کل کے حکمران اور آج کے لٹیرے

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
مشہور صوفی بزرگ حضرت خواجہ بختیار کاکی (رح ) کی نمار جنازہ تیار تھی۔ خلقت جمع تھی ، ایک شخص نے ان کی وصیت پڑھی ۔ جو کچھ یوں تھی " میری نماز جنازہ وہ شخص پڑھائے ، جس میں یہ چار صفات ہوں ۔ نمبر ۱۔ جس نے اپنی زندگی میں کبھی کوئی نماز قضا نہ کی ہو نمبر ۲ ۔ عصر سے پہلے کی سنتیں نہ چھوڑی ھوں نمبر ۳۔ تہجد کی نماز نہ چھوڑی ہو ، اور نمبر ۴ ۔جس کی بری نگاہ کسی نا محرم عورت پر نہ پڑی ہو ،،
مجمع پر سناٹا چھا گیا ۔ علامہ، مفتی ، قاری ، شیخ و زاہد سب موجود تھے ۔ لیکن کوئی شخص آگے نہ بڑھا۔ دن گزر گیا ۔ آخر عصر کے بعد ایک شخص کھڑا ہوا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا آگے بڑھا۔ اس نے نماز جنازہ پڑھائی اور نم ناک آنکھوں سے کہا،" مرنے والا مر گیا ، مگر دوسروں کے راز افشا کر گیا "۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نماز جنازہ پڑھانے والا وہ شخص ہندوستان کا بادشاہ وقت " سلطان شمس الدین التمش " تھا۔

اب اس حوالے سے میں تاریخ سے کچھ حقائق آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاھوں گا ۔۔۔۔۔۔۔کہ ۔۔۔۔۔ سلطان شمس الدین التمش ، سلطان قطب الدین ایبک کا غلام تھا پہلے اس کا داماد اور پھر اس کے انتقال کے بعد بادشاہ ِ ھند بنا ۔۔۔۔۔۔۔ یاد رھے کہ قطب الدین ایبک خود بھی سلطان شہاب الدین غوری اور سلطان محمد غوری کا غلام تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ سو یہ سب خاندان ِ غلاماں کے حکمران بھی کہلاتے ھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ لکھتے ھوئے مجھے ان مسلم تاجداروں پر رشک آتا ھے کہ اس ولی صفت بادشاہ سلطان شمس الدین التمش کا بیٹا سلطان ناصر الدین محمود اپنا کنبہ پالنے کیلئے قرآن پاک کے نسخوں کی کتابت کرتا اور ھاتھ سے ٹوپیاں سیتا تھا اور التمش کی بیٹی رضیہ سلطانہ چوری چھپے سلطنت کے امراء کی خواتین کی پوشاکیں سی کر گزر بسر کرتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ اب فیصلہ آپ کریں کہ بھلا ایسا کیوں تھا؟ ۔۔۔۔۔۔ جواب صرف ایک ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ سلطان التمش راتوں کو جاگ کر یا تو عبادت کرتا تھا اور یا غریبوں کی بستیوں میں گھوم کر ضرورت مندوں کی دستگیری کرتا تھا ، اس نیک سیرت باپ نے اپنی اولاد ِ صالح کو رزق حلال کھلایا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ذرا ان حکمرانوں کا آج کل کے ان حکمرانوں سے موازنہ کیجئے اور جان جائیے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج جو ننگ ملت ننگ وطن ننگ ِ دین حکمران خود کرپشن ، لوٹ مار اور رزق ِ حرام کی پیداوار ہیں وہ اپنے کسی غلام تو درکنار اپنے بیٹوں اور بھائیوں کے علاوہ کسی اہل کو بھی جانشین اور مسند کے قریب دیکھ ھی نہیں سکتے ۔۔۔۔۔۔۔ سو باپ کے بعد بیٹا ،بیٹی یا داماد حکمران ھیں، سمدھی، سالے بہنوئی اور عزیز و اقارب وزیر یا سفیر ھیں ۔۔
ذرا سوچئے جن حکمرانوں کی اولادیں لندن میں گوری میموں کے ساتھ ھوش ربا رنگ رلیوں میں مگن
ھیں ان سے کس انقلاب اور کن عوام دوست اصلاحات کی توقع رکھی جائے ؟ جانتا ہوں کہ سچ کڑوا ھوتا ھے، کسی کو برا لگا ھو تو معذرت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
حیرت ہے کہ لوگوں کو اہلِ ایمان بادشاہوں اور اولیا اللہ کے حوالے سے مستند تاریخی واقعات میں فنٹسی نظر آتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگرقلوپطرہ اور ہیلن آف ٹرائے کی کہانیوں میں حسین تاریخ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

