ڈاکٹر طاہر القادری

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
یہ خوبصورت کلام جناب بیدم وارثی کا ہے جو کب کے وفات پاچکے ہیں اور یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ انکا منہاج القرآن والوں سے تعلق نہیں تھا۔ ۔ صوفی منش شاعر تھے جناب نیاز بریلوی، بہزاد لکھنوی اور اصغر گونڈوی کی طرح۔ ۔ ۔ یہ غزل انکی کافی مقبول ہے خصوصاّ قوّالی کے حوالے سے۔ ۔ ۔ اس قوّال نے تو موقع کی مناسبت سے ایک شعر میں تصّرف کیا ہے جیسا کہ اکژ محافلِ سماع میں یہ لوگ کیا کرتے ہیں۔ ۔ ۔
جن لوگوں کو سماع اور چشتی ذوق حاصل نہیں ہے انکے لئے ایسی قوآلیاں سننا شدید قسم کی کوفت اور روحانی قبض کا باعث ہوسکتا ہے:grin: لہذا انکو اس سے دور ہی رہنا چاہیئے
 

نبیل

تکنیکی معاون
مجھے قوالی پسند آئی ہے۔ اعتراض قوالی پر نہیں بلکہ شیخ الاسلام کو کیے جانے والے سجدوں پر ہے۔ بہرحال، ہر ایک کو اس کا عقیدہ مبارک ہو۔ ہم تو چلے اپنی قبض کا علاج کرنے۔ :rolleyes:
 

آبی ٹوکول

محفلین
السلام علیکم !
میں بھی وہ ویڈیو دیکھ چکا ہوں کہ جس میں لوگ علامہ طاہر القادری صاحب کے ہاتھوں اور پاؤں کو بوسہ دے رہے ہیں۔ ۔ ۔ تقبیل ید اور تقبیل الرجل کا مسئلہ گو کہ آج امت میں مختلف فیہ مگر علامہ صاحب کے نزدیک جائز ہے اور انھوں نے اس مسئلہ پر دلائل دیتے ہوئے امام بخاری کی الادب المفرد کی کئی احادیث کا حوالہ دیا ہے اور ساتھ ُمیں یہ بھی ذکر کیا ہے بخاری نے اس پر باقاعدہ علیحدہ علیحدہ ابواب قائم کیئے ہیں ’’بَابُ تَقْبِيْلِ الرِّجْل اور تعظیم کے باب میں ’’قِيَامُ الرَّجُلِ لِلرَّجُّلِ تَعْظِيْمًا اور انکے تحت بہت سی روایات لائے ہیں ۔ ۔ خیر عرض یہ کرنا چاہتا تھا کہ کسی مسئلہ میں اختلاف الگ شئے ہے اور کسی کو اپنے فہم کے مطابق گمراہ قرار دینا امر دیگر بحرحال ہم نے جب اس سلسلے میں منھاج القرآن والوں سے رجوع کیا تو ان کا جو جواب آیا وہ آپ سب کی بصارتوں کی نذر ہے ۔ ۔

