ڈاکٹر طاہر القادری

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

نبیل

تکنیکی معاون
اگر پرخاش نہ ہوتی تو نظر آ جاتا کہ یہ سجدہ نہیں بلکہ قدم بوسی تھی جسکی وجہ سے طاہر القادری صاحب اس سے ایسے منع بھی نہیں کر سکتے تھے کہ یہ حرام کام ہو۔
مگر نہیں، انہیں 80 فیصد قدم بوسی کے کیسز کے بعد ایک کیس میں شک پیدا ہوا کہ قدم کچھ انچ کے فاصلے پر تھا۔۔۔۔ اور بس پھر کیا تھا، ان کی دلی مرادیں بر آئیں، شک کا بیچ بو کر اس پر تناور درخت کھڑا کیا اور سجدے کے الزام کا واویلا اٹھا دیا۔
اہل انصاف فیصلہ کر لیں کہ یہ حسن ظن ہے یا پرخاش۔

اسکے باوجود جو لوگ اس پر سجدے کرنے اور پھر طاہر القادری صاحب پر انکی پیٹھ تھپتھپانے کا الزام لگا رہے ہیں، انکے لیے بعینہ انہی الفاظ میں میں انکی مذمت کروں گی:

انسان ہر کسی کو خوش نہیں کر سکتا۔ اور خاص طور پر اُن کو جو شکوک کے سمندر پیدا کرنا چاہتے ہیں۔

۔ پہلی بات یہ کہ قدم بوسی فعل حرام نہیں جو اس پر کوئی "انتہائی شدید و سخت" رویہ اختیار کیا جاتا۔
۔ مگر پھر بھی طاہر القادری صاحب کو یہ فعل اپنی ذات کے لیے پسند نہیں۔
۔ اور وہ لوگوں کو قدم بوسی کرتے وقت ہٹاتے ہیں، اور پھر شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی پیٹھ تھپتھپاتے ہیں کہ یہ محبت کا درس ہے۔ مگر "نابینا" نہیں، بلکہ "دلوں میں پرخاش" رکھنے والوں کے لیے کافی ہے کہ وہ الزام لگا سکیں کہ طاہر القادری اپنے آپ کو سجدہ کروانے کے لیے ان کی پیٹھ تھپتھپا رہے تھے۔
آپ لوگوں سے درخواست ہے کہ پھر سے ایک مرتبہ ویڈیو کو دیکھیں اور فیصلہ کریں کہ آیا طاہر القادری صاحب اپنے آپ کو سجدے کروانے کے لیے انکی پیٹھ تھپتھپا رہے ہیں، یا پھر انکا پہلا ری ایکشن یہ ہے کہ وہ ان لوگوں کو قدم بوسی کرتے وقت ہاتھ سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں اور صرف اسکے بعد وہ پیار و شفقت سے ان لوگوں کو گلے لگاتے ہیں یا انکی پیٹھ تھپتھپاتے ہیں؟


ان حضرات کی شرائط کو تو کوئی پورا نہیں کر سکتا اور انہوں نے ہر حالت میں الزام لگانے کا کوئی نہ کوئی بہانہ ڈھونڈ ہی لینا ہے۔
قدم بوسی کوئی ایسا فعل نہ تھی جو حرام ہوتی۔ اگر طاہر القادری صاحب اس سے بالکل بھی نہ روکتے، تب بھی اس پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا تھا۔
ایک طرف طاہر القادری صاحب نے اس چیز کو اپنے لیے ذاتی طور پر پسند نہیں کیا، اوردوسری طرف انہوں نے یہ ضرورت نہ سمجھی کہ پوری محفل کو درہم برہم کرتے ہوئے بیچ میں اعلان کریں کہ اگرچہ یہ سنت رسول ص سے ثابت شدہ مستحب فعل ہے، مگر چونکہ مجھے اپنی ذات کے لیے پسند نہیں اس لیے آپ اس سے باز رہیے۔
اب ان لوگوں سے سوال ہے کہ ثابت کیجئے کہ طاہر القادری پر شرعی طور پر لازم و واجب تھا کہ انکی عائد کردہ شرط کے مطابق محفل درہم برہم کرتے ہوئے یہ اعلان کرتے کہ وہ اس مستحب فعل سے باز رہیں۔
میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ ان لوگوں کو کوئی کبھی خوش کر سکتا ہے اور نہ انکی اپنی طرف سے جاری کردہ شرائط کو کوئی پورا کر سکتا ہے۔ یہ اسلامی شریعت کی شرط نہیں، بلکہ انکی اپنی جاری کردہ شریعت کی شرط ہے جو ہر قدم پر بدل سکتی ہے۔

اور جہاں تک شریعت میںسجدہ یا سجدہ تعظیمی کی بات ہے، تو اس سلسلے میں طاہر القادری صاحب نے کھل کر اسلامی شریعت کو بیان کیا ہے۔ اسکا ایک حوالہ میں اوپر دے چکی ہوں۔ نیز مزید حوالے آبی کی پوسٹ میں موجود ہیں:




اور اس طرح کہ قدم بوسی سجدہ تعظیمی لگتی ہو۔ ۔۔۔۔۔۔۔ یہ دماغی خلل ہے جو انہیں قدم بوسی سجدہ تعظیمی لگتی ہے۔
قدم بوسی ہو لیکن بوسہ قدم نظر نہ آئے۔۔۔۔۔۔۔ یہ دماغی خلل جو انہیں بوسہ قدم نظر نہ آئے



پینے کو تو پی لوں گا پر شرط ذرا سی ہے
بغداد کا سافی ہو منہاج کا میخانہ

اس شعر سے میں کہاں یہ کہا جا رہا ہے کہ طاہر القادری صاحب کو سجدے کرو؟ "منہاج" کی تصرف کے بعد بھی یہ چیز کہیں نہیں نکلتی کہ اس سے طاہر القادری صاحب کو سجدے کرنے کا کہا جا رہا ہو۔ مگر وہ جب کے دل و دماغ پرخاش زدہ ہوں، وہ ہر صورت میں کوئی نہ کوئی بہانہ نکال کر شکوک پیدا کریں گے اور اس بنیاد پر دوسروں پر ناحق سنگین الزامات لگانے کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔
اللہ تعالی ان لوگوں کو ہدایت دے اور ان پرخاشوں کو انکے دلوں سے دور فرمائے۔ امین۔

مہوش بہن، یہ دماغی خلل کا آپ کسے کہہ رہی ہیں؟‌ کیا اس طرح کے ذاتی حملوں کے بغیر گفتگو ممکن نہیں ہے؟ آپ اگر خود پر کنٹرول نہیں رکھ سکتی ہیں تو براہ کرم ان موضوعات سے خود کو دور رکھا کریں۔ مجھے اسی طرح‌ کے مراسلات کی وجہ سے اس فورم کو موڈریشن کے تحت لانا پڑا ہے۔ آپ اس پوسٹ کو میری جانب سے انتباہ سمجھیں۔
 
اولیاء وانبیاء کے مزارات پر سجدہ کرنا بالاتفاق حرام ہے۔ اس میں کوئی دوسرا قول نہیں ہے۔رہ گئی بات دوسرے حصے کی کہ

سجدہ کی تعریف کیا ہے ۔

تو اس کا جاننا بہت لازمی ہے۔۔۔۔۔۔۔ بہت سارے لوگ اپنی کم علمی کی بنیاد پراولیاء اللہ کے مزارات کی حاضری کو شرک اور حرام کہہ دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔یہ ایک انتہاء ہے، اور اس سوچ کا قرآن وسنت سے کوئی واسطہ وتعلق نہیں ہے۔۔۔۔۔لوگ حاضری کے وقت آگے جھک کر بوسہ لیتے ہیں تو اسے سجدہ کہہ کر فتوی بازی کی جاتی ہے۔یاد رکھ لیں کہ سجدے کے کچھ ارکان اور شرائط ہیں اگر وہ پورے نہ ہوں تو سجدہ نہیں ہوتا
1۔سجدہ کرتے ہوئے دل میں الٰہ کا تصور ہو، یعنی یہ خیال ہو کہ میں یہ سجدہ خداکوکررہاہوں۔
2۔تسبیحات کاورد ہو(سجدے میں کم از کم ایک مرتبہ سبحان ربی الاعلی کہنا واجب ہے)
3۔دونوں پاؤں کے پنجے زمین پر لگے ہوں
4۔ دونوں گھٹنے زمین پر لگے ہوں۔
5۔ پیشانی زمین پر لگی ہو۔
6۔ناک زمین پر لگی ہو
7۔ دونوں ہاتھ زمین پر لگے ہوں
8۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ قبلہ رُخ ہو
اگر ان شرائط کو پورا نی کیاجائے تو سجدہ ادا نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔
اور اولیاء اللہ کے مزارات پر ان ارکان میں سے کوئی رکن بھی نہیں ہوتااس لیے حاضری کو شرک کہنا جہالت اور اولیاء اللہ سے تعصب ہے
باقی وضاحت قبلہ شاہ خود فرمائیں گے
والسلام
محمد اقبال فانی
 

گرائیں

محفلین
یہ خوبصورت کلام جناب بیدم وارثی کا ہے جو کب کے وفات پاچکے ہیں اور یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ انکا منہاج القرآن والوں سے تعلق نہیں تھا۔ ۔ صوفی منش شاعر تھے جناب نیاز بریلوی، بہزاد لکھنوی اور اصغر گونڈوی کی طرح۔ ۔ ۔ یہ غزل انکی کافی مقبول ہے خصوصاّ قوّالی کے حوالے سے۔ ۔ ۔ اس قوّال نے تو موقع کی مناسبت سے ایک شعر میں تصّرف کیا ہے جیسا کہ اکژ محافلِ سماع میں یہ لوگ کیا کرتے ہیں۔ ۔ ۔
جن لوگوں کو سماع اور چشتی ذوق حاصل نہیں ہے انکے لئے ایسی قوآلیاں سننا شدید قسم کی کوفت اور روحانی قبض کا باعث ہوسکتا ہے:grin: لہذا انکو اس سے دور ہی رہنا چاہیئے

نصرت فتح علی خان مرحوم کی گائی گئی ایک قوالی " تم ایک گورکھ دھندا ہو " پر مین نے ایک بہت سخت تنقیدی مضمون جماعت الدعوۃ کے زیر اہتمام شائع ہونے والے ایک رسالے میں دیکھا تھا۔ غالبا 9 برس ہوتے ہیں اس بات کو۔ اور انھوں نے تو تنقید میں حد کر دی تھی۔
 
کاش تمہاراکتاب وسنت سے بھی کوئی واسطہ ہوتا تو اوپر دی احادیث سے وضاحت ہی تمہارے لیے کافی ہوجاتی
اولیاء وانبیاء کے مزارات پر سجدہ کرنا بالاتفاق حرام ہے۔ اس میں کوئی دوسرا قول نہیں ہے۔رہ گئی بات دوسرے حصے کی کہ

اقتباس:
سجدہ کی تعریف کیا ہے ۔

تو اس کا جاننا بہت لازمی ہے۔۔۔۔۔۔۔ بہت سارے لوگ اپنی کم علمی کی بنیاد پراولیاء اللہ کے مزارات کی حاضری کو شرک اور حرام کہہ دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔یہ ایک انتہاء ہے، اور اس سوچ کا قرآن وسنت سے کوئی واسطہ وتعلق نہیں ہے۔۔۔۔۔لوگ حاضری کے وقت آگے جھک کر بوسہ لیتے ہیں تو اسے سجدہ کہہ کر فتوی بازی کی جاتی ہے۔یاد رکھ لیں کہ سجدے کے کچھ ارکان اور شرائط ہیں اگر وہ پورے نہ ہوں تو سجدہ نہیں ہوتا
1۔سجدہ کرتے ہوئے دل میں الٰہ کا تصور ہو، یعنی یہ خیال ہو کہ میں یہ سجدہ خداکوکررہاہوں۔
2۔تسبیحات کاورد ہو(سجدے میں کم از کم ایک مرتبہ سبحان ربی الاعلی کہنا واجب ہے)
3۔دونوں پاؤں کے پنجے زمین پر لگے ہوں
4۔ دونوں گھٹنے زمین پر لگے ہوں۔
5۔ پیشانی زمین پر لگی ہو۔
6۔ناک زمین پر لگی ہو
7۔ دونوں ہاتھ زمین پر لگے ہوں
8۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ قبلہ رُخ ہو
اگر ان شرائط کو پورا نی کیاجائے تو سجدہ ادا نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔
اور اولیاء اللہ کے مزارات پر ان ارکان میں سے کوئی رکن بھی نہیں ہوتااس لیے حاضری کو شرک کہنا جہالت اور اولیاء اللہ سے تعصب ہے
باقی وضاحت قبلہ شاہ خود فرمائیں گے
والسلام
محمد اقبال فانی
 

