کائناتی شعور سے کیا مراد ہے؟ اردو شاعری میں کائناتی شعور کی بلند سطح کے حاملین شعراء کون کون ہیں؟

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
امین بھائی میں کان پکڑ کر ایک مرتبہ پھر دہراتا ہوں
آزادہ رو ہوں، مرا مسلک ہے صلح کل
ہر گز کبھی کسی سے عداوت نہیں مجھے:flower:
روئے سخن کسی کی طرف ہوتو روسیاہ
سودا نہیں جنوں نہیں، وحشت نہیں مجھے:redheart:

آپ نے دیکھا ہوگا کہ میرا کوئی بھی تبصرہ پر مغز کہلانے کے قابل نہیں، بس اپنی بونگیاں مار رہا ہوں حق نمک ادا کرنے کے چکر میں
اور یہ سراسر فیضانِ نظر ہے،
نغمہ کجا و من کجا، سازِ سخن بہانہ ایست ٭٭ سوئے قطار می کشم، ناقہ بے زمام را :grin:
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
معاف کیجیے گا ابھی تک میں یہ نہیں سمجھ پایا کہ آفاقیت کی بات کو کائناتی شعور کے ساتھ گڈمڈ کیوں کیا جا رہا ہے ۔۔۔ یا تو اس کو میری کم علمی پر محمول کیجیے یا پھر کوئی صاحب یہ وضاحت فرما دیں کہ کائناتی شعور کا کسی کے کلام میں موجود ہونا آفاقیت کہلائے گا یا آفاقیت کا ایک عنصر ۔۔۔۔۔ کائناتی شعور تو میرے خیال میں ساری کائنات کا ایک ایسا شعور ہے جو کہ تمام انسانی علوم کے حصول سے حاصل ہوتا ہے اور ایک شاعر اس کائناتی شعور کی کسی جہت کو اپنے تخلیقی تجربے کا حصہ بنا کر پیش کرتا ہے ۔۔۔ میرے خیال میں تو آفاقیت تو کچھ اور ہی شے ہے ۔۔۔ یہ ایک طالب علمانہ سوال ہے ۔۔۔ اس کا جواب درکار ہے ۔۔۔ یہاں جو جوابات دیے جا رہے ہیں وہ آفاقیت کی ذیل میں ہیں جب کہ میں کائناتی شعور کی بات کر رہا ہوں
 

محمد امین

لائبریرین
آفاق سے یاد آیا۔
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا

کائنات اور آفاق گو کہ لغوی اعتبار سے الگ الگ اشیاء ہیں۔ لیکن استعمال میں کائناتی اور آفاقی دونوں صفات ایک ہی معنیٰ دیتی ہیں، یعنی عالمگیریت کا۔ اب ڈھونڈتے پھرئیے شاعری میں عالمگیریت :) ۔۔۔
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
جناب یہ تو کنفیوژن کچھ مزید بڑھ گئی ۔۔۔ میں تو یہ سمجھتا رہا ہوں کہ کائناتی شعور سے مراد کائنات کے حوالے سے وہ شعور ہے جو مختلف علوم کے حصول سے نصیب ہوتا ہے ۔۔۔ جب کہ آفاقیت تو بالکل ہی مختلف شے نظر آتی ہے مجھے ۔۔۔ یعنی آفاقیت کا حامل کلام تو وہ ہو گا جو ہر زمانے میں زندہ ہو گا ۔۔۔ جس پر وقت اثر انداز نہ ہوگا ۔۔۔ کائناتی شعور تو کچھ اور ہی شے نظر آتا ہے مجھے ۔۔۔ یعنی کائناتی شعور کا تعلق تو کائنات سے ہو گا نا جناب ۔۔۔ یعنی کائنات سے متعلق شعور ۔۔۔ جس کلام میں کائنات کی طبیعاتی یا مابعدالطبیعاتی تعبیر ہو گی ۔۔۔ خیر، اس بحث کو آگے بڑھاتے جائیے ۔۔۔ جواب مل ہی جائے گا ۔۔۔
 

