ڈوبے ہوئے سورج کا سفر دیکھ رہا ہوں ۔ برائے اصلاح

السلام و علیکم۔ ایک غزل اصلاح کیلئے پیشِ خدمت ہے۔ سر الف عین

ڈوبے ہوئے سورج کا سفر دیکھ رہا ہوں
وحشت میں شبِ غم کا اثر دیکھ رہا ہوں

اُمید لگائے میں جدھر دیکھ رہا ہوں
اندوہ و مصیبت کا بھنور دیکھ رہا ہوں

میں ہوں کہ نئی راہِ سفر دیکھ رہا ہوں
دل ہے کہ ترے زیرِ اثر دیکھ رہا ہوں

اظہارِ ضرورت کہ زباں تک نہیں آتا
خوددار ہوں میں اہلِ نظر دیکھ رہا ہوں

سرگرم ہیں سازش میں سرِبزم اشارے
خاموش زبانوں کا ہنر دیکھ رہا ہوں

ایامِ مہ و سال تنوع سے تہی ہیں
ہر روز وہی شام و سحر دیکھ رہا ہوں
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے ماشاء اللہ۔
مطلع دو لخت ہے یا میں سمجھ نہیں سکا، شب غم میں وحشت کا اثر کہنا چاہ رہے ہو کیا؟
میں ہوں کہ نئی راہِ سفر دیکھ رہا ہوں
دل ہے کہ ترے زیرِ اثر دیکھ رہا ہوں
... دل ہے کہ ترے زیر اثر دیکھ رہا ہے؟ یا یہ مراد ہے کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ دل زیر اثر ہے؟

اظہارِ ضرورت کہ زباں تک نہیں آتا
خوددار ہوں میں اہلِ نظر دیکھ رہا ہوں
یہ دوسرا مصرع بھی سمجھ نہیں سکا
باقی اشعار درست ہیں
 
اچھی غزل ہے ماشاء اللہ۔
مطلع دو لخت ہے یا میں سمجھ نہیں سکا، شب غم میں وحشت کا اثر کہنا چاہ رہے ہو کیا؟
میں ہوں کہ نئی راہِ سفر دیکھ رہا ہوں
دل ہے کہ ترے زیرِ اثر دیکھ رہا ہوں
... دل ہے کہ ترے زیر اثر دیکھ رہا ہے؟ یا یہ مراد ہے کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ دل زیر اثر ہے؟

اظہارِ ضرورت کہ زباں تک نہیں آتا
خوددار ہوں میں اہلِ نظر دیکھ رہا ہوں
یہ دوسرا مصرع بھی سمجھ نہیں سکا
باقی اشعار درست ہیں


سر یہ دو اشعار اس طرح کر دئیے ہیں:

ڈوبے ہوئے سورج کا سفر دیکھ رہا ہوں
فرقت میں شبِ غم کا اثر دیکھ رہا ہوں

گو بچھڑے ہوئے ایک زمانہ ہوا لیکن
دل اب بھی ترے زیرِ اثر دیکھ رہا ہوں


اظہارِ ضرورت کہ زباں تک نہیں آتا
خوددار ہوں میں اہلِ نظر دیکھ رہا ہوں

سر میں نے اس شعر میں یہ کہنے کی کوشش کی تھی کہ میں خوددار ہوں تو میری زباں تک سوال نہیں آ سکتا اس لئے کوئی اہلِ نظر دیکھ رہا ہوں جو مجھے دیکھ کے میری ضرورت سمجھ سکے۔ لیکن ٹھیک طرح سے کہا نہیں گیا شائد۔ کوئی صورت ہو تو بتا دیجئے ورنہ اس شعر کو نکال دیتا ہوں۔
 

الف عین

لائبریرین
اہل نظر والا شعر نکال ہی دو، یہ مفہوم بھی اہل نظر سے نہیں، اہلِ خیر حضرات کی نظروں سے نکل سکتا ہے
باقی دونوں شعر درست ہو گئے ہیں
 
اصلاح کے بعد مکمل غزل:

ڈوبے ہوئے سورج کا سفر دیکھ رہا ہوں
فرقت میں شبِ غم کا اثر دیکھ رہا ہوں

اُمید لگائے میں جدھر دیکھ رہا ہوں
اندوہ و مصیبت کا بھنور دیکھ رہا ہوں

گو بچھڑے ہوئے ایک زمانہ ہوا لیکن
دِل اب بھی ترے زیرِ اثر دیکھ رہا ہوں

سرگرم ہیں سازِش میں سرِبزم اِشارے
خاموش زبانوں کا ہنر دیکھ رہا ہوں

ایامِ مہ و سال تنوع سے تہی ہیں
ہر روز وہی شام و سحر دیکھ رہا ہوں
 

فاخر رضا

محفلین
Z
اصلاح کے بعد مکمل غزل:

ڈوبے ہوئے سورج کا سفر دیکھ رہا ہوں
فرقت میں شبِ غم کا اثر دیکھ رہا ہوں

اُمید لگائے میں جدھر دیکھ رہا ہوں
اندوہ و مصیبت کا بھنور دیکھ رہا ہوں

گو بچھڑے ہوئے ایک زمانہ ہوا لیکن
دِل اب بھی ترے زیرِ اثر دیکھ رہا ہوں

سرگرم ہیں سازِش میں سرِبزم اِشارے
خاموش زبانوں کا ہنر دیکھ رہا ہوں

ایامِ مہ و سال تنوع سے تہی ہیں
ہر روز وہی شام و سحر دیکھ رہا ہوں
Zabardast bhai. Very nice
 
Top