کانٹے ہیں اور پاؤں میں چھالے پڑے ہوئے ۔ چوہدری محمد علی مضطر عارفی

فاتح

لائبریرین
کانٹے ہیں اور پاؤں میں چھالے پڑے ہوئے
پیاسوں کے درمیاں ہیں پیالے پڑے ہوئے

آندھی بھی ہے چڑھی ہوئی، نازک ہے ڈور بھی
کچھ پیچ بھی ہیں اب کے نرالے پڑے ہوئے

اترا تھا چاند شہرِ دل و جاں میں ایک بار
اب تک ہیں آنگنوں میں اجالے پڑے ہوئے

رہزن کو بھی فرار کا رستہ نہ مل سکا
چاروں طرف تھے قافلے والے پڑے ہوئے

تیرے لیے ہی اترے ہیں یہ آسمان سے
جو غم بھی راہ میں ہوں، اٹھا لے، پڑے ہوئے

آمادگی کا نور غزل خواں ہے آنکھ میں
فرطِ حیا سے لب پہ ہیں تالے پڑے ہوئے

اشکوں میں ہیں انا کی چٹانیں چھپی ہوئی
جیسے سمندروں میں ہمالے پڑے ہوئے

رہزن کا یوں پڑاؤ ہے رادھا کے کنڈ پر
جنگل میں جس طرح ہوں گوالے پڑے ہوئے

دل سر بہ مہر، کانوں میں روئی بھری ہوئی
آنکھوں میں اختلاف کے جالے پڑے ہوئے

باہر اٹھا کے پھینک دیے بُت غرور کے
کب سے تھے یہ مکان میں سالے پڑے ہوئے

تجدیدِ عہد کے لیے پڑھتا ہوں بار بار
گھر میں ہیں کچھ پرانے رسالے پڑے ہوئے

مضطر کو فکرِ عصمتِ ایمان و آگہی
یاروں کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے

(چوہدری محمد علی مضطرؔ عارفی)
 

فرخ منظور

لائبریرین
واہ! کیا خوبصورت غزل ہے قبلہ۔ اتنے عامیانہ لفظ یعنی سالے کا اتنا اچھا استعمال پہلی بار نظر سے گزرا۔ بہت عمدہ انتخاب ہے۔ بہت شکریہ!
 

فاتح

لائبریرین

فاتح

لائبریرین
آپ دونوں کو ساری خدائی چھوڑ کر یہ سالا ہی کیوں اتنا بھا رہا ہے؟ خیر فرخ بھائی تو تجربے کی بنا پر پسند فرما رہے ہیں مگر آپ۔۔۔؟;)
 
Top