کراچی عزاداروں کی بس دہشت گردی کا شکار

ابوشامل

محفلین
واقعے پر جتنا افسوس ہوا، شیعہ رہنماؤں کے بیانات سن کر اس سے زیادہ ہو رہا ہے۔ مرا کون؟ سب عام لوگ۔ دہشت کردوں کے گولیوں اور بموں کے سامنا کون کر رہا ہے؟ عام لوگ۔ اور ان کی لاشوں کے اوپر اپنی سیاست اور مذہبی دکان چمکائی جا رہی ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اللہ ہمارے عام لوگوں کو بھی عقل دے۔
 

Fari

محفلین
نماز جمعہ فرض ہے۔ چہلم کا جلوس نہیں

نماز عید واجب ہے چہلم کا جلوس نہیں
عید میلاد کی کوئی مذہبی اہمیت نہیں۔ بدعت ہے۔

سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کا آپ ان خود ساختہ مذہبی تہواروں سے موازنہ نہیں کر سکتے۔

مجھے مرحومیں کی ہلاکت پر افسوس ہے مگر مجھے اس دھماکے کے جزباتی رد عمل پر اور زیادہ افسوس ہے۔

ملکی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر یہ جلوس نہ نکالا جاتا تو قیامت نہیں آجانی تھی۔ یہ فرض نہیں، سنت نہیں، واجب نہیں، مباح نہیں، کیا ہے؟


فرض، واجب، سنت کا سب کو معلوم ہے- اصل مسئلہ تو بدامنی اور دہشت گردی کا خاتمہ ہے- ان تمام اجتماعات کی مثال دینے کا مقصد یہ تھا کہ عوام کہیں بھی محفوظ نہیں ہے- کیا مِلا حکومت کو اتنے آپریشن کرکے؟ کتنے دہشت گرد مرے ہیں اب تک؟ کتنے دہشت گردوں‌کا حوصلہ ٹوٹا ہے ابھی تک؟ کتنی دہشت گرد تنظیمیں پاکستان سے نکلی ہیں؟
اب کیا لوگ بازار جانا بھی چھوڑ دیں؟ بازار تک تو محفوظ نہیں-سوچنے کی بات تو یہ بھی ہے کہ کراچی ہی میں یہ کیوں ہوا؟
 

Fari

محفلین
واقعے پر جتنا افسوس ہوا، شیعہ رہنماؤں کے بیانات سن کر اس سے زیادہ ہو رہا ہے۔ مرا کون؟ سب عام لوگ۔ دہشت کردوں کے گولیوں اور بموں کے سامنا کون کر رہا ہے؟ عام لوگ۔ اور ان کی لاشوں کے اوپر اپنی سیاست اور مذہبی دکان چمکائی جا رہی ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اللہ ہمارے عام لوگوں کو بھی عقل دے۔
عام لوگوں کو واقعی عقل کی ضرورت ہے کہ وہ مذہبی اور سیاسی دکانداروں اور امن پسند عُلماء کے درمیان فرق کریں اور امن کا پیغام دینے والے علُماء کی باتوں پربھی دھیان دیں-
 

میر انیس

لائبریرین
براہ کرم جلوسوں کو بدعت اور پابندی کی بات کرکے ہمارے زخموں پر نمک نہ چھڑکیں ۔ ان جلوسوں کو بند کرنے کیلیئے ہی تو یہ سب کیا جارہا ہے ۔ آپ لوگ یہاں بیٹھ کر کس کو مشورہ دے رہے ہیں اس قوم کو جس قوم نے ہر زمانے اور ہر دور میں لاشیں اٹھائی ہیں ہم دھماکوں سے ڈرنے والے نہیں ایسے دھماکے ہم میں اور جوش پیدا کردیتے ہیں ۔ پیٹھ سے وار کرنے والے اور انکے مزموم عزائم کو اپنی ناپاک رائے دینے والے اگر آپ آج کا چہلم کا جلوس دیکھ لیتے تو آپ کی آنکھیں کھلی رہ جاتیں ۔ لوگ کفن پہن کر شریک ہوئے تھے جلوس میں اور آج کے جلوس کی باوجود یہ کہ عاشور کا اتنا بڑا سانحہ سب کے سامنے تھے شان ہی کچھ اور تھی ۔ ہمارے جلوس کس نے کہا فرض نہیں کسنے کہا سنت نہیں ہیں یہ سب آپ کی اپنی منطقیں ہیں براہ کرم آپ لوگ اپنے پاس رکھیں ہمیں اپنے بھائیوں کی لاشیں ابھی اٹھانے دیں۔ اور دانش نے بالکل صحیح کہا کہ اسلام کربلا کے بعد ہی زندہ ہوتا ہے اور میں وثوق سے کہتا ہوں کہ ہر جگہ کربلا ہی برپا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یزیدیت کے ناپاک ارادوں کو ناکام بنایا جاسکے ۔یہ یزید ہی تو تھا جس نے امام حسین کو شہید بھی کروایا اور انکی آل اولاد اور شہدا کے ورثا کو رونے تک نہیں دیا انکے جنازوں کو دفن نہیں ہونے دیا آج بھی اسی کی سنت کو اسکے چاہنے والے اسی طرح پورا کرتے ہیں کہ جو لوگ ظلم کا نشانہ بنتے ہیں ان کو ہی مزید ایزا پنہچانے کی باتیں کرتے ہیں کہ ایسا کیا ہی کیوں تھا جلوس نکالا ہی کیوں جاتا ہے اور وغیرہ وغیرہ اور ایک بات یاد رکھیں ۔ ہم مر جائیں گے آپ سب لوگ ختم ہوجائیں گے پر یہ عزاداری اور یہ جلوس انشاللہ اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ شان سے نکلا کریں گے۔اس لئے خاطر جمع رکھئے اور اپنے دل میں پیدا ہونے والی ان ننھی ننھی خواہشوں کا گلا خد ہی گھونٹ لیا کریں
 

