظریے اور مسلمانوں کی عملی مساوات نے ہندوؤں کے ذہن پر گہرا اثرڈالا، خصوصاً وہ لوگ جو ہندو سماج میں برابری کے حقوق سے محروم تھے، اس سے بہت متاثر ہوئے (Discovery of India) ہندوستان کے مشہورسیاح ڈاکٹر برنیر نے لکھا کہ ’’آج کل پہلے کہ بہ نسبت ستی کی تعداد کم ہوگئی ہے، کیونکہ مسلمان جو اس ملک کے فرمانرواں ہیں، اس وحشیانہ رسم کو نیست و نابود کرنے میں حتی لمقدور کوشش کرتے ہیں‘‘۔ڈاکٹر گسٹاولی بان اپنی کتاب ’’تمند ہند‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’ہندوستان کے پہلے مروخ مسلمان تھے‘‘۔سابق صدر کانگریس اور جنگ آزادی کے ایک رہنما ڈاکٹر پٹابی سیتا رمیہ نے بھی کانگریس کے اجلاس جے پورمیں اپنے خطبہ صدارت میں ان الفاظ سے کیا:’’مسلمانوں نے ہمارے کلچر کومالامال کیا ہے اور ہمارے نظم و نسق کو مستحکم اور مضبوط بنایا ہے، نیز وہ ملک کے دور دراز حصوں کو ایک دوسرے سے قریب لانے میں کامیاب ہوئے، اس ملک کے ادب اور اجتماعی زندگی میں ان کی چھاپ بہت گہری دکھائی دیتی ہے‘‘۔مشہورہندوستانی مورخ جادو ناتھ سرکار نے مسلمانوں کے عطیات کاتذکرہ کچھ اسطرح کیا’’مسلمانوں کی وجہ سے ہندوستان کا رابطہ خارجی دنیا سے ہوا۔ سیاسی اتحاد، لباس و تمدن کی یکسانی ، ایک مشترک سرکاری زبان اور نثر نگاری کا سادہ اسلوب، مرکزی حکومت کے تحت علاقائی زبانوں کی ترقی تاکہ امن و خوشحالی عام ہو، سمندری راستوں سے بین مملکتی تجارت کی تجدید، ہندوستان کے بحری بیڑہ کی تشکیل۔ایک ہندوستانی فاضل جناب این ایس مہتا (N.S. Mehta) صاحب نے اپنے ایک انگریزی مضمون ’’ہندوستانی تہذیب اور اسلام‘‘ میں اسلام کے فیوض و احسانات کا تذکرہ کچھ اس طرح کیا :’’اسلام یہاں صرف ایک نورانی مشعل لایا تھا، جس نے زمانہ قدیم میں جب کہ پرانے تمدن انحطاط پذیر ہورہیتھے، اور پاکیزہ مقاصد محض ذہنی معتقدات بن کر رہ گئے تھے، انسانی زندگی کو چھائی ہوئی ظلمتوں سے پاک کردیا، دیگرممالک کی طرح ہندوستان میں بھی سیاست سے زیادہ خیالات کے دنیا میں اسلام کی فتوحات کا دائرہ وسیع ہے‘‘۔ان تاریخی حقائق کے پیش نظر صاف ظاہر ہے کہ مسلمانوں نے اس عظیم ملک کو جس قدر فائدہ پہنچایا ہے وہ اس فائدہ سے بہت زیادہ ہے جو ہندوستان نے انہیں پہنچایا۔ مسلمانوں کی آمد اس ملک کی تاریخ میں ایک نئے دور ترقی و خوشحالی کا آغاز تھا، جسے ہندوستان کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔
 

فاتح

لائبریرین
فاتح بھائی یہ آپ کی غلط فہمی ہے کہ کوئی میری ہاں میں ہاں ملائے تو میں اس کی تائید کروں گا۔

آپ ایک دفعہ چھوڑ کر دس دفعہ اختلاف کریں لیکن اختلاف کرنے کا کچھ اصول ہونا چاہیے۔ یہ نہیں کہ ایکدم اٹھا کر طعنے دینے شروع کر دیں۔

آپ خود ہی انصاف کیجیے گا کہ فاروق صاحب اور حماد بھائی کی گفتگو سیاق و سباق سے ہو رہی تھی اور کہاں آپ کا مراسلہ، اور آخر میں "سلاما"، میں دہرانا نہیں چاہتا۔

آپ کی اطلاع کے لیے عرض کرتا چلوں کہ اردو محفل کی انتظامیہ بالکل غیرجانبدار ہے۔

اور عمران کے لیے، یہ ایک سنجیدہ موضوع ہے، اس پر اگر تو سنجیدگی سے حصہ لینا ہے تو بصد شوق، ورنہ آجکل کے ایس ایم ایس وغیرہ کا حوالہ دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔
شمشاد بھائی! میں نے آپ کو بحیثیت فرد مخاطب کیا تھا نا کہ انتظامیہ اردو محفل کو کیونکہ اتنے سالوں میں مجھے کم از کم یہ علم تو ہو ہی چکا ہے کہ انتظامیہ غیر جانبدار ہے۔
اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اختلافات کے اصول ہیں تو انھی اصولوں کی کسوٹی پر ان فاروق نامی حضرت کے تلخ رویے اور گفتگو کو بھی پرکھ لیجیے۔ بات ہو رہی ہے مغل بادشاہوں کی عیاشیوں اور مظالم کی اور یہ حضرت اصل موضوع سے ہٹ کر شروع ہو گئے دوسرے موضوعات پر اپنے دل کی بھڑاس نکالنے۔
 

