کائناتی شعور سے کیا مراد ہے؟ اردو شاعری میں کائناتی شعور کی بلند سطح کے حاملین شعراء کون کون ہیں؟

ش

شہزاد احمد

مہمان
جنت غالبؔ کی ظرافت کا شکار ہوئی اور محض دل بہلانے کا خیال قرار پائی
غالب کا زمین پر دل نہیں لگ رہا، انہیں خلا میں ایک پلیٹ فارم چاہیے وہ بھی عرش سے ادھر، تاکہ غالبؔ وہاں سے مزید آگے پرواز کر سکیں
منظر اک بلندی پر ، اور ہم بنا سکتے
عرش سے ادھر ہوتا کاش کے مکاں اپنا
غالبؔ کا بہترین سائنسی شعر، ابن الہیثم اس شعر پر فریفتہ ہوجاتا
لطافت بے کثافت ، جلوہ پیدا کر نہیں سکتی
چمن زنگار ہے آئینہ باد بہاری کا
غالبؔ کو اچھی طرح معلوم ہے ایچ ٹو او والا فارمولا:۔ ضعف سے، گریہ مبدل بہ دمِ سرد ہوا٭٭ باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہوجانا
غالبؔ اور کیمسٹری:۔ تاکہ تجھ پر کھلے اعجازِ ہوائے صیقل٭٭ دیکھ برسات میں سبز آئینے کا ہوجانا
نیوٹن کا تیسرا قانون غالب کے زبان سے:۔ پاتے نہیں جب راہ، تو چڑھ جاتے ہیں نالے

اب خدا را کوئی اور بھی بولے، کیونکہ
حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے ٭٭ آخر گناہگار ہوں کافر نہیں ہوں میں
"چھوٹا غالب" محض نام کے ہی غالب نہیں نکلے ۔۔۔ یہ تو انہوں نے ثابت کر دکھایا ۔۔۔ خیر ہم بھی مقدور بھر اپنا حصہ ڈالتے ہیں ۔۔۔
لوگوں کو ہے خورشید جہاں تاب کا دھوکا
ہر روز دکھاتا ہوں میں ایک داغ نہاں اور
غالب کا ایک اور شعر
زمانہ عہد میں ہے اس کے محوِ آرائش
بنیں گے اور ستارے اب آسماں کے لیے
اب اس سلسلے کو مزید آگے بڑھانے کا ارادہ ہے ۔۔۔ کچھ اور شاعر بھی آئیں گے ۔۔۔ میر کے بھی کچھ اشعار پیش کروں گا ۔۔۔ اور میر سے پہلے کے بھی کچھ شعراء ہیں جن کے ہاں کائناتی شعور کی جھلکیاں مل جاتی ہیں ۔۔۔
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
آپ کی پہلی اور آخری بات سے کلی اتفاق ہے اور چونکہ آپ نے اختلاف رائے کی اجازت دی ہے، اس لئے "اقبال کی محدودیت" پر آپ کے کمنٹس سے جزوی اختلاف کرنے کی جسارت کروں گا۔
اقبال اپنی شاعری میں "اسلامک فریم" سے باہر نہیں نکلتا (ابتدائی زمانے کی غیر پختہ شاعری کو چھوڑ کر) اس لئے تمام مذاہب کو ماننے والے سیکولراسکالرز اقبال کی شاعری کو "محدود" ماننے میں "حق بجانب" ہیں۔ لیکن جس طرح "اسلام" ایک "آفاقی مذہب" ہے۔ ہر زمانے میں، ہر علاقے میں اور ہر قسم کے افراد کے لئے قابل عمل ہے۔ اسی طرح اقبال کی شاعری پر "اسلامک لیبل" لگائے بغیر اگر "فکر اقبال" کو ان کے اشعار کی روشنی میں پڑھا جائے تو اس کے "آفاقی نہ ہونے" کا شبہ زائل ہوجاتا ہے۔
میں اختلاف کروں گا یہاں اس شرط پر کہ مجھے سیکولر ، یا جدیدت کا مارا نہ سمجھ لیا جائے