میر انیس

لائبریرین
اور آپ یہ جو کہ رہے ہیں کہ نماز فرض ہے جلوس فرض نہیں تو اگر امام حسین(ع) اپنا گلا نہ کٹواتے تو نہ یہ نمازیں ہوتیں نہ یہ روزے ۔ اسی لئے تو آنحضرت(ص) پہلے ہی کہ گیئے تھے کہ میں حسین(ع) سے ہوں اور حسین(ع) مجھ سے ہے۔
میرے مولا نے کربلا میں فرمایا تھا کہ " اگر میرے نانا کے دین کی بقا میرے خون کے بغیر ممکن نہیں تو آئو اے تلوارو مجھ پر ٹوٹ پڑو ۔ آج میں کہتا ہوں میرے مولا کی عزاداری اور یہ جلوس کی بقا اگر ہم عزاداروں کے خون کے بغیر ممکن نہیں تو آئو اے دھماکہ کرنے والو آئوہمارے تمام اعضا کو ہمارے بدن سے الگ کردو۔
 

میر انیس

لائبریرین
واقعے پر جتنا افسوس ہوا، شیعہ رہنماؤں کے بیانات سن کر اس سے زیادہ ہو رہا ہے۔ مرا کون؟ سب عام لوگ۔ دہشت کردوں کے گولیوں اور بموں کے سامنا کون کر رہا ہے؟ عام لوگ۔ اور ان کی لاشوں کے اوپر اپنی سیاست اور مذہبی دکان چمکائی جا رہی ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اللہ ہمارے عام لوگوں کو بھی عقل دے۔
ہمارے علماء ہی نے تو ہمیں روکا ہوا ہے ۔ ہم نے ایک دن میں ماضی میں بھی کئی کئی لاشیں اٹھائی ہیں اور اب بھی اٹھارہے ہیں کب تک چپ رہے ہم مرتے رہیں اور خاموش رہیں ۔ یعنی مارو بھی اور رونے بھی نہ دو۔ یعنی پہلے شہید کرو زخمی کرو اور جب زخمی اسپتال جاتے ہیں تو وہاں بھی بم مارو اور ہم پھر بھی صبر کریں اور اگر زبان کھولیں تو آپ لوگوں کو اس پر بھی افسوس ہو
 

مہوش علی

لائبریرین
بات بالکل صاف اور لگی لپٹی کی بغیر ہونی چاہیے۔

کچھ تو شاید صدق دل سے بات کر رہے ہوں، مگر کچھ ہونگے جن کا بذات خود اپنا ہدف یہ مقصد حاصل کرنا ہے۔
چنانچہ ان مذہبی جنونیوں کے بم دھماکے تو فقظ بہانہ ہیں، اگر یہ بم دھماکے نہ بھی ہوں تب بھی یہ ان حسینی احتجاجی جلوس کو نکلتا نہیں دیکھ سکتے اور انہیں اس پر تکلیف ہے۔ اس معاملے میں یہ کسی مذہبی رواداری و آزادی کے قائل نہیں۔

جتنا یہ اب کھل کر ہم پر برس رہے ہیں، اتنا اگر ان مذہبی جنونیوں کے خلاف برس پڑیں تو یہ فتنہ کب کا نابود ہو چکا ہوتا۔

بہرحال، پاکستان بناتے وقت ہمارے بزرگوں نے بھی اسلام کے نام پر قربانیاں دی تھیں، اور کھلے الفاظ میں اگر بیان کر سکوں تو یہ پاکستان کسی کے باپ کا نہیں۔ جتنی مذہبی آزادی دوسرے فرقوں کے مسلمانوں کو ہے، اتنی ہی آزادی ہمیں بھی حاصل ہے۔ یہی بات پاکستان کی اساس تھی، ورنہ انگریز راج، مغربی ممالک اور ہندوستان کیا برے ہیں جہاں ماضی سے لیکر آج تک یہ حسینی جلوس بغیر کسی پابندیوں کے نکل رہے ہیں۔

اور یہ ان مذہبی جنونیوں کی سب سے بڑی جیت ہو گی اگر آج ان کے بنائے ہوئے اس جال میں آ کر توپوں کا سارا رخ ہماری طرف کر دیا جائے بجائے ان مذہبی جنونیوں کو ٹھکانے لگانے کے۔ جس دن یہ مذہبی جنونی اپنے اس ناپاک ارادے میں کامیاب ہوئے وہ دن پھر اصل موت کے آغاز کا دن ہو گا۔ مکمل موت انسانیت کی، مذہبی رواداری و آزادی کی، مکمل موت ہر ہر حسین کے اُس محب کی جو چاہے اہل تشیع میں سے ہو یا اہلسنت میں سے۔
اُس دن پھر حسینی علم بلند ہونا ختم ہو جائیں گے اور پھر انہی انتہا پسندوں کے سفیانی و دجالی علم نظر آئیں گے اور پھر وہ یہ بات سیکھ چکے ہوں گے کہ ان کو اپنے دجالی دہشتگرد بم دھماکوں سے "فتح" حاصل ہوتی ہے اور حسینی اپنے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں۔ نتیجہ: آج حسینی علم نکلنا ختم ہوں گے تو کل یہ حسین کے سب محبوں کو مکمل طور پر ختم کر دیں گے۔