کیا لوگ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کو سجدہ کرتے ہیں
2005 میں دِمشق میں تحریک منہاج القرآن کے وابستگان کی طرف سے منعقد کی گئی محفل سماع کے بعض حصوں کو کچھ عاقبت نااندیش لوگوں کی طرف سے کانٹ چھانٹ کر انٹرنیٹ پر upload کیے جانے والے video clip کے ذریعے یہ پراپیگنڈہ کیا گیا کہ شاید لوگ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کو سجدہ کرتے ہیں اور شیخ الاسلام سجدہ کرنے والوں کو شاباش دیتے ہیں۔ العیاذ باﷲ! ایسا واقعہ ہرگز نہیں ہوا، یہ محض بہتان تراشی ہے۔ ایسا بہتان لگانے والے دراصل اپنے عقائد باطلہ پر زد پڑنے سے خائف ہیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری جیسی علمی شخصیت کے علمی و تحقیقی کام کے ذریعے ایسے لوگوں کے مفادات کو ٹھیس پہنچنے اور ان کے مذموم مقاصد بے نقاب ہونے کا خدشہ ہے۔ اس لیے وہ ایسی شخصیت پر کیچڑ اچھالنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں جس نے انہیں علم اور دلائل کی بنیاد پر چیلنج کر کے ان کے بے بنیاد اعتراضات کا جواب دیا ہے۔ حالاں کہ وہ جانتے ہیں کہ آسمان کی طرف منہ کرکے تھوکیں گے تو اپنے اوپر ہی گرے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ تقبیلِ رِجلین یعنی بزرگ اور صالح شخصیات کے پاؤں چومنا نہ صرف ثابت شدہ شرعی اَمر ہے، بلکہ براہِ راست صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے عمل سے ثابت ہے کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست اَقدس کو بوسہ دیتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں مبارک چومتے۔
سب سے پہلے ہم دِمشق میں منعقد ہونے والی محفل سماع کے ویڈیو کلپ پر بحث کریں گے تاکہ جن نادان اور کم فہم لوگوں کو یہ شک گزرا ہے کہ ایک شخص (معاذ اﷲ) شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کو سجدہ کررہا ہے اُن کا اِشکال دور ہوجائے۔
١۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے زندگی بھر کبھی کسی کو یہ اجازت نہیں دی کہ انہیں سجدہ کرے۔ سجدہ تو دور کی بات ہے، وہ ہمیشہ اپنے عقیدت مندوں کو اپنے ہاتھ چومنے سے بھی منع کرتے ہیں۔ اُنہوں نے کبھی اپنی ذات کے لیے پاؤں چومنے کا عمل پسند نہیں کیا۔ ٢۔ دمشق میں منعقد ہونے والی محفلِ سماع کے ویڈیو کلپ میں بھی وہ قدم بوسی کے لیے جھکنے والے شخص کو اپنے ہاتھوں سے ہٹاتے ہوئے واضح نظر آرہے ہیں۔ لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ اس ویڈیو پر تبصرہ کرنے والے بعض ''نابینوں'' نے اِسے شاباش سے تعبیر کیا ہے۔
٣۔ یہ بات پوری دنیا جانتی ہے کہ شیخ الاسلام عرصہ دراز سے اپنی کمر میں تکلیف کی وجہ سے نماز بھی کرسی پر بیٹھ کر ادا کرتے ہیں اور بیٹھنے کے لیے بھی ہمیشہ medicated seat استعمال کرتے ہیں۔ لہٰذا ان کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ اچانک قدم بوسی کے لیے جھکنے والے شخص کو فوری طور پر جھک کر روک دیتے۔ البتہ وہ اسے اپنے ہاتھوں سے دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
٤۔ یہ بات بھی پوری دنیا جانتی ہے کہ کمر کی تکلیف کے باعث ہی وہ ہمیشہ بیٹھتے وقت foot rest کا استعمال ضرور کرتے ہیں، لیکن دمشق میں منعقد ہونے والی محفلِ سماع میں اُنہوں نے سفر کے دوران میں شرکت کی تھی، اس لیے اُس محفلِ سماع میں foot rest کی عدم دستیابی کے باعث تکیہ استعمال کر لیا گیا۔ تکیہ اِس مقصد کے لیے ہرگز نہیں رکھا گیا تھا کہ لوگ اس پر آکے جھکیں یا (معاذ اﷲ) سجدہ کریں۔ لیکن اِس پر کتنا افسوس کیا جائے کہ تبصرہ کرنے والی عدل و انصاف سے عاری طبیعت نے اِسے اہتمامِ سجدہ قرار دے دیا!
٥۔ چوں کہ یہ محفلِ سماع دورانِ سفر دمشق میں منعقد کی گئی جس کا اہتمام اُس طرح ممکن نہ تھا جس طرح تحریکِ منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ پر منعقد ہونے والی محافلِ سماع یا دیگر پروگراموں میں کیا جاتا ہے۔ تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ پر منعقد ہونے والی محافل سماع میں باقاعدہ لوگ تعینات کیے جاتے ہیں جو قدم بوسی کے لیے حاضر ہونے والے معتقدین کو سختی سے روکتے ہیں۔ اگر جانب داری کی عینک اتار کر دمشق کے اِس ویڈیو کلپ کو دیکھا جائے تو یہاں بھی واضح ہوگا کہ ایک طرف ایک شخص قدم بوسی کے لیے حاضر ہونے والے معتقدین کو روکنے کے لیے بیٹھا ہوا ہے۔ مگر جب اِس ویڈیو کلپ میں آنے والے شخص نے دوسری جانب کسی کو نہ پایا تو وہ اُدھر سے حاضر ہوگیا جسے خود شیخ الاسلام اپنے ہاتھوں سے ہٹاتے رہے۔
٦۔ لہٰذا کسی مسلمان شخص کے لیے یہ جائز نہیں کہ بغیر تحقیق اور چھان پھٹک کے کسی بات کی تشہیر کرے۔ یہی قرآن و سُنّت کی تعلیمات ہیں اور یہی منشاے دین ہے۔ جہاں تک محفل سماع میں پڑھے جانے والے کلام کا تعلق ہے تو تصوف و روحانیت پر مبنی اِس کلام میں پیغامِ توحید ہے اور یہ کلام اﷲ تعالیٰ کی ذات بابرکات کے لیے ہے۔ اتنے اعلیٰ و اَرفع کلام کو بدنیتی سے اور اپنے مذموم موقف کو ثابت کرنے کے لیے استعمال کرنا سراسر بدبختی اور جہالت کی علامت ہے۔ باری تعالیٰ ہمیں ایسی شرپسندی اور جہالت سے محفوظ فرمائے۔ (آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

