عمار ابن ضیا
محفلین
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قصیدہ نعتیہ
اے سرور دوکون شہنشاہ ذوالکرم
سرخیل مرسلین و شفاعت گرامم
موکب ترا ملائک و مرکب ترا براق
مولد ہے تیرا مکہ و معبد ترا حرم
رنگ ظہور سے ترے گلشن ر خ حدوث
نور وجود سے ترے روشن دل قدم
ہوتا کبھی نہ قالب آدم میں نفع روح
بھرتا اگر خدا نہ محبت کا تیری دم
کرتا تھا جس سے مردہ کو زندہ دم مسیح
تھا شمہ تیرے خلق کا وہ اے علوشیم
ٹوٹا جو کفر قوت اسلام سے ترے
صد جائے سے شکست ہے زنار موج یم
تو تھا سیریراوج رسالت پہ جلوہ گر
آدم جہاں ہنوز پس پردہ عدم
کرتا تھا تیرے اسم مبارک کو دل پہ نقش
اس واسطے عزیز جہاں ہو گیا ورم
اے معدن کرم تری ہمت کے روبرو
کمتر ہے سنگریزہ سے قدر نگین جم
جو کچھ سوائے عرش وہ سب اس کے سایہ میں
تیرے ہوا ہے جاہ کا برپا جہان علم
صدقے زمیں کے ہوتا نہ پھر پھر کے آسماں
رکھتا سرمیں نہ اگر اپنا تو قدم
محروم تیرے دست مبارک سے رہ گیا
کیونکر نہ چاک اپنا گریباں کرے قلم
عالم کو تیرا نور وا باعث ظہور!
آدم ترے ظہور سے ہے مظہر اتم
ہیں زایران روضہ اقدس ترے جہاں
آتا ہے پائے بوس کو واں روضہ ارم
واللیل تیرے گیسوئے مشکیں کی ہے ثنا
ولشمس ہے ترے رخ پرنور کی قسم
انصاف تیرا دیوے جو داد ستم کشاں
دندان سین ارہ کشاں ہو سر ستم
قرآں میں جبکہ خود ہو ثنا خواں ترا خدا
کیا تاب پھر قلم کی جو کچھ کر سکے رقم
تیری جناب پاک میں ہے یہ ظفر کی عرض
صدقے میں اپنی آل کے اے شاہ محتشم
صیقل سے اپنے لطف و عنایت کے دور کر
آئینہ ضمیر سے میرے غبار غم
پہنچا نہ آستان مقدس کو تیرے میں
اس غم سے مثل چشمہ ہوئی میری چشم نم
پر خاک آستاں کو تری اپنی چشم میں!
کرتا ہوں سرمہ سیل تصور سے دم بدم
قصیدہ نعتیہ
اے سرور دوکون شہنشاہ ذوالکرم
سرخیل مرسلین و شفاعت گرامم
موکب ترا ملائک و مرکب ترا براق
مولد ہے تیرا مکہ و معبد ترا حرم
رنگ ظہور سے ترے گلشن ر خ حدوث
نور وجود سے ترے روشن دل قدم
ہوتا کبھی نہ قالب آدم میں نفع روح
بھرتا اگر خدا نہ محبت کا تیری دم
کرتا تھا جس سے مردہ کو زندہ دم مسیح
تھا شمہ تیرے خلق کا وہ اے علوشیم
ٹوٹا جو کفر قوت اسلام سے ترے
صد جائے سے شکست ہے زنار موج یم
تو تھا سیریراوج رسالت پہ جلوہ گر
آدم جہاں ہنوز پس پردہ عدم
کرتا تھا تیرے اسم مبارک کو دل پہ نقش
اس واسطے عزیز جہاں ہو گیا ورم
اے معدن کرم تری ہمت کے روبرو
کمتر ہے سنگریزہ سے قدر نگین جم
جو کچھ سوائے عرش وہ سب اس کے سایہ میں
تیرے ہوا ہے جاہ کا برپا جہان علم
صدقے زمیں کے ہوتا نہ پھر پھر کے آسماں
رکھتا سرمیں نہ اگر اپنا تو قدم
محروم تیرے دست مبارک سے رہ گیا
کیونکر نہ چاک اپنا گریباں کرے قلم
عالم کو تیرا نور وا باعث ظہور!
آدم ترے ظہور سے ہے مظہر اتم
ہیں زایران روضہ اقدس ترے جہاں
آتا ہے پائے بوس کو واں روضہ ارم
واللیل تیرے گیسوئے مشکیں کی ہے ثنا
ولشمس ہے ترے رخ پرنور کی قسم
انصاف تیرا دیوے جو داد ستم کشاں
دندان سین ارہ کشاں ہو سر ستم
قرآں میں جبکہ خود ہو ثنا خواں ترا خدا
کیا تاب پھر قلم کی جو کچھ کر سکے رقم
تیری جناب پاک میں ہے یہ ظفر کی عرض
صدقے میں اپنی آل کے اے شاہ محتشم
صیقل سے اپنے لطف و عنایت کے دور کر
آئینہ ضمیر سے میرے غبار غم
پہنچا نہ آستان مقدس کو تیرے میں
اس غم سے مثل چشمہ ہوئی میری چشم نم
پر خاک آستاں کو تری اپنی چشم میں!
کرتا ہوں سرمہ سیل تصور سے دم بدم