"پھر بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم لے چل" (از روئے قرآن مجید غیر مسلمین کا داخلہ حرم کی حدود میں منع ہے)
تو یہ دنیا ور اللہ صرف مسلمانوں کا نظر آنے لگتا ہے
اقبال کو صرف ان جوانوں سے محبت ہے جو ستاروں پر کمند ڈال کے دکھائیں گے (میرے جیسے للو پنجو رُل گئے، دہائی ہے دہائی ہے ہمارا والی وارث کون ہوگا)
اقبال صرف مردانِ مومن کا جلوس نکالیں گے، ہم جیسے گناہگاروں کو تو ڈوب مرنے کی جگہ بھی نہیں مل رہی
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
"چھوٹا غالب" محض نام کے ہی غالب نہیں نکلے ۔۔۔ یہ تو انہوں نے ثابت کر دکھایا ۔۔۔ خیر ہم بھی مقدور بھر اپنا حصہ ڈالتے ہیں ۔۔۔
لوگوں کو ہے خورشید جہاں تاب کا دھوکا
ہر روز دکھاتا ہوں میں ایک داغ نہاں اور
غالب کا ایک اور شعر
زمانہ عہد میں ہے اس کے محوِ آرائش
بنیں گے اور ستارے اب آسماں کے لیے
اب اس سلسلے کو مزید آگے بڑھانے کا ارادہ ہے ۔۔۔ کچھ اور شاعر بھی آئیں گے ۔۔۔ میر کے بھی کچھ اشعار پیش کروں گا ۔۔۔ اور میر سے پہلے کے بھی کچھ شعراء ہیں جن کے ہاں کائناتی شعور کی جھلکیاں مل جاتی ہیں ۔۔۔
شہزاد بھائی رحم کریں، میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ پسند کروں یا اختلاف کروں
آپ سے بات کر کے مجھے کائناتی شعور کا سراغ ملا اور اب آپ ہی چراغ تلے اندھیرا کی زندہ مثال بنے بیٹھے ہیں
اگر مزید پیش کی جانے والی جھلکیاں بھی انہی دو اشعار جیسی ہیں تو میں ابھی سے مرغا بن جاتا ہوں، رحم ، رحم رحم:laugh:
 

یوسف-2

محفلین
میں اختلاف کروں گا یہاں اس شرط پر کہ مجھے سیکولر ، یا جدیدت کا مارا نہ سمجھ لیا جائے
"پھر بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم لے چل" (از روئے قرآن مجید غیر مسلمین کا داخلہ حرم کی حدود میں منع ہے)
تو یہ دنیا ور اللہ صرف مسلمانوں کا نظر آنے لگتا ہے
اقبال کو صرف ان جوانوں سے محبت ہے جو ستاروں پر کمند ڈال کے دکھائیں گے (میرے جیسے للو پنجو رُل گئے، دہائی ہے دہائی ہے ہمارا والی وارث کون ہوگا)
اقبال صرف مردانِ مومن کا جلوس نکالیں گے، ہم جیسے گناہگاروں کو تو ڈوب مرنے کی جگہ بھی نہیں مل رہی
ہاہاہا
نو کمنٹس از دی بیسٹ کومنٹ :mrgreen:
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
جناب "چھوٹا غالب" ۔۔۔چلیے اب آپ کی تعریف کم کریں گے ۔۔۔ آپ کو "تعریف" سے "شرمندہ" کرنا کافی دشوار ہے ۔۔۔ بحث جب یہاں تک پہنچ گئی ہے تو ایک سوال ذہن میں آیا ہے کسی شاعر کے کلام میں کائناتی شعور کی سطح بلند ہو تو کیا یہ عنصر اس شاعر کی شعری عظمت کو جلا دینے میں معاون ہو گا یا نہیں؟ یعنی کائناتی شعور کی موجودگی کسی شاعر کے کلام کی بنیادی صفات میں شامل ہے یا اضافی صفات میں ۔۔۔