یہاں تک ہم نے واضح کیا کہ شیخ الاسلام نے کبھی اپنے ہاتھوں اور قدموں کے چومنے کا عمل نہ پسند کیا اور نہ ہی اس کی حوصلہ افزائی کی۔ سجدہ تو بہت دور کی بات ہے۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے خطابات اور کتب میں جابجا غیر اللہ کے لیے سجدہ عبادت کو شرک اور سجدہ تعظیمی کو حرام قرار دیا ہے۔ حوالہ کے لیے ان کی دو جلدوں پر مشتمل کتاب التوحید اور دوسری کتاب تعظیم اور عبادت ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔
لیکن یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا قدم بوسی سجدہ ہے؟ کیا قدم بوسی شرک ہے؟ اِس کے بارے میں اِسلامی تعلیمات کیا ہیں؟ لہٰذا اِس بات کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے تاکہ اگر بعض حالات میں کسی نے تقبیلِ رِجلین (قدم بوسی) کر بھی لی تو اس پر کیا حکمِ شرعی لاگو ہوگا۔ ذیل میں اس سے متعلقہ چند احادیث و آثار درج کیے جاتے ہیں:
١۔ زارع بن عامر - جو وفدِ عبد القیس کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تھے - سے مروی ہے:
لَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِيْنَةَ فَجَعَلْنَا نَتَبَادَرُ مِنْ رَوَاحِلِنَا، فَنُقَبِّلُ يَدَ رَسُولِ اﷲِصلی الله عليه وآله وسلم وَرِجْلَهُ.
''جب ہم مدینہ منورہ حاضر ہوئے تو اپنی سواریوں سے کود کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس اور پاؤں مبارک کو چومنے لگے۔''


اس حدیث کو صحاح ستہ میں سے سنن ابی داود (کتاب الادب، باب قبلۃ الجسد، ٤: ٣٥٧، رقم: ٥٢٢٥) میں روایت کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں اسے امام بیہقی نے السنن الکبری (7: 102) میں اور امام طبرانی نے اپنی دو کتب المعجم الکبیر (٥: ٢٧٥، رقم: ٥٣١٣) اور المعجم الاوسط (1: 133، رقم: ۴۱۸) میں روایت کیا ہے۔

٢۔ امام بخاری نے ''الادب المفرد'' میں باب تقبيل الرِّجل قائم کیا ہے یعنی ''پاؤں کو بوسہ دینے کا بیان۔'' اس باب کے اندر صفحہ نمبر ۳۳۹ پر حدیث نمبر ۹۷۵ کے تحت انہوں نے مذکورہ بالا حدیث کو حضرت وازع بن عامر رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ میں روایت کیا ہے، وہ فرماتے ہیں:

قَدِمْنَا, فَقِيْلَ: ذَاکَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم. فَأَخَذْنَا بِيَدَيْهِ وَرِجْلَيْهِ نُقَبِّلُهَا.
''ہم مدینہ حاضر ہوئے تو (ہمیں) کہا گیا: وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ پس ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک ہاتھوں اور قدموں سے لپٹ گئے اور اُنہیں بوسہ دینے لگے۔''

یہ الفاظ خاص مفہوم کے حامل ہیں۔ راوی کہتے ہیں کہ ہم نے صرف ہاتھ مبارک پکڑنے پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ ہاتھوں کے علاوہ پاؤں مبارک کو بھی بوسہ دینے کا عمل جاری رکھا درآں حالیکہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ اور پاؤں مبارک پکڑ رکھے تھے۔

٣۔ امام ترمذی نے اس مضمون پر ایک حدیث حضرت صفوان بن عسّال ‏رضی اللہ عنہ سے بیان کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ قومِ یہود کے بعض افراد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سوال کرنے کے بعد اعلانیہ گواہی دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں:
فَقَبَّلُوْا يَدَيْهِ وَرِجْلَيْهِ. وَقَالُوا: نَشْهَدُ أَنَّکَ نَبِيٌّ.''انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ اور پاؤں مبارک کو بوسہ دیا، اور کہا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ بے شک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی ہیں۔''

اس حدیث مبارکہ کو امام نسائی نے السنن (کتاب تحریم الدم، ۷: ۱۱۱، رقم: ۴۰۷۸) میں اور امام ابن ماجہ نے السنن (کتاب الادب، باب الرجل یقبّل ید الرجل، ٢: ١٢٢١، رقم: ٣٧٠٥) میں روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے اس حدیث کو الجامع میں دو جگہ روایت کیا ہے: پہلی بار ابواب الاستئذان والآداب میں باب فی قبلۃ الید والرجل (٥: ٧٧، رقم: ٢٧٣٣) میں اور دوسری بار ابواب التفسیر کے باب ومن سورۃ بنی اسرائیل (۵: ۳۰۵، رقم: ۳۱۴۴) میں۔ امام احمد بن حنبل نے المسند (۴: ۲۳۹، ۲۴۰) میں، امام حاکم نے المستدرک (۱: ۵۲، رقم: ۲۰) میں، امام طیالسی نے المسند (ص: ۱۶۰، رقم: ۱۱۶۴) میں اور امام مقدسی نے الاحادیث المختارہ (٨: ٢٩، رقم: ١٨) میں روایت کیا ہے۔
اتنے اجل محدثین کے اس حدیث کو روایت کرنے اور اس سے استشہاد کرنے کے باوجود بھی کوئی متعصب کہہ سکتا ہے کہ یہ ایک یہودی کا فعل تھا، ہم اسے کس طرح لازمی شہادت کا درجہ دے سکتے ہیں۔ اس سوچ پر سوائے افسوس کے کیا کہا جا سکتا ہے کہ معترض کو یہودی کا عمل تو نظر آگیا مگر جس کے ساتھ کیا جا رہا ہے وہ بابرکت ہستی نظر نہیں آئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہود کو تقبیل سے منع نہیں فرمایا تو یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتِ تقریری ہوا۔