حماد

محفلین
ممتاز مورخ اور دانشور ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں "عہد وسطیٰ کی ہندوستانی تاریخ کہ جسے مسلم دور حکومت بھی کہا جاتا ہے ، اس نے تاریخ نویسی میں ہندووں اور مسلمانوں کے درمیاں زبردست تفریق پیدا کر کے ، ذہنوں کو زہر آلود کر کے ایک دوسرے کے خلاف نفرت پیدا کر کے ، ایک زبردست متنازعہ شکل اختیار کر لی ہے، اس وجہ سے دونوں جانب سے فرقہ وارانہ نقطہ ہائے نظر رکھنے والے اس عہد کو ایک دوسرے سے مختلف طور پر دیکھتے ہیں . جب ایسٹ انڈیا کمبنی کے ایک ملازم جیمس مل نے "ہسٹری آف برٹش انڈیا " لکھی تو اس نے عہد وسطیٰ کو مسلمانوں کا عہد کہا ، کیونکہ اس دور میں شمالی ہندوستان اور برصغیر کے دوسرے حصوں پر مسلمان حکمران خاندان حکومت کر رہے تھے ، اگرچہ ان کا طرز حکومت کسی لحاظ سے بھی نہ تو اسلامی تھا اور نہ ہی مذہبی . لیکن یہ اصطلاح مسلمان مورخوں کو پسند آ گئی ، اور اب ہماری تاریخ کی کتابوں میں ، یا نصابی کتب میں اسے "مسلم دور حکومت " ہی کہا جاتا ہے . ایک لحاظ سے یہ اصطلاح ہندوستانی مسلمانوں میں فخرکے جذبات بھی پیدا کرتی ہے کہ انہوں نے ایک ہزار سال تک حکومت کی اور ہندووں کو اپنا غلام بناے رکھا . " (گمشدہ تاریخ صفحہ ١٦ اشاعت ٢٠٠٥ فکشن ہاوس لاہور )
یہاں مجھے ایک لطیفہ یاد آ گیا . قیام پاکستان سے پہلے مسلم لیگ کا ایک جلوس آزادی کیلئے نعرے لگاتے ہووے سڑک سے گزرا .
سڑک پر جھاڑو دینے والے ایک بھنگی نے اپنے کولیگ سےاستفسار کیا "یار پیٹر! ، اے مسلے کی کہندے نیں"؟
پیٹر ناز مسیح نے بند نالی میں ڈنڈا چلاتے ہووے شان بے نیازی سے جواب دیا " ساڈے کولوں آزادی منگدے نیں "
مشھور دانشور سبط حسن رقمطراز ہیں "یوں کہنے کو تو اورنگ زیب نے بھی اکبر کی مانند پچاس برس حکومت کی. لیکن اکبری عہد مغلیہ تہذیب کے چڑھتے سورج کا عہد تھا اور عالمگیری عہد ڈھلتے سورج کا - اورنگ زیب کے زمانے میں شریعت کی سخت گیریوں کی وجہ سے فکرو فن اور علم و ادب کے سوتے خشک ہو گئے- اس پر طرفہ تماشا یہ ہوا کہ بادشاہ نے دلی کو خیر باد کہا اور تسخیر دکن میں مصروف ہو گیا .بارے پچیس سال کی لگا تار کوششوں سے یہ مہم تو سر ہوئی لیکن سر شام- ادھر اورنگ زیب کو اجل کا پیام آیا ادھر سلطنت مغلیہ کا آفتاب اقبال رات کی تاریکی میں ہمیشہ کیلئے چھپ گیا .
اورنگ زیب کی کامیابیاں اور ناکامیاں ہمارا موضوع نہیں لیکن اتنی بات تو اسکےبڑے سے بڑے حامی کو بھی ماننی پڑتی ہے علمی اور تخلیقی خدمات میں عالمگیری عہد کا حصہ قریب قریب صفر کے برابر ہے - چنانچہ شیخ محمد اکرام بھی جو عموما مورخ کی بجاے وکیل صفائی کا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں اعتراف کرنے پر مجبور ہیں کہ " اس (عالمگیر ) کا زمانہ فنون لطیفہ کیلئے سازگا نہ تھا". گویا قصور زمانے کا ہے نہ کہ اورنگ زیب کا . ان کو اس بات کا بھی بڑا قلق ہے کہ "شریعت اور علوم اسلامی کی اشاعت" کے باوجود پچاس سال کے طویل عرصے میں نہ تو شیخ عبدالحق محدث یا امام الہند شاہ ولی الله جیسا جید عالم اور نہ ہی حضرت سلطان المشائخ یا حضرت مجدد الف ثانی جیسا کوئی زبردست شیخ نظر آتا ہے " لیکن اس قحط الرجال کو بھی وہ "قدرت کی نیرنگیاں " کہ کر ٹال دیتے ہیں- وہ اورنگ زیب کی سیاسی حکمت عملی کو قدرت کی ان "نیرنگیوں " کا ذمہ دار ٹھہرانے کو تیار نہیں ہیں " (پاکستان میں تہذیب کا ارتقا صفحات ٢٥٢ /٢٥٦ اشاعت ٢٠٠٩ مکتبہ دانیال کراچی )
 