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
شکر ہے آپ مزید مثالوں سے باز آ گئے:applause:
ایک عام سے شاعر کیلئے شاعری کی معراج یہی ہے کہ وہ قافیہ بندی کر لے
بی کلاس شاعر کیلئے اتنا ہی بہت ہے کہ اس کی شاعری وزن میں ہو، اور ایک ایڈیشن چھپ کر ردی کی دکانوں پر رونق افروز ہو جائے
اے کلاس شاعر پر کافی ذمہ داری ہوتی ہے، اسے اوسطا ً 50٪ لوگوں کے جذبات سے ہم آہنگ شاعری کرنی پڑتی ہے تب جا کر وہ مقبول کہلانے کا حقدار قرار پاتا ہے
(یعنی مذکورہ بالا شاعروں کا کائناتی شعور سے مرصع شاعری کے بغیر بھی گزارہ چل ہی جاتا ہے)
اے پلس شاعر پر ذمہ داری کا بوجھ مزید بڑھ جاتا ہے، اس کیلئے ضروری ہے اس کا شعر بیک وقت ماضی ، حال ، مستقبل کا آئینہ دار ہو
اور جب عظیم شعرا کی بات ہوتی ہے تو ان کی شاعری میں کائناتی شعور ایک بنیادی عنصر قرار پاتا ہے
غالبؔ کے الفاظ میں :۔ نغمہ ہو جاتا ہے واں ، گر نالہ میرا جائے ہے
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
جناب کافی حد تک متفق ہوں آپ کی بات سے ۔۔۔ ویسے مثالیں دینے سے باز نہیں آؤں گا ۔۔۔ لیجیے غالب کا ایک اور شعر ۔۔۔
رفتارِ عمر قطع رہِ اضطراب ہے
اس سال کے حساب کو برق آفتاب ہے
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
اس نکتے کی وضاحت تو محترم "چھوٹا غالب" صاحب نے کر دی کہ ایک بڑے شاعر کے کلام کی بنیادی صفات میں سے ایک صفت یہ بھی ہے کہ اس کے ہاں کائناتی شعور کی سطح کافی بلند ہو ۔۔۔ ایک نکتہ ذہن میں یہ بھی آیا ہے کہ ہر دور کا کائناتی شعور جدا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ علوم کی توسیع کے ساتھ ساتھ کائنات کے اسرار کھلتے چلتے جا رہے ہیں ۔۔۔ موجودہ زمانے میں کائناتی شعور زیادہ تر سائنس کا عطاکردہ ہے ۔۔۔ اور اگر ہم غالب یا غالب سے قبل کا زمانہ دیکھیں تو اس دور کا کائناتی شعور زیادہ تر مذہب اور فلسفے کی دین تھا ۔۔۔ سوچ کی طرزیں بھی زیادہ تر مابعدالطبیعیاتی تھیں ۔۔۔ سوال یہ بنتا ہے کہ جب اس زمانے کا کائناتی شعور اپنی بنت میں فلسفہ اور مذہب کے تصورات رکھتا تھا، تو پھر ان کی شاعری کو موردِالزام ٹھہرانا کس حد تک درست ہے اور کیا سائنسی شعور کے نہ ہونے کا یہ مطلب لیا جا سکتا ہے کہ اس زمانے میں کائناتی شعور کی ایک خاص سطح کا حصول ناممکن تھا ۔۔۔ لیکن اگر ایسا ہی ہے تو پھر میر سے یہ شعر کس نے لکھوا دیا کہ
نہیں ستارے یہ سوراخ پڑ گئے ہیں تمام
فلک حریف ہوا تھا ہماری آہوں کا
ظاہری بات ہے اس وقت بلیک ہول کا تصور تو نہ تھا تو یہ شعر اور اس طرح کے بیسیوں شعر ان عظیم شعراء سے کس نے لکھوائے؟
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
میرے سے بھی سن لیجیےغالب کو

ایسی جنت کا کیا کرے کوئی؟
