بسم اللہ الرحمن الرحیم

قصیدہ نعتیہ

اے سرور دوکون شہنشاہ ذوالکرم
سرخیل مرسلین و شفاعت گرامم
موکب ترا ملائک و مرکب ترا براق
مولد ہے تیرا مکہ و معبد ترا حرم
رنگ ظہور سے ترے گلشن ر خ حدوث
نور وجود سے ترے روشن دل قدم
ہوتا کبھی نہ قالب آدم میں نفع روح
بھرتا اگر خدا نہ محبت کا تیری دم
کرتا تھا جس سے مردہ کو زندہ دم مسیح
تھا شمہ تیرے خلق کا وہ اے علوشیم
ٹوٹا جو کفر قوت اسلام سے ترے
صد جائے سے شکست ہے زنار موج یم
تو تھا سیریراوج رسالت پہ جلوہ گر
آدم جہاں ہنوز پس پردہ عدم
کرتا تھا تیرے اسم مبارک کو دل پہ نقش
اس واسطے عزیز جہاں ہو گیا ورم
اے معدن کرم تری ہمت کے روبرو
کمتر ہے سنگریزہ سے قدر نگین جم
جو کچھ سوائے عرش وہ سب اس کے سایہ میں
تیرے ہوا ہے جاہ کا برپا جہان علم
صدقے زمیں کے ہوتا نہ پھر پھر کے آسماں
رکھتا سرمیں نہ اگر اپنا تو قدم
محروم تیرے دست مبارک سے رہ گیا
کیونکر نہ چاک اپنا گریباں کرے قلم
عالم کو تیرا نور وا باعث ظہور!
آدم ترے ظہور سے ہے مظہر اتم
ہیں زایران روضہ اقدس ترے جہاں
آتا ہے پائے بوس کو واں روضہ ارم
واللیل تیرے گیسوئے مشکیں کی ہے ثنا
ولشمس ہے ترے رخ پرنور کی قسم
انصاف تیرا دیوے جو داد ستم کشاں
دندان سین ارہ کشاں ہو سر ستم
قرآں میں جبکہ خود ہو ثنا خواں ترا خدا
کیا تاب پھر قلم کی جو کچھ کر سکے رقم
تیری جناب پاک میں ہے یہ ظفر کی عرض
صدقے میں اپنی آل کے اے شاہ محتشم
صیقل سے اپنے لطف و عنایت کے دور کر
آئینہ ضمیر سے میرے غبار غم
پہنچا نہ آستان مقدس کو تیرے میں
اس غم سے مثل چشمہ ہوئی میری چشم نم
پر خاک آستاں کو تری اپنی چشم میں!
کرتا ہوں سرمہ سیل تصور سے دم بدم
 
آغاز غزلیات

مقدور کس کو حمد خدائے جلیل کا
اس جا پہ بے زباں ہے دہن قال و قیل کا
پانی میں اس نے راہبری کی کلیم کی
آتش میں وہ ہوا چمن آرا خلیل کا
اس کی مدد سے فوج ابابیل نے کیا
لشکر تباہ کعبہ پہ اصحاب فیل کا
پیدا کیا وہ اس نے بشر عوج بن عنق
پل جس کی ساق پا سے بنارو د نیل کا
پھرتا ہے اس کے حکم سے گردو ں یہ رات دن
چلتا ہے یاں عمل کوئی جر ثقیل کا
بلوایا اپنے دوست کو اس نے وہاں جہاں
مقدور پر زدن نہ ہوا جبرئیل کا
کیا پائے کنہ ذات کو اس کی کوئی ظفر
واں عقل کا نہ دخل نہ ہرگز دلیل کا
 