٤۔ علامہ ابن تیمیہ کے جلیل القدر شاگرد حافظ ابن کثیر سورۃ المائدہ کی آیت نمبر ١٠١ کی تفسیر میں ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایک بار حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی بات پر خفا ہو کر جلال میں آگئے تو:
فَقَامَ إِلَيْهِ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رضي الله عنه فَقَبَّلَ رِجْلَهُ وَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، رَضِيْنَا بِاﷲِ رَبًّا وَبِکَ نَبِيًّا وَبِالإِْسْلَامِ دِيْنًا وَبِالْقُرْآنِ إِمَامًا فَاعْفُ عَنَّا عَفَا اﷲُ عَنْکَ فَلَمْ يَزَلْ بِهِ حَتَّی رَضِيَ.

'' حضرت عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم مبارک چوم کر عرض کیا: یا رسول اﷲ! ہم اﷲ تعالیٰ کے رب ہونے، آپ کے نبی ہونے اور اسلام کے دین ہونے اور قرآن کے امام و راہنما ہونے پر راضی ہیں، ہمیں معاف فرما دیجئے۔ اﷲ تعالیٰ آپ سے مزید راضی ہو گا۔ پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسلسل عرض کرتے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راضی ہو گئے۔''

اس روایت کو دیگر مفسرین نے بھی متعلقہ آیت کی تفسیر میں بیان کیا ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے اجل صحابی کا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم مبارک چومنا اور خود تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انہیں منع نہ فرمانا کیا (معاذ اللہ)عقیدہ توحید کی خلاف ورزی تھا۔

۵۔ امام مقری (م ۳۸۱ھ) اپنی کتاب تقبیل الید (ص: ۶۴، رقم: ۵) میں حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے ایک واقعہ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک اعرابی بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوا اور اس نے آکر عرض کیا: میں نے اسلام قبول کر لیا ہے لیکن میں کچھ مزید چاہتا ہوں تاکہ میرے یقین میں اضافہ ہوجائے۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت دی تو اعرابی کے بلاوے پر ایک درخت اس کے پاس آیا اور اس نے کہا: یا رسول اللہ! آپ پر سلام ہو۔ اس کے بعد طویل روایت ہے اور آخر میں اعرابی نے تمام نشانیاں دیکھنے کے بعد عرض کیا:

يا رسول الله! أئذن لي أن أقبل رأسك ورجلك.
"اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجیے کہ میں آپ کاسر اقدس اور قدم مبارک چوم لوں۔
"

اس کے بعد روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس اعرابی کو اجازت مرحمت فرمائی۔ اور پھر اس اعرابی نے سجدہ کرنے کی اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت نہ دی۔ امام مقری کی روایت کردہ اس حدیث کو حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری (۱۱: ۵۷) میں نقل کیا ہے۔ نیز علامہ مبارک پوری نے بھی تحفۃ الاحوذی (۷: ۴۳۷) میں اس روایت کو نقل کیا ہے۔

یہ روایت بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کر رہی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قدم چومنے کی اجازت تو دی لیکن سجدہ کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اگر قدم چومنا اور سجدہ کرنا برابر ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی ان کے مابین فرق نہ فرماتے اور دونوں سے منع فرما دیتے۔

یہاں تک آقاے نام دار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں مبارک چومے جانے پر چند احادیث کا حوالہ دیا گیا، جس سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ قدم بوسی ہرگز کوئی شرکیہ عمل نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود اپنی ذات اقدس کے لیے بھی کبھی اس کی اجازت نہ دیتے۔

کیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اُنہیں اِس عمل سے نہ روکنا اور سکوت فرمانا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے اس کی اجازت نہ تھی؟ کیا صحابہ کرام ‏رضی اللہ عنھم کا یہ عمل سنتِ تقریری نہ قرار پایا؟ اگر پاؤں چومنا نعوذ باﷲ سجدہ ہے تو کیا صحابہ کرام ‏رضی اللہ عنھم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سجدہ کر رہے تھے؟ کیا (معاذ اﷲ) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم - جو توحید کا پیغام عام کرنے اور شرک کے خاتمے کے لیے مبعوث ہوئے - خود شرک کے عمل کی اجازت دے رہے تھے؟