اور جو بھائی صاحب اوپر عیدین کی نماز کی بات کر رہے ہیں، کیا آپ، بلکہ آپ سارے کے سارے کے سارے وہی کے وہی لوگ نہیں کہ جن سے کہا جا رہا تھا کہ چیف جسٹس کی سیاسی ریلی کراچی میں نکلے گی تو خون خرابے کا پورا کا پورا خطرہ ہے کیونکہ یہ "جسٹس" کی ریلی نہیں بلکہ سیاست کی ریلی ہے جہاں کھلے اسلحے کے انبار لے کر لاکھوں لوگ سڑکوں پر موجود ہیں؟ حالانکہ چیف جسٹس کی ریلی کا مسئلہ تو وقتی مسئلہ تھا، مگر یہاں تو وہ مذہنی جنونیت و پاگل پن ہے جو مستقل مسئلہ ہے اور کبھی ختم ہونے والا نہیں۔

اور پھر لال مسجد کے غیر قانونی جامعہ حفصہ اور اس پر اٹھنے والے فتنے فساد پر بھی بہت سوں کے قلب بہت وسیع تھے اور انہیں یہ مشورہ نہیں دیا گیا کہ وہ اپنا فتنہ فساد چھور کر اپنا غصب شدہ غیر قانونی قبضہ چھوڑ کر شرافت سے باہر نکل جائیں۔

ان حضرات کے اس قیمتی مشورے کا آخری نتیجہ کیا ہے؟ تو آخری نتیجہ یہ ہے کہ:

1۔ حسینی جلوس نہ نکلیں کہ بم دھماکہ ہونے سے نقصان ہوتا ہے۔

2۔ نشتر پارک وغیرہ میں اہلسنت اپنے اجتماع نہ کریں کہ اس پر بم دھماکے ہونے سے پاکستان کا نقصان ہوتا ہے۔

3۔ اہلسنت و اہل تشیع اپنے اپنے مدارس کو بند کر دیں کہ ان میں بم دھماکے ہوتے ہیں جیسا کہ سرفراز نعیمی شہید پر حملہ کر کے شہید کیا گیا۔

4۔ پیپلز پارٹی اپنے جلسے جلوس و ریلیاں نہ نکالے کہ اس پر بم حملے ہونے سے ملک کا نقصان ہوتا ہے۔

5۔ اے این پی اپنا کوئی جلسہ جلوس و ریلیاں نہ نکالے کہ اس پر بم حملے ہونے سے ملک کا نقصان ہوتا ہے۔

6۔ کوئی پاکستان میں کرکٹ کا میچ نہ کھیلا جائے کہ وہاں پر بم حملہ ہونے سے ملک کا نقصان ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور جس دن عمران خان نے بھی ان مذہبی جنونیوں کے خلاف کچھ بات کہہ دی تو اس کی ریلی پر بھی بم حملہ ہو جائے گا۔ پنجاب یونیورسٹی میں جمیعت نے اس کا ایک چھوٹا ڈیمو پیش کیا تھا۔

اور جس دن میڈیا نے ان مذہبی جنونیوں کا اصل مکروہ چہرہ دکھانا شروع کیا، اُس دن میڈیا کو دھمکیاں ملیں گی اور پھر دھماکے ہوں گے، اور اُس دن آپ اپنے میڈیا کو بھی بند کرن کے بیٹھ جائیے گا کہ ان پر ہونے والے بم دھماکوں سے ملک کا نقصان ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آخری نتیجہ یہ ہے کہ ملک میں بس فقط اور فقط طالبان اور یہی مذہبی جنونی و لال مسجد جیسے لوگ اپنے جلسے جلوس و ریلیاں نکالتے ہوں گے کہ انہیں کسی بم دھماکوں کا خطرہ نہیں اور نہ ہی اس سے ملک کا کوئی نقصان ہوتا ہے۔

یہ ہے آخری نتیجہ انکے اس قیمتی مشوروں کا۔

اور جس شدومد سے یہ اپنے اس قیمتی مشورے کو توپ کے دھانے پر نافذ کرنا چاہ رہے ہیں، اگر نیک نیتی کے ساتھ ان مذہبی جنونیوں کے خلاف مہم شروع کریں تو کب کی یہ جنونیت ختم ہو چکی ہوتی۔
 

arifkarim

معطل
انا للہ وانا الیہ راجعون اس حادثے پر بھی اور اپنی اس قوم پر بھی

حادثے اور سازش میں واضح فرق ہے جناب!
اور گرائیں صاحب کی بات بالکل درست ہے کہ جب بد امنی ہو تو جلسے جلوس نکالنا اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑا مارنے کے مترادف ہے!
 

میر انیس

لائبریرین
حادثے اور سازش میں واضح فرق ہے جناب!
اور گرائیں صاحب کی بات بالکل درست ہے کہ جب بد امنی ہو تو جلسے جلوس نکالنا اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑا مارنے کے مترادف ہے!
میرے بھائی یہ جلوس کوئی سیاسی جلوس نہیں یا کسی عام آدمی کی معمولی شہادت کی یاد میں ہونے والا جلوس نہیں اسکی اپنی ایک تاریخ ہے۔ اسی جلوس سے مومن اور منافق کی تمیز ہوتی ہے اسی جلوس سے شر پسند اور امن پسند کی تصدیق ہوتی ہے ۔ یہ جلوس تاریخ کے سب سے بڑے ظلم کی یاد دلاتا ہے اور قران اور حدیث سے ثابت ہے کہ ظالم کے ظلم کو ببانگ دہل بیان کرنا ہی اصل مردانگی ہے ۔ یہ ظلم حضرت محمد مصطفٰی(ص) کے خاندان پر ہونے والا ظلم ہے جو پوری دنیا میں تا قیامت اپنی پوری آب و تاب سے قابلِ مزمت رہے گا۔ ان چھوٹے چھوٹے واقعات سے ہم ڈرنے والے نہیں اگر آپ اسکو اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنا سمجھتے ہیں تو سمجھنے میں حق بجانب ہیں کیونکہ آپ کی نظر میں آپ کی جان کی اہمیت بہت ہے جبکہ ہم حسینی چاہے وہ اہلِ سنت ہوں یا اہلِ تشیع اگر ان شعائرِ اسلامی کیلئے جان چلی جائے تو اسکو اللہ کی طرف سے ایک تحفہ سمجھتے ہیں۔
اے حاملانِ آتشِ سوزاں، بڑھے چلو
اے پیروانِ شاہِ شہیداں، بڑھے چلو
اے فاتحانِ صرصر و طوفاں بڑھے چلو
اے صاحبانِ ہمتِ یزداں ، بڑھے چلو
تلوار شمرِ عصر کے سینے میں بھونک دو
ہاں جھونک دو یزید کو دوزخ میں جھونک دو
 

