کلاسیکی شعرا کے کلام سے انتخاب

فرخ منظور

لائبریرین
خبر کو یار کی دل کو میں بھیجا ہے کہ جا لاوے
نہیں معلوم ہوتا ہے اسے کب تک خدا لاوے

عزیزاں ایک لمحے میں مرا جی اب نکلتا ہے
طبیبِ عشق کو کوئی شتابی سے بلا لاوے

موا مظہر پڑا ہے یار کے کوچہ میں کئی دن سے
خدا کے واسطے اس کو کوئی جا کر اٹھا لاوے

(مرزا مظہر جانِ جاناں)
 

فرقان احمد

محفلین
مرے بدن میں پگھلتا ہوا سا کچھ تو ہے
اِک اور ذات میں ڈھلتا ہوا سا کچھ تو ہے

مری صدا نہ سہی۔۔ہاں۔۔ مرا لہو نہ سہی
یہ موج موج اچھلتا ہوا سا کچھ تو ہے!!!

کہیں نہ آخری جھونکا ہو مِٹتے رِشتوں کا
یہ درمیاں سے نکلتا ہوا سا کچھ تو ہے!!!

نہیں ہے آنکھ کے صحرا میں ایک بوند سراب
مگر یہ رنگ بدلتا ہوا سا ۔۔۔۔ کچھ تو ہے!!!

جو میرے واسطے کل زہر بن کے نکلے گا
تِرے لبوں پہ سنبھلتا ہوا سا کچھ تو ہے

یہ عکسِ پیکرِ صد لمس ہے، نہیں۔۔ نہ سہی
کسی خیال میں ڈھلتا ہوا سا کچھ تو ہے

کسی کے واسطے ہوگاپیام یا کوئی قہر
ہمارے سر سے یہ ٹلتا ہوا سا کچھ تو ہے

بکھر رہا ہے فضا میں یہ دودِ روشن کیا
اُدھر پہاڑ کے جلتا ہوا سا کچھ تو ہے

مِرے وجود سے جو کٹ رہا ہے گام بہ گام
یہ اپنی راہ بدلتا ہوا سا ۔۔۔ کچھ تو ہے!!!!


شاعر: راجند منچذا بانی
 

فرخ منظور

لائبریرین
ہوئے انسان سب سوزِ محبت کے لیے پیدا
فرشتہ ہوتے گر ہوتے عبادت کے لیے پیدا
(استاد ابراہیم ذوقؔ)
 
واہ بہت عمدہ کاشفی صاحب۔ اگر ہو سکے تو میر مونس کا کوئی مرثیہ ضرور شریکِ محفل کیجیے۔ چاہے چند اشعار ہی کیوں نہ ہوں
مجرائی خلق میں ان آنکھوں سے کیا کیا دیکھا​