کاش! قدم بوسی پر اعتراض کرنے والے پہلے کچھ مطالعہ ہی کر لیتے۔

کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ قدم بوسی صرف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے مخصوص ہے۔ لہٰذا ذیل میں ہم اِس اَمر کا جائزہ لیتے ہیں کہ غیر انبیاء صالحین اور مشائخ عظام اور اکابر اسلام کی دست بوسی و قدم بوسی کی کیا حقیقت ہے؟

یہ ایک حقیقت ہے کہ علماے ‏کرام اور مشائخ عظام کی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کی خدمت کی نسبت سے تعظیم و احترام بجا لانا منشاء اِسلام ہے۔ اِن کی تعظیم کو شرک کہنا باطل اور ان سے بغض رکھنا نفاق کی علامت ہے۔ کتب سیر و احادیث کا مطالعہ کرنے والا ہر شخص یہ بات جانتا ہے کہ اکابرین کی قدم بوسی ہمیشہ اہل محبت و ادب کا معمول رہی ہے۔ اِس سلسلے میں چند نظائر پیش خدمت ہیں:
١۔ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ، حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے غلام تھے، وہ بیان کرتے ہیں:
رَأَيْتُ عَلِيًّا يُقَبِّلُ يَدَ الْعَبَّاسِ وَرِجْلَيْهِ وَيَقُوْلُ: يَا عَمِّ ارْضَ عَنِّي.

''میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ہاتھ اور پاؤں چومتے دیکھا اور آپ ساتھ ساتھ کہتے جاتے تھے: اے چچا! مجھ سے راضی ہوجائیں۔''

اسے امام بخاری نے الادب المفرد (ص: ٣٣٩، رقم: ٩٧٦) میں، امام ذہبی نے سیر أعلام النبلاء (٢: ٩٤) میں، امام مزی نے تہذیب الکمال (١٣: ٢٤٠، رقم: ٢٩٠٥) میں اور امام مقری نے تقبیل الید (ص: ٧٦، رقم: ١٥) میں روایت کیا ہے۔

2۔ آسمان علم کے روشن ستارے اور ہر مسلک و مکتبہ فکر کے متفقہ محدث امام بخاری نے بھی اپنی کتاب الأدب المفرد میں ہاتھ چومنے پر ایک پورا باب (نمبر ٤٤٤) قائم کیا ہے۔ امام بخاری نے باب تقبيل اليد میں ''ہاتھ چومنے'' کے حوالے سے تین احادیث بیان کی ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ اس سے مراد یہی ہے کہ صحابہ کرام، حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارکہ کو چوما کرتے تھے؛ اور جس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنھم، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ چومتے تو اسی طرح تابعین، صحابہ کرام کے ہاتھ چومتے۔ ان احادیث کو ذکر کر کے امام بخاری آدابِ زندگی بتارہے ہیں کہ بزرگوں کی سنت یہ تھی کہ شیوخ اور اکابر کا ہاتھ چوما کرتے تھے۔ یہاں تک کہ امام بخاری نے دین میں اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس کا الگ باب قائم کیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ امام بخاری اِس باب کے فوری بعد پاؤں چومنے کا باب - بَابُ تَقْبِيْلِ الرِّجْل - لائے ہیں۔

ظاہر ہے کہ امام بخاری نے کتاب الادب میں ان ابواب کو ترتیب دے کر یہ واضح کیا ہے کہ ان کے نزدیک ہاتھ چومنا اور قدم چومنا آداب میں سے ہے۔ اگر وہ اس عمل کو شرک یا سجدہ سمجھتے تو کبھی بھی آداب زندگی کے بیان پر مشتمل اپنی کتاب میں یہ ابواب قائم نہ کرتے اور نہ ہی ایسی احادیث لاتے۔

٣۔ اسی طرح امام بخاری کے بعد امت مسلمہ کے نزدیک ثقہ ترین محدث امام مسلم کے شہر نیشاپور میں جب امام بخاری تشریف لائے اور امام مسلم ان کے پاس حاضر ہوئے تو اَئمہ کے اَحوال پر مبنی تمام کتب میں درج ہے کہ امام مسلم نے امام بخاری کا ماتھا چوما اور پھر ان سے اجازت مانگی کہ:دعني حتی أقبّل رجليک، يا أستاذ الأستاذين وسيد المحدّثين وطبيب الحديث في علله.
''اے استاذوں کے استاذ، سید المحدّثین اور عللِ حدیث کے طبیب! آپ مجھے اجازت دیں تو میں آپ کے پاؤں کا بوسہ لے لوں۔''


