کلام شہریار۔ ٍغزلیں۔ انٹر نیٹ پر پہلی بار

الف عین

لائبریرین
حوصلہ دل کا نکل جانے دے

مجھ کو جلنے دے، پگھل جانے دے

آنچ پھولوں پہ نہ آنے دے مگر
خس و خاشاک کو جل جانے دے

مدتوں بعد صبا آئی ہے
موسم دل کو بدل جانے دے

چھا رہی ہیں جو مری آنکھوں پر
ان گھٹاؤں کو مچل جانے دے

تذکرہ اُس کا ابھی رہنے دے
اور کچھ رات کو ڈھل جانے دے
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
مشعلِ درد پھر اک بار جلا لی جائے

جشن ہو جائے، ذرا دھوم مچالی جائے

خون میں جوش نہیں آیا زمانہ گذرا
دوستو آؤ کوئی بات نکالی جائے

جان بھی میری چلی جائے تو کچھ بات نہیں
وار تیرا نہ مگر ایک بھی خالی جائے

جو بھی ملنا ہے ترے در سے ہی ملنا ہے اسے
در ترا چھوڑ کے کیسے یہ سوالی جائے

وصل کی صبح کے ہونے میں ہے کچھ دیر ابھی
داستاں ہجر کی کچھ اور بڑھا لی جائے
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے
اِس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے

دِل ہے تو دھَڑکنے کا بہانہ کوئی ڈھونڈے
پتھر کی طرح بے حِس و بے جان سا کیوں ہے

تنہائی کی یہ کون سی منزل ہے رفیقو!
تا حدِ نظر ایک بیابان سا کیوں ہے

ہم نے تو کوئی بات نکالی نہیں غم کی
وہ زُود پشیمان، پشیمان سا کیوں ہے

کیا کوئی نئی بات نظر آتی ہے ہم میں
آئینہ ہمیں دیکھ کے حیران سا کیوں ہے
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
جستجو جس کی تھی اس کو تو نہ پایا ہم نے
اس بہانے سے مگر دیکھ لی دنیا ہم نے

سب کا احوال وہی ہے جو ہمارا ہے آج
یہ الگ بات کہ شکوہ کیا تنہا ہم نے

خود پشیمان ہوئے اس کو نہ شرمندہ کیا
عشق کی وضع کو کیا خوب نبھایا ہم نے

عمر بھر سچ ہی کہا سچ کے سوا کچھ نہ کہا
اجر کیا اس کا ملے گا یہ نہ سوچا ہم نے

کون سا قہر یہ آنکھوں پہ ہوا ہے نازل
ایک مدت سے کوئی خواب نہ دیکھا ہم نے
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
جہاں تک ہوگا جب تک ہوگا دل بہلائیں گے ہم بھی
کسی دن تو تجھے بھولے سے یاد آجائیں گے ہم بھی

کریں گے ہم کہاں تک دور کی آواز کا پیچھا
ابھی اک موڑ ایسا آئے گا پچھتائیں گے ہم بھی

کہیں بھی زیست کے آثار دکھلائی نہیں دیتے
یہی صورت رہی جو چند دن، گھبرائیں گے ہم بھی

عجب وحشت تھی، گھر کے سارے دروازے کھلے رکھے
ہمیں معلوم تھا اک روز دھوکہ کھائیں گے ہم بھی

اس اک لمحے کے آنے تک غموں کو ملتوی رکھیں
وفائیں کرکے اپنی یاد جب پچھتائیں گے ہم بھی
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
سنتا ہوں که وہ نہیں انکاری اس بات سے
کوئی نسبت تھی کبھی تجھ کو میری ذات سے

تو میرے ہمراہ تھا دروازے تک شام کے
اسکے آگے کیا ہوا پوچھا جائے رات سے

پچھلی بارش میں مجھے خواہش تھی سیلاب کی
اب کے تو بتلا مجھے کیا مانگوں برسات سے

کام آئے جو ہجر کے ہر آئندہ موڑ پر
ایسا اک تحفہ مجھے دے تو اپنے ہاتھ سے

ہاں مجھ کو بھی دیکھ لے جینے کی لت پڑ گئی
ہاں تونے بھی کر لیا سمجھوتہ حالات سے
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
قصہ مرے جنوں کا بہت یاد آئے گا
جب جب کوئی چراغ ہوا میں جلائے گا

