کباڑ کھانا ۔ صحت کا دشمن ۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر ریحان انصاری

عندلیب

محفلین
کباڑ کھانا ۔ صحت کا دشمن

نیا دور ظاہر پرستی کا جتنا دلداہ ہے اسی قدرآمادہ تجرباتی ذائقوں پر بھی ہے ۔ زبان اور طبعت کے مطابق ذائقوں کی تلاش میں اکثریت کباڑخوری کی عادی ہوتی جا رہی ہے ۔ اس کباڑخوری کو مرّوجہ اصطلاح میں" فاسٹ فوڈ کلچر " کہتے ہیں اور اس کلچر کا مفہوم یہ ہے کہ " ابھی پکایا اور ابھی کھایا " ۔۔۔۔۔ اس کلچر کی وکالت وقتی بدلاؤ کی حد تک ہی کی جا سکتی ہے لیکن تیز رفتارزندگی میں جب اسے اپنی روزمّرہ کی غذا کا بدل سمجھ لیا جائے توسمجھئے کہ اب آپ کی صحت کا اللہ ہی حافظ ہے ۔

آج کے فاسٹ فوڈ کلچر میں مختصر سے مینو میں سرفہرست سینڈوچ ، فرسان ، پیزا، برگر فرنچ فرائیز، پراٹھے بھاجی پاؤ، سافٹی ، آئس کریم ، مختلف طرح کے رول اور پف ، پیسڑی کیک، سافٹ ڈرنکس، چاکلیٹ ،ویفر، پاپکورن، اوراسٹارٹر آئٹمس جیسے مرغوب اور دلفریب نام شامل ہیں ۔ ان کا شکار بالغ افراد نہیں ہیں جتنا بچے ان پر ٹوٹے پڑتے ہیں ۔ اسی لئے گزشتہ پندرہ بیس برسوں کے دوران ( جب یہ کلچر پھلنے پھولنے لگا ) جوان ہونے والی نسل میں مختلف طرح کے صحت کے مسائل پیدا ہوچکے ہیں ۔

ان میں سب سے نمایا ں مسئلہ ذیابطیس کے مریضوں کی تعداد میں زبردست اضافہ ہے ۔ علاوہ ازیں موٹاپا ، ہائی بلڈ پریشر ، جوڑوں کا درد ، دل کے امراض ا طفال نیز ذیابطیس و قلب کے ماہرین نے اس پر بڑی فکر کا اظہار کیا ہے ۔ انھوں نے متفقہ طور پر تسلیم کیا ہے کہ جو امراض پہلے ادھیڑی یا بڑی عمر میں ظاہر ہوتےتھے وہ اب نوجوانوں اور جوانوں میں بھی پیدا ہونے لگے ہیں ۔

ہم سب اس بات کو محسوس نہیں کر پاتے کہ اسکول جانے جانے والے ہمارے نھنے یا نھنیاں دن بھر میں کتنے چاکلیٹ ہڑپ کرلیتے ہیں ۔ پھر درمیان میں کچھ پیزا یا برگر وغیرہ کھا لیتے ہیں اورشام ہوتے ہی بجائے کھیل کود اور دیگر کثرتی اعمال میں مشغول ہونے کے وہ ٹی وی کے سامنے پلتھی مارے بیٹھ جاتے ہیں ۔ ان باتوں پر خود غور کرنا ہو توکجا کچھ دوسرا بھی دھیان دلائے تو یہ عزر پیش کرتے ہیں کہ کام دھام سے فرصت ملے تو اس پر کچھ سوچیں !

