فاروق درویش
معطل
مشہور صوفی بزرگ حضرت خواجہ بختیار کاکی (رح ) کی نمار جنازہ تیار تھی۔ خلقت جمع تھی ، ایک شخص نے ان کی وصیت پڑھی ۔ جو کچھ یوں تھی " میری نماز جنازہ وہ شخص پڑھائے ، جس میں یہ چار صفات ہوں ۔ نمبر ۱۔ جس نے اپنی زندگی میں کبھی کوئی نماز قضا نہ کی ہو نمبر ۲ ۔ عصر سے پہلے کی سنتیں نہ چھوڑی ھوں نمبر ۳۔ تہجد کی نماز نہ چھوڑی ہو ، اور نمبر ۴ ۔جس کی بری نگاہ کسی نا محرم عورت پر نہ پڑی ہو ،،
مجمع پر سناٹا چھا گیا ۔ علامہ، مفتی ، قاری ، شیخ و زاہد سب موجود تھے ۔ لیکن کوئی شخص آگے نہ بڑھا۔ دن گزر گیا ۔ آخر عصر کے بعد ایک شخص کھڑا ہوا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا آگے بڑھا۔ اس نے نماز جنازہ پڑھائی اور نم ناک آنکھوں سے کہا،" مرنے والا مر گیا ، مگر دوسروں کے راز افشا کر گیا "۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نماز جنازہ پڑھانے والا وہ شخص ہندوستان کا بادشاہ وقت " سلطان شمس الدین التمش " تھا۔
اب اس حوالے سے میں تاریخ سے کچھ حقائق آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاھوں گا ۔۔۔۔۔۔۔کہ ۔۔۔۔۔ سلطان شمس الدین التمش ، سلطان قطب الدین ایبک کا غلام تھا پہلے اس کا داماد اور پھر اس کے انتقال کے بعد بادشاہ ِ ھند بنا ۔۔۔۔۔۔۔ یاد رھے کہ قطب الدین ایبک خود بھی سلطان شہاب الدین غوری اور سلطان محمد غوری کا غلام تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ سو یہ سب خاندان ِ غلاماں کے حکمران بھی کہلاتے ھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ لکھتے ھوئے مجھے ان مسلم تاجداروں پر رشک آتا ھے کہ اس ولی صفت بادشاہ سلطان شمس الدین التمش کا بیٹا سلطان ناصر الدین محمود اپنا کنبہ پالنے کیلئے قرآن پاک کے نسخوں کی کتابت کرتا اور ھاتھ سے ٹوپیاں سیتا تھا اور التمش کی بیٹی رضیہ سلطانہ چوری چھپے سلطنت کے امراء کی خواتین کی پوشاکیں سی کر گزر بسر کرتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ اب فیصلہ آپ کریں کہ بھلا ایسا کیوں تھا؟ ۔۔۔۔۔۔ جواب صرف ایک ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ سلطان التمش راتوں کو جاگ کر یا تو عبادت کرتا تھا اور یا غریبوں کی بستیوں میں گھوم کر ضرورت مندوں کی دستگیری کرتا تھا ، اس نیک سیرت باپ نے اپنی اولاد ِ صالح کو رزق حلال کھلایا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ذرا ان حکمرانوں کا آج کل کے ان حکمرانوں سے موازنہ کیجئے اور جان جائیے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج جو ننگ ملت ننگ وطن ننگ ِ دین حکمران خود کرپشن ، لوٹ مار اور رزق ِ حرام کی پیداوار ہیں وہ اپنے کسی غلام تو درکنار اپنے بیٹوں اور بھائیوں کے علاوہ کسی اہل کو بھی جانشین اور مسند کے قریب دیکھ ھی نہیں سکتے ۔۔۔۔۔۔۔ سو باپ کے بعد بیٹا ،بیٹی یا داماد حکمران ھیں، سمدھی، سالے بہنوئی اور عزیز و اقارب وزیر یا سفیر ھیں ۔۔
ذرا سوچئے جن حکمرانوں کی اولادیں لندن میں گوری میموں کے ساتھ ھوش ربا رنگ رلیوں میں مگن