راتوں کو جاگتے ہیں،اسی واسطے که خواب
دیکھےگا بند آنکھیں تو پھر لوٹ جائے گا

کب سے بچا کے رکھی ہے اک بوند اوس کی
کس روز تو وفا کو مری آزمائے گا

کاغذ کی کشتیاں بھی بڑی کام آئیں گی
جس دن ہمارے شہر میں سیلاب آئے گا

دل کو یقین ہے که سر رہگزار عشق
کوئی فسردہ دل یہ غزل گنگنائے گا
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
دامِ الفت سے چھوٹتی ہی نہیں
زندگی تجھ کو بھولتی ہی نہیں

کتنے طوفاں اٹھائے آنکھوں نے
ناؤ یادوں کی ڈوبتی ہی نہیں

تجھ سے ملنے کی تجھ کو پانے کی
کوئی تدبیر سوجھتی ہی نہیں

ایک منزل پہ رک گئی ہے حیات
یہ زمیں جیسے گھومتی ہی نہیں

لوگ سر پھوڑ کر بھی دیکھ چکے
غم کی دیوار ٹوٹتی ہی نہیں
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
تجھ کو کھوکر کیوں یہ لگتا ہے که کچھ کھویا نہیں
خواب میں آئے گا تو، اس واسطے سویا نہیں

آپ بیتی پر جہاں ہنسنا تھا جی بھر کے ہنسا
ہاں جہاں رونا ضروری تھا وہاں رویا نہیں

موسموں نے پچھلی فصلوں کی نگہبانی نہ کی
اس لئے اب کے زمینِ دل میں کچھ بویا نہیں

وقت کے ہاتھوں میں جتنے داغ تھے سب دھو دیئے
داغ جو تجھ سے ملا ہے اک اسے دھویا نہیں

کیسی محفل ہے یہاں میں کس طرح سے آ گیا
سب کے سب خاموش بیٹھے ہیں کوئی گویا نہیں
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
اب وقت جو آنے والا ہے کس طرح گزرنے والا ہے
وہ شکل تو کب سے اوجھل ہے یہ زخم بھی بھرنے والا ہے

دنیا سے بغاوت کرنے کی اس شخص سے امیدیں کیسی
دنیا کے لئے جو زندہ ہے دنیا سے جو ڈرنے والا ہے

آدم کی طرح آدم سے ملے کچھ اچھے سچے کام کرے
یہ علم اگر ہو انساں کو کب کیسے مرنے والا ہے

دریا کے کنارے پر اتنی یہ بھیڑ یہی سن کر آئی
اک چاند بنا پیراہن کے پانی میں اترنے والا ہے
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
ہوا یہ کیا که خموشی بھی گنگنانے لگی
گئی رتوں کی ہر اک بات یاد آنے لگی

زمینِ دل پہ کئی نور کے مینارے تھے
خیال آیا کسی کا تو دھند چھانے لگی

خبر یہ جب سے پڑھی ہے، خوشی کا حال نہ پوچھ
سیاہ رات! تجھے روشنی ستانے لگی

دلوں میں لوگوں کے ہمدردیاں ہیں میرے لئے
میں آج خوش ہوں که محنت مری ٹھکانے لگی

برا کہو که بھلا سمجھو یہ حقیقت ہے
جو بات پہلے رلاتی تھی اب ہنسانے لگی
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
چاہتا کچھ ہوں مگر لب پہ دعا ہے کچھ اور
دل کے اطراف کی دیکھو تو فضا ہے کچھ اور

جو مکاں دار ہیں دنیا میں انہیں کیا معلوم
گھر کی تعمیر کی حسرت کا مزا ہے کچھ اور

جسم کے ساز پہ سنتا تھا عجب سا نغمہ
روح کے تاروں کو چھیڑا تو صدا ہے کچھ اور

پیشگوئی پہ نجومی کی بھروسہ کیسا
وقت کے دریا کے پانی پہ لکھا ہے کچھ اور

تو وفا کیش ہے جی جان سے چاہا ہے تجھے
تیرے بارے میں پہ لوگوں سے سنا ہے کچھ اور
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
دل میں طوفان ہے اور آنکھوں میں طغیانی ہے
زندگی ہم نے مگر ہار نہیں مانی ہے

غمزدہ وہ بھی ہیں دشوار ہے مرنا جن کو
وہ بھی شاکی ہیں جنہیں جینے کی آسانی ہے

دور تک ریت کا تپتا ہوا صحرا تھا جہاں
پیاس کا کس کی کرشمہ ہے، وہاں پانی ہے

جستجو تیرے علاوہ بھی کسی کی ہے ہمیں
جیسے دنیا میں کہیں کوئی تیرا ثانی ہے

اس نتیجے پر پہنچتے ہیں سبھی آخر میں
حاصلِ سیرِ جہاں کچھ نہیں حیرانی ہے
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
جو برا تھا کبھی اب ہو گیا اچھا کیسے
وقت کے ساتھ میں اس تیزی سے بدلا کیسے

