کائناتی شعور سے کیا مراد ہے؟ اردو شاعری میں کائناتی شعور کی بلند سطح کے حاملین شعراء کون کون ہیں؟

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
باقی رہی غالبؔ کی شاعری میں واقعی سائنس ہے بھی یا صرف تکا تھا جس کو زورِ عقیدت میں ہم جیسوں نے افسانہ بنا دیا
تو اس کیلئے ہمیں ماہرین ِ غالبیات سے رجوع کرنا پڑتا ہے، کیونکہ نہ ہر داڑھی والا فتوی دینے کا اہل ہوتا ہے اور نہ ہی ہر اردو بولنے والا غالبؔ کی شاعری کو محض ایک تکا قرار دے سکتا ہے۔ جس کا کام اسی کو ساجھے
مولانا حالی نے غالبؔ کو نظیری، ظہوری ، فردوسی وغیرہ سے بھی آگے کا شاعر ثابت کیا، تو صلاح الدین خدا بخش نے عالمی ادب میں غالب کا مقام واضح کیا
جس کو ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری نے چار چاند لگا دئیے، غالبؔ کو گوئٹے کا ہم پلہ کہنے والا میں نہیں بلکہ خود علامہ اقبال تھے، جنہوں نے گوئٹے کو بھی پڑھا تھا اور غالبؔ کو بھی، پس ماننا ہی پڑے گا کہ قبال نے محض جوشِ عقیدت میں یہ سب نہیں لکھ ڈالا ہوگا

ذہین میں رکھنے کی بات یہ ہے کہ ہم کسی کی کرامتوں کا شمار نہیں کر رہے، بات ہو رہی ہے اردو شاعری کی
اور اردو شاعری میں جو بھی بات کرے حق بنتا ہے کہ وہ باقاعدہ مثالوں سے بات کی وضاحت بھی کرے
کیونکہ صرف نام لکھ دینے سے کچھ نہیں ہوتا، کہ فلاں کی شاعری میں کائناتی شعور ہے اور فلاں میں نہیں

اور غالبؔ کی شاعری کو تکا کہنا تعصب ہوگا
کیونکہ اتنا مدلل اندازِ بیاں اردو شاعری میں تو کیا کسی بھی زبان کی (اس قسم کی )شاعری میں بہت کم کم ملے گا

شیخ سعدی ؒ فرماتے ہیں کہ " اگر چمگادڑ دن کی روشنی میں نہیں دیکھ پاتی تو اس میں سورج کا کیا قصور"
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
باقی رہی غالبؔ کی شاعری میں واقعی سائنس ہے بھی یا صرف تکا تھا جس کو زورِ عقیدت میں ہم جیسوں نے افسانہ بنا دیا
تو اس کیلئے ہمیں ماہرین ِ غالبیات سے رجوع کرنا پڑتا ہے، کیونکہ نہ ہر داڑھی والا فتوی دینے کا اہل ہوتا ہے اور نہ ہی ہر اردو بولنے والا غالبؔ کی شاعری کو محض ایک تکا قرار دے سکتا ہے۔ جس کا کام اسی کو ساجھے
مولانا حالی نے غالبؔ کو نظیری، ظہوری ، فردوسی وغیرہ سے بھی آگے کا شاعر ثابت کیا، تو صلاح الدین خدا بخش نے عالمی ادب میں غالب کا مقام واضح کیا
جس کو ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری نے چار چاند لگا دئیے، غالبؔ کو گوئٹے کا ہم پلہ کہنے والا میں نہیں بلکہ خود علامہ اقبال تھے، جنہوں نے گوئٹے کو بھی پڑھا تھا اور غالبؔ کو بھی، پس ماننا ہی پڑے گا کہ قبال نے محض جوشِ عقیدت میں یہ سب نہیں لکھ ڈالا ہوگا

ذہین میں رکھنے کی بات یہ ہے کہ ہم کسی کی کرامتوں کا شمار نہیں کر رہے، بات ہو رہی ہے اردو شاعری کی
اور اردو شاعری میں جو بھی بات کرے حق بنتا ہے کہ وہ باقاعدہ مثالوں سے بات کی وضاحت بھی کرے
کیونکہ صرف نام لکھ دینے سے کچھ نہیں ہوتا، کہ فلاں کی شاعری میں کائناتی شعور ہے اور فلاں میں نہیں