حماد

محفلین
شیخ محمد اکرام لکھتے ہیں "افغان بغاوت کا رہنما خوشحال خاں خطک تھا جو پشتو شعرا کا سرتاج ہے . وہ بیک وقت صاحب السیف القلم تھا اور اس کے اشعار میں جوش ، آزادی، افغانوں کی فوقیت اور مغلوں کی مخالفت کی آگ اسطرح بھری ہوئی ہے .کہ ایک زمانہ گزرنے پر بھی ان سے افسردہ دل گرم ہو جاتے ہیں .وہ قبیلہ خطک کا سردار تھا . شاہجہان نے اسکا حق سرداری قبول کر لیا اور شاہجہاں کا ذکر اسنے ہمیشہ تعریف سے کیا ، لیکن اورنگزیب عالمگیر نے اسے رنتھبور کے قلعے میں کی سال قید رکھا. خوشحال مغل بادشاہ کے متعلق ایک نظم میں لکھتا ہے (ترجمہ )
"میں اورنگ زیب کے عدل و انصاف کو خوب جانتا ہوں !
اور اسکے دین و مذہب اور نفس کشی اور روزہ داری سے بھی واقف ہوں !
کیا اسکے سب بھائی ایک ایک کر کے اسکی تلوار کے شکار نہیں ہووے ؟
اور اسکے باپ کو شکست کھا کر قید خانہ کی مصیبتیں نہیں جھیلنی پڑیں ؟
خواہ کوئی شخص دن میں ہزار بار سجدے کرے اور زمین پر سر مارے -
اور روزوں کی کثرت سے اسکی ناف ریڑھ کی ہڈی سے مل جائے -
جب تک اسکے دل میں نیکی نہ ہو -
اسکی سب عبادتیں اور طہارتیں مکر و ریا ہیں -
اورنگ زیب کی زبان کچھ اور کہتی ہے اور اسکا دل کچھ اور ہی سوچتا ہے -
خدا کرے کہ اسکے دل اور گردے مجروح ہو جائیں اور وہ تیر و تفنگ کا شکار ہو "
"مغلوں سے افغان عداوت کے آثار صرف خوشحال کی شاعری میں ہی نہیں ملتے ، اس زمانے کے دوسرے افغان شعرا کے کلام میں بھی اس کا اظھار ہے . حمید کا ایک پشتو شعر ہے (ترجمہ )
مغل جس گھر میں پہنچے پتھروں کی طرح
ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا دنیا میں بے انصافی کی وجہ سے آگ لگ گئی -
ایک اور مشھور شاعر خواجہ محمد کا شعر ہے - (ترجمہ )
اورنگ زیب کی بادشاہی میں انصاف نہیں ملے گا -
میں ، خواجہ محمد نکل جاؤں گا کسی اور طرف
اسکے اظھار سے یہ نہیں سمجھنا چاہئیے کہ ان لوگوں کو اسلام سے دلچسپی نہیں تھی یا یہ کہ وہ افغان عصبیت کا شکار تھے - انھیں تو اصل میں مغلوں اور انکے کارندوں کی بے انصافی سے شکایت تھی -
خوشحال خاں خطک کی نظموں میں مذھبی رنگ جھلکتا ہے. نظم کے چند اشعار ہیں (ترجمہ )
تمام تیراہ میں موذن کی آواز سنی نہیں دیتی -
سواے اس بانگ کے جو مرغ سحر سے نکلتی ہے-
اور بارک زئی، وہ بھی رہ ہدایت سے دور جا پڑے ہیں -
اور آفریدی تو ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں -
نہ وہ نماز پڑھتے ہیں اور نہ ہی انکے ہاں کوئی ملا ہے -
نہ وہ زکوۃ و صدقہ دیتے ہیں اور نہ ہی انکے دلوں میں خدا کا خوف ہے -
نیک وہی ہے جو نبی کے احکام اور شرع کی پیروی کرتا ہے -
اور بدبخت وہ ہے جو ان کی بجا آوری میں ٹال مٹول کرے -"
(شیخ محمد اکرام ، رود کوثر سن اشاعت فروری ٢٠٠١ ، صفحہ نمبر ٤٦٨ تا ٤٧٢، ادارہ ثقافت اسلامیہ ٢-کلب روڈ لاہور )
اورنگ زیب عالمگیر کے دور میں انصاف کا کتنا "بول بالا" تھا ، اسکے حوالے سے ڈاکٹر "برنیئر " (جس کی گواہی کو فاروق درویش صاحب نے معتبر جانا ہے ) کہتا ہے
" یہاں ہر امیر کے پھاٹک پر ایک کوڑا لٹکا رہتا ہے - یہ لوگ کاریگروں اور سوداگروں سے جو سامان چاہتے ہیں اور جس قیمت پر چاہتے ہیں خرید لیتے ہیں اور اگر کوئی سوداگر یا کاریگر اصل قیمت پر اصرار کرے تو اسکو کوڑوں سے پٹوانے میں بھی تامل نہیں کرتے"
مزید لکھتا ہے " صوبے دار اپنی جگہ پر چھوٹے چھوٹے فرعون بے ساماں ہیں جو غیر محدود اختیار رکھتے ہیں اور کوئی ایسا شخص نہیں ہے کہ جس کے پاس مظلوم رعایا استغاثہ کر سکے"
تعلیم کے بارے میں ڈاکٹر برنیئر ان الفاظ میں اپنا مشاہدہ بیان کرتا ہے -
" تمام ملک میں علی العموم بے حد جہالت پھیلی ہوئی ہے اور یہ یہاں ممکن ہی نہیں کہ ایسے دارالعلوم اور کالج قائم ہو سکیں جن کے اخراجات کیلئے کافی سرمایہ بذریعہ وقف کے موجود ہوں اور ایسے لوگ کہاں جو اسطرح مدرسے اور کالج قائم کریں ."
(سید سبط حسن "پاکستان میں تہذیب کا ارتقا صفحہ نمبر ٢١٨ تا ٢١٩ اشاعت ٢٠٠٩ مکتبہ دانیال کراچی)
 