جس میں لاکھوں برس کی حوریں ہیں
جس میں لاکھوں برس کی حوریں ہیں
ایسی جنت کا کیا کرے کوئی
یہ غالبؔ کا نہیں داغ دہلوی کا شعر ہے
داغ ؔعلامہ اقبال کے استاد ہیں
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
اس نکتے کی وضاحت تو محترم "چھوٹا غالب" صاحب نے کر دی کہ ایک بڑے شاعر کے کلام کی بنیادی صفات میں سے ایک صفت یہ بھی ہے کہ اس کے ہاں کائناتی شعور کی سطح کافی بلند ہو ۔۔۔ ایک نکتہ ذہن میں یہ بھی آیا ہے کہ ہر دور کا کائناتی شعور جدا ہوتا ہے ۔۔۔ ۔۔ علوم کی توسیع کے ساتھ ساتھ کائنات کے اسرار کھلتے چلتے جا رہے ہیں ۔۔۔ موجودہ زمانے میں کائناتی شعور زیادہ تر سائنس کا عطاکردہ ہے ۔۔۔ اور اگر ہم غالب یا غالب سے قبل کا زمانہ دیکھیں تو اس دور کا کائناتی شعور زیادہ تر مذہب اور فلسفے کی دین تھا ۔۔۔ سوچ کی طرزیں بھی زیادہ تر مابعدالطبیعیاتی تھیں ۔۔۔ سوال یہ بنتا ہے کہ جب اس زمانے کا کائناتی شعور اپنی بنت میں فلسفہ اور مذہب کے تصورات رکھتا تھا، تو پھر ان کی شاعری کو موردِالزام ٹھہرانا کس حد تک درست ہے اور کیا سائنسی شعور کے نہ ہونے کا یہ مطلب لیا جا سکتا ہے کہ اس زمانے میں کائناتی شعور کی ایک خاص سطح کا حصول ناممکن تھا ۔۔۔ لیکن اگر ایسا ہی ہے تو پھر میر سے یہ شعر کس نے لکھوا دیا کہ
نہیں ستارے یہ سوراخ پڑ گئے ہیں تمام
فلک حریف ہوا تھا ہماری آہوں کا
ظاہری بات ہے اس وقت بلیک ہول کا تصور تو نہ تھا تو یہ شعر اور اس طرح کے بیسیوں شعر ان عظیم شعراء سے کس نے لکھوائے؟
ھاھاھاھاھاھاھا یہ تو ایک شاعرانہ بات ہے
جیسے غالبؔ کے ہاں "یونہی روتا رہا غالبؔ تو اے اہل ِ جہاں٭٭ دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں"
اس طرح کے مضامین کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں
لیکن ان جیسے اشعار کا دیوان میں ہونا اس لیے ضروری ہے تاکہ اس "کثافت" کی موجودگی میں اعلیٰ اشعار کی "لطافت" جلوہ دکھا سکے
روشنی تبھی نظر آئے گی جب اندھیرا ہوگا
میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ کسی شعر میں ستارہ، آسمان، خورشید، چاند کا لفظ استعمال ہونا اس کے سائنسی یا کائناتی شعور والا ہونے کا ثبوت نہیں
اور اس سے بھی پہلے میں کرکٹ کی مثال سے واضح کیا تھا کہ کبھی کبھار کو ہم تکا کہیں کہیں گے، لیکن جس طرح غالبؔ اور اقبال کی شاعری میں تسلسل ہے، اور پھر وہ اشعار صاف بولتے ہیں کہ اتفاقاً نہیں لکھے گئے بلکہ وہ بڑے غور و فکر کے بعد الفاظ میں ڈھلے
مولانا رومؒ، کبیرؔ، امیر خسروؔؒ، غالبؔ، اور کسی حد تک اقبال یہ سب ایک ہی تسبیح کے سچے موتی ہیں، جن کا کلام بے شک نوائے سروش ہے
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
زمانے میں مت الجھئے جناب!