ساجد

محفلین
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسی معظم و مکرم ہستی بنی نوع انسان میں آج تک آئی نہ آئے گی۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود کو سجدہ نہیں کروایا اور نہ انسان کو سجدہ کرنے کو جائز قرار دیا تو پھر بحث کاہے کی؟
کیا اسلام کا کوئی پہلو تشنہ رہ گیا تھا کہ جس کی ان تعظیمی سجدوں میں تکمیل کی جا رہی ہے؟۔ بغیر کسی معذرت اور ہچکچاہٹ کے میں ان کو غیر شرعی افعال کہوں گا جو گناہ کے زمرے میں آتے ہیں۔ ہمیں اس قسم کی باتوں سے بچنا چاہئیے کہ ہمارا آج کا "تعظیمی سجدہ" آنے والے کل کا "معبودی سجدہ" نہ بن جائے۔
سجدہ ، عبادت کا ایک اہم رکن ہے اور یہ سوائے اللہ کے کسی اور کے آگے نہیں کیا جا سکتا، خواہ تعظیمی ہو یا حقیقی۔
 
ویسے تو آپ کے اس فلسفے کا اس قدر بہترین جواب نبیل نے دیا ہے کہ انہیں ایک عدد ایوارڈ سے ضرور نوازا جانا چاہئے :)
واقعی جتنا 'بہترین' جواب تھا اس پر تو ویسا ہی کوئی بہترین قسم کا ایوارڈ ہونا چاہیئے۔:)



واہ واہ ! کیا نکتہ عظیم ارسال فرمایا ہے۔
اب اس فلسفے کے مطابق تو ہندوستان بھر میں جو بت پرست ہندو بنیے بتوں کے سامنے سر جھکا رہے ہیں یا لیٹے جا رہے ہیں ، وہ مشرک نہیں ، بلکہ توحید کے علمبردار ہوئے کہ ان کی نیت کا حال ہمیں کیا معلوم ! جیسا کہ آپ نے خود اقبال کیا :
میرے 'نکتہءِ عظیم' سے یہ نکتہ خدا جانے آپ نے کیسے نکال لیا۔ ۔ ۔
ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیئے:)
میں نے تو فقط یہ عرض کیا تھا بھائی کہ جس عمل کو آپ شرک کہہ رہے ہیں وہ فرشتوں سے بھی سرزد ہوچکا ہے اللہ کے حکم سے اور نبیوں سے بھی۔ ۔ ۔ہندو والا کیس ادھر اپلائی نہیں ہوتا کہ وہ تو بتوں کے آگے سربسجود ہے اور زیرِ نظر ویڈیو میں یہ صاحب اگر بقول آپ کے سجدہ ہی کررہے ہیں(یہ آپکی پرسپشن ہے ہماری نہیں) تو کسی بت کو نہیں کررہے۔ لہزا اسکا یہ عمل ظاہری طور پر تو ہندو کے مشابہ نہ ہوا بلکہ فرشتوں اور برادرانِ یوسف کے مشابہ ہوا ۔ ۔ ۔ ۔لہذا بات پھر نیت پر آکر ٹھرتی ہے۔ اگر اسکی نیت سجدہءِتعظیمی کی تھی تو اس نے بیشک شریعتِ محمّدیہ کے حکم کی خلاف ورزی کی کیونکہ اس شریعت میں سجدہءِ تعظیمی سے منع کیا گیا ہے۔ ۔ ۔ ۔بس آپکی اور ہمارے علم کی حد یہاں تک ہی ہے اس سے زیادہ بات ہمیں نہیں کرنی چاہیئے۔


ایک اور مثال لے لیں ۔۔۔۔ طلاق دی جاتی ہے زبان سے
اب کوئی شوہر صاحب ، باقاعدہ طلاق کے کوئی سال بھر بعد یہ نعرہ لگاتے ہوئے طلاق یافتہ بیوی سے زبردستی رجوع کرنا چاہیں
میری نیت تو طلاق دینے کی نہیں‌ تھی !!
تو ۔۔۔۔۔ ؟؟
تو غالباَ اُس وقت یہ واقعہ دیکھ کر ہمارے محمود غزنوی صاحب فرمائیں گے :

یعنی طلاق محض ایک خالی خولی عمل ہے !!
طلاق کے بعد بھی اگر نیت ٹھیک ہے ۔۔۔۔ تو جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے ;)


واہ ! کیا من موجی شریعت نکال رکھی ہے یار دوستوں نے ، سبحان اللہ !! :)
جی نہین زمین و آسمان کے قلابے ملانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر بات کو اسکے مناسب مقام پر ہی رکھیں تو بہتر ہوگا۔ جایئے کتبِ عقائد کا مطالعہ کیجئے۔ عمل اور نیّت دو علیحدہ حقیقتیں ہیں۔ خوامخواہ انکو گڈ مڈمت کیجئے۔ یہاں طلاق کے موضوع پر بات نہیں ہو رہی۔ لہذا موضوع پر ہی رہیں تو بہتر ہے۔ جب رسولِ اکرم نےحضرت خالد بن ولید جیسے جیّد صحابی کے اس جواز کو پسند نہیں کیا کہ "وہ شخص موت کے ڈر سے کلمہ پڑھ رہا تھا" اور آپ نے فرمایا کہ "کیا تم نے اس کا سینہ چیر کر دیکھ لیا تھا اسکی نیّت کو؟"۔ ۔ ۔تو آپ اور میں کس کھیت کی مولی ہیں کہ اسکی نیّت پر ججمنٹ دیتے پھریں۔ ۔ ۔ہاں اسکے ظاہری عمل پر ہم اپنے علم و عقل سے رائے دے سکتے ہیں کہ اس نے اس کام کا ارتکاب کیا جس کواسلام میں حرام قرار دےدیا گیا ہے۔
 

کعنان

محفلین
السلام علیکم برادر

اچھا ہوتا ھے کہ قرآن اور حدیث کو ڈفینڈ کیا جائے نہ کہ بندوں کو۔

آپ نماز پڑھتے ہیں آپ کو پتہ ہونا چاہئے کہ 5 وقت کی نماز میں سجدہ کیسے ہوتا ھے، قران مجید میں 14 سجدے ہیں وہ کیسے ہوتے ہیں۔

پوری نماز کا سٹرکچر نیت پر ہوتا ھے، 5 وقت کی نماز میں ہر نماز کے اندر ہر نماز کے فرض, سنت موکدہ، غیر موکدہ، نفل سب کی الگ الگ نیت ہوتی ھے، طریقہ نماز میں جو قرآنی آیات ہیں وہ پڑھی جاتی ہیں اور جو طریقہ سکھایا جاتا ھے نماز اسی طرح ادا ہوتی ھے ۔ ماتھا اور ناک زمین کے ساتھ لگانا اور سبحان رب یلعلی یہ ھے سجدہ۔

اگر سر جھکانہ بغیر کسی نیت کے کہ وہ سجدہ کر رہا ھے تو جو نماز مسجد میں ادا کی جاتی ھے اور جو سب سے پہلی صف میں نمازی کھڑے ہوئے ہوتے ہیں انہوں نے اپنی جوتیاں حفاظت کے لئے اپنے سامنے رکھی ہوتی ہیں تو کیا ان کا سجدہ جوتیوں کو ہو گا۔

پھر ان کے پیچھے جتنی بھی صفیں ہوتی ہیں‌‌‌ ہر نمازی کا سجدہ سامنے والے کے الٹے پیروں پر ہوتا ھے۔ تو کیا آپکی نظر میں اسطرح ہر نمازی اپنے سامنے والے کے قدمون‌ میں کرتا ھے۔

دنیا کا کوئی بھی عالم فاضل کسی کو بھی تعلیم نہیں دیتا کہ وہ اللہ کے سواہ اس کو سجدہ کرے ،اب اگر کوئی عاجزی سے کسی کے ہاتھ چومتا ھے یا پاؤں کو پکڑتا ھے یا چومتا ھے تو وہ اس کی عقیدت مندی ھے۔

جس نے یہ ویڈیو دیکھی ھے اور اس کو یاد ہو گا کہ قادری صاحب نے اپنے پاؤں کے اوپر دو گدیاں رکھی ہوئی تھیں اور جب بندہ ان کے پیروں کی طرف آتا تھا تو قادری صاحب اسے اپنے ہاتھ سے پیچھے کر رہے تھے اور پھر اس کو دو اور بندے پکڑںے کے لئے پیچھے کرتے تھے اور وہ پھر آ جاتا تھا آپ ان تصویروں‌ میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ اور وہ بندہ ٹانگوں اور گدیوں تک ہی رہا۔ پیروں تک تو پہنچا ہی نہیں۔ اگر وہ پہنچا بھی تو سجدہ ایسے نہیں ہوتا۔

(حذف کردہ)

یقیناً آپ نے بھی اچھے اساتذہ کرام سے تعلیم حاصل کی ہو گی اگر انہوں نے آ‌پ کو سجدہ کا مطلب سر جھکانہ ہی بتایا ھے تو پھر آپکی نظر میں یقیناً یہی ہو گا۔

انسان صدقہ ، خیرات، زکوۃ ، فطرانہ، ھدیہ وغیرہ وغیرہ میں اپنا مالو اسباب غریبوں میں بانٹتے ہیں. نیت تو ان میں بھی کی جاتی ھے، اب یہ تو نہیں ھے کہ صدقہ کی نیت کر کے زکوۃ‌ دے دے، دینے تو پیسے ہی ہیں۔

باقی تعزیمی سر جھکانہ پر کچھ بھائیوں نے بہت مدلل طریقے سے ثابت کر دیا ھے۔

اگر اتنا آسان ھے سجدہ کرنا تو معاذ اللہ پھر نماز کی کیا ضرورت ھے جب وقت ملے خاموشی سے سر جھکا لو نہ غسل کی جھنجھٹ نہ وضو کی ضرورت۔

والسلام

 

نبیل

تکنیکی معاون
کعنان، میں نے آپ کے پیغام کا کچھ حصہ حذف کر دیا ہے۔ اپنی بات میں زور پیدا کرنے کے لیے بیہودگی کی ضرورت نہیں ہے۔
 

کعنان

محفلین
السلام علیکم جناب

آپ اگر پورا پیغام بھی حذف کر دیں گے تو میں آپ کو کبھی نہیں پوچھوں گا کہ کیوں‌ ایسا کیا ھے تجربہ کر کے دیکھ سکتے ہیں۔ کبھی آپ کو بہودگی والے جملے استعمال کرنے کی ضرورت نہیں محسوس ہو گی۔
والسلام
 

dxbgraphics

محفلین
میں ساجد کی بات سے مکمل اتفاق کروں گا۔ جیسا کہ اس نے کہا کہ آج سجدہ تعظیمی ہے آگے جاکر یہ سجدہ معبودی کی شکل اختیار کر لے گا۔ جیسا کہ میں نے بھی بذات خود ہر مزار پر دیکھا ہے۔ اس سے احتیاط ہی ہمارے آگے آنے والی نسلوں کے لئے بہتر ہوگا۔ کیوں کہ پہلے ہی سے حالات ایسے پیدا کیئے جاچکے ہیں کہ کوئی مولانا۔ مفتی صاحبان کے پاس جانے سے بھی لوگ کترانے لگے ہیں۔ آج کترا رہے ہیں کل برا بھلا بھی کہنےسے گریز نہیں کریں گے۔ اور اس کے بعد اللہ ہی حافظ۔
 