محمد امین

لائبریرین
جناب یہ تو کنفیوژن کچھ مزید بڑھ گئی ۔۔۔ میں تو یہ سمجھتا رہا ہوں کہ کائناتی شعور سے مراد کائنات کے حوالے سے وہ شعور ہے جو مختلف علوم کے حصول سے نصیب ہوتا ہے ۔۔۔ جب کہ آفاقیت تو بالکل ہی مختلف شے نظر آتی ہے مجھے ۔۔۔ یعنی آفاقیت کا حامل کلام تو وہ ہو گا جو ہر زمانے میں زندہ ہو گا ۔۔۔ جس پر وقت اثر انداز نہ ہوگا ۔۔۔ کائناتی شعور تو کچھ اور ہی شے نظر آتا ہے مجھے ۔۔۔ یعنی کائناتی شعور کا تعلق تو کائنات سے ہو گا نا جناب ۔۔۔ یعنی کائنات سے متعلق شعور ۔۔۔ جس کلام میں کائنات کی طبیعاتی یا مابعدالطبیعاتی تعبیر ہو گی ۔۔۔ خیر، اس بحث کو آگے بڑھاتے جائیے ۔۔۔ جواب مل ہی جائے گا ۔۔۔

شہزاد بھائی کائناتی شعور جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ مختلف علوم کے حصول سے کائنات کے بارے میں نصیب ہونے والا شعور ہے۔ تو یہ تو طے ہے کہ یہ کائنات زمانے کی پابند نہیں، لہٰذا کائناتی شعور کی آفاقیت مسلم۔ اس بحث میں جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں کائناتی شعور اور آفاقیت جیسی اصطلاحات آپ کو وہی معنیٰ دیں گی کہ جس سیاق و سباق میں آپ انہیں استعمال کریں۔ آفاقیت کا لفظ بنیادی طور پر تمام عالمِ انسان کے لیے یکساں اور "کائناتی حقیقت" رکھنے والی باتوں اور اشیاء کے لیے استعمال ہوتا ہے، لیکن استعمال کنندہ اگر اسے زمانے سے آزاد "کلام" یا "شعور" کے لیے استعمال کرے تو یہ اس پر منحصر ہے۔ مگر کوئی لگی بندھی تعریف نہیں ہے۔

کائنات کی طبیعیاتی یا ما بعد الطبیعیاتی تشریح کہہ کر اس موضوع کو مقید نہ کریں۔ کائناتی شعور کسی بھی حوالے سے ہو سکتا ہے، آفاقیت کسی بھی تناظر میں ہوسکتی ہے۔۔۔
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
اس مقام پر میرے پر جلتے ہیں
لیکن ایک بونگی اور سہی

شاعر اور فلسفی کا علم وجدانی ہوتا ہے، نہ کہ سائنس دانوں کی طرح
اس لیے یوسف صاحب کی طرح میں بھی عظیم شعرا کو سائنس دانوں کا ہراول دستہ مانتا ہوں
 

محمد امین

لائبریرین
اس مقام پر میرے پر جلتے ہیں
لیکن ایک بونگی اور سہی

شاعر اور فلسفی کا علم وجدانی ہوتا ہے، نہ کہ سائنس دانوں کی طرح
اس لیے یوسف صاحب کی طرح میں بھی عظیم شعرا کو سائنس دانوں کا ہراول دستہ مانتا ہوں

جی بالکل۔۔ ویسے وہ زمانے گئے جب سائنس بھی وجدان کی پیداوار ہوا کرتی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سائنس اور فلسفہ ایک دوسرے سے پیوست ہوا کرتے تھے (یونانی فلاسفہ، مسلمان سائنسدان، نیوٹن کا زمانہ، آئنسٹائن)۔ اب سے لگ بھگ سو برس قبل بھی سائنسدان حضرات ایسے ایسے فلسفیانہ خیالات پیش کرتے تھے کہ جو واقعتاً تخیل اور وجدان کی پیداوار لگتے تھے مگر انہیں ثابت کرنے کے لیے جس قسم کی جناتی ریاضی کا سہارا لیا جاتا تھا وہ اس خیالات کی توثیق کیے بغیر نہیں رہتی تھی۔ مگر یہ زمانہ تجربات اور ایجادات کا زمانہ ہے۔

مثال دوں گا آئنسٹائن کے نظریہ اضافت کی اور ڈراک (Dirac) کے "ضد مادہ" اور "مقابل کائنات" کے تصور کی ۔ (anti matter and anti universe)... یہ دونوں سائنسدان حضرات اپنی اپنی جگہ افلاطون سمجھے جاتے ہیں۔ کائناتی حقائق کو وجدان کے بعد ریاضی ذریعے ثابت کردیا اور ان میں آفاقیت پیدا کردی۔
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
اچھا اس بحث کو یوں لے لیتے ہیں کہ اگر ہم غالب کے ہاں کائناتی شعور کو کھوجیں تو ہمیں اس حوالے سے غالب کے کلام میں کائناتی شعور کے حوالے سے کن عناصر کو دیکھنا پڑے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
 

محمد امین

لائبریرین
اچھا اس بحث کو یوں لے لیتے ہیں کہ اگر ہم غالب کے ہاں کائناتی شعور کو کھوجیں تو ہمیں اس حوالے سے غالب کے کلام میں کائناتی شعور کے حوالے سے کن عناصر کو دیکھنا پڑے گا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔!!!