ساجد

محفلین
یہ ملک شاید اسی کام کے لئیے ہی رہ گیا ہے کہ یہاں ہر کوئی اپنے نظرئیے کو دوسروں پہ مقدم جانے اور دوسروں کو اسلام دشمن ثابت کرنے میں اپنی توانائیوں کا بے محابہ استعمال کرے۔ کوئی صحابہ کا سپاہی ہے تو کوئی محمد علیہ صلوۃ والسلام کا فوجی ،کوئی اللہ کا جندی ہے تو کوئی مصطفے علیہ صلوۃ والسلام کی سپاہ کا پیادہ۔ حسین رضی اللہ عنہ کا علم بردار گروہ ایک طرف کھڑا ہے تو صحابہ کرام کی ناموس کا دعویدار اس کے مقابل۔ یہ ہیں اسلام کے دعویدار جو اسلام کو گروہوں ، فوجوں اور خانوں میں تقسیم کر کے بھی ملت اسلامیہ کے عروج کے معصوم خواب دیکھتے ہیں۔
لگے رہو اللہ کے شیرو کہ جب تک رہا سہا شیرازہ بھی بکھر جائے۔ اور پھر انارکی کی حالت میں کربلا تو ہر روز بپا ہو گی تو جی بھر کے اس خود ساختہ مصیبت کو نواسہ رسول کی عظیم قربانی کے ہم پلہ قرار دینا یا پھر جہاد کے نام پہ اپنوں کا گلا کاٹ کے خود کو شریعت کے وارث کہنے کے زعم میں گرفتار رہنا۔

انا للہ و انا الیہ راجعون۔
 

مہوش علی

لائبریرین
یہ ملک شاید اسی کام کے لئیے ہی رہ گیا ہے کہ یہاں ہر کوئی اپنے نظرئیے کو دوسروں پہ مقدم جانے اور دوسروں کو اسلام دشمن ثابت کرنے میں اپنی توانائیوں کا بے محابہ استعمال کرے۔ کوئی صحابہ کا سپاہی ہے تو کوئی محمد علیہ صلوۃ والسلام کا فوجی ،کوئی اللہ کا جندی ہے تو کوئی مصطفے علیہ صلوۃ والسلام کی سپاہ کا پیادہ۔ حسین رضی اللہ عنہ کا علم بردار گروہ ایک طرف کھڑا ہے تو صحابہ کرام کی ناموس کا دعویدار اس کے مقابل۔ یہ ہیں اسلام کے دعویدار جو اسلام کو گروہوں ، فوجوں اور خانوں میں تقسیم کر کے بھی ملت اسلامیہ کے عروج کے معصوم خواب دیکھتے ہیں۔
لگے رہو اللہ کے شیرو کہ جب تک رہا سہا شیرازہ بھی بکھر جائے۔ اور پھر انارکی کی حالت میں کربلا تو ہر روز بپا ہو گی تو جی بھر کے اس خود ساختہ مصیبت کو نواسہ رسول کی عظیم قربانی کے ہم پلہ قرار دینا یا پھر جہاد کے نام پہ اپنوں کا گلا کاٹ کے خود کو شریعت کے وارث کہنے کے زعم میں گرفتار رہنا۔

انا للہ و انا الیہ راجعون۔

ساجد بھائی،
زمینی حقائق یہ ہیں کہ انسانی فطرت میں اختلاف ہے اور اسے بدلا نہیں جا سکتا۔
مسلمانوں کے یہ مختلف گروہ ہونا کوئی آج کی بات نہیں بلکہ اوائل اسلام سے ہی اختلافات کا ہونا ہوتا چلا آ رہا ہے اور یہ شدید تر نوعیت تک گئے۔
اسکا حل یہ نہیں کہ ایک دوسرے پر چڑھ جایا جائے، بلکہ اسکا واحد حل ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرنا ہے اور مذہبی آزادی دینا ہے۔ کیسی افسوسناک بات ہے کہ اس بات کو انگریز و مغرب و ہندوستان سمجھ گیا اور مغرب و ہندوستاں میں پرابلم نہیں، مگر ہم ایک دوسرے سے اختلاف رائے برداشت کرنے کے روادار ہی نہیں ہیں۔
 

