کاغذ کے پھول دیکھ کر ہم بے یقیں رہے۔۔۔احمد ضیاء

فرحت کیانی

لائبریرین
کاغذ کے پھول دیکھ کے ہم بے یقیں رہے
ہم تھے اسیرِ خواب مگر اب نہیں رہے

بادل کے ساتھ ساتھ سفر سب نے طے کیا
ان گردشوں کے سامنے لیکن ہمیں رہے

اک شخص کی جدائی میں روتی ہوئی یہ شام
رکھنی ہے دل میں یاد، مرا دل کہیں رہے

بدلے ہیں وہ اس کا گلہ کیا کیجئے
پہلے سے خوش مزاج تو ہم بھی نہیں رہے

کچھ لوگ تھے کہ بھول گئے جن کو ہم ضیاء
کچھ لوگ عمر بھر کے لئے دل نشیں رہے

۔۔۔احمد ضیاء
 
Top