کشتہ ہوں اس کے طرہ عنبر شمیم کا
خوشبو ہے میری خاک سے دامن نسیم کا

گلشن ہو خلد کا کہ چمن ہو نعیم کا
کب دل لگے ہے تیری گلی کے مقیم کا

دولت سے عشق کی مراہر قطرہ سرشک
تکمہ ہے میری جیب میں در یتیم کا

تاراج یوں کیا جو مرا ملک دل تمام
مژگاں تھی تیری پا کوئی لشکر غنیم کا

ہو جائے کام نیم نگہ میں تری تمام
اے شوخ تیرے شیفتہ دل دو نیم کا

دکھلائیں سوزش دل بیتاب ہم اگر
کانپ اٹھے شعلہ شوق سے نار حجیم کا

حیرت نہیں کہ پرتو رخسار یار سے
آئینہ ہو اگر ید بیضا کلیم کا

آتی ہیں یاد ہجر کی ہم کو اذیتیں
واعظ سے ذکر سن کے عذاب الیم کا

آنکھوں میں اپنے نور اسی سے ہے اے ظفر
یہ مرومک ہے سایہ محمد کے میم کا
 
کسی نے اس کو سمجھایا تو ہوتا
کوئی یاں تک اسے لایا تو ہوتا
مزہ رکھتا ہے زخم خنجر عشق
کبھی اے بوالہوس کھایا تو ہوتا
نہ بھیجا تو نے لکھ کر ایک پرچہ
ہمارے دل کو پرچایا تو ہوتا
کہا عیسیٰ نے قم کشتے کو تیرے
کچھ اب تو نے بھی فرمایا تو ہوتا
نہ بولا ہم نے کھرکایا بہت در
ذرا درباں کو کھڑکایا تو ہوتا
یہ نخل آہ ہوتا بید ہی کاش
نہ ہوتا گو ثمر سایا تو ہوتا
جو کچھ ہوتا سو ہوتا تو نے تقدیر
وہاں تک مجھ کو پہنچایا تو ہوتا
کیا کس جرم پر تو نے مجھے قتل
ذرا تو دل میں شرمایا تو ہوتا
کیا تھا گر مریض عشق مجھ کو
عیادت کو کبھی آیا تو ہوتا
دل اس کی زلف میں الجھا ہے کب سے
ظفر اک روز سلجھایا تو ہوتا
 
مژدہ اے دل کہ مرے پاس وہ یارا دے گا
خاک پا اس کی بنوں گا وہ سوار آوے گا

اس لیے صید گہ عشق میں ہم صید بنے
کہ کبھی صید فگن بہر شکار آوے گا

دیکھ اے دل تو نہ پی جام محبت کی شراب
بے مزہ ہووے گا جس وقت خمار آوے گا

دم لبوں پر ہے مرا آ جو تجھے آنا ہے
مجھ کو کیا گرچہ پس از مرگ ہزار آوے گا

تو جو آئینہ صفت غیر سے ہو جائے گا صاف
تیری جانب سے مرے دل میں غبار آوے گا

یہ یہیں تک ہے گلہ کہنا نہیں کوئی ہمیں
گنتیاں بھولیں گے جب روز شمار آوے گا

لے گیا ایک ہی بار آنے میں دل اپنا ظفر
ہو گا کیا دیکھے جب وہ کئی بار آوے گا
 
یار دیرینہ ہے پر روز ہے وہ یار نیا
ہر ستم اس کا نیا اس کا ہے ہر پیار نیا

نئی انداز کا ہے دام بلا طرہ یار
روز ہے ایک نہ اک اس میں گرفتار نیا

تیری ہاں میں ہے نہیں اور نہیں میں ہے ہاں
تیرا اقرار نیا ہے ترا انکار نیا

کیسے بیدرد دل آزار کو دل ہم نے دیا
روز ہے درد نیا، روز اک آزار نیا

کیا قیامت ہے ستمگار تری طرز خرام
فتنہ ہر گام پہ اٹھا دم رفتار نیا

کریں وہ کس کی دوا دیکھتے ہیں رو ز طبیب
تیرے اس نرگس بیمار کا بیمار نیا

پھیر لے اس سے ظفر دل کا جو سودا پھر جائے
ایک موجود ہے اور اس کا خریدار نیا
 
نہ پوچھو دل کہاں پہنچا کسی کو کیا کہیں پہنچا
جہاں پہنچا نہ کوئی یہ وہیں پہنچا وہیں پہنچا