اِمام بخاری اور امام مسلم کا یہ واقعہ ابن نقطہ نے 'التقیید لمعرفۃ رواۃ السنن والمسانید (١: ٣٣)'میں، امام ذہبی نے 'سیر اعلام النبلاء (١٢: ٤٣٢، ٤٣٦)' میں، امام نووی نے 'تہذیب الاسماء واللغات (١: ٨٨)' میں، حافظ ابن حجر عسقلانی نے مقدمۃ فتح الباری (ص: ٤٨٨)' میں اور برصغیر کے نام ور غیر مقلد نواب صدیق حسن قنوجی نے 'الحطۃ فی ذکر الصحاح الستۃ (ص: ٣٣٩)' میں روایت کیا ہے۔
٤۔ علامہ شروانی شافعی 'حواشی (٤: ٨٤)' میں لکھتے ہیں:
قد تقرّر أنه يسنّ تقبيل يد الصالح بل ورجله.
''یہ بات پایۂ تحقیق کو پہنچ چکی ہے کہ صالح شخص کے ہاتھ اور پاؤں چومنا مسنون عمل ہے۔''
5۔ مسلک دیوبند کے نام ور عالم اور جامع الترمذی کے شارح علامہ ابو العلاء عبد الرحمان بن عبد الرحیم مبارک پوری کا علم الحدیث میں ایک نمایاں مقام ہے۔ انہوں نے تحفۃ الاحوذی شرح جامع الترمذی کی جلد سات کے صفحہ نمبر 437 پر ہاتھ اور پاؤں چومنے پر مذکورہ بالا تمام روایات بطور استشہاد درج کی ہیں، جس کے ان کے مسلک و مشرب کا واضح پتا چلتا ہے۔

اِس طرح کی بے شمار روایات بطور حوالہ پیش کی جاسکتی ہیں، مگر چند ایک کے حوالہ جات دینے پر ہی اکتفا کیا گیا ہے، جوکہ اِس بات کا بین ثبوت ہے کہ صلحاء اور اَتقیاء کی دست بوسی و قدم بوسی کرنا جائز اور پسندیدہ عمل ہے۔ اہل تصوف و روحانیت مانتے ہیں کہ قدم بوسی معمول کا عمل نہیں ہے، بلکہ ایسا کرنے والا عقیدت و محبت سے کرتا ہے۔ اور ایسا عمل بالخصوص قدم بوسی کا عمل ایسی شخصیت کے لیے بجا لایا جاتا جو علم و عمل میں اپنے دور کے امام کی حیثیت رکھتی ہو۔ لہٰذا ہمیں مسلک و جانب داریت کی عینک اُتار کر قرآن و سُنّت، عمل صحابہ اور عمل سلف صالحین کا مطالعہ کرکے کوئی فتویٰ صادر کرنا چاہیے اور بلا تحقیق و بلا مطالعہ کسی بات کو نہیں اُچھالنا چاہیے کیوں کہ بلا تحقیق کوئی بات آگے بیان کرنے سے تو قرآن حکیم بھی منع فرماتا ہے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اس کی مذمت بیان فرمائی ہے۔ سورۃ الحجرات کی آیت نمبر 6 میں ارشاد باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا.
"اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق (شخص) کوئی خبر لائے تو خوب تحقیق کرلیا کرو۔"
اس آیت کریمہ میں اللہ رب العزت نے اہلِ ایمان کوحکم دیا کہ وہ کسی معاملے میں کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے اُسے اچھی طرح چھان پھٹک لیں کہ اُس میں حقیقت کیا ہے اور فسانہ کیا ہے! پھرجب شرح صدر سے کسی نتیجے پر پہنچ جائیں تو اس کے بعد عملی اقدام اُٹھائیں۔ اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرمایا:

کَفٰی بِالْمَرْءِ کَذِبًا اَنْ يُحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ. (صحيح مسلم, كتاب الايمان, 1: 10, رقم: 5)
" آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو (بغیر تحقیق کیے) آگے بیان کر دے۔"
گویا یہاں مومنوں سے کہاجا رہا ہے کہ وہ کسی بھی سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق کے نہ مانیں، بلکہ مختلف ذرائع سے تصدیق کرنے کے بعد جب کسی بات کامبنی بر حق ہونا یقینی ہو جائے تو پھر ہی اُسے تسلیم کریں اور آگے روایت کریں کیوں کہ بغیر تحقیق کے کسی بات کو آگے بیان کردینا گویا جھوٹ بولنا ہے اور اس پر بھی بہت سی احادیث ہیں کہ مومن سب کچھ ہوسکتا ہے مگر جھوٹانہیں ہوسکتا۔ لہٰذا ہم کہ سکتے ہیں کہ کوئی شخص ایسے فرامین مقدسہ صرف اسی صورت فراموش کرسکتا ہے جب اس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہو اور اسے روز روشن کی طرح واضح حقیقت نظر نہ آرہی ہو۔ جیسا کہ ہم نے آغاز میں بھی واضح کر دیا تھا کہ ایسا اعتراض کرنے والا اپنے عقائد، مذموم عزائم اور مفادات پر زد پڑنے کے خوف سے اس طرح کے بے بنیاد الزامات وضع کرتا ہے۔ علمی سطح پر شکست خوردہ ذہنیت بہتان تراشی کا سہارا لیتی ہے۔
اللہ تعالی ہمیں ایسی جہالت اور فتنہ پروری سے محفوظ فرمائے اور ہمیں حق بات سننے و سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

خادم العلم والعلماء
(ایم۔ ایف۔ رانا)
 
