ڈرا رہا ہے مسلسل یہی سوال مجھے ۔۔۔۔ عرفان ستار

زھرا علوی

محفلین
ڈرا رہا ہے مسلسل یہی سوال مجھے
گزار دیں گے یونہی کیا یہ ماہ و سال مجھے

بچھڑتے وقت اضافہ نہ اپنے رنج میں کر
یہی سمجھ کہ ہُوا ہے بہت ملال مجھے

وہ شہر ِ ہجر عجب شہر ِ پُر تحیّر تھا
بہت دنوں میں تو آیا ترا خیال مجھے

تُو میرے خواب کو عجلت میں رائگاں نہ سمجھ
ابھی سخن گہ ِ امکاں سے مت نکال مجھے

کسے خبر کہ تہہ ِ خاک آگ زندہ ہو
ذرا سی دیر ٹھہر، اور دیکھ بھال مجھے

کہاں کا وصل کہ اِس شہر ِ پُر فشار میں اب
ترا فراق بھی لگنے لگا محال مجھے

اِسی کے دم سے تو قائم ابھی ہے تار ِ نفس
یہ اک امید، کہ رکھتی ہے پُر سوال مجھے

کہاں سے لائیں بھلا ہم جواز ِ ہم سفری
تجھے عزیز ترے خواب، اپنا حال مجھے

ابھر رہا ہوں میں سطح ِ عدم سے نقش بہ نقش
تری ہی جلوہ گری ہوں، ذرا اُجال مجھے

یہاں تو حبس بہت ہے، سو گردباد ِ جنوں
مدار ِ وقت سے باہر کہیں اچھال مجھے

پھر اُس کے بعد نہ تُو ہے، نہ یہ چراغ، نہ میں
سحر کی پہلی کرن تک ذرا سنبھال مجھے



۔۔۔۔۔۔۔ عرفان ستّار
 

مجاز

محفلین
یہاں تو حبس بہت ہے، سو گردباد ِ جنوں
مدار ِ وقت سے باہر کہیں اچھال مجھے


بہت خوب۔۔۔ شکریہ شریک محفل کرنے کا :)
 
Top