غالب نے ما بعد الطبیعیاتی باتیں زیادہ بیان کی ہیں۔

ع۔۔۔۔ہم تجھے ولی سمجھتے، جو نہ بادہ خوار ہوتا۔۔۔

ویسے تو غالب نے تھوڑی بہت سائنس بھی رقم کی ہے :) مگر غالب کے یہاں آپ کو حیات و ممات کے مسائل پر سیرِ حاصل گفتگو ملے گی۔ اور انسانی شعور، رویے اور فطرت کو بھی بیان کیا ہے۔ تفصیل سے تو چھوٹے غالب بھائی بتائیں گے میں نے تو پورا دیوانِ غالب بھی نہیں پڑھا
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
ھاھاھاھاھاھاھا شہزاد بھائی بہت اچھے
آپ نے میری کمزوری پکڑ لی ہے آخر، تاب لائے ہی بنے گی غالبؔ٭٭ واقعہ سخت ہے اور جان عزیز
آپ کے سوال کا جواب میں دو حصوں میں دوں گا
سب سے پہلے آفاقیت اور کائناتی شعور کی وضاحت ایک تازہ بونگی سے
آفاقیت کو ایف 16، جے ایف تھنڈر ، یا زیادہ سے زیادہ ڈرون ،یا سپرسونک کہہ لیں
ان پر آپ کرہ ہوائی میں کہیں بھی آوارہ گردی کر سکتے ہیں
مگر جب آپ کو زمین کے مدار سے نکلنا ہو، تو آپ کو راکٹ چاہیے جو کہ کائناتی شعور کی مثال سمجھا جا سکتا ہے
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
غالب سے محبت رکھیں گے تو "سزا" بھی تو ملے گی نا جناب! اب دیجیے جواب ۔۔۔ بزبانِ غالب
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
غالب سے پہلے شعرا بھی ستارے چمکتے دیکھتے تھے، اور گنتے بھی تھے، کہ ہجر کی رات کٹے
اور وصل میں انہیں بی بی کا دوپٹہ آسمان اور اس پر کی گئی کشیدہ کاری ستارے نظر آتی تھی
لیکن غالبؔ نے نعرہ لگایا:۔ ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ ٭٭ دیتے ہیں دھوکہ ، یہ بازی گر کھلا
آسمان کو دشن کہنے والے اور نازل ہونے والی مصیبتوں کا منبع کہنے والوں اور سمجھنے والے وہمیوں کی کمی نہیں اردو میں مگر
غالب:۔ رات دن گردش میں ہیں سات آسماں ٭٭ ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا
سائنس اب جا کر نعرہ لگاتی ہے کہ زمین سے ملتا جلتا سیارہ کسی اور کہکشاں پر ممکن ہے مگر
پہلے غالبؔ اور پھر اقبال نے بتا دیا تھا :۔ کہ (غالب کا ترجمہ) اس کائنات میں ہزاروں کہکشائیں اور نیلے آسمان ہیں۔ اور آباد جہان بھی ہونگے
پس جہاں جہاں عالم آباد ہوگا۔ رحمتہ العالمین ﷺ وہاں موجود ہونگے ۔ (اقبال) ستاروں سے آگے جہان اور بھی ہیں
غالبؔ اور پوٹینشل انرجی:۔ مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی٭٭ ہیولیٰ برقِ خرمن کا ، ہے خونِ گرم دہقاں کا
غالبؔ کے چند مابعد الطبیعاتی مصرعے:۔ یاں ورنہ جو حجاب ہے ، پردہ ہے ساز کا
بقدرِ ظرف ہے ساقی، خمارِ تشنہ کامی بھی
جادہ، اجزائے دوعالم دشت کا، شیرازہ تھا
دل ہر قطرہ ہے سازِ انالبحر
قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے، اور جزو میں کل٭٭ کھیل لڑکوں کا ہوا، دیدہ بینا نہ ہوا
غالبؔ تنکے میں شعلہ دیکھ رہے ہیں ملاحظہ ہو:۔ شعلہ خس میں جیسے، خوں رگ میں نہاں ہو جائے گا
کائناتی شعور کی ایک اور مثال:۔ بحر ، گر بحر نہ ہوتا تو بیاباں ہوتا
غالبؔ اور مصنوعی سیارے:۔ چھوڑا مہ نخشب کی طرح ، دستِ قضا نے
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
جنت غالبؔ کی ظرافت کا شکار ہوئی اور محض دل بہلانے کا خیال قرار پائی
غالب کا زمین پر دل نہیں لگ رہا، انہیں خلا میں ایک پلیٹ فارم چاہیے وہ بھی عرش سے ادھر، تاکہ غالبؔ وہاں سے مزید آگے پرواز کر سکیں
منظر اک بلندی پر ، اور ہم بنا سکتے
عرش سے ادھر ہوتا کاش کے مکاں اپنا
غالبؔ کا بہترین سائنسی شعر، ابن الہیثم اس شعر پر فریفتہ ہوجاتا
لطافت بے کثافت ، جلوہ پیدا کر نہیں سکتی
چمن زنگار ہے آئینہ باد بہاری کا
غالبؔ کو اچھی طرح معلوم ہے ایچ ٹو او والا فارمولا:۔ ضعف سے، گریہ مبدل بہ دمِ سرد ہوا٭٭ باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہوجانا
غالبؔ اور کیمسٹری:۔ تاکہ تجھ پر کھلے اعجازِ ہوائے صیقل٭٭ دیکھ برسات میں سبز آئینے کا ہوجانا
نیوٹن کا تیسرا قانون غالب کے زبان سے:۔ پاتے نہیں جب راہ، تو چڑھ جاتے ہیں نالے