مہوش علی

لائبریرین
سخت زبان کے استعمال پر زیک و ناظمین کی طرف سے انتباہ ایک طرف، میں ابن حسن صاحب سے پرسنلی معذرت بھی کرتی ہوں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے
یہ رسول اللہ ص کی اپنی زبانی بیان کردہ حدیث ہے۔ سوال: کیا رسول ص کی یہ حدیث منسوخ ہو چکی ہے؟
مجھے پہلی حیرت کا سامنا اُس وقت کرنا پڑا جب باذوق صاحب نے اس حدیث رسول ص کا الٹا ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اعمال کا دارومدار "نیت" پر نہیں بلکہ "ظاہر" پر ہے۔ اور ثبوت کے طور پر حضرت عمر کی ایک روایت پیش کی جس میں آپ دوسرے انسانوں سے معاملات پر ظاہر کی بنیاد پر حکم لگا رہے تھے۔
میں نے اُس وقت بھی باذوق صاحب کو یہ فرق واضح کیا تھا کہ دنیا کے کسی انسان کی روایت رسول اللہ ص کی کسی حدیث کی ناسخ نہیں ہو سکتی۔ اور پھر انہیں واضح کیا تھا کہ رسول اللہ ص کی حدیث اور حضرت عمر کی روایت میں کیا بنیادی فرق ہے اور کیوں یہ ایک دوسرے کے مخالف نہیں ہیں۔ (میں آگے اس فرق کو پھر بیان کروں گی تاکہ واضح ہو سکے کہ حضرت عمر کی روایت کا حدیث رسول سے کوئی ٹکراؤ نہیں)
اور آج پھر دوبارہ میں باذوق صاحب کی طرف سے اس حدیث رسول پر بعینہ وہی اعتراض اس شکل میں دیکھ رہی ہوں جب وہ طلاق کے مسئلے کو بنیاد بنا کر رسول ص کی اس حدیث کا الٹا ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
از باذوق:
ایک اور مثال لے لیں ۔۔۔۔ طلاق دی جاتی ہے زبان سے
اب کوئی شوہر صاحب ، باقاعدہ طلاق کے کوئی سال بھر بعد یہ نعرہ لگاتے ہوئے طلاق یافتہ بیوی سے زبردستی رجوع کرنا چاہیں
میری نیت تو طلاق دینے کی نہیں‌ تھی !!
تو ۔۔۔۔۔ ؟؟
تو غالباَ اُس وقت یہ واقعہ دیکھ کر ہمارے محمود غزنوی صاحب فرمائیں گے :
اقتباس:
نیّتوں کا حال اللہ کے علم کے سپرد کریں تو خالی خولی عمل رہ جاتا ہے
یعنی طلاق محض ایک خالی خولی عمل ہے !!
طلاق کے بعد بھی اگر نیت ٹھیک ہے ۔۔۔۔ تو جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے ;)
واہ ! کیا من موجی شریعت نکال رکھی ہے یار دوستوں نے ، سبحان اللہ !! :)

ایمان و عبادات اور انسانوں سے معاملات میں فرق
ایمان و عبادت اللہ سے براہ راست بندے کا معاملہ ہے۔
منافقین بالکل صحیح ظاہری طریقے سے اللہ کی عبادت کرتے تھے، اور ایسا کرتے تھے کہ انکی "ظاہری" زہد و تقوے و عبادت پر لوگ عش عش کیا کرتے تھے۔ مگر دل سے یہ پھر بھی تھے منافق۔

جہاں تک حضرت عمر کی روایت کا تعلق ہے، یا پھر میاں بیوی میں طلاق کا مسئلہ ہے، تو اسکا تعلق اللہ سے براہ راست نہیں بلکہ یہ انسانوں کے مابین "معاملات" کا مسئلہ ہے۔ اور معاملات میں "نیت" نہیں چلتی بلکہ اس میں ظاہر کی بنیاد پر حکم لگایا جاتا ہے۔ اگر کوئی کسی کو قتل کر دے اور کہے کہ اسکی دل کی نیت نیک تھی تو اس بات کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا۔

یہ ایک بہت آسان سا فرق ہے۔ مگر "انسانی معاملات" کو بنیاد بنا کر رسول اللہ ص کی حدیث کا الٹ ثابت کرنے کی کوشش کرنا بہت بڑی غلطی ہے۔

ام المومنین حضرت عائشہ اور انکی بہن حضرت اسماء، اور ام المومنین حضرت ام سلمہ کا "نیت" پر مبنی عبادتی عمل
پہلے یہ دو روایات دیکھیں، اور پھر بتلائیں کہ کیا اس پر آپ ظاہر کی بنیاد پر حکم لگائیں گے:
پہلی روایت:
صحیح مسلم، کتاب اللباس و زینت:
حضرت اسماء کے مولیٰ عبداللہ سے روایت ہے کہ حضرت اسماء بنت ابی بکر نے کسروانی طیلسان کا جبہ نکالا جس کے گریبان اور چاکوں پر ریشم کا کپڑا لگا ہوا تھا۔ کہنے لگیں: یہ حضرت عائشہ کے پاس تھا۔ جب وہ فوت ہوئیں تو یہ جبہ میرے قبضے میں آ گیا۔ نبی کریم ﷺ اس کو پہنتے تھے۔ اور اب ہم بیماروں کہ لیے اس کو دھوتے ہیں اور اس (پانی) سے بیماروں کے لیے شفاء طلب کرتے ہیں
صحیح بخاری، کتاب اللباس:
ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا کہا ہم سے اسرائیل نے، انہوں نے سلیمان بن عبدااللہ وہب سے کہا مجھ کو میرے گھر والوں نے ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک پیالی پانی کی دے کر بھجوایا، اسرائیل راوی نے تین انگلیاں بند کر لیں۔ یہ پیالی چاندی کی تھی۔ اس میں آنحضرتﷺ کے کچھ بال ڈال دئے گئے۔ عثمان نے کہا کہ جب کسی شخص کو نظرِ بد لگ جاتی تھی یا اور کوئی بیماری ہوتی تو وہ اپنا کنگھال (برتن) پانی کا بی بی ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجتا (اور بی بی ام سلمہ رسول ﷺ کے بالوں سے مس کیا ہوا پانی اس میں ڈال دیتیں)۔ عثمان نے کہا میں نے اس کو جھانک کر دیکھا تو سرخ سرخ بال دکھائی دئیے
کیا اب بھی کوئی ام المومنین جنابِ عائشہ اور ان کی صحابیہ بہن (ابو بکر کی بیٹی) اسماء بنت ابی بکر اور ام المومنین حضرت ام سلمہ کی گواہی کو جھٹلا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ تو ایک طرف، آپ ﷺ کا کرتہ اور آپ ص کے بال تک اتنے بابرکت تھے کہ مدینے کے صحابہ بیماری کی حالت میں اس سے شفا حاصل کرتے تھے (حالانکہ بیماری سے شفا دینا اصل میں اللہ کا کام ہے۔)

  • کیا ام المومنین عائشہ اور اسماء بنت ابی بکر نے رسول اللہ ﷺ کے اس جبہ سے فائدہ طلب کر کے اس کو اللہ کا شریک بنا دیا؟
  • اور انہوں نے اللہ سے براہ ِراست بیماری سے شفا کیوں نہیں مانگ لی؟

خود سوچیے کہ جب انہوں نے جبہ سے بیماری کے خلاف مدد طلب کی تو کیا یہ مدد حقیقی معنوں میں تھی؟ یا پھر انہوں نے یہ مدد حقیقی معنوں میں اللہ سے ہی طلب کی تھی اور جبہ سے مدد مانگنے کا مطلب صرف اور صرف یہ تھا کہ اس کے وسیلے سے رسول اللہ ﷺ کی برکت بھی شامل ہو جائے جس کے بعد اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کی مقبولیت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں؟
انتہائی اہم اصول: ظاہری عمل بمقابلہ چھپی ہوئی نیت


اگرچہ کی جنابِ عائشہ اور اسماء بنت ابی بکر نے رسول ﷺ کے جبہ سے شفا طلب کرتے ہوئے اللہ کا نام تک نہیں لیا، مگر پھر بھی تمام مسلمان (بشمول برادران اہلحدیث) یہ یقین رکہتے ہیں کہ ان دونوں نے ایسا کر کے شرک نہیں کیا ہے۔
اس قسم کے اعمال کو سمجھنے کے دو طریقے ہیں:
  • ظاہری عمل کی بنیاد پر فتویٰ دینا کہ شفا حقیقی معنوں میں رسول ﷺ کے جبہ سے طلب کی جا رہی تھی اور شرک کیا جا رہا تھا۔
  • عمل کے پیچھے چھپی ہوئی باطنی نیت کو دیکہنا جو یہ بتا رہی ہے کہ جبہ سے شفا کے لیے مدد مانگنا مجازی معنوں میں تھا اور اصل مدد حقیقی معنوں میں اللہ سے ہی طلب کی جا رہی تھی۔ اور یہ باطنی نیت وہ چیز ہے جسے عمل کے ظاہر پر فوقیت حاصل ہے اور ہر عمل کا دار و مدار اس کے ظاہر پر نہیں ہے بلکہ اس کی نیت پر ہے۔

اسی لئے رسول ﷺ نے فرمایا:

اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے

مگر آج ایک طبقے نے اسکا بالکل الٹ کیا اور یہ عقیدہ گھڑا کہ:

اعمال کا دارومدار اُن کے ظاہر پر ہے
 

مہوش علی

لائبریرین
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسی معظم و مکرم ہستی بنی نوع انسان میں آج تک آئی نہ آئے گی۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود کو سجدہ نہیں کروایا اور نہ انسان کو سجدہ کرنے کو جائز قرار دیا تو پھر بحث کاہے کی؟
کیا اسلام کا کوئی پہلو تشنہ رہ گیا تھا کہ جس کی ان تعظیمی سجدوں میں تکمیل کی جا رہی ہے؟۔ بغیر کسی معذرت اور ہچکچاہٹ کے میں ان کو غیر شرعی افعال کہوں گا جو گناہ کے زمرے میں آتے ہیں۔ ہمیں اس قسم کی باتوں سے بچنا چاہئیے کہ ہمارا آج کا "تعظیمی سجدہ" آنے والے کل کا "معبودی سجدہ" نہ بن جائے۔
سجدہ ، عبادت کا ایک اہم رکن ہے اور یہ سوائے اللہ کے کسی اور کے آگے نہیں کیا جا سکتا، خواہ تعظیمی ہو یا حقیقی۔

میں ساجد صاحب کے سوال کے ساتھ ساتھ اس تھریڈ کے متعلق اپنے ریمارکس درج کر رہی ہوں۔

1۔ اختلاف رائے اگرچہ کہ ہمیں قابل قبول ہے۔ لیکن اس تھریڈ میں کم از کم ہاتھ و پاؤں چومنے کے حرام ہونے کے متعلق فریق مخالف کی طرف سے "ایک بھی دلیل" پیش نہیں کی گئی ہے۔
ہمارا اصل مسئلہ کیا ہے؟ کیا اصل مسئلہ طاہر القادری صاحب کی شخصیت پر اعتراض کرنا ہے یا پھر اصل مسئلہ قرآن و سنت کو سمجھنا ہے؟
میرے نزدیک اصل مسئلہ "سب سے پہلے" قرآن و سنت کی روشنی میں ان مسائل کو سمجھنا تھا اور ان سے دلائل لانے تھے۔ بہرحال۔۔۔۔۔

2۔ بغیر کوئی دلیل پیش کیے فریق مخالف اس چیز کو شرکیہ جہالت کہہ تو رہا ہے، اور ان عبادتی افعال اور تعظیمی افعال کے درمیان فرق کو سمجھنے سے گریزاں تو ہے (بلکہ تعظیم کا سرے سے توحید کے نام پر انکار کرنے کی روش اپنائی ہوئی ہے) مگر ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچئیے تو یہ چیز آپ کو دو رخا رویہ اختیار کرنے پر مجبور کر دے گی (یعنی آج تعظیمی افعال پر آپ ہمارے اوپر تو شرکیہ جہالت کا الزام لگائیں گے، مگر یہی چیز جب پلٹ کر رسول اللہ ص اور صحابہ و سلف پر جائے گی تو آپ لوگ مسلسل نظریں چرانے کے کچھ نہ کر سکیں گے)
میری اچھی نصیحت آپ کو یہ ہی ہو گی کہ:
۔ عبادتی افعال کے نام پر آپ اللہ تعالی کی شریعت میں اللہ کی جانب سے حلال کیے جانے والی تعظیمی افعال کو خود سے حرام نہ بنائیے، بلکہ عبادت اور تعظیم میں فرق کیجئے۔
۔ اور آجکل کو چھوڑیں، صرف اس سوال پر غور کریں کہ اللہ تعالی نے یہ تعظیمی سجدہ شروع ہی کیوں کروایا تھا؟ کیا آپ لوگوں نے کبھی اس سوال پر غور کیا؟ کیا آپ کے پاس اسکا کوئی جواب ہے؟