حماد

محفلین
محترم فاروق درویش صاحب ! تاریخ کے ایک ادنی طالب علم کی حیثیت سے کچھ عرض کرنا چاہوں گا . امید ہے آپ اسے گستاخی پر محمول نہیں کریں گے .
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ مرے دوستوں نے مندرجہ بالا بیان کردہ دعوی نما تاریخی واقعات کو شاید اسلئے بھی سنجیدگی سے نہیں لیا کیونکہ آپ نے مستند تاریخی حوالے دے بغیر بات کی ہے .
میں نے اپنی سی کوشش کی کہ کہیں حضرت خواجہ بختیار کاکی رحمہ الله کے نماز جنازہ کے حوالے سے نقل کے گئے واقعہ کی تصدیق کسی کتاب سے کر لوں .لیکن اس میں ناکامی ہوئی . البتہ یہ ضرور معلوم ہوا کہ اول الذکر اور آخر الذکر ( التمش ) کی سن وفات ایک ہی ہے . مگر مذکور بالا کہیں نہ ملا .
بلاشبہ سلطان التمش خاندان غلاماں کا ایک قابل ذکر حکمران تھا. لیکن ووہ بھی کوئی فرشتہ سیرت انسان نہیں تھا .
قطب الدین کی تین بیٹیاں تھیں . ایک التمش کے نکاح میں آی. اور باقی دو باری باری ناصر الدین قباچہ سے بیاہی گئیں. ناصر الدین قباچہ نے سندھ اور ملتان پر بائیس سال حکومت کی . وہ ایک قابل اور ذہین حکمران تھا لیکن التمش کو قباچہ کی روز افزوں ترقی ایک آنکھ نہ بھائی اور وہ اسے اپنے اقتدار کے لیے ایک خطرہ سمجھنے لگا . التمش نے ایک زبردست حملہ کر کے اسے قلعہ بند ہونے پر مجبور کر دیا . قباچہ نے صلح کی بہت کوشش کی لیکن اقتدار کی طاقت کے نشے میں مخمور اور مستقبل کے خطرے کے پیش نظر التمش نے صلح قبول نہ کی . اور بالآخر قباچہ بھکر سے بھاگنے کی کوشش میں سیلابی پانی میں ڈوب کر مر گیا ( تاریخ فرشتہ جلد اول صفحہ ١٦٩ اردو ترجمہ مشفق خواجہ سن اشاعت ٢٠٠٨ المیزان بپلشرز لاہور )
مجھے رضیہ سلطانہ کا کپڑے سی کر گزر بسر کرنے کا حوالہ بھی نہیں مل پایا. کوئی اور نہیں تو کم از کم شیخ محمد اکرام اتنی اہم بات کا تذکرہ ضرور کرتے لیکن وہ بھی آب کوثر میں رضیہ کے حوالے سے کپڑے سینے کا ذکر نہں کرتے . البتہ تاریخ فرشتہ اور یہ ضرور معلوم ہوا کہ وہ ایک شخص جمال الدین یاقوت حبشی پر بری طرح فریفتہ تھی . اور اسے "امیر الامرا" کے اہم عھدے پر فائز کیا . فرشتہ لکھتا ہے.
"اس (حبشی یاقوت ) کا اثر و رسوخ یہاں تک بڑھا کہ جب رضیہ گھوڑے پر سوار ہوتی تو وہ اس کی بغل میں ہاتھ ڈال کر اسے گھوڑے پر بٹھاتا . یاقوت کاا یہ اقتدار و منصب دیکھ کر دربار کے تمام امرا اسکی جان کے دشمن ہو گئے اور رضیہ سلطانہ کا اقبال تاریکی کے دامن میں آ گیا " ( جلد اول صفحہ ١٧٦)
جہاں تک التمش کے بیٹے ناصر الدین محمود کا تعلق ہے تو جناب وہ محض ایک علامتی بادشاہ تھا جسکا اختیار و اقتدار صدر فضل الہی اور رفیق تارڑ سے زیادہ نہ تھا جبکہ اصل طاقت و اختیار غیاث الدین بلبن کے ہاتھ میں تھا .
فرشتہ رقم طراز ہے " بلبن نے نیابت کی کچھ ایسے مضبوط ، سخت اور مستحکم اصول و قوانین بناے کہ اصل اقتدار اسی کے ہاتھ میں آ گیا ." (تاریخ فرشتہ جلد اول صفحہ ١٨٤)
 