سب سے پہلی بات تو یہ کہ اسلام میں قدم بوسی کی اجازت ہے یا نہیں اس بات پر ضرور بات کی جاسکتی ہے اور موافقت و مخالفت میں دلائل بھی دیئے جاسکتے ہیں لیکن یہ ایک بین حقیقت ہے کہ اسلام میں غیر اللہ کو کسی قسم کے سجدے بشمول سجدہ تعظیمی کے اجازت نہیں ہے ۔

2۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ ہم کو بعض وجوہات کی بنا پر یہ قدم بوسی سے زیادہ سجدہ تعظیمی لگا لہذا یہ بات مجھے سخت قابل اعتراض نظر آئی اور یہ بات میں نے یہاں شیئر کی لیکن اگر آپ میری پہلی پوسٹ پڑھیں تو سب سے پہلے میں نے منہاج کے کسی ممبر سے یہی درخوست کی کہ وہ منہاج کا موقف بیان کریں اور نہ میں نے کسی کو مشرک کہا اور نہ ہی کافر۔
3۔ محمود غزنوی صاحب اور آبی ٹو کول صاحب کی دو پوسٹوں سے دو نئی باتیں سامنے آئی ہیں ایک تو محمود صاحب نے یہ بتایا کہ یہ اشعار بیدم وارثی صاحب کے حمدیہ اشعار ہیں اور صرف ایک شعر میں تصرف کر کے اس کو پیش کیا گیا ہے اور آبی نے یہاں‌ منہاج والوں کا موقف پیش کر دیا ہے تاہم میرے خیال میں اس سے طاہرالقادری صاحب کی براءت ثابت نہیں ہوتی اس سلسلے میں کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔

2005
میں دِمشق میں تحریک منہاج القرآن کے وابستگان کی طرف سے منعقد کی گئی محفل سماع کے بعض حصوں کو کچھ عاقبت نااندیش لوگوں کی طرف سے کانٹ چھانٹ کر انٹرنیٹ پر upload کیے جانے والے video clip کے ذریعے یہ پراپیگنڈہ کیا گیا کہ شاید لوگ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کو سجدہ کرتے ہیں اور شیخ الاسلام سجدہ کرنے والوں کو شاباش دیتے ہیں۔

9 منٹ سے طویل یہ ویڈیو کلپ جس میں بظاہر کوئی کانٹ چھانٹ نظر نہیں آتی یہ مسلسل بغیر کسی انقطاع اور تبدیلی کے چلتی ہے بہرحال اگر اس میں کوئی کانٹ چھانٹ کی ہے تو منہاج کو چاہیے کہ اصل ویڈیو یہاں شیئر کر دیں یا یو ٹیوب پر دے دیں تا کہ بات صاف ہو جائے(اور بجائے اس کہ کوئی جعلی ویڈیو یو ٹیوب پر دی جائے)

یہ بات پوری دنیا جانتی ہے کہ شیخ الاسلام عرصہ دراز سے اپنی کمر میں تکلیف کی وجہ سے نماز بھی کرسی پر بیٹھ کر ادا کرتے ہیں اور بیٹھنے کے لیے بھی ہمیشہ medicated seat استعمال کرتے ہیں۔ لہٰذا ان کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ اچانک قدم بوسی کے لیے جھکنے والے شخص کو فوری طور پر جھک کر روک دیتے۔ البتہ وہ اسے اپنے ہاتھوں سے دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
٤۔ یہ بات بھی پوری دنیا جانتی ہے کہ کمر کی تکلیف کے باعث ہی وہ ہمیشہ بیٹھتے وقت foot rest کا استعمال ضرور کرتے ہیں، لیکن دمشق میں منعقد ہونے والی محفلِ سماع میں اُنہوں نے سفر کے دوران میں شرکت کی تھی، اس لیے اُس محفلِ سماع میں foot rest کی عدم دستیابی کے باعث تکیہ استعمال کر لیا گیا۔ تکیہ اِس مقصد کے لیے ہرگز نہیں رکھا گیا تھا کہ لوگ اس پر آکے جھکیں یا (معاذ اﷲ) سجدہ کریں۔ لیکن اِس پر کتنا افسوس کیا جائے کہ تبصرہ کرنے والی عدل و انصاف سے عاری طبیعت نے اِسے اہتمامِ سجدہ قرار دے دیا!