۔ اللہ تعالی کا نظام ہے کہ وہ اپنی عبادت کے ساتھ ساتھ چاہتا ہے کہ شعائر اللہ کی تعظیم بھی ہو۔ جو چیز بھی اللہ سے منسوب ہو جاتی ہے، وہ شعائر اللہ بن جاتی ہے اور اسکی بے حرمتی کرنا منع ہو جاتا ہے (حتی کہ قرآن میں حج کے دوران لائے جانے والے قربانیوں کے جانوروں تک کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ شعائر اللہ بن گئے اور انکی بے حرمتی نہ کرو۔ اس بے حرمتی نہ کرنے کے مزید احکامات آپکو تفاسیر اور دیگر کتب میں مل جائیں گے)۔

۔ "ذکر" اللہ کا ہے۔ بلاشبہ اس میں کوئی شک نہیں۔ مگر ایک متوازی تھریڈ میں ایک صاحب نے اللہ کے علاوہ کسی اور کی تعریف کرنے کو اُسکی عبادت کرنا قرار دیا ہے۔
اللہ تعالی اسی قرآن میں رسول اللہ ص کے متعلق فرما رہا ہے کہ "و رفعنالک ذکرک" کہ اے رسول ہم نے تمہارا ذکر بلند کیا ہے۔
اب بتلائیے کہ ہم قرآن میں موجود اللہ کے حکم کو مانیں یا پھر کچھ شکوک و شبہات میں گھرے اذہان کے پیش کردہ شریعت کو جس میں بہت سے حلال اللہ کو اپنی طرف سے توحید کے نام پر حرام کر دیا گیا ہے؟

۔ اور آخر میں ایک بات اور۔ کیا آپ کو یاد ہے جب رسول اللہ ص اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ بطور تاجر سفر پر تھے اور راہب بحیرہ نے رسول اللہ ص کو دیکھ کر بطور نمائندہ اللہ پہچان لیا تھا اور نشانیوں میں بتلایا تھا کہ وہ چرند پرند و درختوں کو دیکھ رہا ہے کہ وہ رسول اللہ ص کے سامنے سجدہ تعظیمی میں جھکے ہوئے ہیں۔
سجدہ تعظیمی شریعت محمدیہ میں مسلمانوں کے لیے تو حرام قرار دیا گیا ہے، مگر دنیا کی باقی مخلوقات پھر بھی رسول اللہ کے آگے تعظیم میں سجدہ ریز رہیں۔

۔ ایک حدیث رسول کہتی ہے کہ سجدہ تعظمیمی حرام ہے تو ہم اور آپ آگے بڑھ کر اسے مان لیتے ہیں۔
۔ مگر جب حدیث رسول کہتی ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے تو آپ کو اسے ماننے میں پس و پیش ہے۔ کیوں؟
۔ پھر یہی حدیث رسول کہتی ہے کہ تعظیم کے بقیہ افعال ہاتھ وغیرہ چومنا حلال ہیں تو پھر آپ اسکو ماننے میں تذبذب ہیں۔ کیوں؟

طاہر القادری صاحب کی ویڈیو میں مجھے ذاتی طور پر قدم بوسی کے معاملے سے زیادہ اختلاف لوگوں کے اُس طرح ناچنے اور دھمال ڈالنے پر ہوا تھا۔ اگر اس پر آپ نے اعتراض کیا ہوتا تو شاید میں آپکی ہمنوا ہوتی۔ مگر جس غلط طریقے سے طاہر القادری صاحب پر قدم بوسی کے نام پر شرکیہ افعال کے الزامات لگائے گئے ہیں، میں ان سے اپنی براۃ ظاہر کرتی ہوں کیونکہ مجھے اللہ کے بنائے ہوئے نظام میں اسکی مرضی سے عمل کرنا ہے، نہ کہ "توحید" کے نام پر اللہ کی شریعت کے حلال کو حرام بنانا ہے۔
 

ساجد

محفلین
میں ساجد کی بات سے مکمل اتفاق کروں گا۔ جیسا کہ اس نے کہا کہ آج سجدہ تعظیمی ہے آگے جاکر یہ سجدہ معبودی کی شکل اختیار کر لے گا۔ جیسا کہ میں نے بھی بذات خود ہر مزار پر دیکھا ہے۔ اس سے احتیاط ہی ہمارے آگے آنے والی نسلوں کے لئے بہتر ہوگا۔ کیوں کہ پہلے ہی سے حالات ایسے پیدا کیئے جاچکے ہیں کہ کوئی مولانا۔ مفتی صاحبان کے پاس جانے سے بھی لوگ کترانے لگے ہیں۔ آج کترا رہے ہیں کل برا بھلا بھی کہنےسے گریز نہیں کریں گے۔ اور اس کے بعد اللہ ہی حافظ۔
برادر عزیز ، میں نے حق الیقین سے نہیں کہا کہ یہ سجدہ تعظیمی آنے والے کل کو سجدہ معبودی بن سکتا ہے۔
میں نے عرض کیا تھا، " ہمیں اس قسم کی باتوں سے بچنا چاہئیے کہ ہمارا آج کا "تعظیمی سجدہ" آنے والے کل کا "معبودی سجدہ" نہ بن جائے
آپ کا خلوص و ایقان اپنی جگہ پہ بجا لیکن ہمارے چند ساتھی میری بات سے مختلف نقطہ نظر بھی رکھتے ہیں لہذا الفاظ کی ذرا سی تبدیلی بھی مفہوم میں گڑ بڑ پیدا کر سکتی ہے۔
ہاں میرا مؤقف یہ ہے کہ سجدہ ، سجدہ ہوتا ہے اور ہم اپنے رب کے سامنے اس کی تعظیم کے لئیے ہی جھکتے (سجدہ کرتے) ہیں ۔ اس میں تعظیمی و غیر تعظیمی کی بحث کا میں مکلف نہیں ہوں۔
انسانوں کی تکریم و تعظیم مقصود ہو تو ان کا ماتھا چوما جاتا ہے ، سر چوما جاتا ہے ، گلے مِلا جاتا ہے، اور ہاتھوں پہ بوسہ دیا جاتا ہے لیکن سجدہ تعظیم کے اظہار کا ذریعہ نہیں ہے۔ یہ اشتباہ پیدا کرتا ہے۔
 

باذوق

محفلین
اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے
یہ رسول اللہ ص کی اپنی زبانی بیان کردہ حدیث ہے۔ سوال: کیا رسول ص کی یہ حدیث منسوخ ہو چکی ہے؟
مجھے پہلی حیرت کا سامنا اُس وقت کرنا پڑا جب باذوق صاحب نے اس حدیث رسول ص کا الٹا ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اعمال کا دارومدار "نیت" پر نہیں بلکہ "ظاہر" پر ہے۔ اور ثبوت کے طور پر حضرت عمر کی ایک روایت پیش کی جس میں آپ دوسرے انسانوں سے معاملات پر ظاہر کی بنیاد پر حکم لگا رہے تھے۔
میں نے اُس وقت بھی باذوق صاحب کو یہ فرق واضح کیا تھا کہ دنیا کے کسی انسان کی روایت رسول اللہ ص کی کسی حدیث کی ناسخ نہیں ہو سکتی۔ اور پھر انہیں واضح کیا تھا کہ رسول اللہ ص کی حدیث اور حضرت عمر کی روایت میں کیا بنیادی فرق ہے اور کیوں یہ ایک دوسرے کے مخالف نہیں ہیں۔ (میں آگے اس فرق کو پھر بیان کروں گی تاکہ واضح ہو سکے کہ حضرت عمر کی روایت کا حدیث رسول سے کوئی ٹکراؤ نہیں)
اور آج پھر دوبارہ میں باذوق صاحب کی طرف سے اس حدیث رسول پر بعینہ وہی اعتراض اس شکل میں دیکھ رہی ہوں جب وہ طلاق کے مسئلے کو بنیاد بنا کر رسول ص کی اس حدیث کا الٹا ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
[/b]
مہوش ! آپ یقیناً میری بات کو غلط کوٹ کر رہی ہیں۔
لیکن خیر ۔۔۔۔۔ میں اس پر احتجاج بھی نہیں کروں گا ، کیونکہ مجھے ہی نہیں یہاں تقریباً سب کو علم ہے کہ آپ جب جذباتی ہوتی ہیں تو کیا کیا غلطیاں کر جاتی ہیں۔ :)

یہاں دیکھئے ! میں نے یوں لکھا تھا :
اعمال کا دارومدار نیت پر ہے:
اگرچہ یہ بات سو فیصد درست ہے ، تاہم اس کا مطلب وہ نہیں جو یہاں باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
وجہ یہ ہے کہ ۔۔۔۔۔
بعض اعمال ایسے ہوتے ہیں کہ جن میں نیت کچھ بھی ہو ، ہمیشہ ظاہر کو ہی دیکھا جاتا ہے۔ مثلا ً طلاق دینے والے کی نیت چاہے کچھ بھی کیوں نہ ہو۔ حتیٰ کہ اگر اس کی نیت طلاق دینے کی نہ بھی ہو، صرف ہنسی مذاق کے طور پر ہی وہ طلاق کے الفاظ کہہ دے تو طلاق ہو جاتی ہے۔
ثابت ہوا کہ "انما الاعمال بالنیات" طلاق کے مسئلے میں لاگو نہیں ہے۔

جبکہ آپ یوں میرے ذمے سارے ہی اعمال لگا رہی ہیں
جب باذوق صاحب نے اس حدیث رسول ص کا الٹا ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اعمال کا دارومدار "نیت" پر نہیں بلکہ "ظاہر" پر ہے۔

مزید ، آپ نے لکھا ہے :
ایمان و عبادات اور انسانوں سے معاملات میں فرق
ایمان و عبادت اللہ سے براہ راست بندے کا معاملہ ہے۔
جہاں تک حضرت عمر کی روایت کا تعلق ہے، یا پھر میاں بیوی میں طلاق کا مسئلہ ہے، تو اسکا تعلق اللہ سے براہ راست نہیں بلکہ یہ انسانوں کے مابین "معاملات" کا مسئلہ ہے۔ اور معاملات میں "نیت" نہیں چلتی بلکہ اس میں ظاہر کی بنیاد پر حکم لگایا جاتا ہے۔ اگر کوئی کسی کو قتل کر دے اور کہے کہ اسکی دل کی نیت نیک تھی تو اس بات کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا۔
ایمان تو تب تک مکمل نہیں ہوگا جب آپ دل کی نیت کے ساتھ زبان سے بھی اقرار نہ کریں۔ زبان سے اقرار کرنا کیا آپ کا اپنا ظاہری عمل نہیں ہوگا جو سارے لوگ دیکھیں / سنیں گے؟
عبادات میں بھی ظاہری اعمال کی اہمیت ہوگی جیسا کہ فرمانِ نبوی ہے :
اللہ تمہارے دلوں اور عملوں کو دیکھتا ہے ۔
صحیح مسلم ، كتاب البر والصلة والآداب ، باب : تحريم ظلم المسلم وخذله واحتقاره ودمه وعرضه وماله ، حدیث : 6708

نماز میں رکوع ، سجود ، قیام ۔۔۔۔۔ کیا یہ سب ظاہری اعمال نہیں ہیں؟ کوئی کسی جگہ ہاتھ باندھے ٹھہرے رہے تو اس کو بھی آپ نمازی کہیں گی اور اس فرد کو بھی جو نماز کے ظاہری ارکان کے ساتھ نماز ادا کر رہا ہو؟؟

اگر کسی بندے کے مذہب کا آپ کو علم نہ ہو اور اگر وہ کسی مندر میں بتوں کے آگے سجدہ ریز نظر آئے تو آپ اس کو "مشرک" اس کے ظاہری عمل کو دیکھ کر کہیں گی یا اس سے اس کے دل کی نیت کو جان کر؟؟

باقی آپ جو تبرکات کی مثالیں ایک عرصہ دراز سے پیش کرتی آ رہی ہیں ۔۔۔۔۔ اس کا ہزار بار جواب دے چکا ہوں میں۔ آپ تبرکاتِ نبوی کو دلیل نہ بنائیں۔ معجزات کبھی شرعی قوانین کی بنیاد نہیں بنتے۔ اگر بنتے تو پھر بئر معونہ کے ستر قاری شہید نہ ہوتے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جبہ مبارک کا ایک ایک ٹکڑا اپنی اپنی بانہہ پر باندھ کر جاتے۔
تبرکات کا معاملہ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ خاص تھا۔ علامہ البانی علیہ الرحمة کا درج ذیل قول میں پہلے بھی یہاں دے چکا ہوں اور اس پر ہم تفصیل سے بات کر چکے ہیں لہذا یہ ایشو یہاں اٹھائیں ہی مت۔
اس بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آثار سے تبرک حاصل کرنا ہمارے نزدیک جائز ہے اور ہم اس کا انکار نہیں کرتے ہیں جیسا کہ بعض لوگ ہمارے بارے میں گمان کرتے ہیں۔ لیکن اس تبرک کے لیے کچھ شرطیں ہیں ، ان میں سے ایک شرط یہ ہے کہ ایمان شرعی ہو ، لہذا جو سچا مسلمان نہیں ہوگا اللہ تعالیٰ اس کو اس تبرک سے کوئی چیز عطا نہیں کرے گا۔
دوسری شرط یہ ہے کہ تبرک کا طلب کرنے والا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آثار میں سے کسی اثر کو حقیقت میں پا جائے اور اس کو استعمال کرے ، لیکن ہم یہ بات جانتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) کے آثار جیسے کہ کپڑا ، بال وغیرہ مفقود ہیں اور کوئی یقین کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کپڑا یا بال ہے۔ لہذا ان آثار سے اس زمانے میں تبرک حاصل کرنا بےمعنی اور بےموضوع بات ہے اور یہ صرف ایک خیالی معاملہ ہے ، لہذا اس بارے میں مزید گفتگو مناسب نہیں !
 