حماد

محفلین
غیر مسلم مورخین اور مسلم حکمراں ایک تجزیہ
ہندوستان میں عام طور اسلام، مسلمان، قرآن، شریعت، پردہ، جہاد، دہشت گردی، جیسے اسلام اورمسلمانوں سے جڑے کئی عنوانات مستقل طور پر زیر بحث رہتے ہیں اور ان بحثوں میں زیادہ تر مباحث جو اسلام اور مسلمانوں سے متعصب ہوتی ہیں ، انہیں میڈیا میں بہترین مقام حاصل رہتا ہے۔ لیکن کئی ایسی حقیقتیں بھی ہیں جو ہندوستان میں مسلمانوں کی سچائی ، حق پرستی کی گواہی دیتی نظر آتی ہے۔ کئی جرنلسٹ ماہرین و دانشوران ایسے بھی گزرے ہیں، جنہوں نے اس حقیقت کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ اسلام اور مسلمان، ہندوستان کی تعمیر و ترقی میں ایک کلیدی رول رکھتے ہیں۔ ایسے حقیقت پسندانہ دانشوران میں ڈاکٹر شمبھو ناتھ پانڈے (1906-1998) بھی ہیں، جو ایک ماہر و مورخ کی حیثیت سے معروف ہستی ہیں، وہ اپنے دور میں اترپردیش کے MLC,MLA رہ چکے ہیں۔ ریاست اڑیسہ کے گورنر بھی رہ چکے ہیں۔ پدم شری ایوارڈ یافتہ ہیں، کئی ایک کتابیں بھی آپ نے تحریر فرمائیں۔ مہاتما گاندھی اور جواہر لال نہرو کے خاص ساتھیوں میں آپ کا بھی نام آتا ہے۔ڈاکٹر پانڈے نے ایک دفعہ اینگلو بنگالی کالج الہ آباد کی تاریخ کی کتاب کا مطالعہ کیا، جس کے مصنف ڈاکٹر ہرپرشاد شاستری، جو کلکتہ یونیورسٹی کے صدر شعبہ سنسکرت تھے، اس کتاب میں ٹیپو سلطان (1750-1799) کے تعلق سے یہ لکھا گیا کہ ’’ٹیپو سلطان نے 3000برہمنوں کو زبردستی اسلام قبول کروانے کی کوشش کی، جس کی وجہ سے ان تمام برہمنوں نے اجتماعی خود کشی کرلی‘‘۔ ایسا گھنونا الزام شیر میسور کے نام، جنہوں نے انگریزوں کے خلاف لڑتے لڑتے اپنی جان قربان کردی، جنہوں نے اپنی زندگی میں کبھی بھی ذات پات کا فرق نہ کیا، جن کے کمناڈر ان چیف اور وزیراعظم برہمن تھے، جن کی سلطنت کے 136ہندومنادر کی فہرست آج بھی موجود ہے، جنہیں شاہی خزانے سے سالانہ امداد حاصل تھی۔شاستری صاحب کی لکھی ہوئی زہر آلود کتاب کو آسام، بنگال،بہار، اڑیسہ ،اترپردیش اور راجستھان، مدھیہ پردیش میں ہائی اسکول کی سطح پر پڑھایا جارہا تھا، ڈاکٹر پانڈے کی جانب سے توجہ دلانے پر جناب اشوتوش چودھری وائس چانسلر کلکتہ یونیورسٹی نے اس کتاب کو کورس سے خارج کردیا۔ لیکن ڈاکٹر پانڈے 1972 میں یہ دیکھ کر چونک اٹھے کہ برہمنوں کی خودکشی کی جھوٹی کہانی اترپردیش میں تحتانوی سطح پر مضمون تاریخ میں پڑھاکر معصوم ذہنوں میں مسلمانوں کے خلاف زہربھرا جارہا ہے۔ایک اورحکمراں جن کاتعلق مغلیہ سلطنت سے ہے، جن کا نام اورنگ زیب ہے، 1618 میں پیدا ہوئے، ان کی سلطنت 1658-1707 تک رہا۔ جن پر یہ الزامات عائد کیے جاتے ہیں کہ ’’یہ ایک ظالم و جابر بادشاہ، غیر مسلموں سے تعصب رکھنے والے، بنیاد پرست و ظالم مسلم حکمراں تھے‘‘۔ ان سنگین غلط فہمیوں پر ڈاکٹر پانڈے نے تحقیق انجام دی۔ ڈاکٹر پانڈے 1948-1953 کے دوران بحیثیت میونسپل چیرمین الہ آباد بھی رہے، ان دنوں دو مندروں کے پجاریوں کے درمیان اراضی سے متعلق جھگڑا پیش آیا۔ جن میں سے ایک پجاری نے حقائق کے طور پر شاہی احکامات جو اورنگ زیب کے دور میں جاری کیے تھے، پیش کیے۔ ڈاکٹر پانڈے ان شاہی احکامات کی صداقت کی جانچ کے لیے اپنے دوست سرتیج بہادر سپرو کو کہا، جو ایک قانون داں اور عربی و فارسی سے واقفیت رکھتے تھے، اور وہ ایک برہمن بھی تھے۔ سرتیج بہادر نے شاہی احکامات کے فرامین کی جانچ مکمل کی اورنتیجہ اخذ کیا کہ یہ اورنگ زیب کی جانب سے جاری کردہ شاہی حکم ہے۔ڈاکٹرپانڈے کے لیے اب اورنگ زیب کی ایک نئی تصویراجاگر ہوئی۔ تب ہی انہوں نے ہندوستان کے مختلف اہم منادر کے پجاریوں کومکتوب لکھا کہ اورنگ زیب کی جانب سے جاری کردہ شاہی احکاماتی فرامین اگر کہیں موجود ہوں تو تو ان احکامات کی نقلیں (Photo copy) براہ کرم انہیں روانہ کریں۔ جس کے بعد کئی ہندو منادر، جین منادر، سکھوں کے گرودواروں سے اورنگ زیب کے شاہی احکاماتی فرامین کی نقلیں ڈاکٹرپانڈے کو موصول ہوئیں، جو 1659-1685 کے دور سے تعلق رکھتی تھیں، جن میں یہ تذکرہ تھا کہ شاہی خزانہ سے ان تمام منادر کے اخراجات کو پورا کیا جائے اور ترقیاتی کاموں میں پیشرفت کی جائے۔سب سے سنگین الزام جو اورنگ زیب پر لگایا جاتا ہے وہ وشوناتھ مندر کوڈھانے کے متعلق ہے، جس کی حقیقت کچھ اس طرح ہے کہ جب اورنگ زیب اپنے لشکر کو لے کر بنگال کی جانب وارانسی کے مقام سے گزر رہے تھے، وہاں کے ہندو راجاؤں نے آپ سے خواہش کی کہ ایک رات کے لیے وارانسی میںاپنے لشکر کے ساتھ پڑاؤ ڈال لیں، تاکہ ان کی رانیاں گنگا میں غسل کی رسم کو پورا کر کے وشواناتھ مندر میں عبادت کرسکیں۔ اس التجا کو اورنگ زیب نے قبول کرلی اور اپنے لشکر کو حفاظتی انتظامکے لیے وارانسی کے اطراف پانچ میل تک پھیلا دیا۔ تمام رانیاں پالکی میں پہنچ کر گنگا میں غسل کی ، رسم کو ادا کرنے کے بعد وشواناتھ مندر میں عبادت کر کے واپس لوٹ آئیں، سوائے کچھ ، مقام کی رانی کے۔ اورنگ زیب کے اہم کارندے روانہ کیے گئے تاکہ رانی کو تلاش کیا جاسکے۔ تلاش کے دوران یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ مندر میں موجود گنیش کا بت جو ایک حرکت کرنیو الی دیوار سے منسلک تھا، جس کے ہٹنے سے زیر زمین سیڑھیاں نظر آئیں، جس میں ’کچھ‘ کی مہارانی اپنے زیورات کو کھوکر بے عزت و پریشان حالت میں پائی گئیں۔ اس سازش میں وشواناتھ مندر کے تمام پجاری شامل تھے۔ راجاؤں کے مشورے پر اورنگ زیب نے انہیں سزا متعین کی۔ اس کے ساتھ ساتھ وشواناتھ مندر کو دوبارہ ، مسطح زمین سے بہتر تعمیر کی غرض سے ڈھادیا گیا، جس میں موجود بت کو منتقل کیا گیا، یہ فیصلہ اس لیے لیا گیا تاکہ مستقبل میں ایسی سازش کا کسی کو موقع نہ مل سکے۔اب بتائیے کہ اورنگ زیب ایک ظالم بادشاہ تھے یا ایک انصاف پسند اور امنپسند مسلم بادشاہ تھے۔ ایسے ہی کئی حقائق کا تذکرہ ڈاکٹر بی این پانڈے نے اپنی کتاب Islam & Indian Culture میں کرچکے ہیں، جس کے لیے ہم تمام ہندوستانی مشکور ہیں۔ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد کے بعد ہندوستان کی ترقی کی راہ ہموار ہوی، اس کا اندازہ ہم ذیل کے اقوال سے لگاسکتے ہیں۔مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابرنے ہندوستان کی تصویر جو ان کے آمد کے وقت تھی ’تزک بابری‘ میں اس طرح بیان کی ہے۔’’ہندوستان میں اچھے گھوڑے نہیں! اچھا گوشت نہیں، انگور نہیں، خربوزہ نہیں، برف نہیں، حمام نہیں، مدرسہ نہیں، شمع نہیں، شمع دان نہیں، مشعل نہیں، باغوں اور عمارتوں میں آب رواں نہیں ، عمارتوں میں نہ صفائی ہے نہ موزونی، عام آدمی ننگے پاؤں ایک لنگوٹی لگائے پھرتے ہیں، عورتیں دھوتی باندھتی ہیں، جس کا آدھا حصہ کمر سیلپیٹ لیتی ہیں، اورآدھا سر پرڈال لیتی ہیں‘‘۔ہندو تہذیب اور ہندو مذہب پر اسلام کے اثرات کا تدکرہ کرتے ہوئے مشہورفاضل مورخ ڈاکٹر کے ایم پانیکر (K.M Panikar) لکھتے ہیں کہ:’’یہ بات توواضح ہے کہ اس عہد میں ہندو مذہب پر اسلام کا گہرا اثر پڑا، ہندوؤں پر خدا پرستی کا تصور اسلام ہی کی بدولت پیدا ہوا اور اس زمانے کے تمام ہندوپیشواؤں نے اپنے دیوتاؤں کا نام چاہے کچھ بھی رکھا ہو خدا پرستی ہی کی تعلیم دی، یعنی خدا ایک ہے، وہی عبادت کے لائق ہے اور اسی کے ذریعہ ہم کو نجات مل سکتی ہے‘‘۔ (A Survey of Indian History)پنڈت جواہر لال نہرو نے اسلامی اخوت و مساوات کے تحفہ کا اعتراف ان الفاظ میں کیا ہے: ’’شمال مغرب سے آنے والے حملہ آوروں اوراسلام کی آمد ہندوستان کی تاریخ میں کافی اہمیت رکھتی ہے، اس نے ان خرابیوں کو جو ہندو سماج میں پیدا ہوگئی تھیں یعنی ذاتوں کی تفریق، چھوت چھات اورانتہا درجہ کی خلوت پسندی کو بالکل آشکارا کردیا، اسلام کے اخوت کے نظریے اور مسلمانوں کی عملی مساوات نے ہندوؤں کے ذہن پر گہرا اثرڈالا، خصوصاً وہ لوگ جو ہندو سماج میں برابری کے حقوق سے محروم تھے، اس سے بہت متاثر ہوئے (Discovery of India) ہندوستان کے مشہورسیاح ڈاکٹر برنیر نے لکھا کہ ’’آج کل پہلے کہ بہ نسبت ستی کی تعداد کم ہوگئی ہے، کیونکہ مسلمان جو اس ملک کے فرمانرواں ہیں، اس وحشیانہ رسم کو نیست و نابود کرنے میں حتی لمقدور کوشش کرتے ہیں‘‘۔ڈاکٹر گسٹاولی بان اپنی کتاب ’’تمند ہند‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’ہندوستان کے پہلے مروخ مسلمان تھے‘‘۔سابق صدر کانگریس اور جنگ آزادی کے ایک رہنما ڈاکٹر پٹابی سیتا رمیہ نے بھی کانگریس کے اجلاس جے پورمیں اپنے خطبہ صدارت میں ان الفاظ سے کیا:’’مسلمانوں نے ہمارے کلچر کومالامال کیا ہے اور ہمارے نظم و نسق کو مستحکم اور مضبوط بنایا ہے، نیز وہ ملک کے دور دراز حصوں کو ایک دوسرے سے قریب لانے میں کامیاب ہوئے، اس ملک کے ادب اور اجتماعی زندگی میں ان کی چھاپ بہت گہری دکھائی دیتی ہے‘‘۔مشہورہندوستانی مورخ جادو ناتھ سرکار نے مسلمانوں کے عطیات کاتذکرہ کچھ اسطرح کیا’’مسلمانوں کی وجہ سے ہندوستان کا رابطہ خارجی دنیا سے ہوا۔ سیاسی اتحاد، لباس و تمدن کی یکسانی ، ایک مشترک سرکاری زبان اور نثر نگاری کا سادہ اسلوب، مرکزی حکومت کے تحت علاقائی زبانوں کی ترقی تاکہ امن و خوشحالی عام ہو، سمندری راستوں سے بین مملکتی تجارت کی تجدید، ہندوستان کے بحری بیڑہ کی تشکیل۔ایک ہندوستانی فاضل جناب این ایس مہتا (N.S. Mehta) صاحب نے اپنے ایک انگریزی مضمون ’’ہندوستانی تہذیب اور اسلام‘‘ میں اسلام کے فیوض و احسانات کا تذکرہ کچھ اس طرح کیا :’’اسلام یہاں صرف ایک نورانی مشعل لایا تھا، جس نے زمانہ قدیم میں جب کہ پرانے تمدن انحطاط پذیر ہورہیتھے، اور پاکیزہ مقاصد محض ذہنی معتقدات بن کر رہ گئے تھے، انسانی زندگی کو چھائی ہوئی ظلمتوں سے پاک کردیا، دیگرممالک کی طرح ہندوستان میں بھی سیاست سے زیادہ خیالات کے دنیا میں اسلام کی فتوحات کا دائرہ وسیع ہے‘‘۔ان تاریخی حقائق کے پیش نظر صاف ظاہر ہے کہ مسلمانوں نے اس عظیم ملک کو جس قدر فائدہ پہنچایا ہے وہ اس فائدہ سے بہت زیادہ ہے جو ہندوستان نے انہیں پہنچایا۔ مسلمانوں کی آمد اس ملک کی تاریخ میں ایک نئے دور ترقی و خوشحالی کا آغاز تھا، جسے ہندوستان کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔
محترم فاروق درویش صاحب . حوالہ دیے بغیر کاپی پیسٹ مارنا، سراسر علمی بد دیانتی اور محفل کے قواعد کی کھلی خلاف ورزی ہے . اگر آپ جیسے دانشور حضرات ایسی باتوں کا خیال نہیں رکھیں گے تو باقی کا خدا حافظ .
http://rafeeq-e-manzil.sio-india.com/غیر-مسلم-مورخین-اور-مسلم-حکمراں-ایک-تجز/
 