ساجد

محفلین
ساجد بھائی،
زمینی حقائق یہ ہیں کہ انسانی فطرت میں اختلاف ہے اور اسے بدلا نہیں جا سکتا۔
مسلمانوں کے یہ مختلف گروہ ہونا کوئی آج کی بات نہیں بلکہ اوائل اسلام سے ہی اختلافات کا ہونا ہوتا چلا آ رہا ہے اور یہ شدید تر نوعیت تک گئے۔
اسکا حل یہ نہیں کہ ایک دوسرے پر چڑھ جایا جائے، بلکہ اسکا واحد حل ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرنا ہے اور مذہبی آزادی دینا ہے۔ کیسی افسوسناک بات ہے کہ اس بات کو انگریز و مغرب و ہندوستان سمجھ گیا اور مغرب و ہندوستاں میں پرابلم نہیں، مگر ہم ایک دوسرے سے اختلاف رائے برداشت کرنے کے روادار ہی نہیں ہیں۔
مہوش ، میری پیاری بہن، ہم نہ صرف اختلاف رائے برداشت نہیں کرتے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر اپنی بات دوسروں پہ مسلط کرنے کے مرض کے بھی شکار ہیں۔ اختلاف ہو جانا فطری بات ہے لیکن اس کو طریقے سے نبھانے کا سلیقہ ہم میں نہیں ہے حتی کہ ہمارے علمی و سیاسی ذمہ داران کی اکثریت بھی اس معاملے میں تہی داماں ہے۔
آزادی اپنے ساتھ ذمہ داری بھی لاتی ہے اور اگر ہم مؤخر الذکر سے صرف نظر کرتے ہیں تو اول الذکر سوہان روح بن جاتی ہے اور بد قسمتی سے ہمارے وطن میں یہی ہو رہا ہے۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
انتہائی افسوس ناک اور شرمناک بات ہے کہ ایک سانحہ سے شروع ہونے والے تبصرے کو بحث میں بدل دیا گیا اور خلوص سے مشورہ دینے والوں کی نیتوں پر شک کیاگیا۔۔۔۔۔! انا للہ و انا الیہ راجعون۔
نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایک سانحہ کہ جس کوخوش اسلوبی و خوش تدبیری سے وقوع پذیر ہونے سے روکا جا ساکتا ہے، اور کئ معصوم جانوں کو قربان ہونے سے بچایا جا سکتا ہے اس خوش تدبیری پر ڈسکس کرنے سے اور اس کے سدباب کی تدبیر کرنے کو کچھ 'مذہبی جنونیوں' نے کتنا غلط رنگ دے دیا اور اپنی شیطانی نظر سے دیکھ کر کتنی تنگ دلی کا ثبوت دیا ہے۔ مجھے حیرت تو اس بات پر ہے کہ ایک چھوٹی سی بات پر کس قدر تنگ دلی اور جنونیت کا مظاہرہ کیا گیا ہے اور طعنہ دوسروں کی جنونیت کا ہے۔۔۔۔۔۔! بات ہو رہی تھی دہشت گردی کی مگر الزام آ کر ٹھہرا مذہبی جنونیت پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔! واہ کیا حسن ظن ہے۔۔۔۔۔۔!سوال یہ ہے میرے مہربان کہ یہ دہشت گردی کے متعلق بات ہو رہی تھی کہ جن سے نہ فوج محفوظ ہے نہ کوئی ادارہ، نہ شیعہ محفوظ ہے نہ سنی، نہ امام بارگا محفوظ ہے نہ گردوارہ نہ ہی مسجد میں حسینی رسم ادا کرتے ننھے بچے اس سے محفوظ ہیں۔ یہ جو ایک عالمگیر مسئلہ ہے تو ا س پر ڈسکس کرنا اور کوئی اچھا مشورہ دینا کوئی گناہ نہیں کہ مذہبی جنونیت کے علمدار میدان میں آگئے اور لگے اپنے آلے تیزکرنے کہ کسی طرح اس میں بھی فرقہ ورانہ اختلاف پیدا کر کے لوگوں کو خاموش کردیا جائے کہ ہماری روزی روٹی لگی رہے۔۔۔۔۔! میں ان مذہبی ٹھیکیداروں سے سوال کرتا ہوں کہ یہ بجائے نعرے مارنے کہ ان مظلوموں کا احساس کریں کہ جو لاوارث ہو گئے ہیں، جو یتیم اور تہی دامن ہو گئے ہیں اور جب ان پر خود بن آئے تو ان کے پاس کھوکھلے نعروں اور جذبات کے سوا کچھ نہیں اور ہر بات کو جذبات اور مذہبی جنونیت کی عینک لگا کر دیکھنا اور بیان کرنا جن کا شیوہ ہے۔۔۔! یہ ہر جگہ کربلا بپا کر کے معصوموں کا خون بہانا چاہتے ہیں حالانکہ امام علیہ سلام کا کو درس تو امن اور آتشی تھا اور امت کو خون ریزی سے بجانا چاہتے ہیں اگر وہ جنگ و جدل کے قائل ہوتے اور آج کل کے مذہبی جنونیوں کا سا شوق رکھتے تو ان کے ایک اشارے پر مکہ سے فارس تک لو گ اکھٹے ہو جاتے اور نبی کے نواسے کی پکار پر لبیک کہتے اور جناب امام پوری تیاری سے جنگ کرتے، مگر قربان جاوں نبی کے جسم کے حصوں پر کہ ایک نے بادشاہی کو ٹھوکر مار کر اور ایک نے اپنی جان دے کر امن قائم کیا اور اپنے بجوں کا قربانی دے کر امت کے بچوں کو محفوظ کیا اپنے جوان علی اکبر، میں قربان ان پر، کی قربانی دے کر ہزاروں ماوں کو ان کے جوانوں کی زندگی بخش دی۔ ہر جگہ کربلا بپا کرنے کا دعویٰ کرنے والوں یہ تو سوچ لو کہ کربلا یزید کےحکم پر بپا کی گئی تھی کیا اب یزید کی سنت پر عمل ہو رہا ہے بجائے پیغام حسینیت پر عمل کرنےکے۔۔۔!انتہائی دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ کاش ان لوگوں کو فلسفہ حسینیت کی روح سمجھ میں آ جاتی۔۔۔۔! لیکن کیا کیا جائے کہ مذہب کے ٹھیکیداروں نے ان کو جذبات کی بلی چڑھا کر ان سے ان کی عقل چھین لی ہے اور ان کو اپنی مرضی سے استعمال کر رہے ہیں۔۔۔۔!
محترمہ مہوش صاحبہ لگتا ہے آپ نے شروع سے اور خاص کر میری پچھلی پوسٹ نہیں پڑی اور اگر پڑی ہے تو افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آپ بحث کو جان بوجھ کر غلط رخ پر لے کر گئیں ہو جو کہ انتہائی افسوس ناک ہے۔ یہ کب کہا گیا ہے کہ جلوس بند ہونے چاہیے، معصوم جانوں کو بجانے کے لیے ایک چند احتیاطی تدبیریں بتانے پر آپ نے کتنے بڑے اور غلط الزام لگائے ہیں کیا آپ کا یہ طرز عمل جنونیت کی عکاسی نہیں کرتا؟؟؟؟؟ کیا آپ کو بلیک واٹر اور را کے کردار کے بارے میں کچھ پتا نہیں کہ آپ دہشت گردوں کو صرف اور صرف مذہبی جنونیت سے تعبیر دے رہی ہو؟؟ کیپٹن زیدی کے بارےمیں نہیں پتا تھا آپ کو کہ اس کی گرفتاری سے ہی حکومت باضابطہ بلیک واٹر کی موجودگی کا اعلان کرنے پر مجبور ہوئی۔ اور ہمارا مقصد تو اصل عناصر کے بارے میں کچھ سوچنا اور معصوم جانوں کو ہلاکتوں سے بچانے کے بارے میں کچھ عقلی تدبیر کرنا تھا مگر افسوس آپ کچھ بھی سمجھے بغیر جذبات کی آندھی میں بہہ گئی اور اس سانحے کو بھی ایک مسلکی تنازعہ بنا دیا۔۔۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
اسکا حل یہ نہیں کہ ایک دوسرے پر چڑھ جایا جائے، بلکہ اسکا واحد حل ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرنا ہے اور مذہبی آزادی دینا ہے۔ کیسی افسوسناک بات ہے کہ اس بات کو انگریز و مغرب و ہندوستان سمجھ گیا اور مغرب و ہندوستاں میں پرابلم نہیں، مگر ہم ایک دوسرے سے اختلاف رائے برداشت کرنے کے روادار ہی نہیں ہیں۔
کاش کچھ لکھنے سے پہلے آپ نے اپنی اسی بات کی پروا کی ہوتی اور سوچا ہوتا کہ کہیں آپ کے عمل کی وجہ سے آپ کے یہ الفاظ صرف لفاظی بن کر نہ رہ جائییں۔۔۔۔۔۔!
 
