کلام شہریار۔ ٍغزلیں۔ انٹر نیٹ پر پہلی بار

الف عین

لائبریرین
اسے گناہ کہیں یا کہیں ثواب کا کام
ندی کو سونپ دیا پیاس نے سراب کا کام

ہم ایک چہرے کو ہر زاوئیے سے دیکھ سکیں
کسی طرح سے مکمل ہو نقشِ آب کا کام

ہماری آنکھیں که پہلے تو خوب جاگتی ہیں
پھر اس کے بعد وہ کرتی ہے صرف خواب کا کام

وہ رات کشتی کنارے لگی که ڈوب گئی
ستارے نکلے تو تھے کرنے ماہتاب کا کام

فریب خود کو دیئے جا رہے ہیں اور خوش ہیں
اسے خبر ہے که دشوار ہے حجاب کا کام
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
کٹے گا دیکھیئے دن جانے کس عذاب کے ساتھ
که آج دھوپ نہیں نکلی آفتاب کے ساتھ

تو پھر بتاؤ سمندر صدا کو کیوں سنتے
ہماری پیاس کا رشتہ تھا جب سراب کے ساتھ

بڑی عجیب مہک ساتھ لے کے آئی ہے
نسیم، رات بسر کی کسی گلاب کے ساتھ

فضا میں دور تلک مرحبا کے نعرے ہیں
گزر نے والے ہیں کچھ لوگ یاں سے خواب کے ساتھ

زمین تیری کشش کھینچتی رہی ہم کو
گئے ضرور تھے کچھ دور ماہتاب کے ساتھ
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
دوست احباب کی نظروں میں برا ہو گیا میں
وقت کی بات ہے کیا ہونا تھا، کیا ہو گیا میں

دل کے دروازے کو وا رکھنے کی عادت تھی مجھے
یاد آتا نہیں کب کس سے جدا ہو گیا میں

کیسے تو سنتا بڑا شور تھا سناٹوں کا
دور سے آتی ہوئی ایسی صدا ہو گیا میں

کیا سبب اس کا تھا، خود مجھ کو بھی معلوم نہیں
رات خوش آ گئی، اور دن سے خفا ہو گیا میں

بھولے بسرے ہوئے لوگوں میں کشش اب بھی ہے
ان کا ذکر آیا که پھر نغمہ سرا ہو گیا میں
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
عجیب سانحہ مجھ پر گزر گیا یارو
میں اپنے سائے سے کل رات ڈر گیا یارو

ہر ایک نقش تمنا کا ہو گیا دھندلا
ہر ایک زخم میرے دل کا بھر گیا یارو

بھٹک رہی تھی جو کشتی وہ غرق آب ہوئی
چڑھا ہوا تھا جو دریا اتر گیا یارو

وہ کون تھا وہ کہاں کا تھا کیا ہوا تھا اسے
سنا ہے آج کوئی شخص مر گیا یارو
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
ان آنکھوں کی مستی کے مستانے ہزاروں ہیں
ان آنکھوں سے وابستہ افسانے ہزاروں ہیں

اک تم ہی نہیں تنہا الفت میں مری رسوا
اس شہر میں تم جیسے دیوانے ہزاروں ہیں

اک صرف ہمی مے کو آنکھوں سے پلاتے ہیں
کہنے کو تو دنیا میں میخانے ہزاروں ہیں

اس شعِ فروزاں کو آندھی سے ڈراتے ہو
اس شمعِ فروزاں کے پروانے ہزاروں ہیں
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
سب سے جدا ہوں میں بھی، الگ تو بھی سب سے ہے
اس سچ کا اعتراف زمانے کو کب سے ہے

پھر لوگ کیوں ہمارا کہا مانتے نہیں
سورج کو خوف سایۂ دیوارِ شب سے ہے
٭٭٭



جو منظر دیکھنے والی ہیں آنکھیں رونے والا ہے
که پھر بنجر زمیں میں بیج کوئی بونے والا ہے

بہادر لوگ نادم ہو رہے ہیں حیرتی میں ہوں
عجب دہشت خبر ہے شہر خالی ہونے والا ہے
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
زندگی جیسی توقع تھی نہیں، کچھ کم ہے
ہر گھڑی ہوتا ہے احساس، کہیں کچھ کم ہے

گھر کی تعمیر تصور ہی میں ہو سکتی ہے
اپنے نقشے کے مطابق یہ زمیں کچھ کم ہے

بچھڑے لوگوں سے ملاقات کبھی پھر ہوگی
دل میں امید تو کافی ہے، یقیں کچھ کم ہے

اب جدھر دیکھیئے لگتا ہے که اس دنیا میں
کہیں کچھ چیز زیادہ ہے، کہیں کچھ کم ہے

آج بھی ہے تری دوری ہی اداسی کا سبب
یہ الگ بات که پہلی سی نہیں کچھ کم ہے
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
خون میں لت پت ہو گئے سائے بھی اشجار کے
کتنے گہرے وار تھے خوشبو کی تلوار کے