حماد صاحب قطب الاقطاب حضرت خواجہ سیّد محمد قطب الدین بختیار کاکی دہلوی بّرصغیر کے عظیم صوفی بزرگ، سُلطان الہند خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے خلیفہ اور شیخ العالم حضرت بابا فرید الدین گنج شکر کے پیر و مرشد ہیں۔ آپ نے 1187ء میں آنکھ کھولی اور 1236ء میں معبودِ حقیقی سے وصال ہوگیا۔ یہاں یاد رہے کہ حضرت بختیار کاکی کا وصال شعبان کے مہینے میں ہوا اور سلطان التمش کا وصال ذوالحجہ میں ہوا ۔۔۔۔ قاسم فرشتہ کی تاریخ فرشتہ ، ہندوآتہ اور اکبر اعظم کے دین اکبری کے نام نہاد سکالرز کے موقف کے زیادہ قریب ہے جس میں مسلم حکمرانوں کی کردار کشی با بجا نمایاں ہے ۔۔۔ آپ قصص اولیاء پرہیں ۔۔۔۔ اولیاء اکرام کی زندگیوں اور افکار پر ایک جامع اور مستند کتاب ہے ۔۔۔۔ یاد رہے کہ ہندوستان میں تو ایسے ایسے تاریخ دان بھی ہوئے ہیں جنہوں نے مرزا غلام احمق قادیانی کو بھی اسلام کا عظیم تررین سکالر لکھا ہے حالانکہ اس کی کتاب روحانی خزائن وغیرہ وغیرہ صرف انبیاء اکرام، اہل ء بیت، صحابہ اکرام کے بارے گستاخانہ کلمات اور اس کی شاعری فحش الفاظ و کلمات اور دشناموں سے بھری پری ہے ۔۔۔۔۔۔
 

arifkarim

معطل
تو اس بدحالی کا "درویش صاحب" کے نزدیک کیا حل ہے؟ کیا کیا "مغربی" بین کرنے کے بعد انکا "مثالی" اسلامی معاشرہ وجود پزیر ہوگا؟
 

حماد

محفلین
محترم درویش صاحب . میرا خیال تھا کہ آپ مندرجہ بالا بیان کردہ قصوں کے حوالے مستند کتابوں سے پیش کریں گے لیکن آپ نے ہندوستانی تاریخ کی ایک بہت اہم اور مستند کتاب "تاریخ فرشتہ " کو ہی نا قابل بھروسہ قرار دے دیا . اب میں اسے آپ کی ذاتی راے ہی سمجھوں گا کیونکہ آپ نے اس حوالے سے تاریخ کے ان سکالرز کے ریفرنس دئیے بغیر بات کی ہے ، جن کی راے تاریخ فرشتہ کے بارے میں اچھی نہیں .
آپ نے قصص الاو لیا کا ذکر کیا ہے لیکن باقاعدہ حوالہ نہیں لکھا کہ کس صفحے پر یہ واقعہ درج ہے ؟
امید ہے آپ رضیہ سلطانہ کے کپڑے سی کر گزر بسر کرنے کا حوالہ تاریخ کی کسی مستند کتاب سے مہیا کریں گے .
میرا مقصد آپ کو غلط ثابت کرنا نہیں بلکہ اپنی معلومات میں اضافہ ہے جو مستند حوالوں کے بیان کے بغیر بیکار ہے .
 