اور غالبؔ کی شاعری کو تکا کہنا تعصب ہوگا
کیونکہ اتنا مدلل اندازِ بیاں اردو شاعری میں تو کیا کسی بھی زبان کی (اس قسم کی )شاعری میں بہت کم کم ملے گا

شیخ سعدی ؒ فرماتے ہیں کہ " اگر چمگادڑ دن کی روشنی میں نہیں دیکھ پاتی تو اس میں سورج کا کیا قصور"

شاید آپ کے علم میں ہو کہ "غالب اور سائنس" کے موضوع پر ایک کتاب بھی ہندوستان سے شائع ہو چکی ہے ۔۔۔ ڈاکٹر وہاب قیصر نے غالب کے کلام سے سچ مچ کی "سائنس" برآمد کی ہے ۔۔۔ اب بتائیے کہ غالب کس قسم کا شاعر تھا بھیا جی ۔۔۔ کمال ہی ہو گیا یار ۔۔۔!!! ہم یہ تو نہیں کہتے کہ شاعری سائنس کا راست بیان ہوتی ہے لیکن تخلیقی تجربے میں سمو کر تو کسی بھی بات کو بیان کیا جا سکتا ہے ۔۔۔
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
کائناتی شعور کی سطح کی وضاحت صرف موازنے سے ہی ہو سکتی تھی
اس لیے مجبوراً موازنہ کیا جاتا رہا ، اور ہیگل کا ذکر فلسفے اور براؤننگ اور ہیں کا ذکر ان کے روحانی تجزیات کی وجہ سے آیا
کیونکہ بات بہر حال کائناتی شعور کی تھی
اور یہ بات بھی پہلے شہزاد بھائی واضح کر چکے تھے کہ آفاقیت اور چیز ہے اور کائناتی شعور اور چیز
جسے فدوی نے ایک بونگی سی مثال سے مزید واضح کرنے کی ناکام کوشش بھی کی تھی
مولانا رومؒ کے بہت سے نام لیوا شاید اقبال کی بالِ جبریل کو پڑھ کے ہو گئے
لیکن اسی جاوید نامہ میں اقبال نے 5 پاکیزہ روحوں سے عالمِ بالا میں ملاقات کا ذکر کیا
اور 1 تو خود بابا غالبؔ تھے، جاوید نامہ ملاحظہ ہو
جس میں اقبال اور غالبؔ کا طویل منظوم مکالمہ ہے، اور غالبؔ کے مسحور کن جواب جو کہ ثابت کرتے ہیں کہ غالبؔ کائناتی شور کی کس سظح پر بیٹھے تھے
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
ھاھاھاھاھاھاھا یہ میرے بابے کا یک چھوٹا سا کمال ہے
کچھ عرصہ پہلے میں اسی بات پر جھنجلاتا تھا کہ غالبؔ نے کبھی ترقی پسند شاعری نہیں کی مگر ترقی پسند تحریک اسے اپنا امام کہتی ہے
غالبؔ کے 63 قصیدوں میں سے 17 قصیدے انگریزوں کی شان میں ہیں لیکن مولانا محمد علی جوہر تحریک خلافت میں غالبؔ کے اشعار کو نہ صرف آنکھوں سے لگاتے ہیں بلکہ مزارِ غالبؔ کی تعمیر کیلئے بھی ایک مہم شرع کرتے ہیں
ایسے ہی کئی تضادات ہیں جو کہ غالبؔ کو پیچیدہ ترین ثابت کرتے ہیں
امن پسند صلح جو غالبؔ کو پڑھتے ہی لوگ باغی کیوں ہوجاتے ہیں؟ ایسی ہی کئی باتیں ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں کہ
غالبؔ بظاہر کچھ اور ہے مگر حقیقت میں کچھ اور
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
بجلی تو بس جانے ہی والی ہے ۔۔۔ غالب کے کلام سے کچھ اور مثالیں بھی پیش کرنے کی سعادت حاصل کروں گا ۔۔۔ انشاءاللہ۔۔۔
 