بچے سب کباڑ کھائے جا رہے ہیں ۔ پیٹ کی چکی میں گھر کا پکوان اس تناسب میں نہیں گرتا جس تناسب میں کباڑ کھانے بھرے جاتے ہیں ۔ نتیجہ یہ ہوا آس پڑوس سے لیکر محّلے اور اسکولوں تک میں موٹےموٹےبچّے اور بچیاں ہی نطر آتی ہیں ۔ ان کی بھیڑ میں بہ مشکل ہی کوئی دبلا پتلا بچہ یا بچی دکھائی دیتی ہے ۔

ایک ماہر امراض غدود کا یہ کہنا ہے کہ آج ہر دس میں ایک بچّے کا وزن اس کی طبعی وزن سے زیادہ (overweight) ہوتا ہے اور ہر 15 میں سے ایک بچہ فربہ (obese) ہوتا ہے ۔

فاسٹ فوڈ ( کباڑکھا نے) میں عمومًا سوڈیم بھی زیادہ ہوتا ہے اور شحم ( چربی ) وحرارے( کیلوری ) بھی ۔ یہ تینوں ہی چیزیں زیادہ مقدار میں بچوں کے لئے زیادہ نقصان دہ ہیں ۔ یہ بھی بالکل عام مشاہدہ ہے کہ فاسٹ فوڈ کےاسٹالوں پر پینے کا پانی بھی دستیاب نہیں ہوتا بلکہ خریدار کو ٹھنڈے مشروب ( کولڈ ڈرنکس) استعمال ہونے پر مجبور ہونا پڑتا ہے ۔ ان سب کو فروخت کے نئے نئے انداز اور لبھانے والے اشتہارات کے ذریعہ قابل قبول بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور نئی نسل بڑی آسانی کے ساتھ ان کا شکار بن جاتی ہے ۔ یہ سب مغربی تہذیب وتمدن کی اندھی تقلید میں ہورہا ہے ۔ اس نسل کی زبان و اخلاقیات نیز تہذیبی وسماجی شناخت سب تباہ ہوتی جارہی ہے ۔ اس کی مشغولیات میں کثرتیں اور جسمانی حرکات کم سے کم ہوتی جارہی ہیں اور یہ ویڈیو گیم ، انٹرنیٹ اور ٹیلی ویژن میں اپنا زیادہ زیادہ وقت برباد کرتی ہے ۔ سماجی روابط میں منقطع ہوتے جارہے ہیں اور یہ شدید قسم کی خود غرضی میں مبتلا ہوتے جارہے ہیں ۔

یہ سب اسی لئے ہورہا ہے کہ ہم اپنے بچوں کو تیار اور غذائی طور پر نقصان دہ یا ناقص اشیاء کا استعمال کروا رہے ہیں ۔ ہمیں کھانے پینے کی چیزوں کو گھر میں تیار کرنے کا وقت نہیں ملتا نیز جدید سماج میں یہ اسٹیٹس سمبل کے خلاف بھی سمجھا جاتا ہے ۔ تازہ اور غذائیت سے بھر پور کھانوں کی جگہ اپنے بچوں کا کباڑ کھانے دے کران کے جسمانی وذہنی دشمن بن گئے ہیں ۔ ان بچوں کے چہروں سے وہ رونق غائب ہوگئی ہے جو بچپن اور معصومیت کی پیچان ہوتی ہے ۔ وہ تھکے تھکے سے لگتے ہیں ان کی نیند میں بھی تخفیف ہوگئی ہے ۔ ان میں مطالعہ کا قطعی شوق نہیں پا یا جاتا ، نہ ہی محنت اور لگن کا جذبہ دیکھائی دیتا ہے ۔ گزرے ہوئے دورمیں ہم سب اسکول یا درسگاہ تک پیدل یا سائیکل سے جایا کرتے تھے یہ عمل روزآنہ معمولی ورزش کا سبب بن جایا کرتا تھا ۔ نئی نسل کے بہت کم طلبہ ایسے پائے جاتے ہیں جو گاڑیوں کے بغیر اپنی تعلیم گاہ تک جاتے ہیں ۔ اس پر مزید نقصان یہ بھی ہوا اسکولوں کے پاس جو کھیل کے میدان یا کھلی جگہیں تھیں جن میں اسپورٹس کا اہتمام ہوتا تھا انھیں اداروں نے یا تو تعمیراتی مقاصد کے لئے یا پھر انھیں مسلسل کرایہ پر اٹھا رکھا ہے یا فروخت کر دیا ہے ۔