اک لمبی چپ کے سوا بستی میں کیا رہ گیا
کب سے ہم پر بند ہیں دروازے اظہار کے

آؤ اٹھو کچھ کریں صحرا کی جانب چلیں
بیٹھے بیٹھے تھک گئے سائے میں دل دار کے

راستے سونے ہو گئے دیوانے گھر کو گئے
ظالم لمبی رات کی تاریکی سے ہار کے

بالکل بنزر ہو گئی دھرتی دل کے دشت کی
رخصت کب کے ہو گئے موسم سارے پیار کے
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
کس کس طرح سے مجھ کو نہ رسوا کیا گیا
غیروں کا نام میرے لہو سے لکھا گیا

نکلا تھا میں صدائے جرس کی تلاش میں
بھولے سے اس سکوت کے صحرا میں آ گیا

کیوں آج اس کا ذکر مجھے خوش نہ کر سکا
کیوں آج اس کا نام مرا دل دکھا گیا

اس حادثے کو سن کے کرے گا یقیں کوئی
سورج کو ایک جھونکا ہوا کا بجھا گیا
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
کیا ارادہ تجھے بارہا بھلانے کا
ملا نہ عذر ہی کوئی مگر ٹھکانے کا

یہ کیسی اجنبی دستک تھی کیسی آہٹ تھی
ترے سوا تھا کسے حق مجھے جگانے کا

یہ آنکھ ہے که نہیں دیکھا کچھ سوا تیرے
یہ دل عجب ہے که غم ہے اسے زمانے کا

وہ دیکھ لو وہ سمندر خشک ہونے لگا
جسے تھا دعویٰ میری پیاس کو بجھانے کا

زمیں پہ کس لئے زنجیر ہو گئے سائے
مجھے پتہ ہے مگر میں نہیں بتانے کا
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
کہیں ذرا سا اندھیرا بھی کل کی رات نہ تھا
گواہ کوئی مگر روشنی کے ساتھ نہ تھا

سب اپنے طور سے جینے کے مدعی تھے یہاں
پتہ کسی کو مگر رمزِ کائنات نہ تھا

کہاں سے کتنی اڑے اور کہاں پہ کتنی جمے
بدن کی ریت کو اندازۂ حیات نہ تھا

میرا وجود منور ہے آج بھی اس سے
وہ تیرے قرب کا لمحہ جسے ثبات نہ تھا

مجھے تو پھر بھی مقدر پہ رشک آتا ہے
میری تباہی میں ہرچند تیرا ہاتھ نہ تھا
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
زندگی جب بھی تیری بزم میں لاتی ہے ہمیں
یہ زمیں چاند سے بہتر نظر آتی ہے ہمیں

سرخ پھولوں سے مہک اٹھتی ہیں دل کی راہیں
دن ڈھلے یوں تیری آواز بلاتی ہے ہمیں

یاد تیری کبھی دستک کبھی سرگوشی سے
رات کے پچھلے پہر روز جگاتی ہے ہمیں

ہر ملاقات کا انجام جدائی کیوں ہے
اب تو ہر وقت یہی بات ستاتی ہے ہمیں
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
ہم پڑھ رہے تھے خواب کے پرزوں کو جوڑ کے
آندھی نے یہ طلسم بھی رکھ ڈالا توڑ کے

آغاز کیوں کیا تھا سفر ان خرابوں کا
پچھتا رہے ہو سبز زمینوں کو چھوڑ کے

اک بوند زہر کے لئے پھیلا رہے ہو ہاتھ
دیکھو کبھی خود اپنے بدن کو نچوڑ کے

کچھ بھی نہیں جو خواب کی طرح دکھائی دے
کوئی نہیں جو ہم کو جگائے جھنجھوڑ کے

ان پانیوں سے کوئی سلامت نہیں گیا
ہے وقت اب بھی کشتیاں لے جاؤ موڑ کے
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
حد نگاہ تک یہ زمیں ہے سیاہ پھر
نکلی ہے جگنوؤں کی بھٹکتی سپاہ پھر

ہونٹوں پہ آ رہا ہے کوئی نام باربار
سناٹوں کے طلسم کو توڑے گی آہ پھر

پچھلے سفر کی گرد کو دامن سے جھاڑ دو
آواز دے رہی ہے کوئی سونی راہ پھر

بیرنگ آسماں کو دیکھے گی کب تلک
منظر نیا تلاش کرے گی نگاہ پھر

ڈھیلی ہوئی گرفت جنوں کی، کہ جل اٹھا
طاق ہوس میں کوئی چراغ گناہ پھر
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
سورج کا سفر ختم ہوا رات نہ آئی
حصے میں میرے خوابوں کی سوغات نہ آئی