حماد

محفلین
اورنگ زیب عالمگیر ایک مصلح اور دور اندیش حکمران
فرانکوس برنیئر، جو کہ فرانس کے مشہور سیاح گزرے ہیں، نے 1657 سے لے کر 1668 کے دوران ہندوستان کا سفر کیا۔ اس وقت برصغیر پر اورنگ زیب عالمگیر (d. 1707) کی حکومت تھی جو کہ ہندوستان کے آخری مضبوط بادشاہ ہوئے ہیں۔ جب اورنگ زیب ہندوستان کے شہنشاہ بنے، تو ان کے ایک استاذ دربار میں اعلی عہدے کی آرزو لئے بادشاہ کے پاس آئے اور ان کی خوشامد شروع کر دی۔
اورنگ زیب نے اپنے استاذ سے اس زمانے کے تعلیمی نظام کے مسائل پر گفتگو کی۔ ان کے خیالات سے ہمارے نظام تعلیم کی خامیاں بھی سامنے آ جاتی ہیں۔ پچھلے ساڑھے تین سو برس میں یہ صورتحال بہتر نہیں ہو سکی ہے۔ برنیئر جو کہ اس موقع پر موجود تھے، اورنگ زیب کی تقریر کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ملا جی! کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ میں آپ کو سلطنت کا اعلی ترین عہدہ دے دوں؟ تو آئیے ہم آپ کے ممتاز مقام کا جائزہ لیتے ہیں۔ مجھے اس سے انکار نہیں ہے کہ آپ اس عہدے کے حق دار تھے اگر آپ نے میرے ناپختہ ذہن میں کام کی معلومات کی آبیاری کی ہوتی۔ آپ مجھے ایک بھی اعلی تعلیم یافتہ نوجوان سے ملا دیجیے تو میرے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گا کہ اس کی تعلیم میں اس کے باپ کا حصہ زیادہ ہے یا اس کے استاذ کا۔ میں نے آپ کے زیر تعلیم رہ کر کیا علم حاصل کیا؟
آپ نے مجھے یہ بتایا تھا کہ فرنگستان (اس دور میں پورے یورپ کو فرنگستان کہا جاتا تھا) محض ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے جہاں سب سے زیادہ طاقتور بادشاہ پرتگال کا تھا، اس کے بعد ہالینڈ کا بادشاہ طاقتور ہوا اور اب انگلینڈ کا بادشاہ سب سے زیادہ طاقتور ہے۔ یورپ کے دیگر فرمانرواؤں جیسے اسپین اور فرانس کے بادشاہ کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ وہ ہمارے چھوٹے موٹے راجاؤں کی طرح ہیں۔
آپ نے فرمایا کہ ہندوستان کے شہنشاہ پوری دنیا سے زیادہ عظیم اور باجبروت ہیں۔ صرف یہی ہیں جو کہ ہمایوں، جہانگیر اور شاہ جہاں ہوئے۔ یہی وہ عظیم بادشاہ ہیں جنہوں نے پوری دنیا کو فتح کیا اور ساری دنیا کے بادشاہ ان کے باجگزار ہیں۔ ایران، ازبکستان، تاتارستان، برما، پیگو، تھائی لینڈ، چین اور ملائشیا کے بادشاہ تو ہندوستان کے بادشاہ کا نام سن کر ہی کانپنے لگتے ہیں۔
آپ کا علم جغرافیہ قابل تعریف ہے۔ تاریخ پر آپ کی نظر بہت ہی گہری ہے۔ کیا میرے استاذ کے لئے یہ ضروری نہیں تھا کہ وہ مجھے روئے زمین کی ہر قوم کی خصوصیات سے آگاہ کرتا؟ ہر قوم کے وسائل کیا ہیں؟ اس کی قوت کس چیز میں پوشیدہ ہے؟ اس کی جنگ کا طریقہ کیا ہے؟ اس کا مذہب اور اخلاق و آداب کیا ہیں؟ اس ملک میں کس طرز کی حکومت قائم ہے اور اس کے مفادات کہاں کہاں واقع ہیں؟ تاریخ کے مسلسل مطالعے کے ذریعے آپ کو مجھے اس بات سے آگاہ کرنا تھا کہ حکومتیں کس طرح بنتی ہیں، انہیں کس طرح عروج حاصل ہوتا ہے اور وہ کن عوامل کے باعث زوال پذیر ہوا کرتی ہیں۔ ایسے کون سے واقعات، حوادث اور غلطیاں ہوا کرتی ہیں جن کی بدولت بڑی تبدیلیاں اور عظیم انقلاب رونما ہوا کرتے ہیں؟
انسانیت کی تاریخ کا یہ تفصیلی علم تو بہت دور کی بات ہے، میں تو آپ سے اپنی اس سلطنت کے بانیوں اور اپنے آباؤاجداد کے نام تک نہیں سیکھ سکا۔ آپ نے مجھے ان کی زندگیوں سے مکمل طور پر لاعلم رکھا۔ ان پر کیا واقعات گزرے؟ اور ان کی وہ کیا غیر معمولی صلاحیتیں تھیں جن کی بدولت انہوں نے بے پناہ فتوحات حاصل کیں؟ یہ سب آپ نے مجھے نہیں بتایا۔
ایک بادشاہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے گرد و نواح میں بسنے والی اقوام کی زبانوں سے واقف ہو۔ آپ نے مجھے عربی پڑھنا اور لکھنا سکھائی۔ آپ نے میری زندگی کا بڑا حصہ ایسی زبان کی تعلیم میں صرف کر دیا جسے دس سے بارہ سال تک استعمال کئے بغیر کوئی شخص بھی اس میں مہارت کا دعوی نہیں کر سکتا۔۔۔۔
ایک شہزادے کی تعلیم میں کیا کیا مضامین پڑھائے جانے چاہییں۔ آپ نے اسے مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے اسے ضروری قرار دیا کہ اس شہزادے کو صرف و نحو اور فقہ میں مہارت حاصل ہونی چاہیے۔ اس علم کی ضرورت ایک قاضی کو تو ہو سکتی تھی مگر آپ نے میری جوانی کا بہترین وقت الفاظ کو سیکھنے کے اسی خشک اور بے فائدہ میں ضائع کر دیا۔
آپ نے میرے والد، شاہ جہاں کو بتایا کہ آپ مجھے فلسفے کی تعلیم دے رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ کے علم کو میں کئی سال تک رٹتا رہا جس کے نتیجے میں بے کار اور احمقانہ مسائل میرے دماغ کو چھلنی کرتے رہے۔ ان مسائل کے حل سے کوئی ذہنی سکون حاصل نہ ہو سکتا تھا۔ ان مسائل کا کوئی تعلق عملی زندگی سے نہ تھا۔ ان مشکل اور فضول مسائل کو انتہائی محنت سے سمجھا جا سکتا تھا اور جیسے ہی یاد کر لیا جاتا، یہ ذہن سے فوراً محو ہو جاتے تھے۔ اس کا نتیجہ سوائے ذہنی مشقت اور عقل کی تباہی کے اور کچھ نہ تھا۔ اس کے نتیجے میں ایک شخص باغی اور ذہنی مریض ہی بن سکتا تھا۔ (ان کے فلسفے میں ہمارے فلسفے سے بھی زیادہ نامعقول اور احمقانہ تصورات موجود تھے، برنیئر)
جی ہاں، آپ نے میری زندگی کے قیمتی ترین سال اپنے پسندیدہ مسائل اور نظام میں کھپا دیے اور جب میں آپ سے فارغ التحصیل ہوا تو ان فضول اور نامعقول اصطلاحات کے ساتھ اہم علوم میں کوئی کامیابی حاصل نہ کر سکتا تھا۔ یہ اصطلاحات تو ایک نوجوان کی مردانہ صلاحیتوں کو زنگ لگا دینے اور اس کے حوصلوں کو پست کر دینے کے لئے کافی تھیں۔ (ان کے فلسفی ہمارے فلسفیوں سے زیادہ الٹے سیدھے تصورات پیش کیا کرتے تھے، برنیئر)۔
فلسفے کی یہ اصطلاحات اس لئے ایجاد کی گئیں تاکہ فلسفے سے ناآشنا افراد پر جھوٹا رعب جمایا جا سکے۔ آپ کے جیسے حضرات یہ خیال دوسروں پر مسلط کرتے ہیں کہ صرف ہمیں ہی ایسی حکمت و دانش حاصل ہے۔ ان کا فلسفے کا یہ ذخیرہ تاریک اور غیر واضح ہے جو ان پراسرار علوم کو چھپائے ہوئے ہے جو صرف ان فلسفیوں ہی کو معلوم ہیں۔
اگر آپ نے مجھے ایسے فلسفے کی تعلیم دی ہوتی جو کہ ذہن کو معقول انداز میں سوچنے کے قابل بناتا اور صرف مضبوط دلائل کی بنیاد پر ہی مطمئن ہو سکتا، اگر آپ نے مجھے ایسا سبق دیا ہوتا جو کہ روح کا تزکیہ کرتا اور اسے اتنا مضبوط بناتا کہ یہ تقدیر کے لکھے ہوئے کو باآسانی سہہ جائے، اگر آپ مجھے انسان کی فطرت سے ہی آگاہ کر دیتے، مجھے کائنات کی فطرت کے بنیادی اصولوں سے ہی روشناس کروا دیتے، آفاق کا حقیقی اور یقینی علم مجھے عطا کرتے اور یہ بتا دیتے کہ اس کائنات کے مختلف حصے کس طرح ایک ترتیب کے ساتھ حرکت میں ہیں، تو میں آپ اس سے زیادہ احسان مند ہوتا جیسا کہ اسکندر، ارسطو کا احسان مند تھا۔ میں آپ کو اس سے کہیں مختلف انعام دیتا جو ارسطو کو اسکندر سے ملا تھا۔
میری خوشامد کرنے والے استاذ صاحب! مجھے جواب دیجیے۔ کیا آپ کی یہ ذمہ داری بھی نہ تھی کہ کم از کم زندگی میں ایک ہی بار مجھے وہ علوم ہی سکھا دیے ہوئے جو کہ ایک بادشاہ کے لئے ضروری ہیں۔ آپ مجھے یہی بتا دیتے کہ مستقبل میں مجھے اپنی بقا اور تخت و تاج کے لئے اپنے ہی بھائیوں کے خلاف تلوار اٹھانا پڑے گی۔ یہ بات تو اتنی معروف ہے کہ ہندوستان کے ہر بادشاہ کے بیٹوں کا مقدر یہی بن چکا ہے۔
کیا آپ نے کبھی بھی مجھے جنگی علوم کی تعلیم دی؟ کسی شہر کا محاصرہ کیسے کرنا ہے؟ میدان جنگ میں افواج کو کس طرح ترتیب دینا ہے؟ یہ میری خوش نصیبی ہے کہ ان معاملات میں میں نے آپ سے زیادہ عقل مند دماغوں سے مشورہ کر لیا۔ اب بہتر یہی ہے کہ آپ اپنے گاؤں تشریف لے جائیں تاکہ کسی شخص کو یہ معلوم نہ ہو سکے آپ کیا ہیں اور آپ کے علم کے نتائج کیا ہیں۔
(فرانکوس برنیئر، مغل سلطنت میں سفر سے اقتباسات، ترجمہ: محمد مبشر نذیر)
غور فرمائیے!
· مغل بادشاہ اور نیک سیرت و دور اندیش حکمران نے اپنے دور کے تعلیمی نظام میں موجود جن خامیوں کا ذکر کیا ہے، ان کی ایک فہرست تیار کیجیے۔
· ہمارے آج کے نصاب تعلیم میں کیا اصلاحات درکار ہیں؟
بہتر ہوتا اگر ربط فراہم کر دیا جاتا .
http://www.mubashirnazir.org/PD/Urdu/PU05-0001-Aurengzeb.htm
 