بابل شہر کے معلق باغات جو شہنشاہ بخت نصر نے اپنی ایرانی ملکہ کو خوش کرنے کیلئے تعمیر کروائے تھے، اس باغ کی پہلی منزل سطح زمین سے 75 فٹ بلند تھی، اور کمال یہ کہ باغ کی تمام منزلوں کو دریائے دجلہ سے پانی دیا جاتا تھا (دماغ دنگ رہ جاتا ہے ان لوگوں کی ذہانت پر، کیا ہم میں سے کوئی آج اس ٹیکنالوجی کے زمانے میں تصور بھی کر سکتا ہے؟)
اہرامِ مصر تو تاریخ بھی نہیں جانتی کہ کب تعمیر ہوئے، بہر حال آسمان سے تو نہیں ٹپکے ہونگے، تعمیر تو انسانی ہاتھوں کی ہے نا جناب
لیکن عقل کو پسینہ آ جاتا ہے ان معماروں کی ٹرگنومیٹری اور ریاضیاتی اصولوں کو کام میں لا کر ایسے عجوبے تخلیق کرنے پر، تیزاب جابر بن حیان کے سر منڈھ دیا جاتا ہے، مگر وہ لوگ نمک کے تیزاب سے ہزاروں سال پہلے نہ صرف واقف تھے بلکہ اس کا استعمال بھی جانتے تھے

میرؔ صاحب کا زمانہ تو بس 300 سال پہلے کا ہے، آج سے کم از کم 5000 سال پہلے کے ان ذہین ترین اللہ کے بندوں کو کیا کہیں گے؟
قرآن مجید میں قوم عاد کی پہاڑ کاٹ کر خوبصورت محل بنانے کی صلاحیت کا ذکر ہے
ذوالقرنین نے کونسی سٹیل مل میں تانبا اور سیسہ پگھلا کر یا جوج ما جوج کے راستے میں دیوار کھڑی کی تھی؟
کائناتی شعور ہر زمانے کے لوگوں کو اللہ نے بخشا تھا، اور ہر زمانے کی تہذیبوں نے اسے اپنی سمجھ کے مطابق استعمال بھی کیا ہوگا
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
جس میں لاکھوں برس کی حوریں ہیں
ایسی جنت کا کیا کرے کوئی
یہ غالبؔ کا نہیں داغ دہلوی کا شعر ہے
داغ ؔعلامہ اقبال کے استاد ہیں

لیکن کل ایک اخبار کے کالم میں غالب کا نام لکھا ہوا تھا، پھر ان سے لگتا ہے غلطی ہو گئی۔
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
خیر اتنا تو ضرور کہوں گا کہ میر کو بھی آپ غالب اور اقبال کے ساتھ بڑے شعراء کی فہرست میں شامل کر سکتے ہیں ۔۔۔ اس میں کوئی حرج اس لیے بھی نہیں کہ میر کے ہاں بھی ایسے اشعار بہت ہیں جو ان کی فنی عظمت پر دال ہیں ۔۔۔ ایک بات اور بھی برسبیل تذکرہ ۔۔۔ وجدان بھی تو کوئی شے ہوتا ہے ۔۔۔ کیا خیال ہے ایسے اشعار کہ جن میں واقعی گہرا کائناتی شعور پایا جائے کسی شاعر کے وجدان کا کرشمہ ہوتے ہیں کیا؟ ۔۔۔
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
لیکن کل ایک اخبار کے کالم میں غالب کا نام لکھا ہوا تھا، پھر ان سے لگتا ہے غلطی ہو گئی۔
اخبارات پر مت جائیے سرکار، ویسے لوگ اسے غالبؔ کی غزل "ابن ِ مریم ہوا کرے کوئی" کا ہی کوئی شعر سمجھ لیتے ہیں
لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ استادِ سخن مرزا خان داغ دہلوی کا شعر ہے
داغ ایک لحاظ سے مرزا غالبؔ کے بھتیجے بھی لگتے ہیں، کیونکہ وہ نواب شمس الدین خان کے بیٹے ہیں اور نواب صاحب ، بیگم صاحبہ غالبؔ ، کے چچا زاد بھائی تھے، یوں وہ غالبؔ کے سالے کے بیٹے ہونے کے ناطے غالبؔ کے بھتیجے لگتے ہیں
نواب شمس الدین احمد خان کو ولیم فریزر کے قتل کے الزام میں پھانسی دے دی گئی تھی، اور اس کے بعد بیوہ نے بہادر شاہ ظفر کے بیٹےمرزا فخرو (ولی عہد) سے نکاح کر لیا تھا، یوں داغؔ لال قلعے میں پلے بڑھے اور وہیں اپنے سوتیلے دادا اور سوتیلے باپ کے استاد ، شیخ ابراہیم ذوقؔ کے شاگرد ہوئے
داغ کے دو مشہور ترین شاگرد علامہ اقبال اور جگر مراد آبادی ہیں
ابھی 3 دن پہلے میں نے کلیاتِ غالبؔ مرتب کی ہے ، مجھے تو اس میں بھی یہ شعر نظر نہیں آیا۔ اب آپ کی مرضی کالم نگار پر یقین کریں یا مجھ پرمگر یہ شعر آپ کو غالبؔ کے دیوان میں نہیں ملے گا
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
خیر اتنا تو ضرور کہوں گا کہ میر کو بھی آپ غالب اور اقبال کے ساتھ بڑے شعراء کی فہرست میں شامل کر سکتے ہیں ۔۔۔ اس میں کوئی حرج اس لیے بھی نہیں کہ میر کے ہاں بھی ایسے اشعار بہت ہیں جو ان کی فنی عظمت پر دال ہیں ۔۔۔ ایک بات اور بھی برسبیل تذکرہ ۔۔۔ وجدان بھی تو کوئی شے ہوتا ہے ۔۔۔ کیا خیال ہے ایسے اشعار کہ جن میں واقعی گہرا کائناتی شعور پایا جائے کسی شاعر کے وجدان کا کرشمہ ہوتے ہیں کیا؟ ۔۔۔
میرؔ صاحب کے بارے میں استادِ محترم فرماتے ہیں :۔ آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِ میرؔ نہیں
لیکن میں بہت پہلے عرض کر چکا ہوں کہ خوش اعتقادی سے یا بد اعتقادی سے ہم کسی شاعر کا مرتبہ گھٹا بڑھا نہیں سکتے
میرؔ اردو کی حد تک بے شک استاد الاساتذہ ہیں، اور ان کی شاعرانہ عظمت میں کوئی جاہل ہی شک کر سکتا ہے
لیکن مجبوری یہ ہے کہ ہم میرؔ صاحب کا موازنہ عالمی ادب کے پہلوانوں سے نہیں کر سکتے
جب لارڈ میکالے نے اپنی مشہور ِ زمانہ بڑھک ماری تھی کہ "مغربی ادبیات کے شاہکاروں سے بھری الماری کا ایک تختہ مشرقی ادبیات کی لائبریری سے زیادہ وقیع ہے" تو اس وقت بہت سے احساسِ کمتری کے مارے اس پر ایمان لے آئے تھے، تازہ تازہ جنگ ِ آزادی کی شکست کا زخم بھی تھا،
یہ و ہ للکار تھی جس نے مشرق کو چیلنج کیا کہ وہ اپنے تہذیبی ورثے سے ایسے ایسے جواہر پارے ڈھونڈ نکالے جو ان کے مجروح قومی پندار کو سہارا دے سکے۔ اس وقت مشرق کا وقار دیوانِ غالبؔ نے بلند کیا، اور قومی پندار کا محافظ بنا ۔ اور آپ جانتے ہیں اقبال تب طالب علم تھے،