سرآج کے جدید معاشرے میں تو روشن خیال لوگ قرآن و حدیث میں لکھے کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، انڈین فلم اور ڈرامہ مافیہ بھی مسلم حکمرانوں کے بارے تاریخ کو مسخ کرتا رہا ہے اور پاکستان میں بھی کیمونسٹ ذہن رکھنے والے لوگ اسلام کے بارے بات سننا پسند نہیں کرتے ، قرآن و حدیث کی بات کو بھی ملا ازم کا نام دے دیا جاتا ہے ۔ آپ کس کس کو کیا کیا تاریخ پڑہائیں گے، بس دعا کیا کریں کہ اللہ لوگوں کو ہدایت دے۔ آمین
 

فاتح

لائبریرین
یہ تمام سلاطین ہندوستان کو لوٹنے کے لیے آئے تھے اور جی بھر کر اسے لوٹا اور عیاشیاں کیں اور ہمیں سوائے "کوٹھوں" کے کوئی قابلِ ذکر شے نہ دی۔
ان تمام بادشاہوں کے ہاں تنخواہ دار تاریخ نویس ہوا کرتے تھے جو اپنی نوکری کھری کرنے کی غرض سے بادشاہوں کی اجازت سے ان کی من پسند تاریخ رقم کیا کرتے تھے۔ انھی نام نہاد تاریخ نویسوں نے کسی بادشاہ کے متعلق یہ مضحکہ خیز بیان لکھا کہ وہ کئی لاکھ مربع میل پر پھیلی سلطنت کے امور کی جانب توجہ دینے کی بجائے ٹوپیاں سیتا تھا تو کسی بادشاہ کے متعلق یہ لکھا کہ وہ بچوں کو قرآن پڑھا کر گزر اوقات کرتا تھا۔ انھی تنخواہ دار تاریخ نویسوں کے لکھے ہوئے قصے آج ہم بطور مستند تاریخ پڑھ رہے ہیں۔
یہ وہی بادشاہ ہیں جن میں سے اکثر نے اپنے سگے بھائیوں اور باپوں کو سلطنت حاصل کرنے کے لیے قتل کر دیا اور تاریخ نویسوں سے اپنی شان میں قصیدے درج کروائے اور خود کو ولی اللہ اور صوفی منش لکھوایا۔ انھی قاتل، لٹیرے اور عیاش بادشاہوں میں سے ایک کے متعلق کسی نے کیا خوب لکھا ہے کہ "اس نے اپنی زندگی میں نہ تو کوئی نماز چھوڑی اور نہ کوئی بھائی"۔
ہمارے موجودہ حکمران بھی انھی لٹیرے سلاطین کے نقشِ قدم پر ہی چل رہے ہیں۔ نہ تو پہلے کوئی فرشتہ تھا نہ آج۔
یہ تو حال ہے ہمارے مغلیہ، غلاماں، وغیرہ وغیرہ مسلمان سلاطین کا اور دوسری جانب جس انگریز سے ہم نے بڑے فخر سے جان چھڑائی تھی، آج تک اس کے احسانات مثلا نہری نظام اور ریلوے ہم استعمال کرتے ہیں۔
 