موسم ہی پہ ہم کرتے رہے تبصرہ تا دیر
دل جس سے دکھے ایسی کوئی بات نہ آئی

یوں ڈور کو ہم وقت کی پکڑے تو ہوئے تھے
ایک بار مگر چھوٹی تو پھر ہاتھ نہ آئی

ہمراہ کوئی اور نہ آیا تو گلا کیا
پرچھائیں بھی جب میری میرے ساتھ نہ آئی

ہر سمت نظر آتی ہیں بے فصل زمینیں
اس سال بھی اس شہر میں برسات نہ آئی
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
یہ کیا جگہ ہے دوستو یہ کون سا دیار ہے
حد نگاہ تک جہاں غبار ہی غبار ہے

یہ کس مقام پر حیات مجھ کو لے کے آ گئی
نہ بس خوشی پہ ہے جہاں نہ غم پہ اختیار ہے

تمام عمر کا حساب مانگتی ہے زندگی
یہ میرا دل کہے تو کیا یہ خود سے شرمسار ہے

بلا رہا تھا کیا کوئی چلمنوں کے اس طرف
مرے لئے بھی کیا کوئی اداس بےقرار ہے

نہ جس کی شکل ہے کوئی نہ جس کا نام ہے کوئی
اک ایسی شے کا کیوں ہمیں ازل سے انتظار ہے
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
یہ قافلے یادوں کے کہیں کھو گئے ہوتے
اک پل بھی اگر بھول سے ہم سو گئے ہوتے

اے شہر تیرا نام ونشاں بھی نہیں ہوتا
جو حادثے ہونے تھے اگر ہو گئے ہوتے

ہر بار پلٹتے ہوئے گھر کو یہی سوچا
اے کاش کسی لمبے سفر کو گئے ہوتے

ہم خوش ہیں ہمیں دھوپ وراثت میں ملی ہے
اجداد کہیں پیڑ بھی کچھ بو گئے ہوتے

کس منھ سے کہیں تجھ سے سمندر کے ہیں حقدار
سیراب سرابوں سے بھی ہم ہو گئے ہوتے
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
محفل میں بہت لوگ تھے میں تنہا گیا تھا
ہاں تجھ کو وہاں دیکھ کر کچھ ڈر سا لگا تھا

یہ حادثہ کس وقت کہاں کیسے ہوا تھا
پیاسوں کے تعاقب میں سنا دریا گیا تھا

آنکھیں ہیں که بس روزنِ دیوار ہوئی ہیں
اس طرح تجھے پہلے کبھی دیکھا گیا تھا

اے خلقِ خُدا تجھ کو یقیں آئےنہ آئے
کل دھوپ تحفظ کے لئے سایہ گیا تھا

وہ کون سی ساعت تھی پتہ ہو تو بتاؤ
یہ وقت شب و روز میں جب بانٹا گیا تھا
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
بیتاب ہیں اور عشق کا دعویٰ نہیں ہم کو
آوارہ ہیں اور دشت کا سودا نہیں ہم کو

غیروں کی محبت پہ یقیں آنے لگا ہے
یاروں سے اگرچہ کوئی شکوہ نہیں ہم کو

نیرنگیِ دل ہے که تغافل کا کرشمہ
کیا بات ہے جو میری تمنا نہیں ہم کو

یا تیرے علاوہ بھی کسی شے کی طلب ہے
یا اپنی محبت پہ بھروسہ نہیں ہم کو

یا تم بھی مداوائے الم کر نہیں سکتے
یا چاراگرو فکرِ مداوا نہیں ہم کو

یوں برہمئ کاکلِ امروز سے خوش ہیں
جیسے که خیال رخِ فردا نہیں ہم کو
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
دشمن دوست سبھی کہتے ہیں، بدلہ نہیں ہوں میں
تجھ سے بچھڑ کے کیوں لگتا ہے، تنہا نہیں ہوں میں

عمرسفر میں کب سوچا تھا، موڑ یہ آئے گا
دریا پار کھڑا ہوں گرچہ پیاسا نہیں ہوں میں

پہلے بہت نادم تھا لیکن آج بہت خوش ہوں
دنیا رائے تھی اب تک جیسی ویسا نہیں ہوں میں

تیرا لاثانی ہونا تسلیم کیا جائے
جس کو دیکھو یہ کہتا ہے تجھ سا نہیں ہوں میں

خواب تہی کچھ لوگ یہاں پہلے بھی آئے تھے
نیند سرائے تیرا مسافر پہلا نہیں ہوں میں
٭٭٭
 
Top