اب خدا را کوئی اور بھی بولے، کیونکہ
حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے ٭٭ آخر گناہگار ہوں کافر نہیں ہوں میں
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
بھئی ۔۔۔ آپ کی تعریف کل ہی کر سکوں گا ۔۔۔ فی الحال پھر بتی جانے والی ہے ۔۔۔ کمال کر دیا آپ نے ۔۔۔ آخر "غالب" آپ کے نام کا حصہ ایسے ہی تو نہیں ہے ۔۔۔۔۔ شاباش!
 

یوسف-2

محفلین
یہاں تک پہنچتے پہنچتے ایک مسئلہ سامنے آ گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ ضروری تو نہیں کہ جس شعر میں فلسفہ کا بیان ہو وہ شعر کائناتی شعور کا بھی حامل ہو ۔۔۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ صاحبان کے خیال میں کسی شعر میں وہ کون سا عنصر یا پھر کون سے عناصر پائے جائیں تو ہم اس شعر کی بابت یہ کہہ سکیں گے کہ اس شعر میں کائناتی شعور کی جھلک موجود ہے ۔۔۔ ۔۔ سوال اتنا سیدھا بھی نہیں ہے ۔۔۔ جتنا دیکھنے میں لگ رہا ہے ۔۔۔ کیا خیال ہے؟
اسے دو ارو دو چار کی طرح ڈیفائن کرنا تو ذرا مشکل ہے لیکن ایسے اشعار میں بہت ممکنہ طور پر اس قسم کی خوبیاں ضرورپائی جاتی ہیں
1۔ (زبان دان) عوام و خواص ہر ایک کے دل کو چھو لے
2۔ شعر پڑھ کر ذہنی دریچے وا ہوجائیں، کچھ دیر رُک کر کچھ بلکہ بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوجائیں
3۔ اساتذہ فن بھی شعر کو پڑھ کر اپنا سر دھننے پر مجبور ہوجائیں
4۔ شعر میں شعریت کے علاوہ زندگی کے رمز بھی ۔۔۔ صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں ع کی طرح "نمایاں" ہوں
5۔ اس شعر پر، صرف شعر کے حوالے سے کوئی "مضمون" لکھا جاسکے یا اس شعر پر کوئی پُر معنی تقریر کی جاسکے وغیرہ وغیرہ
 