باذوق

محفلین
السلام علیکم

اس تھریڈ کے مراسلہ نمبر:11 میں ایک عنوان یوں دیا گیا ہے :
ابن حجر العسقلانی قدم بوسی کے موضوع پر
اور اس کے بعد اس سائیٹ (Kissing the hand of a scholar is Sunna) کا مواد یوں نقل کیا گیا ہے :
***
Umar Ibn Khattab kneeling down in front of Rasool Allah (saw)


Tabari narrates it mursal [missing the Companion-link] through al-Suddi in his Tafsir in commenting on verse 5:101:

"Do not ask of things which once shown to you would hurt you" with the wording: "`Umar ibn al-Khattab got up and kissed the foot of Allah's Messenger and said: O Messenger of Allah, we are pleased with Allah as our Lord, with Islam as our religion, and with Muhammad as our Prophet, and with the Qur'an as our Book. Forgive, and Allah will forgive you (fa`fu `afallahu `anka). And he did not cease until the Prophet softened."

The hadith is established as authentic by the following narrations in Bukhari's Sahih:

al-Zuhri said: Anas bin Malik told me: The Prophet came out after the sun passed the mid-point of the sky and offered the Zuhr prayer (in congregation). After finishing it with Taslim, he stood on the pulpit and mentioned the Hour and mentioned there would happen great events before it. Then he said, "Whoever wants to ask me any question, may do so, for by Allah, you will not ask me about anything but I will inform you of it as long as I am at this place of mine." The people were weeping profusely (because of the Prophet's anger). Allah's Apostle kept saying, "Ask Me! " Then a man got and asked, ''Where will my entrance be, O Allah's Apostle?" The Prophet said, "The Fire." Then `Abd Allah ibn Hudhafa got up and asked, "Who is my father, O Allah's Apostle?" The Prophet replied, "Your father is Hudhafa." The Prophet then kept on saying (angrily), "Ask me! Ask me!" `Umar then fell to his knees and said,"We have accepted Allah as our Lord and Islam as our religion and Muhammad as our Apostle." Allah's Apostle became quiet when `Umar said that. Then Allah's Apostle said, "Woe! By Him in Whose Hand my life is, Paradise and Hell were displayed before me just now, across this wall while I was praying, and I never saw such good and evil as I have seen today."

Bukhari narrates it in the third chapter of Kitab al-i`tisam bi al-kitab wa al-sunna, entitled:

"What is disliked in asking too many questions, and those who take on what does not concern them, and Allah's saying: "Do not ask about things which once shown to you would hurt you" (5:101)"
English: Sahih Bukhari, Volume 9, Book 92, Number 397

The Sahih contains other versions of this hadith such as in Kitab al-`ilm, chapter 28:

"On anger during exhortation" and chapter 29: "On kneeling before the Imam or muhaddith."
English: Sahih Bukhari, Volume 1, Book 3, Number 90-93

And in Kitab mawaqit al-salat, chapter 11:

"The time of Zuhr is after the sun passes the zenith."
Sahih Bukhari, Volume 1, Book 10, Number 515

Ibn Hajar in his commentary on the collated accounts of this hadith says (Fath al-Bari 1989 ed. 13:335):

"There is in this hadith [evidence for]:

* the Companions' acute observation of the states of the Prophet and the intensity of their fear when he became angry, lest it result in a matter that would become generalized and extend to all of them;
* `Umar's confidence in the Prophet's love (idlal);
* the permissibility of kissing the foot of a man;
* the permissibility of anger in exhortation;
* the student's kneeling in front of the one who benefits him;
* the follower's kneeling before the one followed if he asks him for a certain need;
* the lawfulness of seeking refuge from dissension when something occurs which might result in its foreshadowings;
* the use of pairing [subjects] in du`a in his words: Forgive, and Allah will forgive you (fa`fu `afallahu `anka)."
***
اس کے بعد سسٹر مہوش علی "میرا سوال" کے عنوان کے تحت یوں رقمطراز ہیں :
ہم لوگوں نے بات شروع کی تھی "طاہر القادری صاحب سے پرخاش نہیں" اور اللہ کے نام پر انصاف کرنا ہے۔
میرا سادہ سا سوال یہ ہے کہ آپ اب امام ابن حجر العسقلانی پر وہ الزام کیوں نہیں لگا رہے جو کہ آپ نے طاہر القادری صاحب پر اوپر لگایا ہے؟

امام ابن حجر العسقلانی Ultimate Hadith Master سمجھے جاتے ہیں (حافظ حدیث)۔ اب یہ نہ کیجئے گا کہ انکا رتبہ گرانا شروع کر دیں کیونکہ انکا فتوی ہماری تمناؤں کے خلاف ہے۔ بلکہ سمجھئے کہ وہ کون سی وجوہات ہیں جس کی بنا پر وہ یہ اجتہاد فرما رہے ہیں۔
سب سے پہلے تو میری ادباً گذارش ہے کہ کاپی پیسٹ کرنے والوں کے پاس اگر تحقیق کے لیے وقت اور قوت میسر نہیں ہے تو اپنا فلسفہ بیان کرنے سے قبل کم سے کم حوالہ دی گئی کتاب سے اصل متن ہی چیک کرنے کی زحمت اٹھا لیا کریں۔ اس طرح وہ کم سے کم بند آنکھوں کی تقلید کے الزام سے تو بچ جائیں گے۔

خیر۔ قارئین سے میری گذارش ہے کہ بالا اقتباس میں ذرا غور سے شیخ ھشام کی تحقیق سلسلہ وار ملاحظہ فرمائیں۔
1: سب سے پہلے شیخ محترم نے طبری کی مرسل روایت پیش کی
2: اس کے بعد یوں لکھا :
The hadith is established as authentic by the following narrations in Bukhari's Sahih
3: پھر صحیح بخاری کی کتاب الاعتصام ، کتاب العلم اور کتاب مواقیت الصلاة سے احادیث پیش کیں۔
4: اختتام پر یوں نتیجہ برآمد کیا :
Ibn Hajar in his commentary on the collated accounts of this hadith says (Fath al-Bari 1989 ed. 13:335):
5: اور سب سے آخر میں وہ 8 مسائل ذکر کئے جو کہ بقول مہوش علی ، ابن حجر عسقلانی کا فتویٰ ہیں۔

فتح الباری کوئی معمولی کتاب نہیں کہ نیٹ پر مل نہ سکے۔ اس ربط پر فتح الباری کا وہ مواد ملاحظہ فرمائیں جس کا حوالہ شیخ ھشام نے دیا ہے :
[ARABIC]قوله ‏(‏فقال‏:‏ انا نتوب الى الله عز وجل‏)‏ زاد في رواية الزهري ‏"‏ فبرك عمر على ركبته فقال‏:‏ رضينا بالله ربا وبالاسلام دينا وبمحمد رسولا ‏"‏ وفي رواية قتادة من الزيادة ‏"‏ نعوذ بالله من شر الفتن ‏"‏

وفي مرسل السدي عند الطبري في نحو هذه القصة ‏"‏ فقام اليه عمر فقبل رجله وقال‏:‏ رضينا بالله ربا‏"‏‏.‏
فذكر مثله وزاد ‏"‏ وبالقران اماما، فاعف عفا الله عنك فلم يزل به حتى رضي ‏"‏
وفي هذا الحديث غير ما يتعلق بالترجمة،
مراقبة الصحابة احوال النبي صلى الله عليه وسلم وشدة اشفاقهم اذا غضب، خشية ان يكون لامر يعم فيعمهم، وادلال عمر عليه، وجواز تقبيل رجل الرجل، وجواز الغضب في الموعظة، وبروك الطالب بين يدي من يستفيد منه، وكذا التابع بين يدي المتبوع اذا ساله في حاجة، ومشروعية التعوذ من الفتن عند وجود شيء قد يظهر منه قرينة وقوعها، واستعمال المزاوجة في الدعاء في قوله ‏"‏ اعف عفا الله عنك ‏"‏ والا فالنبي صلى الله عليه وسلم معفو عنه قبل ذلك‏.‏
[/ARABIC]
امام زھری کی روایت جس میں انہوں نے کہا :
[ARABIC]فبرك عمر على ركبته فقال‏:‏ رضينا بالله ربا وبالاسلام دينا وبمحمد رسولا[/ARABIC]
حضرت عمر نے دو زانو ہو کر عرض کیا : ہم اللہ کے رب ہونے پر ، اسلام کے دین ہونے پر اور محمد کے نبی ہونے پر راضی ہیں
صحیح بخاری کتاب الاعتصام میں یہاں دیکھئے
اور قتادہ کے الفاظ :
[ARABIC]نعوذ بالله من شر الفتن[/ARABIC] (ہم اللہ کی پناہ چاہتے ہیں فتنوں کے شر سے)
صحیح بخاری کتاب الفتن میں یہاں دیکھیں۔

اس کے بعد امام ابن حجر العسقلانی لکھتے ہیں :
اسی کے ساتھ ملتا جلتا مرسل واقعہ طبرانی میں بھی السدی کے حوالے سے موجود ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو ئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں کو چوما اور کہا کہ ہم اللہ کے رب ہونے پر راضی ہو گئے ۔۔۔
اور مزید کہا کہ قرآن کے امام ہونے پر (راضی ہو گئے) آپ مجھ سے درگزر فرمائیے اللہ آپ سے درگزر فرمائے گا ۔ اسی حالت میں ہی رہے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم راضی ہوگئے ۔

[ARABIC]وفي هذا الحديث غير ما يتعلق بالترجمة[/ARABIC]
اور اس حدیث میں جو باتیں ترجمة الباب سے متعلقہ نہیں ہیں وہ یہ ہیں:
[ARABIC]مراقبة الصحابة احوال النبي صلى الله عليه وسلم وشدة اشفاقهم اذا غضب، خشية ان يكون لامر يعم فيعمهم، [/ARABIC]
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع رہنا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصے ہو جائیں تو انکا بہت زیادہ ڈرنا کہ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ کسی عمومی کام کی بناء پر نہ ہو جسکی بنا پر وہ سب سے ناراض ہو جائیں۔
[ARABIC]وادلال عمر عليه، [/ARABIC]
عمر رضی اللہ عنہ کا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کو منانے کی جراءت کرنا
[ARABIC]وجواز تقبيل رجل الرجل، [/ARABIC]
اور قدم بوسی کا جائز ہونا۔
[ARABIC]وجواز الغضب في الموعظة، [/ARABIC]
وعظ کے دوران غضبناک یا جذباتی ہونے کا جواز۔
[ARABIC]وبروك الطالب بين يدي من يستفيد منه، [/ARABIC]
طالب علم کا استاذ کے سامنے ادب کے ساتھ دو زانو ہونا۔
[ARABIC]وكذا التابع بين يدي المتبوع اذا ساله في حاجة،[/ARABIC]
اسی طرح جب ماتحت کسی ضرورت کے بارے میں سوال کرے تو اپنے متبوع کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھے
[ARABIC]ومشروعية التعوذ من الفتن عند وجود شيء قد يظهر منه قرينة وقوعها، [/ARABIC]
مستحب ہے فتنوں سے پناہ طلب کرنا جب کوئی ایسی چیز وجود میں آئے جس سے فتنے کے واقع ہونے کا قرینہ ملے
[ARABIC]واستعمال المزاوجة في الدعاء في قوله ‏"‏ اعف عفا الله عنك ‏"‏ والا فالنبي صلى الله عليه وسلم معفو عنه قبل ذلك‏.‏[/ARABIC]
دعا میں دونوں جانبین کا ذکر کرنا جیسا کہ عمر کا کہنا " اُعْفُ عَفَا اللَّه عَنْك " ورنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو پہلے ہی معفو یعنی بخشے ہوئے ہیں۔