کہاں پہنچا ہے دیکھو ہمدموپیک خیال اپنا
کہ اب تک اس جگہ کوئی فرشتہ بھی نہیں پہنچا

زمیں لرزی ترپنے سے ترے بسمل کے یہ قاتل
کہ آخر اس کا اک صدمہ سر گاوز میں پہنچا

نہ پہنچا تو نہ پہنچا طالب دیدار تک اپنے
تری تکتے ہی تکتے راہ وقت واپسیں پہنچا

چھپا خورشید تاباں شرم سے زیر زمیں جا کر
مری جو آہ کا شعلہ سر چرخ بریں پہنچا

مجھے ڈر ہے نہ پہنچے پہچیوں کے بوجھ سے صدمہ
کہ نازک ہے نہایت ہی ترا اے نازنیں پہنچا

ظفر دامان مژگاں سے ٹپکا چاہے تھا آنسو
اگر پہنچا سکے آنکھوں تلک تو آستیں پہنچا
 
ہاں فرو سوز دل اک دم نہ ہوا پر نہ ہوا
اور گریہ سے بڑھا کم نہ ہوا پر نہ ہوا

سن کر احوال جگر سوز غریب عشق کا
ہائے افسوس تجھے غم نہ ہوا پر نہ ہوا

کشتہ از کے افسوس جنازے پہ ذرا
چشم پر آب تو اک دم نہ ہوا پر نہ ہوا

چارہ گر کی نہیں تقصیر بہت کی تدبیر
کارگر زخم پہ مرہم نہ ہوا پر نہ ہوا

سن کے نالوں کو مرے ہو گئے پتھر پانی
سر مژگاں کبھی ترا نم نہ ہوا پر نہ ہوا

ہے مثل آ گیا دم ناک میں اپنا لیکن
یار اپنا کبھی ہمدم نہ ہوا پر نہ ہوا

میری جانب سے پڑی سخت گرہ دل میں ترے
سست پیماں ترا محکم نہ ہوا پر نہ ہوا

ہوں وہ آزاد کہ جوں سرو کسی کی خاطر
قد تعظیم مرا خم نہ ہوا پر نہ ہوا

رات ہمسایوں نے اٹھ اٹھ کے دعائیں مانگیں
سوز نالہ مرا مدھم نہ ہوا پر نہ ہوا

جہد کی صنع قدرت نے دلے تیرا سا
کسی مخلوق پہ عالم نہ ہوا پر نہ ہوا

اے ظفر دیکھئے عقبے میں ہو کیا حال اپنا
چین دنیا میں تو اک دم نہ ہوا پر نہ ہوا
 
آیا نہ اگر نامہ و پیغام کسی کا
آخر ہے کوئی روز میں یاں کام کسی کا
دیں جان تو ہم غیر کو دو بوسہ ہستم ہے
لے جائے کوئی اور ، ہوا نام کسی کا
اس چشم کی گردش سے ہو دل کیونکر نہ برباد
گھر چھوڑے ہے کب گردش ایام کسی کا
وہ کرتے ہیں آرام سدا غیر کے گھر میں
کیا کام انہیں جائے ہو آرام کسی کا
شب ہالہ مہ رشک سے گردوں پر نہ نکلا
چھلا جو پڑا دیکھا لب بام کسی کا
ساقی نہ کھلا بھید کہ اوندھا ہے فلک کیوں
مدت سے ہے اوندھا ہوا بس جام کسی کا
جو ہے وہ مرے نام سے ہے عشق میں آگاہ
بدنام ظفر نہ ہو غرض نام کسی کا
 