عسکری

معطل
یہ تمام سلاطین ہندوستان کو لوٹنے کے لیے آئے تھے اور جی بھر کر اسے لوٹا اور عیاشیاں کیں اور ہمیں سوائے "کوٹھوں" کے کوئی قابلِ ذکر شے نہ دی۔
ان تمام بادشاہوں کے ہاں تنخواہ دار تاریخ نویس ہوا کرتے تھے جو اپنی نوکری کھری کرنے کی غرض سے بادشاہوں کی اجازت سے ان کی من پسند تاریخ رقم کیا کرتے تھے۔ انھی نام نہاد تاریخ نویسوں نے کسی بادشاہ کے متعلق یہ مضحکہ خیز بیان لکھا کہ وہ کئی لاکھ مربع میل پر پھیلی سلطنت کے امور کی جانب توجہ دینے کی بجائے ٹوپیاں سیتا تھا تو کسی بادشاہ کے متعلق یہ لکھا کہ وہ بچوں کو قرآن پڑھا کر گزر اوقات کرتا تھا۔ انھی تنخواہ دار تاریخ نویسوں کے لکھے ہوئے قصے آج ہم بطور مستند تاریخ پڑھ رہے ہیں۔
یہ وہی بادشاہ ہیں جن میں سے اکثر نے اپنے سگے بھائیوں اور باپوں کو سلطنت حاصل کرنے کے لیے قتل کر دیا اور تاریخ نویسوں سے اپنی شان میں قصیدے درج کروائے اور خود کو ولی اللہ اور صوفی منش لکھوایا۔ انھی قاتل، لٹیرے اور عیاش بادشاہوں میں سے ایک کے متعلق کسی نے کیا خوب لکھا ہے کہ "اس نے اپنی زندگی میں نہ تو کوئی نماز چھوڑی اور نہ کوئی بھائی"۔
ہمارے موجودہ حکمران بھی انھی لٹیرے سلاطین کے نقشِ قدم پر ہی چل رہے ہیں۔ نہ تو پہلے کوئی فرشتہ تھا نہ آج۔
یہ تو حال ہے ہمارے مغلیہ، غلاماں، وغیرہ وغیرہ مسلمان سلاطین کا اور دوسری جانب جس انگریز سے ہم نے بڑے فخر سے جان چھڑائی تھی، آج تک اس کے احسانات مثلا نہری نظام اور ریلوے ہم استعمال کرتے ہیں۔
کیوں سچ بول کر شامت کو آواز دے رہو یار ۔مغلیہ حکمران تو فرشتہ صفت لوگ تھے ان کے ہاتھ سے کسی جاندار کو تو دور پرندے کو چوٹ نہیں پینچی تھی ۔ھھھھھھھھھ یہ ایک نشہ ہے میرے بھائی جس طرح نسیم حجازی التمش اور عنایت الل ہ کی لکھی فانٹسی کو پڑھ کر سرور اور کیف کی کیفیت ملتی ہے ویسے ہی یہ سب ہے جس کا تاریخ سے کوئی لینا دینا نہیں
 

عسکری

معطل
سرآج کے جدید معاشرے میں تو روشن خیال لوگ قرآن و حدیث میں لکھے کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، انڈین فلم اور ڈرامہ مافیہ بھی مسلم حکمرانوں کے بارے تاریخ کو مسخ کرتا رہا ہے اور پاکستان میں بھی کیمونسٹ ذہن رکھنے والے لوگ اسلام کے بارے بات سننا پسند نہیں کرتے ، قرآن و حدیث کی بات کو بھی ملا ازم کا نام دے دیا جاتا ہے ۔ آپ کس کس کو کیا کیا تاریخ پڑہائیں گے، بس دعا کیا کریں کہ اللہ لوگوں کو ہدایت دے۔ آمین
آپ غلط فرما رہی ہیں ہمیں تاریخ سمجھنے کے لیے رام لیلا یا راماین یا انڈین ڈرامے فلموں کی کوئی ضرورت نہیں ۔ میں اپنے آپ کو اگر دیکھوں تو پچھلے 10 سال میں میں نے کوئی انڈین فلم نہیں دیکھی ہاں 5-7 انگلش فلمیں دیکھی جن کی بڑی دھوم تھی اوتار ٹایٹینک لارڈ آف رنگز وغیرہ ۔ مشکل یہ ہے کہ ایک آدمی اگر اتفاق نا کرے تو کمیونسٹ زہن (ویسے کمیونزم نا کوئی زہنیت ہے نا مزہب آپ کا اشارہ لبرل ازم کی طرف تھا؟ کیونکہ کمیونزم تو مر چکا ہے ) یا کافر امریکی ایجنٹ کے نعرے لگتے ہیں
 