کباڑ کھانوں میں غذائی اجزاء کا تناسب جس قدر کم ہوتا ہے اس سے کئی گنا شکر ، نمک، تیل،اور چربی ہوا کرتی ہے ۔ بہت سے کباڑ کھانوں میں ریفائنڈ یعنی مصٰفی تیل استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ریفائنڈ تیل بجائے خود نقصان کا پیش قیمہ سمجھا گیا ہے ۔ کیونکہ صفائی ( ریفائنگ) کے دوران بہت سے اہم غذائی اجزا جیسے جست (zinc) مینگنیز(Manganese) اور کرومیم (chromium) وغیرہ ان سے چھٹ جاتے ہیں ۔ ان کی عدم موجودگی کے سبب ، موٹاپا، ذبابطیس ، اور دل کے امراض بڑی آسانی سے پنپنے لگتے ہیں ۔

آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف ڈیابیٹس (ممبئی ) میں ماہرین کی ایک ٹیم نے یہ تحقیق کی ہے کہ عام ہندوستانی طرز کے کھانوں میں دالیں اور سبزیاں زیادہ ہوا کرتی ہیں اور تیل کم ہوتا ہے ۔ اس میں PUFA6 نامی شورۃ شحم یا Fatty acid کی مقدار زیادہ ہوتی ہے جو دل اور نظام دوران خون کے لئے بے حد مفید ہے ۔ اسی طرح PUFA3 دوسرا شورۃ شحم ہے ۔ ان دونوں تیزابوں کا مفید تناسب 4:1 ہے یعنٰی PUFA6 کے چار حصوں کے مقابلوں میں PUFA3 ایک حصہ موجود رہنا چاہیئے ۔ مگر رفائنڈ تیلوں کی وجہ سے یہ تناسب بہت گھٹ گیا ہے اوراب PUFA6 کی مقدار 30 حصّے ہوتی ہے تو PUFA3 کی مقدار1 ہوتی ہے ۔ یہ بے حد خطرناک بات ہے۔ PUFA3بچوں کی نشونما کے لئے بہت ضروری ہے۔ دوران حمل ، آنکھوں کی صحت ، دماغ اور امراض سے دفاع کی قوت کی پیدائش کے لئے بچوں میں اعضائے تناسلیہ کی صحت مند نشونما کے لئے بے حد ضروری ہے PUFA 3 کی کمی سے کینسر، دل کے امراض، ہائی بلڈ پریشر، ذیابطیس، بینائی کے مسائل، بعض جلدی امراض نیز بیماریوں کے خلاف قوت کے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں ۔

اسکی کمی کو دور کرنے کے لئے مچھلی کا گوشت، مچھلی کا تیل، سرسوں کا تیل، ناریل کا تیل اور گائے کا گھی استعمال کیا جاسکتا ہے ۔

کباڑ کھانوں کے صنتکاروں سے مقابلہ بے حد مشکل کام ہے کیوں کہ جدید زمانے میں ہر کوئی تیز رفتار زندگی جینے کے آسانی سے دستیاب وسائل تلاش کرہا ہے ۔
اس لئے ظاہر ہے کہ لڑائی کی پوری ذمہ داری کسی ایک جماعت یا تنظیم پر نہیں بلکہ صارف یعنٰی عام آدمی پر عائد ہوتی ہے کہ وہ خود اس سے کتنا بچ پاتا ہے اور اپنے بچوں کو کتنا پچاتا ہے ۔
 

شمشاد

لائبریرین
واللہ بہت ہی خود ترجمہ ہے۔ پہلے تو میں کباڑ خانہ پڑھ گیا۔ پھر جب جنک فوڈ پر بات آئی تب دوبارہ دیکھا تو کباڑ کھانہ نظر آیا۔

بہت خوب، بہت ہی مزے کی تحریر ہے۔ بہت شکریہ عندلیب آپ کا۔
 
Top