اب فتح الباری کی اوپر والی اصل عبارت کو غور سے دیکھیں اور بتائیں کہ وہ الفاظ کہاں ہیں جس کے ترجمے کے طور پر شیخ ھشام نے یوں لکھا :
The hadith is established as authentic by the following narrations in Bukhari's Sahih:
( یہ حدیث بخاری کی ذیل کی روایات کی بنا پر مصدقہ قرار پاتی ہے )

جبکہ فتح الباری میں تو امام عسقلانی کے الفاظ صرف اتنے ہیں :
[ARABIC]وفي مرسل السدي عند الطبري في نحو هذه القصة[/ARABIC]
اسی کے ساتھ ملتا جلتا مرسل واقعہ طبرانی میں بھی السدی کے حوالے سے موجود ہے

اس بات پر بھی غور کریں کہ امام عسقلانی نے پہلے بخاری کی روایات پیش کیں پھر لکھا کہ اس سے ملتا جلتا مرسل واقعہ الطبری میں بھی ہے

جبکہ شیخ ھشام پہلے طبری کے مرسل واقعے کو پیش کر رہے ہیں اور اس کو معتبر و مستند قرار دینے کے لئے (شائد اپنی طرف سے) کہہ رہے ہیں :
The hadith is established as authentic by the following narrations in Bukhari's Sahih:

کیوں ؟؟
یقیناً اس لیے کہ شیخ ھشام کو معلوم ہے کہ محدثین اور محققین کے نزدیک "مرسل حدیث" ضعیف اور مردود ہوتی ہے۔ یہ علوم حدیث کا وہ عام سا اصول ہے جو ہر طالب علم جانتا ہے۔
یقین نہ آئے تو علوم حدیث پر محمود طحان کی کتاب دیکھ لیں ، جس کا سلیس اردو ترجمہ یہاں آن لائن مہیا کیا گیا ہے ، لکھا ہے :
مرسل حدیث کو مسترد کیا جائے گا۔ محدثین، فقہاء اور اصول فقہ کے ماہرین کی اکثریت کا یہی نقطہ نظر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں صحیح حدیث کی شرائط میں سے اتصال سند کی شرط موجود نہیں ہے۔ جو راوی حذف کیا گیا ہے، ہمیں اس کے حالات کا علم نہیں ہے۔ عین ممکن ہے کہ وہ صحابی نہ ہو اور ضعیف ہو۔

ممکن ہے ۔۔۔۔ کوئی اٹھ کر کہہ دے کہ :
مرسل حدیث صحیح ہے اور اس سے نتائج اخذ کیے جائیں گے۔ یہ تین بڑے ائمہ یعنی ابو حنیفہ، مالک اور احمد بن حنبل کا نقطہ نظر ہے۔

تو عرض ہے کہ ان تینوں ائمہ نے مرسل حدیث کی قبولیت اس شرط سے مشروط کی ہے کہ :
مرسل حدیث صرف ثقہ راوی سے ہی روایت کی گئی ہو۔

جبکہ امام عسقلانی طبری کی جو روایت پیش کر رہے ہیں وہ السدی سے مروی ہے۔ جرح و تعدیل کی کتب چھان لیجئے ، ہر جگہ آپ کو یہی لکھا ملے گا کہ السدی محدثین کے نزدیک دجال اور کذاب ہے۔

یہ سب بھی جانے دیں ۔۔۔ آئیے ذرا امام عسقلانی سے ہی معلوم کر لیتے ہیں کہ شیخ ھشام جس "مرسل روایت" کو امام صاحب کے حوالے سے "مستند (authentic)" قرار دینے کی عطیم ترین کوشش فرما رہے ہیں ، خود امام صاحب کے نزدیک "مرسل روایت" کیا معنی رکھتی ہے؟؟

حافظ ابن حجر العسقلانی نے علوم حدیث پر تحریر کردہ اپنے کتابچہ "نخبة الفكر في مصطلح اهل الاثر" میں مرسل روایت کو نہایت واضح طور سے "مردود" کہا ہے۔

اب اس کے بعد بھی کوئی مرسل روایت کو حافظ صاحب کے حوالے سے "مستند" قرار دینے کی کوشش کرے تو یہ بےشرمی اور ہٹ دھرمی ہی نہیں بلکہ ظلم ہے۔

آخر میں مہوش علی کے سوال کا جواب :
میرا سادہ سا سوال یہ ہے کہ آپ اب امام ابن حجر العسقلانی پر وہ الزام کیوں نہیں لگا رہے جو کہ آپ نے طاہر القادری صاحب پر اوپر لگایا ہے؟

امام ابن حجر العسقلانی Ultimate Hadith Master سمجھے جاتے ہیں (حافظ حدیث)۔ اب یہ نہ کیجئے گا کہ انکا رتبہ گرانا شروع کر دیں کیونکہ انکا فتوی ہماری تمناؤں کے خلاف ہے۔ بلکہ سمجھئے کہ وہ کون سی وجوہات ہیں جس کی بنا پر وہ یہ اجتہاد فرما رہے ہیں۔
محترمہ ! حافظ ابن حجر العسقلانی پر الزام ہم اس لیے نہیں لگاتے کہ انہوں نے ایسا کوئی فتویٰ دیا ہی نہیں جس کی بنیاد صحیح احادیث یا آثار پر ہو۔ اگر آپ کی نظر میں حافظ صاحب کا ایسا کوئی فتویٰ ہو جس کی بنیاد صحیح احادیث پر قائم ہوں تو براہ مہربانی پیش فرمائیں۔
اور یہ تو آپ کا ظلم ہے بچارے حافظ صاحب پر ، جو آپ زبردستی چند اقوال کو حافظ صاحب کے فتوے کے طور پر پیش کر رہی ہیں۔

جو محدث ، مرسل حدیث کو قابل احتجاج ہی نہ جانے ، وہ کیسے اس کی بنیاد پر فتویٰ دے سکتا ہے؟؟

ہاں یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ :
جو محدث کسی روایت کو ضعیف سمجھے ، وہ کیونکر اسے پیش کرتا ہے اور کیوں اس سے مسائل اخذ کرتا ہے؟ جیسا کہ پاؤں چومنے کی اس السدی والی روایت کا معاملہ ہے۔

تو اس کا جواب آسان ہے کہ یہ اکثر محدثین کا طرز ہے۔
جب بھی کوئی محدث کسی بھی حدیث پر کسی باب کا عنوان قائم کرتا ہے یا اس حدیث میں مذکور مسائل کا استنباط کرتا ہے تو اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں ہوتا کہ مستنبط شدہ مسائل یا ترجمة الباب اس محدث کا فتویٰ ہے۔
ذیل میں اس کی دو مثالیں ملاحظہ فرمائیں :

امام ابوداؤد علیہ الرحمة نے سنن ابی داؤد کی کتاب الطہارة میں ایک روایت یوں پیش کی ہے :
حضرت انس سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت الخلاء کو جاتے تو انگوٹھی نکال لیتے۔
اور اس روایت پر امام صاحب نے باب کا عنوان دیا ہے :
[ARABIC]باب الخاتم يكون فيه ذكر الله يدخل به الخلاء[/ARABIC]
باب : جس انگوٹھی پر اللہ کا نام ہو بیت الخلا میں اس کو نہ لے جائے

حالانکہ ۔۔۔۔ یہی حدیث بیان کرنے کے بعد امام ابو داؤد خود لکھتے ہیں :
یہ حدیث منکر ہے !

اسی طرح ۔۔۔ امام ترمذی علیہ الرحمة نے، جامع ترمذی کی کتاب الصیام میں ایک روایت یوں دی ہے:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کسی قوم کے ہاں مہمان بن کر پہنچے تو ان کی اجازت کے بغیر ہرگز روزہ (نفل) نہ رکھے۔
اور اس روایت پر امام صاحب نے باب کا عنوان دیا ہے :
[ARABIC]باب ما جاء فيمن نزل بقوم فلا يصوم إلا بإذنهم[/ARABIC]
باب : اس بیان میں کہ جو شخص کسی قوم میں اُترے تو ان سے پوچھے بنا روزہ نہ رکھے

مگر ۔۔۔۔ یہی حدیث بیان کرنے کے بعد امام ترمذی خود لکھتے ہیں :
یہ حدیث منکر ہے !

احکام کے جواز اور عدم جواز میں تفریق ، کسی باب کا اثبات اور دوسرے کا ردّ ، کسی روایت کے افضل یا غیر افضل ہونے کا بیان ۔۔۔۔۔۔ ایسی کئی دیگر وجوہات ممکن ہیں جن کے سبب ضعیف روایات پیش کی جاتی ہیں ، ان کے ابواب قائم کئے جاتے ہیں یا ان سے مسائل اخذ کئے جاتے ہیں۔

اب یہ تو ناقد یا طالب علم کی بصیرت پر منحصر ہے کہ وہ اپنے فہم سے اس بات کو سمجھے کہ :
جس دلیل سے قدم بوسی کا جواز نکلتا ہو یا اس سے دیگر مسائل اخذ کئے جا سکتے ہوں ، وہی روایت اگر پایہ ثبوت کو نہ پہنچے تو پھر یہ دلیل اور اس دلیل سے اخذ کئے جانے والے سارے ہی مسائل کالعدم ہیں !!

اور یہ کہنا کہ : کسی ضعیف روایت سے اخذ شدہ مسائل ، محدث کا اپنا فتویٰ ہوتا ہے ، اگر کہنے والے کی لاعلمی یا کم علمی نہیں تو پھر یہ درحقیقت محدثین کی عظیم خدمات پر رکیک اور واہیات الزام ہے !!
 