ایک سائنسدان کائنات کو معروضی انداز میں دیکھتا ہے ، کائنات اسکے نزدیک محض مادے اور توانائی کا ایک مجموعہ ہے جو چند قوانین کے تحت علت و معلول کے سلسلے میں وجود میں آیا اور ان قوانین کے تحت مادے اور توانائی کا معروضی مطالعہ ہی اسکا مطمع نظر ہوتا ہے۔۔۔اور اس مطالعے میں سائنسدان کی اپنی ذات، اسکے جذبات و احساسات کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔جبکہ شاعر کی کائنات کو اسکی اپنی ذات سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔۔۔سائنسدان کائنات اور زندگی کے معنی تلاش نہیں کرتا۔۔جبکہ شاعر کا تعلق معانی اور محسوسات و جذبات کی دنیا سے ہے۔ چنانچہ اس دھاگے میں سائنس کا تذکرہ محض بے معنی ہے۔ اور کسی شاعر کی شاعری کوجانچتے ہوئے مختلف سائنسی علوم کے نقطہ نظر سے اشعار کی کھینچ تان کرنی ، محض ایک تکلف اور تضیعِ اوقات ہی لگتی ہے۔
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
ھاھاھاھاھاھاھا یہ میرے بابے کا یک چھوٹا سا کمال ہے
کچھ عرصہ پہلے میں اسی بات پر جھنجلاتا تھا کہ غالبؔ نے کبھی ترقی پسند شاعری نہیں کی مگر ترقی پسند تحریک اسے اپنا امام کہتی ہے
غالبؔ کے 63 قصیدوں میں سے 17 قصیدے انگریزوں کی شان میں ہیں لیکن مولانا محمد علی جوہر تحریک خلافت میں غالبؔ کے اشعار کو نہ صرف آنکھوں سے لگاتے ہیں بلکہ مزارِ غالبؔ کی تعمیر کیلئے بھی ایک مہم شرع کرتے ہیں
ایسے ہی کئی تضادات ہیں جو کہ غالبؔ کو پیچیدہ ترین ثابت کرتے ہیں
امن پسند صلح جو غالبؔ کو پڑھتے ہی لوگ باغی کیوں ہوجاتے ہیں؟ ایسی ہی کئی باتیں ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں کہ
غالبؔ بظاہر کچھ اور ہے مگر حقیقت میں کچھ اور
اس سے بڑھ کر کیا انقلاب ہو گا ۔۔۔
جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا ۔۔۔۔
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
ایک سائنسدان کائنات کو معروضی انداز میں دیکھتا ہے ، کائنات اسکے نزدیک محض مادے اور توانائی کا ایک مجموعہ ہے جو چند قوانین کے تحت علت و معلول کے سلسلے میں وجود میں آیا اور ان قوانین کے تحت مادے اور توانائی کا معروضی مطالعہ ہی اسکا مطمع نظر ہوتا ہے۔۔۔ اور اس مطالعے میں سائنسدان کی اپنی ذات، اسکے جذبات و احساسات کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔جبکہ شاعر کی کائنات کو اسکی اپنی ذات سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔۔۔ سائنسدان کائنات اور زندگی کے معنی تلاش نہیں کرتا۔۔جبکہ شاعر کا تعلق معانی اور محسوسات و جذبات کی دنیا سے ہے۔ چنانچہ اس دھاگے میں سائنس کا تذکرہ محض بے معنی ہے۔ اور کسی شاعر کی شاعری کوجانچتے ہوئے مختلف سائنسی علوم کے نقطہ نظر سے اشعار کی کھینچ تان کرنی ، محض ایک تکلف اور تضیعِ اوقات ہی لگتی ہے۔
بہت اچھی بات کی آپ نے ۔۔۔ بتی جانے کا وقت ہے ۔۔۔ اس پر کچھ بات کروں گا ضرور ۔۔۔ انشاءاللہ
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
ھاھاھاھاھاھا یہ غلط فہمی تب ہوتی ہے جب ہم لاشعوری طور پر خود سے موازنہ کریں
ایک مثال دیتا ہوں
ہم نظر اٹھاتے ہی آسمان تک دیکھ لیتے ہیں
لیکن ایک سائنس دان وہاں تک تیز ترین راکٹ میں جائے تو کم از کم کچھ عرصہ تو لگے گا
آپ کا لاشعور آپ کے شعور سے زیادہ تیز ہے،
اسی بات کو ذہن میں رکھ کر اب غور کریں
سائنس تحقیق کی بیساکھیوں پر قدم قدم چلے گی
مگر شاعر غریب کا تو پہلا قدم ہی دشت امکاں میں
ھاھاھاھاھاھاھاھاھاھاھا
یہ مثال اتنی وضح نہیں مگر کچھ آپ ذاتی کوشش کریں تو واضح ہو سکتی ہے
 