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اخبارات پر مت جائیے سرکار، ویسے لوگ اسے غالبؔ کی غزل "ابن ِ مریم ہوا کرے کوئی" کا ہی کوئی شعر سمجھ لیتے ہیں
لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ استادِ سخن مرزا خان داغ دہلوی کا شعر ہے
داغ ایک لحاظ سے مرزا غالبؔ کے بھتیجے بھی لگتے ہیں، کیونکہ وہ نواب شمس الدین خان کے بیٹے ہیں اور نواب صاحب ، بیگم صاحبہ غالبؔ ، کے چچا زاد بھائی تھے، یوں وہ غالبؔ کے سالے کے بیٹے ہونے کے ناطے غالبؔ کے بھتیجے لگتے ہیں
نواب شمس الدین احمد خان کو ولیم فریزر کے قتل کے الزام میں پھانسی دے دی گئی تھی، اور اس کے بعد بیوہ نے بہادر شاہ ظفر کے بیٹےمرزا فخرو (ولی عہد) سے نکاح کر لیا تھا، یوں داغؔ لال قلعے میں پلے بڑھے اور وہیں اپنے سوتیلے دادا اور سوتیلے باپ کے استاد ، شیخ ابراہیم ذوقؔ کے شاگرد ہوئے
داغ کے دو مشہور ترین شاگرد علامہ اقبال اور جگر مراد آبادی ہیں
ابھی 3 دن پہلے میں نے کلیاتِ غالبؔ مرتب کی ہے ، مجھے تو اس میں بھی یہ شعر نظر نہیں آیا۔ اب آپ کی مرضی کالم نگار پر یقین کریں یا مجھ پرمگر یہ شعر آپ کو غالبؔ کے دیوان میں نہیں ملے گا

ظاہری سی بات ہے یقین تو آپ پہ ہی کرنا پڑے گا کیا نکہ ہمارے اخبارات تو بغیر دیکھے اور سمجھے کچھ بھی چھاپ دیتے ہیں۔
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
جی تو جناب بحث اس مقام پر پہنچی تھی کہ وجدان بھی تو کوئی شے ہوتا ہے ۔۔۔ کیا خیال ہے ایسے اشعار کہ جن میں واقعی گہرا کائناتی شعور پایا جائے کسی شاعر کے وجدان کا کرشمہ ہوتے ہیں کیا؟
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
گزشتہ سے پیوستہ:۔ اللہ نے اردو پر ایک اور احسان کیا علامہ اقبال دے کر
کوئی مرغوں کی لڑائی نہیں تھی، تہذیبی سر بلندی کا چیلنج تھا، مقابلے پر گوئٹے، ہیگل، ہیں، جون ڈن، ووڈزورتھ، شیکسپئر اور رابرٹ براؤننگ جیسے دیو قامت پہلوان تھے
یہ بات بھی ذہن نشین کر لیں، کہ بین ا لاقوامی زبانوں کے جھرمٹ میں اردو سب سے کم عمر زبان ہے

اب اس کم عمر زبان کے پہلوان مقابلے پر اترتے ہیں
چھوٹے موٹے پہلوانوں کو تو اقبال نے دھوبی پٹڑے دے خاک چٹا دی، مگر ہیگل اور گوئٹے سے متاثر ہو گئے
اب میدان میں تن تنہا غالبؔ خستہ ہے، جو کہتا ہے کہ "اس فتنہ خو کے در سے اب اٹھتے نہیں اسدؔ٭٭ اس میں ہمارے سر پہ قیامت ہی کیوں نہ ہو"
لیجئے جی شیکسپئر کا "فول" تو " حیوانِ ظریف " کی اڑنگی سے ایسا گرا کہ پھر اٹھنے سے انکاری ہے
 
Top