ش

شوکت کریم

مہمان
آخری نتیجہ یہ ہے کہ ملک میں بس فقط اور فقط طالبان اور یہی مذہبی جنونی و لال مسجد جیسے لوگ اپنے جلسے جلوس و ریلیاں نکالتے ہوں گے کہ انہیں کسی بم دھماکوں کا خطرہ نہیں اور نہ ہی اس سے ملک کا کوئی نقصان ہوتا ہے۔

یہ ہے آخری نتیجہ انکے اس قیمتی مشوروں کا۔

اور جس شدومد سے یہ اپنے اس قیمتی مشورے کو توپ کے دھانے پر نافذ کرنا چاہ رہے ہیں، اگر نیک نیتی کے ساتھ ان مذہبی جنونیوں کے خلاف مہم شروع کریں تو کب کی یہ جنونیت ختم ہو چکی ہوتی۔

ایک طرف تو بات کی جاتی ہے قومیت کے اور قومی دھارے کی اور دوسری طرف خود کو ایسے قومی دھارے سے الگ کر لیا جاتا ہے کہ دل دکھتا ہے ۔ اور اپنی سوچوں کو وسیع کریں اس تیز رفتار دور میں اب کس کے پاس وقت ہے مذہبی جنونیت کا۔۔ اور ایک اندھا بھی اس دہشت گردی کے سٹائل سے سمجھ سکتا ہے کہ یہ کن لوگوں کا کام ہے۔۔ پریڈ‌ لین مسجد میں بچوں اور جوانوں‌ کو پہلے بم دھماکے سے تباہ کیا گیا اور پھر جی بھر کے ان پر گولیاں‌ بر سائی گئیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا یہ صلیبی جنونیوں‌ کا سٹائل نہیں تھا یہ وہ گندے شیطان ہیں کہ جن کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔۔ اور آپ لوگوں کو لے دے کے اپنے ہی نظر آتے ہیں۔ کس نے روکا ہوا ہے آپ کو کراچی میں مکمل حکومت ہے کئی سالوں‌ سے کہاں سے گھس آتے ہیں‌ یہ گھس بیٹھیے۔

یہ جو بھی ہیں ہم ہمیشہ سے الزامات ہی سنتے آئے ہیں ۔۔۔۔۔۔ کیوں نہیں‌ کرتے گرفتار انہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اگر یہ کام بس کا نہیں‌ تو چھوڑ‌دیں حکمرانی کی مسند اس کے لیے جو یہ چیلنچ قبول کر سکتا ہو۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ عوام چاہے کوئی بھی اس کی قسمت میں بے بسی سے مرنا ہی لکھا ہے۔۔۔۔۔۔۔ کوئی مسئلے کو مسجھنے کی کوشش کرتا نہیں اور دشمن کو پہچاننے کی کوشش اور عزائم سمجھے بغیر اس کا مقابلہ کیسے جا سکتا ہے۔