سید ذیشان

محفلین
ایک سائنسدان کائنات کو معروضی انداز میں دیکھتا ہے ، کائنات اسکے نزدیک محض مادے اور توانائی کا ایک مجموعہ ہے جو چند قوانین کے تحت علت و معلول کے سلسلے میں وجود میں آیا اور ان قوانین کے تحت مادے اور توانائی کا معروضی مطالعہ ہی اسکا مطمع نظر ہوتا ہے۔۔۔ اور اس مطالعے میں سائنسدان کی اپنی ذات، اسکے جذبات و احساسات کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔جبکہ شاعر کی کائنات کو اسکی اپنی ذات سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔۔۔ سائنسدان کائنات اور زندگی کے معنی تلاش نہیں کرتا۔۔جبکہ شاعر کا تعلق معانی اور محسوسات و جذبات کی دنیا سے ہے۔ چنانچہ اس دھاگے میں سائنس کا تذکرہ محض بے معنی ہے۔ اور کسی شاعر کی شاعری کوجانچتے ہوئے مختلف سائنسی علوم کے نقطہ نظر سے اشعار کی کھینچ تان کرنی ، محض ایک تکلف اور تضیعِ اوقات ہی لگتی ہے۔
آپ کی بات صحیح ہے کہ سائنس دان کے کائنات کو دیکھنے اور شاعر کے دیکھنے میں کافی فرق ہے۔ سائنس دان کا کام ہے چیزوں کو میتھس کی صورت میں دیکھنا اور شاعر تخیلات کی دنیا میں چیزوں کو دیکھتا ہے۔ اب ایسے سوالات کہ کیوں ایسا ہے کا جواب سائنس کے پاس نہیں، سائنس صرف "کیسے" تک محدود ہے۔ یعنی کائنات کی مثال لے لیں تو یہ سوال کہ کائنات کیوں معرض وجود میں آئی، سائنس اس بارے میں خاموش ہے۔ کیوں کا جواب مذہب یا فلسفہ آپ کو دیتا ہے۔ اور وہ جواب سائنسی انداز سے پرکھا نہیں جا سکتا۔ یہ ایک طرح کا اندازہ (speculation) ہوتا ہے جو بہت ساری باتوں پر منحصر ہے اور وہ ساری باتیں ایسی ہیں جن سے مختلف شاعروں کے بیچ میں آپ فرق کر سکتے ہیں۔ اس میں مشاہدہ، مطالعہ، مراقبہ اور بہت باتیں شامل ہیں جن کو "نوائے سروش" کہا جا سکتا ہے۔
لیکن آج کے زمانے میں سائنس سے آگاہی بہت ہی ضروری ہے تاکہ شعر با معنی ہو سائنسی اعتبار سے اور اس کو مخصوص طبقے کے علاوہ اور لوگ بھی سمجھ سکیں۔ اب اس سے یہ مراد نہیں کہ میتھس کی اکویشنز کی غزلیں کہنا شروع کر دیں :D
 
شکنِ زلفِ عنبریں کیوں ہے۔۔۔ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے،۔۔۔۔۔۔ سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں، ۔۔۔جبکہ تجھ بن نہیں کوئی موجود۔۔۔۔یہ سب سائنسی سوالات نہیں ہیں۔:D اب اگر کوئی ان سے یہ نتیجہ نکالنا چاہے کہ غالب کا سوچنے کا انداز بالکل سائنسدانوں جیسا تھا۔۔۔اور یہ کہ وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔۔۔:)
 