ہم نے دنیا میں آ کے کیا دیکھا
دیکھا جو کچھ سو خواب سا دیکھا

ہے تو انسان خاک کا پتلا
ایک پانی کا بلبلا دیکھا

خوب دیکھا جہاں کے خوباں کو
ایک تجھ سا نہ دوسرا دیکھا

ایک دم پر ہوا نہ باندھ حباب
دم کو دم بھر میں یاں ہوا دیکھا

سامنے اس نگاہ کے دل کو
ہدف ناوک قضا دیکھا

نہ ہوئے تیری خاک پا ہم نے
خاک میں آپ کو ملا دیکھا

اب نہ دیجئے ظفر کسی کو دل
کہ جسے دیکھا بے وفا دیکھا
 
اٹھا دے پردہ نہیں، پردہ میں اٹھا دوں گا
طپش سے دل کی ابھی عرش تک ہلا دوں گا

نہ ہوتا عشق کا میکش اگر خبر ہوتی
کہ ایک جام میں دونوں جہاں بھلا دوں گا

کہے ہے مجھ سے وہ قاتل کہ میرے کوچے میں
رکھا جو تو نے قدم سر ترا اڑا دوں گا

میں اس کو دیکھ کے یہ محو ہوں کہ حیران ہوں
جو کچھ وہ پوچھے گا مجھ سے جواب کیا دوں گا

اگر تو آوے گا تو جائے فرش پا انداز
میں اپنی آنکھیں ترے زیر پا بچھا دوں گا

دم خرام وہ بولا کہ ایک ٹھوکر میں
ہزار فتنہ خوابیدہ کو جگا دوں گا

جو پوچھا میں نے لب زخم تو کہے گا کیا
کہا کہ خنجر قاتل کو میں دع دوں گا

یہ دے کے دم مجھے لایا تھا کھینچ جوش ظہور
کہ چل جہاں کا تماشا تجھے دکھا دوں گا

نہ پوچھ مجھ سے ظفر میری تو حقیقت حال
اگر کہوں گا ابھی تجھ کو میں رلا دوں گا​
 
ڈالے ہوئے گردن جو مرا نامہ بر آیا
کچھ مطلب دل یار کا معلوم کر آیا

صورت ہے بتوں کی عجب اللہ کی قدرت
ہر جلوے میں اک اور ہی جلوہ نظر آیا

گر فکر میں ہو، راہ کے توشے کا کروفکر
اے غافلو نزدیک ہے روز سفر آیا

باندھی ترے ہاتھوں میں جو کل عیر نے مہندی
آنکھوں میں مری دیکھ کے لو ہوا تر آیا

لوٹے گا پڑا خاک کے بستر پہ وہ تا حشر
آرام کی گٹھڑی کو جو ہستی میں دھر آیا

کیا حرف زباں پر ترے آیا تھا کہ اے شمع
گل گیر ترے سر پہ جو منہ کھول کر آیا

کیا جانے بنی قیس پہ کیا دشت جنوں میں
جو خاک بسر آج بگولا نظر آیا

اک ہم ہی نہیں بے خبر آئے ہیں جہاں میں
جو آیا جہاں میں ہے سو وہ بے خبر آیا

میں شرم سے عصیاں کے ہوا سر بگریباں
جس وقت خیال آہ ادھر کا ظفر آیا
 
اس در پہ جو سر بار کے روتا کوئی ہوتا
تو بستر راحت پہ نہ سوتا کوئی ہوتا

کس کا فلک اول و ہفتم کہ مرا اشک
اک آنکھ جھپکتے میں ڈبوتا کوئی ہوتا

یہ دل ہی تھا ناداں کہ تری زلف سے الجھا
یوں اپنے لیے خار نہ بوتا کوئی ہوتا

بلبل بھی تھی جاں باختہ پروانہ بھی جانباز
پر میری طرح جان نہ کھوتا کوئی ہوتا

لالہ کے بھی کام آتا صبا گریہ شبنم
گر داغ جگر اشک سے دھوتا کوئی ہوتا

ہم بھی گل لخت جگر اپنے اسے دیتے
یہ پھول جو بالوں میں پروتا کوئی ہوتا

تنہائی میں اتنا تو نہ گھبراتا ظفر میں
دل گرچہ مرے پاس نہ ہوتا کوئی ہوتا​
 
خط و رخ اس سیمبر کا سیہ ایسا سفید ایسا
ورق کب ماہ انور کا سیہ ایسا سفید ایسا

ڈزلف اور مانگ ہے اس کی کہ کوئی سانپ عالم میں
نہیں اس کے برابر کا سیہ ایسا سفید ایسا