اورنگ زیب عالمگیرنے شجاع، دارا اور دارالشکوہ کے ساتھ صحیح سلوک کیا اور اس کی وجہ ان کے دہریانہ و غیر شریعی عقائد اور دشمنان ِ اسلام سے باطل تعلقات تھے اور شاہ جہاں کو قید کئے جانے کی وجہ بھی اس کی عاشق مزاجیوں کے نتیجے میں اسلامی سلطنت کی زوال پذیری تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ویسے تو لوگ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسے حکمران کے بارے بھی ،، خوبصورت تنقید،، لکھتے ہیں اور سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ اور یزید کے معرکہ ءکربلا کو بھی دو شہزادوں کے مابین اقتدار کی جنگ قرار دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ دہر و کفر کے پیروکار نام نہاد فلاسفر اور اسلام دشمن تحریریں لکھنے والے روشن خیال اورمغرب نواز دانشور نہ تو صدیوں پہلے اہل ِ حق کو ورغلا سکے تھے نہ آج ان کا راستہ روک سکیں گے۔ سو کانگرسی افکار اور بال ٹھاکرے، ہندوآتہ اور مرزا غلام احمق قادیانی کے دجالی فلسفے کے عین مطابق مغلوں اور دوسرے سلاطین ِ ہند آٹھ سو سالہ دور اقتدارکے بارے منفی پراپیگنڈا لکھنے والے یا رنجیت سنگھ جی اور شیواجی کے قصیدے لکھنے والے ،، مسلمان ،، کل بھی موجود تھے ،آج بھی ہیں ۔۔۔۔۔ ان کی سوچ کا مونہہ توڑ جواب دینے کیلئے کوئی نہ کوئی عطا اللہ شاہ بخاری ، مہر علی شاہ ،نسیم حجازی اور طارق اسمٰعیل ساگر جیسا مرد مومن پیدا ہوتا رہتا ہے ۔۔۔۔۔ یہی قدرت کا نظام ہے ۔۔۔۔۔۔۔
 

فاتح

لائبریرین
بجائے حوالوں اور دلائل کے بات کرنے کے یہ حضرت تو شروع ہو گئے بڑی بوڑھیوں کی طرح کوسنے دینے۔ ہاہاہاہا
لہٰذا ہماری جانب سے "سلاما"
 
اردو فورم کی سینیئر مینجمنٹ سے میری اپیل ہے کہ وہ ایک معزز بزرگ ممبر سر فاروق درویش صاحب کے بارے ( بڑی بوڑھیوں ) قابل اعتراض ریمارکس اور پرسنل اٹیک کا نوٹس لیں، یہ کہاں کا ادب اور کہاں کی سکالری ہے کہ غیر پارلیمانی انداز میں ہتک آمیز طنز کئے جائیں۔ افسوس ہے ایسے ادبی لوگوں کی زبان پر جو سر درویش کے خلاف جمیل الرحمن اور رفیع رضا جیسے شاتم اسلام اور گستاخ قرآن لوگوں جیسی زبان بولنے اور تمسخر اڑانے پر اتر آئے ہیں۔

کیا یہ اردو ادب یہ بے ادب زبان سکھاتا ہے؟
(بجائے حوالوں اور دلائل کے بات کرنے کے یہ حضرت تو شروع ہو گئے بڑی بوڑھیوں کی طرح کوسنے دینے۔ ہاہاہاہا
لہٰذا ہماری جانب سے "سلاما"​
فاتح الدین بشیر)
 

شمشاد

لائبریرین
فاروق درویش صاحب اور حماد بھائی کے درمیان بہت اچھی اور مزے کی بات چیت ہو رہی تھی۔ مجھے افسوس ہے کہ فاتح بھائی نے اس مزے کو کرکرا کر دیا۔ امید کرتا ہوں کہ وہ رجوع کر لیں گے۔
 
فاروق درویش صاحب اور حماد بھائی کے درمیان بہت اچھی اور مزے کی بات چیت ہو رہی تھی۔ مجھے افسوس ہے کہ فاتح بھائی نے اس مزے کو کرکرا کر دیا۔ امید کرتا ہوں کہ وہ رجوع کر لیں گے۔

عزت مآب برادرِ من شمشاد صاحب، خوش آباد و خوش مراد۔۔۔۔۔۔۔ حضور مجھے اردو محفل کے اس فورم اور اس کے ان سب معزز منتظمین کا احترام بیحد عزیز ہے جو مجھ سے بے پناہ محبت اور عزت کرتے ہیں ۔۔۔۔۔ لہذا میں کسی بھی جارحانہ مزاج شخص کو اس فورم پر اس کے ،،حسین انداز،، میں جواب دے کر اس فورم کا ماحول پراگندا ہرگز نہیں کروں گا ۔۔۔۔۔ اللہ سبحان تعالٰی ان دوستوں کو ہدایت اور مجھے استقامت عطا کرے ۔۔۔۔ با ادب با مراد ، بے ادب بے مراد ۔۔۔۔۔۔۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top