کاشفی
محفلین
حمدِ غفور و رحیم
(ضامن جعفری)
کلی کے بس میں، نہ کچھ گل کے اختیار میں ہے
یہ حسنِ کل کی جھلک حسنِ مستعار میں ہے
لب و زباں کی، فقط لرزشوں میں، لطف کہاں؟
مزہ، جو روح صدا دے، تَو ایک بار میںہے
ہَوا کے دوش پہ مرکز کی سمت خاک چلی
تڑپ جو دل میں تھی میرے، وہی غبار میں ہے
فرازِ طُور پہ، جانے کی، کیا ضرورت تھی
اُسی کا عکس، ہر آئینہ بہار میں ہے
فرشتہ کاش کرے روح سلب یہ کہہ کر
ہر ایک خلد میں، ضامن کے انتظار میں ہے
(ضامن جعفری)
کلی کے بس میں، نہ کچھ گل کے اختیار میں ہے
یہ حسنِ کل کی جھلک حسنِ مستعار میں ہے
لب و زباں کی، فقط لرزشوں میں، لطف کہاں؟
مزہ، جو روح صدا دے، تَو ایک بار میںہے
ہَوا کے دوش پہ مرکز کی سمت خاک چلی
تڑپ جو دل میں تھی میرے، وہی غبار میں ہے
فرازِ طُور پہ، جانے کی، کیا ضرورت تھی
اُسی کا عکس، ہر آئینہ بہار میں ہے
فرشتہ کاش کرے روح سلب یہ کہہ کر
ہر ایک خلد میں، ضامن کے انتظار میں ہے