خاکم بدہن کوئی دن نہیں‌ جاتا کہ جب دشمن اپنے مقصد کی طرف ایک قدم اور بڑھا جاتا ہے اور ہمارے جنونی اپنوں ہی کو کاٹنے کی طرف دوڑنے لگتے ہیں۔ ناک سے پرے تو نظر ہی نہیں‌ کرتے کہ یہ سب اس بڑے مقصدکا پانے کا ذریعہ ہے جس کا طویل المعیاد منصوبہ بنا کر اس پرعمل بھی شروع کیا جا چکا ہے اور یہاں نقصان بھی خود اٹھایا جاتا ہے اور ماتم بھی اپنا ہی کیا جاتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ دشمن کے مقاصد کو سمجھا جائے اور ہر وہ طریقہ اختیار کیا جائے کہ جس سے اس کو ناپاک مقاصد کے حصول میں رکاوٹ‌ پیش آئے۔

اور یہ کہنا کہ ہم عوام مروائیں گے مگر ماتم کریں گے ، ہم عوام مروائیں‌ گے مگر میلاد کا جلوس نکالیں گے یہ ہی مذہبی جنونیت ہوتی ہے !!!

میں‌ تو کہتا ہوں کہ اگر حکومت اور سیکورٹی ادارے جمعہ کے اجتماع کی حفاظت نہیں کر سکتے تو جمعہ بھی موقوف کیا جا سکتا ہے آخر ہماری تاریخ کو وہ دور بھی تو گذرا کہ جب کئی سال تک حج نہیں ہو سکا۔

ایک انسانی جان کتنی قیمتی ہوتی ہے یہ تو ہم روز روز لاشیں دیکھ کر بھول ہی چکے۔ کہ جس نے ایک انسانی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت بچائی۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
جسٹس کی ریلی کا مسئلہ تو وقتی مسئلہ تھا، مگر یہاں تو وہ مذہنی جنونیت و پاگل پن ہے جو مستقل مسئلہ ہے اور کبھی ختم ہونے والا نہیں۔

اور پھر لال مسجد کے غیر قانونی جامعہ حفصہ اور اس پر اٹھنے والے فتنے فساد پر بھی بہت سوں کے قلب بہت وسیع تھے اور انہیں یہ مشورہ نہیں دیا گیا کہ وہ اپنا فتنہ فساد چھور کر اپنا غصب شدہ غیر قانونی قبضہ چھوڑ کر شرافت سے باہر نکل جائیں۔

ان حضرات کے اس قیمتی مشورے کا آخری نتیجہ کیا ہے؟ تو آخری نتیجہ یہ ہے کہ:

1۔ حسینی جلوس نہ نکلیں کہ بم دھماکہ ہونے سے نقصان ہوتا ہے۔

2۔ نشتر پارک وغیرہ میں اہلسنت اپنے اجتماع نہ کریں کہ اس پر بم دھماکے ہونے سے پاکستان کا نقصان ہوتا ہے۔

3۔ اہلسنت و اہل تشیع اپنے اپنے مدارس کو بند کر دیں کہ ان میں بم دھماکے ہوتے ہیں جیسا کہ سرفراز نعیمی شہید پر حملہ کر کے شہید کیا گیا۔

4۔ پیپلز پارٹی اپنے جلسے جلوس و ریلیاں نہ نکالے کہ اس پر بم حملے ہونے سے ملک کا نقصان ہوتا ہے۔

5۔ اے این پی اپنا کوئی جلسہ جلوس و ریلیاں نہ نکالے کہ اس پر بم حملے ہونے سے ملک کا نقصان ہوتا ہے۔

6۔ کوئی پاکستان میں کرکٹ کا میچ نہ کھیلا جائے کہ وہاں پر بم حملہ ہونے سے ملک کا نقصان ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور جس دن عمران خان نے بھی ان مذہبی جنونیوں کے خلاف کچھ بات کہہ دی تو اس کی ریلی پر بھی بم حملہ ہو جائے گا۔ پنجاب یونیورسٹی میں جمیعت نے اس کا ایک چھوٹا ڈیمو پیش کیا تھا۔

اور جس دن میڈیا نے ان مذہبی جنونیوں کا اصل مکروہ چہرہ دکھانا شروع کیا، اُس دن میڈیا کو دھمکیاں ملیں گی اور پھر دھماکے ہوں گے، اور اُس دن آپ اپنے میڈیا کو بھی بند کرن کے بیٹھ جائیے گا کہ ان پر ہونے والے بم دھماکوں سے ملک کا نقصان ہوتا ہے۔

یہ وہ خود ساختہ اور اپنے تعصب کے خول میں بند وہ تجزیے ہوتے ہیں کہ جو لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں اور درحقیقت یہ حقیقی دشمن کی مدد کر رہے ہوتے ہیں مگر اپنے تئیں یہ مذہبی جنونی اپنے مذہب کی خدمت کر رہے ہوتے ہیں۔