حماد

محفلین
دور حکومت ( 1658ء تا 1707ء) مغلیہ خاندان کا شہنشاہ ۔ نام محی الدین ۔ اورنگزیب لقت، اس کے والد شاہجہان نے اسے عالمگیر کا خطاب دیا۔ 3 نومبر ،1618ء کو مالوہ کی سرحد پر پیدا ہوا۔ اس کی والدہ ارجمند بانو بیگم تھیں۔ جو ممتاز محل کے نام سے مشہور تھیں۔ اورنگ زیب کی عمر دو سال کی تھی کہ شاہجہان نے اپنے باپ جہانگیر کے خلاف بغاوت کردی ۔ اور بیوی بچوں کو لے کر چار سال تک بنگال اور تلنگا میں پھرتا رہا۔ آخر جہانگیر کے کہنے پر اپنے بیٹوں داراشکوہ اور اورنگ زیب کو دربار میں بھیج کر معافی مانگ لی۔ جہانگیر نےدونوں‌بچوں کو ملکہ نورجہاں کی نگرانی میں بھیج دیا۔
اورنگزیب کو سید محمد، میر ہاشم اور ملا صالح جیسے علام کی شاگردی کا موقع ملا۔ مغل بادشاہوں میں اورنگزیب عالم گیر پہلا بادشاہ ہے جس نے قرآن شریف حفظ کیا اور فارسیمضمون نویسی میں نام پیدا کیا۔ اس کے علاوہ گھڑ سواری ، تیراندازی ، اور فنون سپہ گری میں بھی کمال حاصل کیا۔ سترہ برس کی عمر میں 1636ء دکن کا صوبیدار مقرر ہوا۔ اس دوران میں اس نے کئی بغاوتوں کو فرو کیا۔ اور چند نئے علاقے فتح کیے۔ بلخ کے ازبکوں کی سرکوبی جس جوانمردی سے کی اس مثال تاریخ عالم میں مشکل سے ملے گی۔
شاہجہان کی بیماری کے دوران میں داراشکوہ نے تمام انتظام حکومت اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ دارا کی اس جلدبازی سے شاہجہان کی موت کی افواہیں پھیلنے لگیں اور ملک میں ابتری پھیل گئی ۔ شاہ شجاع نے بنگال میں اپنی بادشاہت قائم کرلی اور آگرہ پر فوج کشی کے ارادے سے روانہ ہوا۔ بنارس کے قریب دارا اور شجاع کی فوجوں میں‌جنگ ہوئی جس میں دارا کو فتح اور شجاع کو شکست ہوئی۔ اورنگزیب نے مراد سے مل کر داراکے مقابلے کی ٹھانی۔ اجین کے قریب دنوں فوجوں کا آمنا سامنا ہوا۔ اورنگزیب عالمگیر کو فتح ہوئی۔ ساموگڑھ کے قریب پھر لڑائی ہوئی جس میں اورنگزیب کو دوبارہ کامیابی ہوئی۔
اورنگزیب ابوالمظفر محی الدین کے لقب سے تخت پر بیٹھا اس نے ہندوؤں اور مسلمانوں کی فضول رسمیں ختم کیں اور فحاشی کا انسداد کیا اور خوبصورت مقبروں کی تعمیر و آرائش ممنوع قرار دی۔ قوال ، نجومی ، شاعر موقوف کر دیتے گئے۔ شراب ، افیون اور بھنگ بند کردی ۔ درشن جھروکا کی رسم ختم کی اور بادشاہ کو سلام کرنے کا اسلامی طریقہ رائج کیا۔ سجدہ کرنا اور ہاتھ اٹھانا موقوف ہوا۔ سکوں پر کلمہ لکھنے کا دستور بھی ختم ہوا۔ کھانے کی جنسوں پر ہرقسم کے محصول ہٹا دیے۔ 1665ء میں آسام ، کوچ بہار اور چٹاگانگ فتح کیے اور پرتگیزی اور فرنگی بحری قزاقوں کا خاتمہ کیا۔ 1666ء میں سرحد کے شاعر خوشحال خان خٹک کی شورش اور متھرا اور علیگڑھ کے نواح میں جاٹوں کی غارت گری ختم کی۔ نیز ست نامیوں کی بغاوت فرو کی ۔ سکھوں کے دسویں اور آخری گرو گوبند سنگھ نے انند پور کے آس پاس غارت گری شروع کی اور مغل فوج سے شکست کھا کر فیروز پور کے قریب غیر آباد مقام پر جا بیٹھے۔ جہاں بعد میں مکتسیر آباد ہوا۔ عالمگیر نے انھیں اپنے پاس دکن بلایا یہ ابھی راستے میں تھے کہ خود عالمگیر فوت ہوگیا۔