جنکو وحشت سے علاقہ نہیں وہ کیا جانیں
بیکراں دشت میرے حصے میں آیا کیسے

کوئی اک آدھ سبب ہوتا تو بتلا دیتا
پیاس سے ٹوٹ گیا پانی کا رشتہ کیسے

حافظے میں میرے بس ایک کھنڈر سا کچھ ہے
میں بناؤں تو کسی شہر کا نقشہ کیسے

بارہا پوچھنا چاہا کبھی ہمت نہ ہوئی
دوستو راس تمہیں آئی یہ دنیا کیسے

زندگی میں کبھی ایک پل ہی سہی، غور کرو
ختم ہو جاتا ہے جینے کا تماشا کیسے
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
جو کہتے ہیں کہیں دریا نہیں ہے
سنا ان سے کوئی پیاسا نہیں ہے

دیا لے کر وہاں ہم جا رہے ہیں
جہاں سورج کبھی ڈھلتا نہیں ہے

نہ جانے کیوں ہمیں لگتا ہے ایسا
زمیں پر آسماں سایہ نہیں ہے

تھکن محسوس ہو رک جانا چاہیں
سفر میں موڑ وہ آیا نہیں ہے

چلو آنکھوں میں پھر سے نیند بوئیں
که مدت سے اسے دیکھا نہیں ہے
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
شکوہ کوئی دریا کی روانی سے نہیں ہے
رشتہ ہی مری پیاس کا پانی سے نہیں ہے

کل یوں تھا که یہ قیدِ زمانی سے تھے بیزار
فرصت جنہیں اب سیرِ مکانی سے نہیں ہے

چاہا تو یقیں آئے نہ سچائی پہ اس کی
خائف کوئی گل عہدِخزانی سے نہیں ہے

دوہراتا نہیں میں بھی گئے لوگوں کی باتیں
اس دور کو نسبت بھی کہانی سے نہیں ہے

کہتے ہیں میرے حق میں سخن فہم بس اتنا
شعروں میں جو خوبی ہے معانی سے نہیں ہے
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
تمام شہر میں جس اجنبی کا چرچا ہے
سبھی کی رائے ہے، وہ شخص میرے جیسا ہے

بلاوے آتے ہیں کتنے دنوں سے صحرا کے
میں کل یہ لوگوں سے پوچھوں گا کس کو جانا ہے

کبھی خیال یہ آتا ہے کھیل ختم ہوا
کبھی گمان گزرتا ہے ایک وقفہ ہے

سنا ہے ترکِ جنوں تک پہنچ گئے ہیں لوگ
یہ کام اچھا نہیں پر مآل اچھا ہے

یہ چلچلاوے کے لمحے ہیں، اب تو سچ بولو
جہاں نے تم کو که تم نے جہاں کو بدلا ہے

پلٹ کے پیچھے نہیں دیکھتا ہوں خوف سے میں
که سنگ ہوتے ہوئے دوستوں کو دیکھا ہے
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
ایسے ہجر کے موسم اب کب آتے ہیں
تیرے علاوہ یاد ہمیں سب آتے ہیں

جذب کرے کیوں ریت ہمارے اشکوں کو
تیرا دامن تر کرنے اب آتے ہیں

اب وہ سفر کی تاب نہیں باقی ورنہ
ہم کو بلاوے دشت سے جب تب آتے ہیں

جاگتی آنکھوں سے بھی دیکھو دنیا کو
خوابوں کا کیا ہے وہ ہر شب آتے ہیں

کاغذ کی کشتی میں دریا پار کیا
دیکھو ہم کو کیا کیا کرتب آتے ہیں
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
بجھنے کے بعد جلنا گوارا نہیں کیا
ہم نے کوئی بھی کام دوبارہ نہیں کیا

اچھا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے یہ
دنیا نے کیوں خیال ہمارا نہیں کیا

جینے کی لت پڑی نہیں شائد اسی لئے
جھوٹی تسلیوں پہ گزارا نہیں کیا

یہ سچ اگر نہیں تو بہت جھوٹ بھی نہیں
تجھ کو بھلا کے کوئی خسارہ نہیں کیا
٭٭٭
 
Top