مصطفیٰ زیدی کرن ۔ مصطفیٰ زیدی

فرخ منظور

لائبریرین
کِرَن

چھُپ گئے رات کے دامن میں ستارے لیکن
ایک ننھا سا دیا اب بھی ہے ہم راہ و نشاں
ایک ننھا سا دیا اور یہ شب کی یورش
اور یہ ابر کے طوفان ، یہ کُہرا ، یہ دُھواں​

لیکن اس ایک تصور سے نہ ہو افسردہ
ساعتیں اب بھی نیا جوش لئے بیٹھی ہیں
سنگِ رہ اور کئی آئیں گے لیکن آخر
منزلیں گرمیِ آغوش لئے بیٹھی ہیں​

اک نئے عہد کی امید، نئی صبح کی ضو !!
اس اندھیرے سے اُبھرتے ہیں چراغاں کتنے
زیست کے جامۂ صد چاک کا ماتم کیسا !
زیرِ تخلیق ہیں خلّاق گریبَاں کتنے​

چھُپ گئے رات کے دامن میں ستارے لیکن
یہ تری شُعلہ نوائی کا نیا دَور سہی !
عزم ِ پرواز کی توہین سے مایوس نہ ہو
ایک بار اور سہی ، اور سہی ، اور سہی​

(مصطفیٰ زیدی)

روشنی
 
Top