دہشت گردوں کا طریقہ واردات اور ان کی تکنیکی مہارت اور انکی انفارمیشن کی کوالٹی اور پھر اس کے نتیجے میں‌ ان کا من چاہا رد عمل یہ ثابت کرتا ہے کہ اس کے پیچھے صرف اور صرف ہمارے ازلی دشمن ہیں۔ اور ان کا مقصد صرف اور صرف اس ملک کی وحدت کو پارہ پارہ کر کے اس کی طاقت کو تقسیم کر کے ختم کر دینا ہے۔ خدارا بس کیجئے اب امت مسلمہ کسی اور ابن علقمی کے کردار کی متحمل نہیں‌ ہو سکتی۔ اب بھی جاگ جاؤ اور اپنے حقیقی دشمن کو اور اس کے عزائم کو سمجھ لواور اپنی ساری توانائیاں اس طرف صرف کرو ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہاری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں۔۔۔۔۔۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
بھائی صاحب آپ تو بیٹھے ہیں ناں دبئی میں اور یہاں ہم تھک چکے ہیں لاشے اٹھا اٹھا کے اور دھماکے سن سن کے اور لاشیں دیکھ دیکھ کے امریکہ میں‌ ایک نائن الیون ہوا اور اس نے دنیا کے نقشے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور ہمارے ہاں ہر ہفتے نائن الیون ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی روز ایسا نہیں جاتا کہ خیریت دیکھی جائے۔ اور سیکورٹی اداروں نے اپنی 6 فیٹ کی دیواروں کو 10 فیٹ تک لے جانا شروع کر دیا ہے۔ اور ہر قابل ذکر سڑک پر ناکہ اور نزدیکی سڑک بند۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ان اداروں کی یہ حالت دیکھ کر عوامی مورال اور بھی گرتا ہے کہ ان لوگوں نے ہماری کیا حفاظت کرنی ہے کہ جو خود چھوٹے چھوٹے قلعوں میں رہنا شروع ہو گئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ یوسی اور ان کے قبیلے کے لوگوں میں اتنی بھی شرم نہیں کہ اگر ان سے کوئی کام سیدھا نہیں ہو سکتا تو چھوڑ دیں یا کم از کم مرکزی بندے ہی تبدیل کریں تاکہ کچھ تو احساس ہو کہ ان مقتدر لوگوں‌کو بھی دکھ ہے مگر ۔۔۔۔۔۔ مجال ہے کہ جو ان کے کانوں پر جوں تک رینگتی ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ستم بالائے ستم بجلی کی لوڈ شیڈنگ، گیس کی لوڈ شیڈنگ، بلوں‌ میں اضافہ، پٹرول کی قیمتوں میں‌ ہر ہفتے اضافہ ۔۔۔۔ چلیں ترقی یافتہ ممالک کو چھوڑیں ۔ آخر ہمارے پڑوسی ملک میں بھی ایک واقعہ ہوا تھا اور اسی دن وزیر داخلہ نے استغفیٰ دے دیا تھا مگر ہمارے ہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شوکت بھائی کیا بات کر رہے ہیں آپ بھی۔ ان لوگوں میں بھی شرم ہے تبھی تو نہ تو چھوڑتے ہیں اور نہ ہی تبدیل ہوتے ہیں۔ اتنا کیا کم ہے کہ اپنے قیمتی وقت میں سے ٹی وی پر آ کر مذمت کر دیتے ہیں۔ ہڑتال اور کئی کئی دنوں کا سوگ منانے کا اعلان کر دیتے ہیں۔ ان کو اللہ تعالٰی نے اتنی عقل نہیں دی کہ خود تو عوام کے پیسوں سے دیہاڑیاں گزار لو گے۔ غریب آدمی کا ہڑتال کی وجہ سے چولہا کیسے جلے گا؟ اور یہ آپ سے کس نے کہہ دیا کہ ہمارے سیاہ ستدان کسی بھی واقع پر استغفٰی دے دیں گے۔ اس کے لیے جسم کے اندر ایک مادے کی ضرورت ہوتی ہے جسے " غیرت " کہتے ہیں۔ اور وہ آپ کو معلوم ہی ہے کہ یہ اپنی بہنوں، بیٹیوں اور ماؤں کو بیچ کر کھا گئے ہیں، غیرت کس چڑیا کا نام ہے۔
 

dxbgraphics

محفلین
میرے بھائی یہ جلوس کوئی سیاسی جلوس نہیں یا کسی عام آدمی کی معمولی شہادت کی یاد میں ہونے والا جلوس نہیں اسکی اپنی ایک تاریخ ہے۔ اسی جلوس سے مومن اور منافق کی تمیز ہوتی ہے اسی جلوس سے شر پسند اور امن پسند کی تصدیق ہوتی ہے ۔ یہ جلوس تاریخ کے سب سے بڑے ظلم کی یاد دلاتا ہے اور قران اور حدیث سے ثابت ہے کہ ظالم کے ظلم کو ببانگ دہل بیان کرنا ہی اصل مردانگی ہے ۔ یہ ظلم حضرت محمد مصطفٰی(ص) کے خاندان پر ہونے والا ظلم ہے جو پوری دنیا میں تا قیامت اپنی پوری آب و تاب سے قابلِ مزمت رہے گا۔ ان چھوٹے چھوٹے واقعات سے ہم ڈرنے والے نہیں اگر آپ اسکو اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنا سمجھتے ہیں تو سمجھنے میں حق بجانب ہیں کیونکہ آپ کی نظر میں آپ کی جان کی اہمیت بہت ہے جبکہ ہم حسینی چاہے وہ اہلِ سنت ہوں یا اہلِ تشیع اگر ان شعائرِ اسلامی کیلئے جان چلی جائے تو اسکو اللہ کی طرف سے ایک تحفہ سمجھتے ہیں۔
اے حاملانِ آتشِ سوزاں، بڑھے چلو
اے پیروانِ شاہِ شہیداں، بڑھے چلو
اے فاتحانِ صرصر و طوفاں بڑھے چلو
اے صاحبانِ ہمتِ یزداں ، بڑھے چلو
تلوار شمرِ عصر کے سینے میں بھونک دو
ہاں جھونک دو یزید کو دوزخ میں جھونک دو

براہ مہربانی ان الفاظ کی وضاحت کریں گے؟
 
Top