مرے مژگان اشک آلودہ کو دیکھو کہ برسے ہے
یہ بادل دیدہ تر کا سیہ ایسا سفید ایسا

مسی زیب اس کے دنداں دیکھ حیراں ہوں کہ ہے کیونکر
یہ رنگ اس سلک گوہر کا سیہ ایسا سفید ایسا

نہ دیکھوں نرگس شہلا کا گل کیونکر کہ ہے نقشہ
بعینہ چشم دلبر کا سیہ ایسا سفید ایسا

خجالت کش سواد شام و نور صبح ہیں دونوں
دوشالہ ہے ترے سر کا سیہ ایسا سفید ایسا

سرشک سرمہ آلود اپنا دکھلا کر وہ کہتے ہیں
کہ ہے رنگ میں اس کبوتر کا سیہ ایسا سفید ایسا

نہ ہوویں سوسن و نسریں خجل کیونکر کہ ہے زیبا
لباس اس ماہ پیکر کا سیہ ایسا سفید ایسا

ظفر ہیں نیلم و الماس پتھر ایک صانع نے
کیا ہے رنگ پتھر کا سیہ ایسا سفید ایسا​
 
ترا گر ناخن پا تیرا مائل دھو کے پی جاتا
تو اس کے ہاتھ پاؤں مل کے کامل دھوکے پی جاتا

نہ آتا ہاتھ خوں میرا اگر اس تشنہ خوں کے
تو اپنی تیغ پرخون کو وہ قاتل دھوکے پی جاتا

اگلتا زہر پھر کیا کیا وہ تیرہ بخت سودائی
اگر کوئی ترے رخسار کا تل دھو کے پی جاتا

اگر ہو سکتا عالم میں حصول علم بے محنت
تو پھر ساری کتابیں ایک جاہل دھو کے پی جاتا

اٹھا سکتا جو مجنوں نقش پائے ناقہ لیلیٰ
تو جوں تعویذ ہول دل وہ بیدل دھو کے پی جاتا

حلاوت یاد کر کر تیری آب تیغ کی قاتل
بدن کے زخم اپنے آپ گھائل دھو کے پی جاتا

ظفر بے شغل ہی ہو جاتا سب کچھ منکشف اس پر
در فخر جہاں گر کوئی شاغل دھو کے پی جاتا​
 
اپنی جانب کو جسے تو نے لبھایا ہو گا
کوئی اور اس کو سوا تیرے نہ بھایا ہو گا

در تلک جس کو رسائی ترے ہو گی اس نے
سنگ در چوم کے آنکھوں سے لگایا ہو گا

دے گا وہ حرص و ہوس کو نہ کبھی دل میں جگہ
دل میں جس شخص کے تو آپ سمایا ہو گا

منہ تھا کیا ماہ کا کوٹھے پہ ترے منہ چڑھتا
مہر پرنور نے بھی منہ نہ دکھایا ہو گا

درد سر تم جو بتاتے ہو نصیب اعدا
درد دل آپ کو عاشق نے سنایا ہو گا

درپئے قتل نہیں میرے وہ قاتل اے دل
تیغ ابرو کو جو کھینچا تو ڈرایا ہو گا

بے خطا تو نہیں ہوتے ہیں ظفر وہ برہم
زلف کو ہاتھ کہیں تو نے لگایا ہو گا​
 
زلف میں بل اور کاکل پرخم پیچ کے اوپر پیچ پڑا
وہ ہوئی سرکش یہ ہوئی برہم پیچ کے اوپر پیچ پڑا