اورنگزیب قرآن پاک پڑھتے ہوئے



عالمگیر نے 1666ء میں راجا جے سنگھ اور دلیر خان کو شیوا جی کے خلاف بھیجا۔ انھوں نے بہت سے قلعے فتح کر لے۔ شیواجی اور اس کا بیٹا آگرے میں نظربند ہوئے۔ شیواجی فرار ہو کر پھر مہاراشٹر پہنچ گیا۔ اور دوبارہ قتل و غارت گری شروع کی۔ 1680ء میں شیواجی مرگیا تو اس کا بیٹا سنبھا جی جانشین ہوا یہ بھی قتل و غارت گری میں مصروف ہوا۔ عالمگیر خود دکن پہنچا۔ سنبھا جی گرفتار ہو کر مارا گیا ۔ اس کا بیٹا ساہو دہلی میں نظربند ہوا۔ دکن کا مطالعہ کرکے عالمگیر اس نتیجے پرپہنچا کہ بیجاپور اور گولکنڈا کی ریاستوں سے مرہٹوں کو مدد ملتی ہے اس نے 1686ء میں بیجاپور اور 1687ء میں گولگنڈا کی ریاستیں ختم کر دیں۔ اس کے بعد مرہٹوں کے تعاقب میں‌ ہندوستان کے انتہائی جنوبی حصے بھی فتح کر لیے۔ مغلیہ سلطنت پورے ہندوستان میں پھیل گئی۔
عالمگیر احمد نگر میں بیمار ہوا اور 3 مارچ، 1707ء کو نوے برس کی عمر میں فوت ہوا۔ وصیت کے مطابق اسے خلد آباد میں فن کیا گیا۔ خلدآباد سے قریب ایک مقام ہے جس کا نام اورنگ آباد ہے، اورنگ آباد میں اورنگ زیب کی مختلف یادگاریں آج بھی محفوظ ہیں۔ بڑا متقی ، پرہیز گار ،مدبر اور اعلیٰ درجے کا منتظم تھا۔ خزانے سے ذاتی خرچ کے لیے ایک پائی بھی نہ لی۔ قرآن مجید لکھ کر ٹوپیاں سی کر گزارا کرتا تھا۔ سلجھا ہوا ادیب تھا۔ اُس کے خطوط رقعات عالمگیر کے نام سے مرتب ہوئے۔ اس کے حکم پر نظام سلطنت چلانے کیلیے ایک مجموعہ فتاوی تصنیف کیا گیا جسے تاریخ میں فتاوی عالمگیری کہا گیا۔ فتاویٰ عالمگیری فقہ اسلامی میں ایک ممتاز مقام رکھتی ہے۔ بعض علما نے سلطان اورنگزیب کو اپنے دور کا مجدد بھی قرار دیا۔ پانچ بیٹے اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں‌۔ مشہور شاعر زیب النساء مخفی ان کی دختر تھیں۔ بیٹا محمد معظم باپ کی سلطنت کا وارث ہوا۔
کاپی پیسٹ ضرور کریں لیکن ربط فراہم کرنا نہ بھولیں.
http://ur.wikipedia.org/wiki/اورنگزیب_عالمگیر
 

فاتح

لائبریرین
اورنگ زیب عالمگیر ایک مصلح :cool: اور دور اندیش حکمران
میری خوشامد کرنے والے استاذ صاحب! مجھے جواب دیجیے۔ کیا آپ کی یہ ذمہ داری بھی نہ تھی کہ کم از کم زندگی میں ایک ہی بار مجھے وہ علوم ہی سکھا دیے ہوئے جو کہ ایک بادشاہ کے لئے ضروری ہیں۔ آپ مجھے یہی بتا دیتے کہ مستقبل میں مجھے اپنی بقا اور تخت و تاج کے لئے اپنے ہی بھائیوں کے خلاف تلوار اٹھانا پڑے گی۔ یہ بات تو اتنی معروف ہے کہ ہندوستان کے ہر بادشاہ کے بیٹوں کا مقدر یہی بن چکا ہے۔
(فرانکوس برنیئر، مغل سلطنت میں سفر سے اقتباسات، ترجمہ: محمد مبشر نذیر)
ہائے بے چارا جاہل، خوشامدی اور امن و آشتی کی تعلیم دینے والا استاد۔ اسے واقعی یہ کہاں معلوم تھا کہ سنپولیوں کی تعلیم وتربیت میں امن و آشتی کی کا باب نہیں پڑھایا جاتا بلکہ یہ بتایا جاتا ہے کہ بھائیوں اور باپ کی گردنوں پر تلواریں چلا کر اقتدار کی بھوک کیسے مٹانی ہے۔​
مصلح: صلح اور اصلاح کے نئے معانی کھل رہے ہیں۔ ہاہاہاہا
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top