سنن ابوداؤد:جلد اول:حدیث نمبر 1656 حدیث مرفوع مکررات 2
عبید اللہ بن معاذ، کہمس، سیار، بن منظور، حضرت بہیسہ رضی اللہ عنہ اپنے والد کے متعلق روایت کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آپ کی خدمت میں حاضری کی اجازت چاہی جب آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قمیص اٹھا کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بدن مبارک چومنے لگے اور (جوش مسرت میں) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لپٹنے لگے پھر عرض کیا یا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ کیا چیز ہے جس کا روکنا درست نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پانی، اسکے بعد پھر پوچھا کہ یا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ کیا چیز ہے جسکا روکنا درست نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نمک، اسکے بعد پھر پوچھا کہ اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ کیا چیز ہے جسکا روکنا درست نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تو جتنی بھی نیکی کرے گا وہ تیرے حق میں بہتر ہی ہوگی۔

سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 81 حدیث مرفوع مکررات 2
عبید اللہ بن معاذ، کہمس، سیار بن منظور، بنی فزارہ، خاتون اپنے والد سے روایت کرتی ہیں کہ میرے والد نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت مانگی، اور اجازت ملنے کے بعد آپ کی قمیص مبارک کے اندر منہ داخل کیا اور آپ کے جسم مبارک کو چومنے اور چاٹنے لگا پھر کہنے لگے اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس چیز کا روکنا نا جائز ہے، فرمایا کہ پانی، پھر کہا اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ کون سی چیز ہے جس کا روکنا نا جائز ہے؟ آپ نے فرمایا کہ نمک پھر کہا کہ اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کون سی چیز روکنا جائز نہیں ہے؟ آپ نے فرمایا کہ تم جتنی بھی نیکی کرتے رہو اتنا ہی تمہارے لئے بہتر ہے۔

سنن نسائی:جلد سوم:حدیث نمبر 380 حدیث مرفوع مکررات 4
محمد بن العلاء، ابن ادریس، شعبہ، عمرو بن مرة، عبداللہ بن سلمہ، صفوان بن عسال سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے اپنے ایک ساتھی سے کہا کہ چلو اس نبی کے پاس چلیں (یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس چلیں)۔ دوسرے شخص نے کہا اس کو نبی نہ کہو کیونکہ اگر اس نے (یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے) سن لیا تو ان کی آنکھیں چار ہو جائیں گی (یعنی حد سے زیادہ خوش ہو جائیں گے اور کہیں گے کہ لو اب مجھ کو یہود بھی نبی تسلیم کرنے لگے۔ بہر حال) پھر وہ دونوں حضرات رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دریافت کیا کہ وہ نو آیات کیا ہیں (جو کہ خداوند قدوس نے حضرت موسیٰ کو عطا فرمائی تھیں جیسا کہ فرمایا گیا (وَلَقَد اٰتَینَا مُوسٰی تِسْعِ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم خداوند قدوس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اور چوری نہ کرو اور زنا نہ کرو اور خداوند قدوس نے جس جان کو حرام کیا ہے (یعنی جس کا خون حرام قرار دیا ہے) اس کو ناحق قتل نہ کرو اور تم بے قصور آدمی کو حاکم یا بادشاہ کے پاس نہ لے جا (اس کو ناحق سزا دلانے کے لیے) اور تم جادو نہ کرو اور سود نہ کھاؤ اور پاک دامن خاتون پر تہمت زنا نہ لگا اور جہاد کے دن راہ فرار اختیار نہ کرو (بلکہ دشمن کا جم کر مقابلہ کرو) یہ احکام نوہیں اور ایک حکم خاص تم لوگوں کے لیے ہے کہ تم ہفتہ والے دن ظلم زیادتی نہ کرو (مراد یہ ہے کہ وہ دن حرمت کا دن ہے اس کی پوری طرح عظمت برقرار رکھو) اور اس روز مچھلیوں کا شکار نہ کرو (کیونکہ ہفتہ کا دن یہود کے شکار کرنے کے واسطے مقرر کیا گیا تھا کتب تفسیر میں اس کی صراحت ہے) یہ باتیں سن کر ان دونوں یہودیوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں مبارک چوم لیے اور کہا کہ ہم شہادت دیتے ہیں کہ بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا تو پھر لوگ میری کس وجہ سے فرماں برداری نہیں کرتے؟ انہوں نے جواب دیا حضرت داؤد نے دعا فرمائی تھی کہ ہمیشہ ان کی اولاد میں سے ہی نبی بنا کریں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت داؤد کی اولاد میں سے نہیں ہیں یہ صرف ایک بہانہ تھا حضرت داؤد نے خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نبی ہونے کی خوش خبری دی ہے اور ہم کو اندیشہ ہے کہ اگر ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کریں گے تو یہود ہم کو قتل کر دیں گے۔

جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 629 حدیث مرفوع مکررات 4
ابوکریب، عبداللہ بن ادریس و ابواسامة، شعبة، عمرو بن مرة، عبداللہ بن سلمة، حضرت صفوان بن عسال فرماتے ہیں کہ ایک یہودی نے اپنے ساتھی سے کہا کہ چلو میرے ساتھ اس نبی کے پاس چلو۔ اس کے ساتھی نے کہا نبی نہ کہو کیونکہ اگر انہوں نے سن لیا تو خوشی سے ان کی آنکھیں چار ہو جائیں گی۔ وہ دونوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نو نشانیوں کے متعلق پوچھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا وہ یہ ہیں کہ اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، چوری نہ کرو، زنا نہ کرو، ایسے شخص کو قتل نہ کرو جسے قتل کرنا حرام ہے، بے قصور شخص کو حاکم کے پاس نہ لے جاؤ تاکہ وہ اسے قتل کرے (یعنی تہمت وغیرہ لگا کر) جادو نہ کرو، سود نہ کھاؤ، پاکباز عورت پر زنا کی تہمت نہ لگاؤ، کافروں سے مقابلہ کرتے وقت پیٹھ نہ پھیرو اور خصوصا اے یہودیو تمہارے لیے لازمی ہے کہ ہفتے کے دن حد سے تجاوز (یعنی ظلم و زیادتی) نہ کرو۔ راوی کہتے ہیں پھر انہوں (یعنی یہودیوں) نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ اور پاؤں چومے اور کہنے لگے کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پھر کون سی چیز تمہیں میری اتباع سے روکتی ہے۔ راوی کہتے ہیں انہوں نے کہا کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے اپنے رب سے دعا مانگی تھی کہ نبی ہمیشہ ان کی اولاد میں سے ہوں۔ ہمیں ڈر ہے کہ اگر ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کریں گے تو یہودی ہمیں قتل نہ کر دیں۔ مذکورہ بالا دونوں ابواب کی حدیثوں میں بوسہ کا تذکرہ آیا ہے جبکہ گذشتہ باب مصافحہ میں حضرت انس کی حدیث میں بوسہ کی ممانعت ہے۔ ممانعت اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فعل میں مطابقت یوں ہوگی کہ وہ بوسہ ممنوع ہے جو موجب فتنہ ہو یا شہوت کا اس میں شائبہ ہو اور وہ بوسہ جائز ہے جو بطور اعزاز و اکرام ہو۔ ہاتھ پاؤں چومنے کے بارے میں یہ ہے کہ پاؤں کا چومنا بالاتفاق مکروہ وغیرہ غیر درست ہے اور ہاتھ کا چومنا بھی مکروہ ہے لیکن متاخرین نے علماء اور صلحاء کا ہاتھ چومنے کی اجازت دی ہے۔ (درمختار)

مشکوۃ شریف:جلد اول:حدیث نمبر 53 مکررات 0
" حضرت صفواں بن عسال( صفوان بن عسال مرادی کی نسبت سے مشہور ہیں حضرت علی المرتضیٰ کے دور خلافت میں آپ کا انتقال ہوا۔) فرماتے ہیں کہ (ایک دن) ایک یہودی نے اپنے ایک (یہودی) ساتھی سے کہا کہ آؤ اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلیں! اس کے ساتھی نے کہا! انہیں نبی نہ کہو ، کیونکہ اگر انہوں نے سن یا (کہ یہودی بھی مجھے نبی فرماتے ہیں) تو ان کی چار آنکھیں ہو جائیں گی (یعنی خوشی سے پھولے نہیں سمائیں گے) بہر حال وہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نو واضح احکام کے بارہ میں سوال کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! کسی کو اللہ کا شریک نہ ٹھہراؤ، چوری نہ کرو، جس جان کو مار ڈالنا اللہ نے حرام قرار دیا ہے اس کا ناحق قتل نہ کرو، کسی بے گناہ کو قتل کرانے کے لیے ( اس پر غلط الزام عائد کر کے ) حاکم کے پاس مت لے جاؤ، جادو نہ کرو، سود نہ کھاؤ پاک دامن عورت کو (زنا کی) تہمت نہ لگاؤ، میدان جنگ میں دشمن کو پیٹھ نہ دکھاؤ اور اے یہودیو! تمہارے لیے خاص طور پر واجب ہے کہ یوم شنبہ کے معاملہ میں (حکم الہٰی سے) تجاوز نہ کرو، راوی فرماتے ہیں کہ (یہ سن کر) دونوں یہودیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پیر چوم لیے اور بولے ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم واقعی نبی ہیں۔ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، (جب تمہیں میری رسالت پر یقین ہے تو) میری اتباع سے تم کو کون سا امر مانع ہے؟ انہوں نے کہا: حقیقت یہ ہے کہ داؤد علیہ السلام نے اپنے رب سے دعا کی تھی کہ ان کی اولاد میں ہمیشہ نبی ہوا کرے لہٰذا ہم ڈرتے ہیں کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کریں تو یہودی ہمیں مار ڈالیں گے۔" (جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد، سنن نسائی)
 

کعنان

محفلین
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

میرے ایک فاضل دوست نے اپنا موقف ثابت کرنے کے لئے تمام نیتوں کی نفی طلاق کی ایک مثال سے ثابت کرنے کی کوشش کی ھے۔

جن کاموں کے لئے نیت کا ہونا ضروری ھے وہاں نیت کرنی پڑے گی اور طلاق لے لئے یہ حکم ھے کہ مذاق سے بھی طلاق دو گے تو طلاق واقع ہو جائے گی اس کے لئے نیت کا ہونا لازم نہیں۔ اس پر میں اپنے فاضل دوست کی پسندیدہ ویب سائٹس سے کچھ حوالے دے دیتا ہوں۔




جب شروط کے ہوتے ہوئے ایجاب وقبول ہو جائے تونکاح واجب ہوتا ہے چاہے عقد نکاح کرنے والے طرفین یا ان میں کوئي ایک طرف یہ نکاح بطور کھیل یا مذاق ہی کررہا ہو ۔
احناف ، حنابلہ کا مسلک یہی ہے اورمالکیہ کے ہاں بھی یہی معتبر ہے اورشوافع بھی اسے ہی صحیح قرار دیتے ہيں ۔

دیکھیں فتح القدیر ( 3 / 199 ) المغنی لابن قدامہ ( 7 / 61 ) کشاف القناع ( 5 / 40 ) حاشیۃ الدسوقی ( 2 / 221 ) بلغۃ السالک ( 2 / 350 ) نھایۃ المحتاج ( 6 / 209 ) روضۃ الطالبین ( 8 / 54 ) ،

ان سب کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مندرجہ ذیل فرمان ہے :

ابو ھریرہ رضي اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

تین چيزیں ایسی ہیں جن کی حقیقت بھی حقیقت ہی ہے اور مذاق بھی حقیقت ہی ہے ، نکاح ، طلاق ، اور رجوع کرنا


سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2194 ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 11849 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 2039 ) اس حدیث کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی نے التلخیص الحبیر ( 3 / 424 ) میں حسن قرار دیا ہے ، اور علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح سنن ترمذی ( 944 ) میں بھی حسن کہا ہے ۔

یعنی یہ تین کام حقیقی طور پر کیے جائيں تو حقیقی ہوں گے اوراگر یہ بطور مذاق کیے جائیں تو بھی حقیقت ہی ہوں گے ۔

اور ھزل سے مراد یہ ہے کہ لفظ سے وہ معنی مراد لیا جائے جس کے لیے لفظ بنایا نہیں گیا ، اوریہ اسی فعل پر منطبق ہوتا ہے جو آپ لوگوں میں عقد نکاح میں کیا ہے کیونکہ تم نے عقد نکاح کا اندراج تو کروایا ہے اورشادی نہیں کرنا چاہتے تھے ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

( عام علماء کرام کے ہاں مذاق میں طلاق دینے والے کی بھی طلاق واقع ہو جائے گی ، اور اسی طرح اس کا نکاح بھی صحیح ہے جیسا کہ مرفوع حدیث کے متن بھی اس کا ذکر ہے ، اورصحابہ کرام رضي اللہ تعالی عنہم اورتابعین عظام رحمہم اللہ کے ہاں بھی یہی ہے اور جمہور علماء کرام کا بھی یہی قول ہے )
دیکھیں الفتاوی الفقھیۃ الکبری ( 6 / 63 ) ۔

اورحافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کہتےہیں :

( مراسیل حسن میں ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ سے بیان کرتے ہیں :

جس نے بطور کھیل نکاح کیا یا طلاق دی یا بطور کھیل غلام آزاد کیا تویہ ہوگيا ) ۔

اورعمر بن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ نے فرمایا :

چار چيزیں ایسی ہیں جب ان کے بارہ میں بات کی جائے تو وہ جائز ہوجاتی ہيں : طلاق ، آزاد کرنا ، نکاح ، اورنذر ماننا ۔

اورامیرالمومنین علی رضي اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں :

تین چيزیں ایسی ہیں جن میں کوئي مذاق اورکھیل نہیں : طلاق ، غلام آزاد کرنا ، اورنکاح کرنا ۔

اورابودرداء رضي اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ :

تین چيزوں میں کھیل بھی حقیقت پر مبنی ہے : طلاق ، غلام آزاد کرنا ، اورنکاح کرنا ۔

اورابن مسعود رضي اللہ تعالی عنہما کہتے ہيں : نکاح چاہے مذاق میں ہو یا حقیقت میں یہ برابر ہے ۔ انتھی ۔

دیکھیں اعلام الموقعین ( 3 / 100 )



والسلام
 

باذوق

محفلین
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

میرے ایک فاضل دوست نے اپنا موقف ثابت کرنے کے لئے تمام نیتوں کی نفی طلاق کی ایک مثال سے ثابت کرنے کی کوشش کی ھے۔

جن کاموں کے لئے نیت کا ہونا ضروری ھے وہاں نیت کرنی پڑے گی اور طلاق لے لئے یہ حکم ھے کہ مذاق سے بھی طلاق دو گے تو طلاق واقع ہو جائے گی اس کے لئے نیت کا ہونا لازم نہیں۔ اس پر میں اپنے فاضل دوست کی پسندیدہ ویب سائٹس سے کچھ حوالے دے دیتا ہوں۔


والسلام
کنعان بھائی ! آپ خواہ مخواہ اتنی محنت کر بیٹھے :)
حالانکہ اس مراسلے کے ذریعے جو آپ کہنا چاہتے ہیں ، وہی میں بھی کہہ رہا تھا کہ :
بعض اعمال ایسے ہوتے ہیں کہ جن میں نیت کچھ بھی ہو ، ہمیشہ ظاہر کو ہی دیکھا جاتا ہے۔
دیکھئے اس تھریڈ میں میری پوسٹ نمبر:55

میں نے ہرگز بھی تمام نیتوں کی نفی نہیں کی۔ بلکہ یہ الزام تو مجھ پر سسٹر مہوش علی نے لگایا تھا جس کے غلط ہونے کا ثبوت میں دے چکا ہوں۔
 

باذوق

محفلین
یہود کی قدم بوسی اور سنت تقریری ۔۔۔؟!

سنن ابوداؤد:جلد اول:حدیث نمبر 1656 حدیث مرفوع مکررات 2
سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 81 حدیث مرفوع مکررات 2
علامہ البانی علیہ الرحمة کی تحقیق کے مطابق دونوں روایات ضعیف ہیں۔
سنن نسائی:جلد سوم:حدیث نمبر 380 حدیث مرفوع مکررات 4
جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 629 حدیث مرفوع مکررات 4
مشکوۃ شریف:جلد اول:حدیث نمبر 53 مکررات 0
یہ تینوں روایات دراصل ایک ہی روایت ہے جو مختلف طرق سے بیان ہوئی ہیں۔
جب ان روایات پر اعتراض کیا گیا کہ :
چومنے والے تو یہودی تھے۔ ان کا عمل کیسے سنت بن گیا؟؟
تو اس کے جواب میں ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنے ایک درس (جو کہ غالباً امام بخاری کی کتاب الادب المفرد پر تھا) میں فرمایا :
نادان اس قسم کا بھی اعتراض کرتے تو میں بھی ان کو جواب دیتا ہوں، کہ آپ کو بغض میں چومنے والے تو دکھائی دیتے ہیں مگر وہ دکھائی نہیں دے رہا جس کے قدم چومے جارہے ہيں؟ اور وہ دکھائی نہیں دے رہا جو منع بھی نہیں کررہا ہے؟
تواس کا مطلب کہ قدم چموا رہے ہیں سنت ہوگئی اور کسے سنت کہتے ہیں؟ پوری مجلس میں صحابہ رضی اللہ عنہم دیکھ رہے ہيں اور منع بھی نہیں کر رہے ہیں تو اس کو سنت نہیں کہتے تو اور کیا کہتے ہیں؟!
اور بالکل یہی بات یہاں پر ترجمان منہاجین نے کچھ یوں تحریر فرمائی ہے :
اتنے اجل محدثین کے اس حدیث کو روایت کرنے اور اس سے استشہاد کرنے کے باوجود بھی کوئی متعصب کہہ سکتا ہے کہ یہ ایک یہودی کا فعل تھا، ہم اسے کس طرح لازمی شہادت کا درجہ دے سکتے ہیں۔ اس سوچ پر سوائے افسوس کے کیا کہا جا سکتا ہے کہ معترض کو یہودی کا عمل تو نظر آگیا مگر جس کے ساتھ کیا جا رہا ہے وہ بابرکت ہستی نظر نہیں آئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہود کو تقبیل سے منع نہیں فرمایا تو یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتِ تقریری ہوا۔
ڈاکٹر صاحب کی علمیت کا احترام سر آنکھوں پر۔ مگر آپ جناب کا دعویٰ ہے کہ آپ حنفی مسلک کے ماننے والے ہیں۔ تو ظاہر ہے کہ اتنی بڑی علمی شخصیت نے حنفی فقہ کی مشہور کتاب "در مختار" تو ضرور پڑھی ہوگی۔ جہاں صاف صاف لکھا ہے :
دوسرے سے ملاقات کے وقت اپنے ہاتھ کو چومنا مکروہ ہے۔ اس (عمل) میں رخصت نہیں اور اپنے دوست سے ملاقات کے وقت اُس کا ہاتھ چومنا بالاجماع مکروہ ہے اور اسی طرح (یہ بھی مکروہ ہے) جو علماء کے سامنے سے زمین کو بوسہ دیتے ہیں ، ایسا کرنے والا اور اس فعل پر راضی ہونے والا دونوں ہی گناہ گار ہیں ، کیونکہ یہ بتوں کی عبادت کے مشابہ ہے۔
اور اگر عبادت و تعظیم کی نیت سے کرے تو کفر ہے اور اگر تحیة کے ارادہ سے کرے تو کفر نہ ہوگا البتہ گنہگار ہو گیا اور گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا۔
بحوالہ :
درمختار مع فتاوی شامی ، ص:383 ، ج:6 ، کتاب الحظر و الاباحة باب الاستبراء

اب یا تو ڈاکٹر صاحب کو اعلان کر دینا چاہئے کہ وہ اس فقہی عبارت کو نہیں مانتے یا پھر اپنے قول سے رجوع کر لینا چاہئے۔

اب دیکھ لیجئے کہ فقہ حنفی کی معتبر کتاب میں بوسہ دینے کو یہ نہیں کہا گیا کہ "یہ سجدہ کے برابر ہے" بلکہ یوں کہا گیا ہے کہ "بتوں کی عبادت کے مشابہ ہے" ۔۔۔۔ اب ظاہر ہے کسی شیخ محترم کے سامنے گر کر ان کے پاؤں چومنے سے بھی بتوں کی عبادت سے مشابہت نظر آئے گی لہذا یہ بھی درمختار کے فتوی کے مطابق گناہ کبیرہ کا فعل ہوا جس کو یہاں ہمارے بعض معصوم بھائی بہن "مستحب کام" ٹھہرانے پر بضد ہیں۔

خیر۔ دونوں یہودیوں کی طرف سے پیر چومنے والی اس روایت پر کچھ گفتگو مزید ۔۔۔
اصول کی کتابوں میں "سنت تقریری" کی یہ تعریف لکھی ہوئی ہے کہ :
جو کام نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے سامنے مسلمان کریں وہ "تقریری سنت" ہے۔
جبکہ روایت مذکورہ میں ہاتھ پاؤں چومنے ([ARABIC]فقبلوا يديه ورجليه[/ARABIC]) والے مسلمان نہیں بلکہ یہودی تھے۔

اب اس مذکورہ روایت پر ذرا سنجیدگی سے غور کیا جائے تو اسی میں وہ اصول مل جائے گا کہ :
کافر کے عمل پر نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی خاموشی ، "سنت تقریری" نہیں کہلاتی !!

ان دونوں یہودیوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پاؤں مبارک چوم لیے اور کہا کہ ہم شہادت دیتے ہیں کہ بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، اللہ کے رسول ہیں
اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم) نے دریافت فرمایا
[ARABIC]فما يمنعكم أن تتبعوني[/ARABIC]
تو پھر لوگ میری کس وجہ سے فرماں برداری نہیں کرتے؟
انہوں نے جواب دیا
[ARABIC]إن ‏ ‏داود ‏ ‏دعا بأن لا يزال من ذريته ...[/ARABIC]
(حضرت) داؤد (علیہ السلام) نے دعا فرمائی تھی کہ ہمیشہ ان کی اولاد میں سے ہی نبی بنا کریں گے ۔۔۔۔

حالانکہ اس حدیث کے تمام ہی شارحین نے بیان کیا ہے کہ :
ان دونوں یہودیوں نے جھوٹ بولا اور داؤد علیہ السلام پر افتراء کیا تھا۔ کیونکہ داؤد علیہ السلام نے ایسی کوئی دعا نہ کی تھی بلکہ یہود تو تورات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کا تذکرہ پڑھ چکے تھے۔

اب دیکھئے کہ ڈاکٹر صاحب اور ان کے ترجمان نے اس حدیث سے یہ نتیجہ نکالا کہ :
پاؤں چومنے پر رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) خاموش رہے ! لہذا یہ سنت ہوئی۔

ہم کہنا چاہیں گے کہ :
حضور عالی ! نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) تو داؤد علیہ السلام کے متعلق یہود کے واضح جھوٹ پر بھی خاموش رہے۔
اب کیا جھوٹ بولنا بھی ڈاکٹر صاحب کے نزدیک "سنت تقریری" سمجھا جائے گا ؟؟
یا ۔۔۔۔
کیا نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے خاموش رہ کر یہ مان لیا تھا کہ داؤد علیہ السلام نے سچ مچ ایسی کوئی دعا کی تھی؟؟
جبکہ حدیث کے تمام شارحین اور علماء و ائمہ محدثین کہتے آئے ہیں کہ یہود نے جھوٹ بولا اور داؤد علیہ السلام پر افتراء باندھا۔

ایک جگہ کی خاموشی تو نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سنت بنے اور دوسری جگہ کی خاموشی سنت نہ بنے ؟؟

ترجمان منہاجین اور ڈاکٹر صاحب کے معصوم معتقدین کیا ہم کو جواب دے سکتے ہیں کہ :
حدیث کی تشریح کے سلسلے میں ڈاکٹر صاحب کا یہ کیسا دہرا معیار ہے ؟؟؟
آپ ہی بتلائیں کہ ہم بتلائیں کیا ؟؟؟؟

قرآن تو ہم کو تعلیم دیتا ہے کہ:
[ARABIC]وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلاَمًا[/ARABIC]
جب ان سے جاہل (اکھڑ) لوگ (ناپسندیدہ) بات کرتے ہیں تو وہ سلام کہتے (ہوئے الگ ہو جاتے) ہیں
( الفرقان:25 - آيت:63 )
[اردو ترجمہ : ڈاکٹر طاہر القادری]

لہذا کافر کے قول و فعل پر نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی خاموشی دین میں حجت نہیں ہوتی۔
مگر افسوس کہ یہ اتنی سادہ سی بات کچھ شیوخ محترم کو سمجھ میں آتی ہے اور نہ ان کے متبعین کو کہ ۔۔۔۔ وہ فرماتے ہیں :
وہ دکھائی نہیں دے رہا جس کے قدم چومے جارہے ہيں؟ اور وہ دکھائی نہیں دے رہا جو منع بھی نہیں کررہا ہے؟ تواس کا مطلب کہ قدم چموا رہے ہیں سنت ہوگئی اور کسے سنت کہتے ہیں؟ پوری مجلس میں صحابہ رضی اللہ عنہم دیکھ رہے ہيں اور منع بھی نہیں کر رہے ہیں تو اس کو سنت نہیں کہتے تو اور کیا کہتے ہیں؟!
لاحول ولا قوة الا باللہ !!

اللہ تعالیٰ ہم تمام کو ہدایت اور صحیح سمجھ عطا فرمائے ، آمین !!

آخر میں چلتے چلتے عرض ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے دستِ اقدس اور پاؤں مبارک کو چومنے کی کچھ صحیح احادیث آپ ضرور پیش فرمائیں ۔۔۔۔ لیکن یہ بھی ہم کو ضرور بتائیں کہ :
کیا نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) اور امتی کا جسم ایک جیسا ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے جسمِ اطہر پر کسی پیر فقیر کبیر شیخ الاسلام وغیرہ وغیرہ کو قیاس کر لیا جائے؟؟
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top