سید ذیشان

محفلین
شکنِ زلفِ عنبریں کیوں ہے۔۔۔ ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے،۔۔۔ ۔۔۔ سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں، ۔۔۔ جبکہ تجھ بن نہیں کوئی موجود۔۔۔ ۔یہ سب سائنسی سوالات نہیں ہیں۔:D اب اگر کوئی ان سے یہ نتیجہ نکالنا چاہے کہ غالب کا سوچنے کا انداز بالکل سائنسدانوں جیسا تھا۔۔۔ اور یہ کہ وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ :)
غالب کے کلام کو اس مقصد کے لئے استعمال کرنے کے میں بھی خلاف ہوں۔ کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ وہ سائنسدان بہرحال نہیں تھے اور نہ ہی ان کا دیوان سائنس کی کتاب ہے۔ تو ایسا کرنا عبث ہوگا۔ کیونکہ اگر آپ دس اشعار ایسے پیش کریں جو کسی تشریح کے مطابق سائنسی ہیں تو میں اس سے دس گنا ایسے اشعار پیش کر سکتا ہوں جو کہ غیر سائنسی ہوں۔ تو اس طرح کی بحث عبث ہے اور اس سے کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا۔
 
لیکن آج کے زمانے میں سائنس سے آگاہی بہت ہی ضروری ہے تاکہ شعر با معنی ہو سائنسی اعتبار سے اور اس کو مخصوص طبقے کے علاوہ اور لوگ بھی سمجھ سکیں۔ اب اس سے یہ مراد نہیں کہ میتھس کی اکویشنز کی غزلیں کہنا شروع کر دیں :D
:) آپکی اس بات سے اکبر آلہ آبادی کی ایک نظم یاد آگئی۔۔۔کہتے ہیں
کہا مجنوں سے یہ لیلٰی کی ماں نے۔ ۔ ۔
کہ "بیٹا تُو اگر کرلے ایم- اے پاس۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔
تو فوراّ بیاہ دوں لیلٰی کو تجھ سے۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بلا دقّت میں بن جاؤں تیری ساس"۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کہا مجنوں نے "یہ اچھّی سنائی۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔
کجا عاشق کجا کالج کی بکواس۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کجا یہ فطرتی جوشِ طبیعت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔
کجا ٹھونسی ہوئی چیزوں کا احساس۔ ۔
بڑی بی آپ کو کیا ہوگیا ہے؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہرن پر لادی جاتی ہے کہیں گھاس؟۔ ۔ ۔
یہ اچّھی قدر دانی آپ نے کی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مجھے سمجھا ہے کوئی ہرچرن داس؟
جگر خوں کرنے کو ہُوں موجود۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نہیں منظور مغزِ سر کا آماس۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یہی ٹھہری جو شرطِ وصلِ لیلٰی۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تو استعفٰی میرا با حسرت و یاس"​
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
یہ بات تو پہلے بھی ہو چکی ہے کہ شاعری سائنس کا راست بیان نہیں ہوا کرتی ۔۔۔ اور اس بات سے میں بھی اتفاق کروں گا کہ سائنس دان کا سوچنے کا انداز اور ہوتا ہے اور شاعر کا زاویہ نگاہ بوجوہ کافی مختلف ہوا کرتا ہے لیکن یہاں بات چونکہ کائناتی شعور کی ہو رہی ہے تو اسی حوالے سے کچھ عرض کروں گا ۔۔۔بات یہ ہے کہ کائنات کی اساطیری تعبیرات سے لے کر مذہبی اور فلسفیانہ تعبیرات ہمارے سامنے ہیں ۔۔۔۔۔ اور پھر موجودہ دور کا کائناتی شعور بھی جو کہ زیادہ تر سائنس کا ہی عطا کردہ ہے ۔۔ لیکن اس کا بہرصورت یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہم صرف سائنسی شعور کے ذریعے ہی کائنات کو جان سکتے ہیں ۔۔۔ بات یہ ہے کہ کائناتی اسرار کو جاننے کی خواہش تو روزِ اول سے انسان کی سرشت میں شامل ہے اور شاعر کے مرغِ تخیل کی رسائی تو ویسے بھی تا کجا ہوتی ہے ۔۔۔ شاعر بھی اسی معاشرے کا ایک فرد ہوتا ہے اور وہ بھی کائناتی حقیقتوں کو سمجھنے کا اتنا ہی متمنی ہوتا ہے جتنا کہ ایک فلسفی یا سائنس دان ۔۔۔ بس شاعر کی تعبیر ذرا مختلف ہوتی ہے ۔۔۔ اور بیان کا انداز بھی جدا ۔۔۔ وہ ان حقائق کو اپنے تخلیقی تجربے کا حصہ بنا کر ان کی تعبیر احساس کی سطح پر کرتا ہے ۔۔۔
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
مذکورہ بالا اشعار کو کس نے کہا کہ یہ سائنسی ہو سکتے ہیں؟
زیادتی ہے محمود بھائی!
کج بحثی کا کوئی بھی فائدہ نہیں ہونے والا، سوائے تو تو میں میں کے، اس لیے مجھے مزید معذور سمجھا جائے
نیز اکبر کی یہ مزاحیہ غزل کس حساب میں آئی سمجھ سے باہر ہے
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
کچھ مزید مثالیں غالب کے کلام سے ۔۔۔

ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا ۔۔۔۔

زمانہ عہد میں اس کے ہے محوِ آرائش
بنیں گے اور ستارے اب آسماں کے لیے

ہیں زوال آمادہ اجزا آفرینش کے تمام
مہرِ گردوں ہے چراغِ رہگذارِ باد یاں

یوں سمجھیے کہ بیچ سے خالی کیے ہوئے
لاکھوں ہی آفتاب ہیں اور بے شمار چاند

ہر قدم دوریِ منزل ہے نمایاں مجھ سے
میری رفتار سے بھاگے ہے بیاباں مجھ سے
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
غالبؔ کے دیوان کو بھی کوئی سائنس کی کتاب بہر حال نہیں کہہ رہا، بات صرف کائناتی شعور کے کسی کی شاعری میں ہونے اور کس حد تک ہونے کی بات تھی
صرف غالبؔ ہی کیا حافظ، رومی، اقبال کی سب کتابوں کو کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہ سب کے سب شعر پہنچے ہوئے تھے
مقدمہ شعر وشاعری میں یہی بات کی حالی نے کہ اس سلسلے میں ہم منتخب کلام کی بات کرتے ہیں
اس کی مثال یوں سمجھ لیں کہ غذا چاہے جیسی بھی مفید ہو، وہ ساری کی ساری جزو بدن نہیں بنتی، صرف اس کے لطیف اجزا معدہ الگ کر کے جزو خون بناتا ہے اور باقی کو بہر حال نکلنا ہوتا ہے
اب اگر کوئی کہے کہ اس فضلہ بازی سے بچنے کیلئے میں لطیف ترین خوراک کھاؤں ھاھاھاھاھا تو کیا یہ ممکن ہے؟
کسی بھی بڑے سے بڑے شاعر کا تمام کلام لطیف نہیں ہوتا؟
بقول غالبؔ لطافت کو جلوہ نمائی کیلئے کثافت کا سہارا چاہیے ہوتا ہے
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
زمانہ عہد میں اس کے ہے محوِ آرائش
بنیں گے اور ستارے اب آسماں کے لیے

یہ شعر کہیں سے بھی سائنسی نہیں ہے شہزاد بھائی رحم کریں
یا تو اس کے اندر موجود سائنس کی وضاحت کریں، یا پھر کتاب بند کر دیں
ھاھاھاھاھاھا صاف معلوم ہو رہا ہے کہ آپ کوئی کتاب سامنے رکھے بیٹھے ہیں، میری غلط فہمی بھی ہو سکتی ہے
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
زمانہ عہد میں اس کے ہے محوِ آرائش
بنیں گے اور ستارے اب آسماں کے لیے

یہ شعر کہیں سے بھی سائنسی نہیں ہے شہزاد بھائی رحم کریں
یا تو اس کے اندر موجود سائنس کی وضاحت کریں، یا پھر کتاب بند کر دیں
ھاھاھاھاھاھا صاف معلوم ہو رہا ہے کہ آپ کوئی کتاب سامنے رکھے بیٹھے ہیں، میری غلط فہمی بھی ہو سکتی ہے

حضرت مجھے آپ کی بات سے کب اختلاف ہے؟ میں تو یہی کہہ رہا ہوں کہ کائناتی شعور کا سائنس سے ایک طرح کا تعلق ہے اور بس ۔۔۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں ۔۔۔ البتہ موجودہ دور کے کائناتی شعور میں سائنس کا عطا کردہ شعور بھی شامل ہے ۔۔۔ ویسے اس شعر کی سائنس کے حوالے سے تشریحات کی گئی ہیں ۔۔۔ لیکن بات پھر وہی ہے کہ کائناتی شعور میں سائنسی کا عطا کردہ شعور بھی شامل ہے لیکن سائنسی شعور کو کائناتی شعور سے الگ ہی سمجھا جائے ۔۔۔
 
Top