غزل
کتابِ سبز و درِ داستان بند کئے
وہ آنکھ سو گئی خوابوں کو ارجمند کئے
گزر گیا ہے وہ سیلابِ آتشِ امروز
بغیر خیمہ و خاشاک کو گزند کئے
بہت مصر تھے خدایانِ ثابت و سیار
سو میں نے آئنہ و آسماں پسند کئے
اسی جزیرہِ جائے نماز پر ثروت
زمانہ ہو گیا دستِ دعا بلند کئے
شاعر: ثروت حسین