کلامِ امین - خواجہ امین الدین عظیم آبادی

کاشفی

محفلین
کلامِ امین
(خواجہ امین الدین عظیم آبادی)

امین تخلص، خواجہ امین الدین نام، عظیم آبادی۔ عالم دوستی اور اتحاد میں باقرینہ ہیں۔ علی ابراہیم خاں مرحوم کے یار دیرینہ ہیں۔ شعر فہمی اور سخن رسی میں زمانے کے یادگار ہیں۔ مضمون تراشی اور ادا بندی میں نادرِ روزگار ہیں۔ ذہن کو ان کے بندش کی صفائی میں نہایت ارجمندی ہے۔ اور طبیعت کو ان کی تلاش معنی میں اپنے ہمعصروں سے بلندی ہے۔ چند مدت نواب میر محمد رضا خاں مظفر جنگ بہادر کی رفاقت میں اوقات اُنہوں نے بہ کیفیت کاٹی ہے۔ بعد اس روزگار کے قناعت اور جواں مردی کے ساتھ خانہ نشینی میں زندگی بسر کی ہے۔ ایک دیوان چھوٹا سا زبان ریختہ میں ان کی تصنیف سے ہے۔ منتخب اس کا یہاں لکھا گیا بہت تخفیف سے ہے۔

دنیا میں جو آکر نہ کرے عشق بتاں کا
نزدیک ہمارے ہے یہاں کا نہ وہاں کا

مانند نگیں آپ سے کاوش میں پڑا ہے
مشتاق جو کوئی ہے یہاں نام و نشاں کا

کرتا ہوں امیں میں تو ثنا اُس کی ولیکن
مُنہ لال ہوا جاتا ہے خجلت سے زباں کا

پردے سے جو وہ شہرہء آفاق نکلتا
تب دیکھتے خورشید کا یہ نام نکلتا

تھا کچھ بھی مناسب کہ نکلوادیا تونے
گر صبح نہ نکلا تھا امیں شام نکلتا​
--------------------------------------------------------------------------
کیا کہوں یار سے اپنی سی کئے جاتا ہوں
گالیاں کھاتا ہوں غصہ کو پئے جاتا ہوں

جی نکلتا ہے، یہ لب یاد میں ہلتے ہیں تری
مرتے مرتے بھی ترا نام لئے جاتا ہوں

چاک سینہ کا مرے لوگ عبث سیتے ہیں
ہم تو زخمی ہیں نگاہوں کے، کوئی جیتے ہیں

سیل آتی ہے تو آنے دو مرا کیا لے گی
گھر میں ایک میں ہوں پڑا، اور کئی بہتے ہیں

فائدہ کیا ہے بھلا ہم جو کریں فکر معاش
غم کو کھاتے ہیں
امیں خون جگر پیتے ہیں

ماخذ: گلشنِ ہند - از: مرزا علی لطف - بشکریہ: علیگڑھ اردو کلب - دیدہ ور
 
Top