پھر کوئی طرفہ تماشا کر دے (دو غزلہ) ۔ چوہدری محمد علی مضطرؔ

فاتح

لائبریرین
چوہدری محمد علی مضطرؔ کے ایک دو غزلے کی دوسری غزل

پھر کوئی طرفہ تماشا کر دے
میں بُرا ہوں، مجھے اچھا کر دے

کہیں ایسا نہ ہو کوئی لمحہ
تجھ کو چھو کر تجھے تنہا کر دے

لفظ مر جائے اگر بچپن میں
اس کا وارث کوئی پیدا کر دے

بخش دے میری علامت مجھ کو
میرے سر پر مرا سایہ کر دے

رنگ و بُو بانٹ دے اس سے لے کر
پھول کے بوجھ کو ہلکا کر دے

میں ہوں آلودۂ خوابِ غفلت
مجھ کو چھو کر مجھے اُجلا کر دے

میں بکھر جاؤں تو مجھ کو چُن کر
اپنے آنگن میں اکٹھا کر دے

مجھ کو ڈر ہے کہ مری خاموشی
کوئی تجھ سے نہ تقاضا کر دے

آج کی صبح ہے صبحِ صادق
آج ہر خواب کو سچا کر دے

میں بھی پہچان لوں خود کو شاید
میری جانب مرا چہرہ کر دے

چھین کر اشک سے اس کی آواز
اور بھی اس کو نہتّا کر دے

مجھ کو ڈر ہے کہ سرِ بزمِ ادب
تو کہیں ذکر نہ میرا کر دے

آئنے ٹوٹ نہ جائیں مضطرؔ
دل کی دیوار کو سیدھا کر دے

(چوہدری محمد علی مضطرؔ)
 
Top