حسن رضا کسی شب بغل میں وہ دل بر نہ ہو گا

کسی شب بغل میں وہ دل بر نہ ہو گا
کوئی دن خوشی کا میسر نہ ہو گا
تیرے در پہ جب تک مرا سر نہ ہو گا
مجھے تاجِ عزت میسر نہ ہو گا
اگر بات کھونی ہو تو غم سناؤں
مجھے ہے یقیں اُن کو باور نہ ہو گا
بنیں اپنے منہ آپ وعدہ کے سچے
ہوا ہے یہ اے بندہ پرور نہ ہو گا
ستایا ہے عالم کو محشر میں ظالم
ترا نام کس کس کے لب پر نہ ہو گا
وہ اِقرار اپنا نہ پورا کریں گے
مرا وعدہ جب تک برابر نہ ہو گا
ترے نازِ بے جا پھر اٹھیں گے کس سے
مرے حق میں مرنا بھی بہتر نہ ہو گا
یہ اُمید بھی ٹوٹ جائے گی اے دل
اگر تیرے نالوں سے محشر نہ ہو گا
مزے سے وہ لیں چٹکیاں دل کے اندر
مرا دل کبھی اُن سے باہر نہ ہو گا
رگِ دل میں جس کی خلش ہو رہی ہے
کسی کی نظر ہو گی نشتر نہ گا
گڑیں گے ترے در پہ ہم مرنے والے
کسی تکیے میں اپنا بستر نہ ہو گا
مسیحا ہو بیمارِ غم ہی کے دم تک
نہ اچھا کرو گے تو بہتر نہ ہو گا
وہاں وعدۂ دید محشر پہ ٹھہرا
تو اب میرے نالوں سے محشر نہ ہو گا
غضب ہے یہ کہتے ہیں وہ دل دُکھا کر
اگر کچھ بھی اُف کی تو بہتر نہ ہو گا
خودی سے جدا ہو کہ وصلِ خدا ہو
نہ ہو کر جو ہو گا وہ ہو کر نہ ہو گا
نہیں کھیل کچھ سخت جانی حسنؔ کی
اگر سر نہ ہو گا تو خنجر نہ ہو گا​
 
Top