محمد علی مضطر

  1. فاتح

    وہ ہنسنے کو تو ہنس رہا ہوئے گا ۔ چوہدری محمد علی مضطرؔ

    وہ ہنسنے کو تو ہنس رہا ہوئے گا مگر حال اس کا برا ہوئے گا مرا اس سے جو فاصلہ ہوئے گا مجھے بھی نہ اس کا پتا ہوئے گا وہ لمحہ جو امسال رک کر ملا خدا جانے کب کا چلا ہوئے گا جسے میرے ایماں کا بھی علم ہے وہ جھوٹا نہیں تو خدا ہوئے گا جمائی ہے سرخی جو اخبار نے سنا اس کو، تیرا بھلا ہوئے گا وہ آئے گا...
  2. فاتح

    پھر کوئی طرفہ تماشا کر دے (دو غزلہ) ۔ چوہدری محمد علی مضطرؔ

    چوہدری محمد علی مضطرؔ کے ایک دو غزلے کی دوسری غزل پھر کوئی طرفہ تماشا کر دے میں بُرا ہوں، مجھے اچھا کر دے کہیں ایسا نہ ہو کوئی لمحہ تجھ کو چھو کر تجھے تنہا کر دے لفظ مر جائے اگر بچپن میں اس کا وارث کوئی پیدا کر دے بخش دے میری علامت مجھ کو میرے سر پر مرا سایہ کر دے رنگ و بُو بانٹ دے اس سے لے...
  3. فاتح

    دل دیا ہے تو پھر اتنا کر دے (دو غزلہ) ۔ چوہدری محمد علی مضطرؔ

    چوہدری محمد علی مضطرؔ کے ایک دو غزلے کے سلسلے کی پہلی غزل دل دیا ہے تو پھر اتنا کر دے اِس کو کچھ اور کشادہ کر دے بھر نہ جائے کہیں سہلانے سے زخم کو اور بھی گہرا کر دے کہیں ایسا نہ ہو میرا سایہ تیری تصویر کو دھندلا کر دے پھر پسِ پردۂ گردِ ایّام کوئی لمحہ نہ اشارہ کر دے میں ہوں شرمندۂ خوابِ...
  4. فاتح

    صلہ کوئی تو سرِ اوجِ دار دینا تھا ۔ چوہدری محمد علی مضطر عارفی

    صلہ کوئی تو سرِ اوجِ دار دینا تھا نہیں تھا پھول تو پتھر ہی مار دینا تھا حریفِ دار بھی پروردگار! دینا تھا دیا تھا غم تو کوئی غم گسار دینا تھا یہ وہ زمین تھی جو آسماں سے اتری تھی یہ وہ حوالہ تھا جو بار بار دینا تھا وہ اک حسین تھا اس عہد کے حسینوں میں اسے کسی نے تو کافر قرار دینا تھا میں اپنی...
  5. فاتح

    محترم چور صاحب قبلہ (چوہدری محمد علی مضطر کے بریف کیس کی چوری پر) ۔ احمد ندیم قاسمی

    محترم چور صاحب قبلہ ۔ از احمد ندیم قاسمی سنا ہے کہ تلاشِ گم شدہ کے بعض اشتہارات بہت نتیجہ خیز ثابت ہوتے ہیں۔ مثلاً مشہور ہے کہ ایک شخص کا بریف کیس چوری ہو گیا۔ اس نے پولیس میں رپورٹ لکھوانے کی بجائے اخبار میں ایک اشتہار دیا جس کا مضمون کچھ اس طرح کا تھا: محترم چور صاحب قبلہ! السلام علیکم! آپ...
  6. فاتح

    کانٹے ہیں اور پاؤں میں چھالے پڑے ہوئے ۔ چوہدری محمد علی مضطر عارفی

    کانٹے ہیں اور پاؤں میں چھالے پڑے ہوئے پیاسوں کے درمیاں ہیں پیالے پڑے ہوئے آندھی بھی ہے چڑھی ہوئی، نازک ہے ڈور بھی کچھ پیچ بھی ہیں اب کے نرالے پڑے ہوئے اترا تھا چاند شہرِ دل و جاں میں ایک بار اب تک ہیں آنگنوں میں اجالے پڑے ہوئے رہزن کو بھی فرار کا رستہ نہ مل سکا چاروں طرف تھے قافلے والے پڑے...
Top