یوسف-2

محفلین
جنت غالبؔ کی ظرافت کا شکار ہوئی اور محض دل بہلانے کا خیال قرار پائی
غالب کا زمین پر دل نہیں لگ رہا، انہیں خلا میں ایک پلیٹ فارم چاہیے وہ بھی عرش سے ادھر، تاکہ غالبؔ وہاں سے مزید آگے پرواز کر سکیں
منظر اک بلندی پر ، اور ہم بنا سکتے
عرش سے ادھر ہوتا کاش کے مکاں اپنا
غالبؔ کا بہترین سائنسی شعر، ابن الہیثم اس شعر پر فریفتہ ہوجاتا
لطافت بے کثافت ، جلوہ پیدا کر نہیں سکتی
چمن زنگار ہے آئینہ باد بہاری کا
غالبؔ کو اچھی طرح معلوم ہے ایچ ٹو او والا فارمولا:۔ ضعف سے، گریہ مبدل بہ دمِ سرد ہوا٭٭ باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہوجانا
غالبؔ اور کیمسٹری:۔ تاکہ تجھ پر کھلے اعجازِ ہوائے صیقل٭٭ دیکھ برسات میں سبز آئینے کا ہوجانا
نیوٹن کا تیسرا قانون غالب کے زبان سے:۔ پاتے نہیں جب راہ، تو چڑھ جاتے ہیں نالے

اب خدا را کوئی اور بھی بولے، کیونکہ
حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے ٭٭ آخر گناہگار ہوں کافر نہیں ہوں میں
واہ واہ کیا کہنے۔ بہت خوب آپ کو تو غالب خستہ منہ زبانی یاد ہیں :D
 

یوسف-2

محفلین
1۔ کائناتی شعور کے متعلق تو میں کہہ چکا ہوں کہ میں وہی آفاقیت مراد لیتا ہوں۔ یوں موٹے موٹے الفاظ میں ناقدین کرام کچھ بھی آئیں بائیں شائیں کرتے رہیں۔
2۔ غالب کی عظمت تو مسلم ہے ہی۔ میں تو اقبال کو بھی بہت محدود مانتا ہوں۔ اتنی اہمیت پاکستان میں ان کو دے دی گئی ہے، کہ ہر ایرا غیرا اقبال کے اشعار سناتا رہتا ہے، جیسے وہ واقعی سمجھتا ہے!! اقبال اچھے شاعر تھے، اس میں شک نہیں، لیکن ان کو ’پاپولر‘ بنانے میں سیاست کا ہاتھ ہے۔ آپ متاثر ہو سکتے ہیں اقبال کی شاعری سے، اس پر سر نہیں دھن سکتے!!
3۔ بات پروین شاکر اور احمد فراز کی بھی ہو رہی تھی۔ اس میں شک نہیں کہ یہ لوگ آفاقی شاعر نہیں ہیں، آج سے پچاس سال بعد ان کا کلام طاق نسیاں میں ملے گا۔ اور سو ڈیڑھ سو سال بعد فاخرہ بتول، وصی شاہ کا کلام بھی۔ ان کا نام میں نے تو کم از کم اردو محفل سے ہی سنا تھا!!
آپ کی پہلی اور آخری بات سے کلی اتفاق ہے اور چونکہ آپ نے اختلاف رائے کی اجازت دی ہے، اس لئے "اقبال کی محدودیت" پر آپ کے کمنٹس سے جزوی اختلاف کرنے کی جسارت کروں گا۔
اقبال اپنی شاعری میں "اسلامک فریم" سے باہر نہیں نکلتا (ابتدائی زمانے کی غیر پختہ شاعری کو چھوڑ کر) اس لئے تمام مذاہب کو ماننے والے سیکولراسکالرز اقبال کی شاعری کو "محدود" ماننے میں "حق بجانب" ہیں۔ لیکن جس طرح "اسلام" ایک "آفاقی مذہب" ہے۔ ہر زمانے میں، ہر علاقے میں اور ہر قسم کے افراد کے لئے قابل عمل ہے۔ اسی طرح اقبال کی شاعری پر "اسلامک لیبل" لگائے بغیر اگر "فکر اقبال" کو ان کے اشعار کی روشنی میں پڑھا جائے تو اس کے "آفاقی نہ ہونے" کا شبہ زائل ہوجاتا ہے۔
 