پر کہیں سبطِ پیمبر سا نہ آقا دیکھا​


ظلم اے مجرائی سجاد نے کیا کیا دیکھا​

گھر لٹا، قید ہوئے، باپ کا لاشہ دیکھا​


کہتی تھی زینبِ مضطر کہ خدا خیر کرے​

شب کو یاں خواب میں عریاں سرِ زہرا دیکھا​


جب چڑھے دوشِ محمد پہ علی کعبے میں​

یک بیک زیرِ قدم عرشِ معلیٰ دیکھا​



بعدِ معراج علی نے یہ نبی سے پوچھا​

یا رسولِ دو جہاں عرش پہ کیا کیا دیکھا​


ہنس کے فرمایا کہ اے نیرِ افلاکِ شرف​

ہر جگہ واں بھی ترے نور کا جلوہ دیکھا​


گر پڑے سبطِ نبی تھام کے ہاتھوں سے جگر​

علی اکبر کو جو ریتی پہ تڑپتا دیکھا​


بانو کہتی تھی جواں ہو کے سِدھارے اکبر​

وا دریغا نہ دلہن دیکھی نہ سہرا دیکھا​


بیڑیاں دیکھیں تو پھیلا دیے عابد نے قدم​

سر کو نہوڑا دیا جب طوق کا حلقہ دیکھا​


کیا تحمل تھا کہ پیاسے رہے دو روز حُسین​

آنکھ اٹھا کر نہ مگر جانبِ دریا دیکھا​


بانو رو دیتی تھی منہ ڈھانپ کے اصغر کے لیے​

کسی عورت کی جو آغوش میں بچّہ دیکھا​



کہتے تھے سیدِ سجاد کہ دیکھے نہ کوئی​

ہم نے جو کچھ ستمِ لشکرِ اعدا دیکھا​


صدمے کانٹوں کے، جفا طوق کی، ایذائے رسن​

ایک بابا کے جدا ہونے سے کیا کیا دیکھا​


شام میں لوگ یہ کہتے تھے کہ آج آنکھوں سے​

بے ردا ہم نے سرِ دخترِ زہرا دیکھا​


ننگے سر خلق نے اُس بی بی کو دیکھا افسوس​

جس کی مادر کا کسی نے نہ جنازہ دیکھا​



جا کے زینب نے وطن میں یہ کہا صغریٰ سے​

کہوں کس منہ سے کہ پردیس میں کیا کیا دیکھا​


تین دن بند رہا گرمی میں پانی مجھ پر​

کس مسافر نے بتاؤ ستم ایسا دیکھا​


سامنے قتل ہوئے مسلمِ بیکس کے پسر​

اپنے فرزندوں کو بسمل سا تڑپتا دیکھا​


میں نے ماتم کیا لاشے پہ بنے قاسم کے​

میں نے اک رات کی بیاہی کا رنڈاپا دیکھا​


میں نے دیکھا علمِ شاہ کو آلودهٔ خوں​

میں نے عباس کو بے جاں لبِ دریا دیکھا​


میں نے دیکھا علی اصغر کا گلا خون سے تر​

میں نے زخمی علی اکبر کا کلیجا دیکھا​


میں نے دیکھا شہِ مظلوم کو خنجر کے تلے​

میں نے نیزے پہ سرِ دلبرِ زہرا دیکھا​


ہائے کیوں ہو نہ گئیں کور کہ اِن آنکھوں سے​

میں نے بے گور و کفن بھائی کا لاشہ دیکھا​


غرض اک دم کہیں فرصت نہ ملی ماتم کی​

قید خانے میں سکینہ کا جنازہ دیکھا​


پھر گیا آنکھوں میں شہ کا رخِ پُرخوں مونس​

جب کہیں مقتلِ شپیر کا نقشہ دیکھا​

(میر مونس لکھنوی)
10351408_709013482522189_7948235856209559370_n.jpg
 

فرخ منظور

لائبریرین

فرخ منظور

لائبریرین
اپنے پاجامۂ کم خواب کی ہر بوٹی کو
شمع رُو شب کو چراغِ تہہِ دامن سمجھا​

بسترِ گُل سے منقش جو ہوا اس کا بدن
تنِ نازک پہ وہ پھلکاری کی چپکن سمجھا
۔۔۔۔۔
یہ عالم اس کے خطِ سبز نے دکھایا ہے
کہ جس کو دیکھ کے عالم نے زہر کھایا ہے
۔۔۔۔۔۔
میں نے پاس اس کوجو بٹھلا کے کھلایا بِیڑا
قتل پر میرے رقیبوں نے اٹھایا بِیڑا
(شاہ نصیرؔ)
 

فرخ منظور

لائبریرین
بِسترِ گُل پر جو تُو نے کروٹیں لیں رات کو
عطر آگیں ہو گئے اے گل بدن سب پِس کے پُھول
(شاہ نصیرؔ)
 

فرخ منظور

لائبریرین
لکھے کی کیا خبر تھی، یہ کون جانتا تھا
لیلیٰ کے ساتھ پڑھ کر مجنوں خراب ہو گا
(میر وزیر علی صبا لکھنوی)
 

فرخ منظور

لائبریرین
کبھی وہ رُو برو آیا تو ہوتا
کوئی یاں تک اسے لایا تو ہوتا
نہ اٹھتے پھر تو نقشِ پا کی صورت
وہاں قسمت نے پہنچایا تو ہوتا
وہ مانے یا نہ مانے تجھ سے ہمدم
ولیکن اس کو سمجھایا تو ہوتا

(بہرام جی جاما سپ جی دستور)​
 

فرخ منظور

لائبریرین
ریختہ سن کے ہمارا وہ رقیبِ موذی
مثل بچھو کے چھپا رخنۂ دیوار میں جا
۔۔۔۔۔۔
دل کو لے بوسہ نہ دے ہے وہ پری دیکھو تو
اوس نے سیکھی ہے عجب مفت بری دیکھو تو
۔۔۔۔۔۔
فکر اطفال کو ہے سنگ اٹھا لانے کی
آمد آمد ہوئی شاید ترے دیوانے کی

(غلام مصطفیٰ تحیّرؔ)
 

فرخ منظور

لائبریرین
بزم میں اس چشمِ مخموری کے آگے ساقیا
طاقِ نسیاں پر ترا شیشہ دھرا رہ جائے گا​
(مرزا مسیتا بیگ)​
 

فرخ منظور

لائبریرین
دیکھا ہے ہم نے جو کہ تماشا جہان کا
دھوکا تھا، واہمہ تھا، توہم تھا، خواب تھا​
(مرزا مسیتا بیگ)​
 

فرخ منظور

لائبریرین
بے یار شیشہ سنگِ ملامت تھا بزم میں
بے بادہ جام صورتِ چشمِ حباب تھا​
(مرزا مسیتا بیگ)​
 
Top