دل کو ہے پیچ و تاب الم سے دود جگر پیچیدہ دم سے
دیکھ تو کیسا عشق میں ہمدم پیچ کے اوپر پیچ پڑا

پیچ سے وہ کرتا ہے یاری باتیں اس کی پیچ کی ساری
نکلیں اس کے پیچ سے کیا ہم پیچ کے اوپر پیچ پڑا

دل تو کمند غم میں پھنسا ہے جان اسیر دام بلا ہے
عشق کے ہاتھوں ناک میں ہے دم پیچ کے اوپر پیچ پڑا

یار نے جب یکہ پیچہ سج کر باندھا پھر سر پیچ کو سر پر
ہو گیا اپنا اور ہی عالم پیچ کے اوپر پیچ پڑا

دونوں طرف کو تار نظر کے کھینچتے ہیں دل دونوں طرف سے
خوب پتنگوں میں ہے باہم پیچ کے اوپر پیچ پڑا

موت نے آ کر ٹھونکا جب خم بھول گیا تو کشتی اس دم
یوں تو بڑا تھا سب پر رستم پیچ کے اوپر پیچ پڑا

زلف نے کھل کر پیچ پہ مارے پیچ میں لائے دل کو ہمارے
چوٹی کھلی تو اور بھی اس دم پیچ کے اوپر پیچ پڑا

جبکہ فتح پیچ اس نے سر پہ گوندھ کے باندھا جوڑا کافر
دل نے جانا آج مسلم پیچ کے اوپر پیچ پڑا

عشق ظفر ہے گورک دھندا اس کے کھولے پیچ کوئی کیا
ایک کھلا تو دوسرا محکم پیچ کے اوپر پیچ پڑا​
 
اشک کا قطرہ فقط کیا صاف گوہر سا بنا
بلکہ لخت دل بھی ہے یاقوت احمر سا بنا

صبحدم گلشن میں آیا میکشی کو کیا وہ گل
ہر گل لالہ جو ہے یکدست ساعر سا بنا

گل سے بھی نازک بدن اس کا ہے لیکن دوستو
یہ غضب کیا ہے کہ دل پہلو میں پتھر سا بنا

دشت میں بھی تیرے مجنوں کی مگر تدبیر ہے
خار وادی جنوں جو تیر و نشتر سا بنا

کیا گریباں ہے بنا اس ماہ کا ہیکل ہلال
بلکہ تکمہ بھی گریباں کا ہے اختر سا بنا

در پر اس پردہ نشیں کے آہ وقت انتظار
چشم کا حلقہ ہمارے حلقہ در سا بنا

کیا عجب حال سوید اگر جلے مثل سپند
سوزش الفت سے دل اپنا ہے مجمر سا بنا

عشق نے کیا جانیے کیا دل میں بھڑکائی ہے آگ
اب جو سینے میں مرے ہر داغ اخگر سا بنا

اے ظفر منظور تھا اس چشم کو عاشق کا قتل
اس لیے ہرموئے مژگاں اس کا خنجر سا بنا​
 
منہ نظر آوے نہ کیوں کر آنکھ میں اس یار کا
آنکھ اپنی بن گئی ہے آئنہ دیدار کا

صفحہ قرآن پر کھینچی ہے اک جدول سیاہ
مصحف رخ پر وہ سایہ زلف کے ہر تار کا

پاس ابرو کے مرصع کارٹیکاہے کہاں
ہے میاں قبضہ جڑاؤ یار کی تلوار کا

زحم دل کو صاف کرتا ہے خیال خط سبز
چارہ گر مرہم نہ رکھ بے فائدہ زنگار کا

گرمری مژگان تر برسائے موتی ایک بار
نام دھو ڈالے جہاں سے ابر گوہر بار کا

دیکھا جھانکا کہیں وہ مہروش شاید کہ ہے
اختر صبح قیامت روزن اس دیوار کا

محو حیرت کیوں نہ ہو وہ اے ظفر آئینہ دار
دیکھنے والا جو ہو اس آئینہ رخسارکا​
 
Top