یوسف-2

محفلین
چھوٹا غالب بھائی ۔۔۔ وصی شاہ، پروین شاکر اور فراز سے اقبال تک جمپ لگانا اتنا آسان تو نہیں ہے :) ۔۔ دراصل اقبال غالب جیسے مشکل پسند نہیں ہیں مگر موضوعات کے اعتبار سے اقبال غالب کے مقابلے میں زیادہ وقیع ہیں کیوں کہ جدید علوم و فلسفے اور مغربی افکار کو سمیٹا ہے انہوں نے۔ تو جیسے غالب کو سمجھنے کے لیے انسان کا مشرقی شعراء اور فلاسفہ کو سمجھنا ضروری ہے ویسے ہی اقبال کو سمجھنے کے لیے مغربی و مشرقی دونوں طرح کی تاریخ، فلسفہ اور شخصیات کو سمجھنا ضروری ہے جو کہ پروین اور وصی کے دیوانوں میں اتنی آسانی سے نہیں آسکتا۔۔۔ یہ میری ذاتی رائے ہے۔ امید ہے برا نہیں لگا ہوگا۔ غلط کہا ہو تو اصلاح فرما دیجے
ماشاء اللہ ! بہت خوب کہا
 

یوسف-2

محفلین
اقبال اچھے شاعر تھے، اس میں شک نہیں، لیکن ان کو ’پاپولر‘ بنانے میں سیاست کا ہاتھ ہے۔
--------------------------------------------

اگر اقبال کو پاپولر بنانے میں سیاست کا ہاتھ ہے تو پھر وہ سیاست آج بھی تو ہو رہی ہے اور آنے والے سینکڑوں سالوں تک ہوتی رہی گی۔ اقبال اور غالب کے فلسفے میری نظر میں تو مختلف ہیں، ان دونوں میں شاعری کے فلسفے کی بنیاد پہ موازنہ نہیں کیا جا سکتا، یہاں ایک واقعہ یاد آ رہا ہے جو کسی سکالر کی زبان سے سنا تھا کہ
1920-21 میں اقبال سے ملنے کچھ غیر ملکی نوجوان آئے تو اقبال نے ان کو کہا تھا کہ مسلمانوں کی آنے والی نسلیں میری مٹھی میں ہیں، کئی مشاہدات اقبال کو ایسے کروائے گئے تھے کہ جن کو سمجھنا غالب سے زیادہ مشکل ہے۔ اگر بعض جگہوں پہ غالب کا معیار اوپر ہے اقبال کو سیاست کی بنیاد پہ کسی طور غالب سے پیچھے نہیں رکھا جا سکتا ہے۔
دونوں کا اپنا اپنا حلقہ احباب ہے اگر ہندوستان میں غالب زیادہ مقبول ہے تو بلا شک و شبہ پاکستان میں اقبال زیادہ مقبول ہے، اقبال کے پیغام کے بارے میں یہاں تک کہا جاتا ہے کہ یہ قرآن پاک کی اس آیت تشریح ہے۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو اقبال کے کلام میں آفاقیت زیادہ نظر آتی ہے۔
باقی بقول شہزاد بھائی کہ غزل میں غالب کا طوطی بولتا ہے تو نظم میں اقبال کسی کو آگے نکلنے نہیں دیتے، یہ ایک بہت بحث طلب موضوع ہے۔
بجا فرمایا۔ کیا کہنے۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
آپ کی پہلی اور آخری بات سے کلی اتفاق ہے اور چونکہ آپ نے اختلاف رائے کی اجازت دی ہے، اس لئے "اقبال کی محدودیت" پر آپ کے کمنٹس سے جزوی اختلاف کرنے کی جسارت کروں گا۔
اقبال اپنی شاعری میں "اسلامک فریم" سے باہر نہیں نکلتا (ابتدائی زمانے کی غیر پختہ شاعری کو چھوڑ کر) اس لئے تمام مذاہب کو ماننے والے سیکولراسکالرز اقبال کی شاعری کو "محدود" ماننے میں "حق بجانب" ہیں۔ لیکن جس طرح "اسلام" ایک "آفاقی مذہب" ہے۔ ہر زمانے میں، ہر علاقے میں اور ہر قسم کے افراد کے لئے قابل عمل ہے۔ اسی طرح اقبال کی شاعری پر "اسلامک لیبل" لگائے بغیر اگر "فکر اقبال" کو ان کے اشعار کی روشنی میں پڑھا جائے تو اس کے "آفاقی نہ ہونے" کا شبہ زائل ہوجاتا ہے۔

بالکل درست فرمایا آپ نے اقبال کے بارے میں۔
 
Top