ھیں ان سے کس انقلاب اور کن عوام دوست اصلاحات کی توقع رکھی جائے ؟ جانتا ہوں کہ سچ کڑوا ھوتا ھے، کسی کو برا لگا ھو تو معذرت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجمع پر سناٹا چھا گیا ۔ علامہ، مفتی ، قاری ، شیخ و زاہد سب موجود تھے ۔ لیکن کوئی شخص آگے نہ بڑھا۔ دن گزر گیا ۔ آخر عصر کے بعد ایک شخص کھڑا ہوا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا آگے بڑھا۔ اس نے نماز جنازہ پڑھائی اور نم ناک آنکھوں سے کہا،" مرنے والا مر گیا ، مگر دوسروں کے راز افشا کر گیا "۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نماز جنازہ پڑھانے والا وہ شخص ہندوستان کا بادشاہ وقت " سلطان شمس الدین التمش " تھا۔
اب اس حوالے سے میں تاریخ سے کچھ حقائق آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاھوں گا ۔۔۔۔۔۔۔کہ ۔۔۔۔۔ سلطان شمس الدین التمش ، سلطان قطب الدین ایبک کا غلام تھا پہلے اس کا داماد اور پھر اس کے انتقال کے بعد بادشاہ ِ ھند بنا ۔۔۔۔۔۔۔ یاد رھے کہ قطب الدین ایبک خود بھی سلطان شہاب الدین غوری اور سلطان محمد غوری کا غلام تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ سو یہ سب خاندان ِ غلاماں کے حکمران بھی کہلاتے ھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ لکھتے ھوئے مجھے ان مسلم تاجداروں پر رشک آتا ھے کہ اس ولی صفت بادشاہ سلطان شمس الدین التمش کا بیٹا سلطان ناصر الدین محمود اپنا کنبہ پالنے کیلئے قرآن پاک کے نسخوں کی کتابت کرتا اور ھاتھ سے ٹوپیاں سیتا تھا اور التمش کی بیٹی رضیہ سلطانہ چوری چھپے سلطنت کے امراء کی خواتین کی پوشاکیں سی کر گزر بسر کرتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ اب فیصلہ آپ کریں کہ بھلا ایسا کیوں تھا؟ ۔۔۔۔۔۔ جواب صرف ایک ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ سلطان التمش راتوں کو جاگ کر یا تو عبادت کرتا تھا اور یا غریبوں کی بستیوں میں گھوم کر ضرورت مندوں کی دستگیری کرتا تھا ، اس نیک سیرت باپ نے اپنی اولاد ِ صالح کو رزق حلال کھلایا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ذرا ان حکمرانوں کا آج کل کے ان حکمرانوں سے موازنہ کیجئے اور جان جائیے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج جو ننگ ملت ننگ وطن ننگ ِ دین حکمران خود کرپشن ، لوٹ مار اور رزق ِ حرام کی پیداوار ہیں وہ اپنے کسی غلام تو درکنار اپنے بیٹوں اور بھائیوں کے علاوہ کسی اہل کو بھی جانشین اور مسند کے قریب دیکھ ھی نہیں سکتے ۔۔۔۔۔۔۔ سو باپ کے بعد بیٹا ،بیٹی یا داماد حکمران ھیں، سمدھی، سالے بہنوئی اور عزیز و اقارب وزیر یا سفیر ھیں ۔۔
ذرا سوچئے جن حکمرانوں کی اولادیں لندن میں گوری میموں کے ساتھ ھوش ربا رنگ رلیوں میں مگن
ھیں ان سے کس انقلاب اور کن عوام دوست اصلاحات کی توقع رکھی جائے ؟ جانتا ہوں کہ سچ کڑوا ھوتا ھے، کسی کو برا لگا ھو تو معذرت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