یہاں اگر ویڈیو موجود ہوتی اور لوگ اس کو دیکھ سکتے تو بات بالکل صاف ہو جاتی۔ ہو سکتا ہے کہ طاہر صاحب کمر درد میں مبتلا ہوں اور اچانک سجدہ کرنے والوں کو نہ روک سکتے ہوں لیکن کیا اس محفل میں ایک بار ہی یہ اعلان نہ کیا جاسکتا تھا کہ طاہر صاحب اس عمل کو ناپسند کرتے ہیں اور لوگ ایسا نہ کریں ؟؟؟؟ کیا ایسا کوئی بھی اعلان طاہر صاحب کی طرف سے اس محفل میں کیا گیا؟؟
دوسری بات اس مختصر ویڈیو کلپ میں کوئی چھ بار یہ عمل کیا گیا ہے اس دوران ان افراد میں سے بعض کی طاہر صاحب نے پیٹھ تپھکی ہے ایک آدھ کو گلے سے لگایا ہے لیکن کہیں اس عمل جس کو وہ بقول ترجمان منہاج ناپسند کرتے ہیں وہ ناپسندیدگی ہم کو کہیں نظر نہیں آئی اگر یہ ویڈیو کسی "بینا" کو دستیاب ہو جائے تو ضرور طاہر صاحب کے چہرے کے تاثرات دیکھنے کی کوشش کرے اور بتائیے کہ طاہر صاحب بشاش لگ رہے ہیں یا خفا؟ اور مزید یہ کہ وہ لوگوں کو ہاتھ سے ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں یا ان کا سر تھپک رہے ہیں اس کا فیصلہ بھی لوگ ویڈیو دیکھ کر ہی کر سکتے ہیں۔۔

اگر جانب داری کی عینک اتار کر دمشق کے اِس ویڈیو کلپ کو دیکھا جائے تو یہاں بھی واضح ہوگا کہ ایک طرف ایک شخص قدم بوسی کے لیے حاضر ہونے والے معتقدین کو روکنے کے لیے بیٹھا ہوا ہے۔ مگر جب اِس ویڈیو کلپ میں آنے والے شخص نے دوسری جانب کسی کو نہ پایا تو وہ اُدھر سے حاضر ہوگیا جسے خود شیخ الاسلام اپنے ہاتھوں سے ہٹاتے رہے۔

یہاں میں ترجمان منہاج غلط بیانی کی داد دوں گا بلاشبہ پہلے سجدہ کے بعد ایک صاحب طاہر صاحب کے قریب آکر بیٹھ جاتے ہیں تاہم ان کا مقصد کسی قدم بوسی کے لیے آنے والے کو روکنا نظر نہیں اس ویڈیو کلپ میں کئی بار لوگوں نے ان کی آنکھوں کے سامنے یہ عمل کیا مگر ماسوائے دو بار کہ انہوں نے کسی کو نہ روکا اور جو دو بار روکا یا جس شخص کی مدد کی یہ وہ تھے جو فرط جذبات سے طاہر صاحب کے سامنے بالکل ڈھیر ہو گئے تھے اور ان میں سے ایک سے اٹھا بھی نہیں جارہاتھا۔
بہر کیف طاہر صاحب اس بات پر ناخوش ہوں یا انہوں نے یا ان کے حکم سے کسی کو روکنے کی کوشش کی گئ ہو مجھے تو یہ معاملہ نظر نہیں آتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔

اس ویڈیو میں ایک اور اہم معاملہ جس سے ذہن اس عمل کو قدم بوسی سمجھنے سے زیادہ سجدہ تعظیمی سمجھنے پر مجبور ہو جتا ہے وہ اشعار ہیں جو قوال اس محفل سماع میں پڑھتے ہیں
اور ان اشعار میں دو جگہ سجدوں کا ذکر کچھ یوں آتا ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے گویا قوال خاص طاہر صاحب کی طرف اشارہ کرہے ہوں تاہم محمود صاحب نے بیان کیا ہے کہ یہ حمد بیدم وارثی صاحب کی ہے جن کا منہاج سے کوئی تعلق نہیں اور صرف ایک شعر میں تصرف کیا گیا ہے جہاں منہاج کا لفط استعمال ہوا ہے۔اور ایسی ہی ایک وضاحت ترجمان منہاج نے بھی کی ہے۔
اس نئی معلومات کے بعد میں اب میں ماسوائے اظہار افسوس کےاور کیا کر سکتا ہوں۔
ذرا عالم تصور میں (کہ ویڈیو کلپ دستیاب نہیں ہے۔ ابرار صاحب آپ کی اطلاع کے لیے ویڈیو ہٹا دی گئی ہے) اس محفل سماع کو دیکھیئے
ایک صاحب جن کو شیخ الاسلام ہونے کا دعوہ ہے وہ ایک ایسی محفل سماع میں شریک ہوتے ہیں جہاں حمدیہ اشعار پڑھے جارہے تھے۔اس دوران لوگ آ آ کر قدم بوسی کا شرف حاصل کرتے ہوں اور اس طرح کہ قدم بوسی سجدہ تعظیمی لگتی ہو۔ قدم بوسی ہو لیکن بوسہ قدم نظر نہ آئے۔پھر اچانک ایک شعر وارد ہوتا ہو
جس جا نظر آتے ہو سجدے وہیں کرتا ہوں
اس سے نہیں کچھ مطلب کعبہ ہو یا بت خانہ
لیکن سننے والا اپنے دل کو تسلی دیتا ہو کہ یہ شعر تو خداوند کریم کی شان میں کہا گیا اسی دوران ایک اور بار ایک اور شخص قدم بوسی کا شرف حاصل کرتا ہو پھر دو اشعار کے بعد اچانک قوال یہ شعر پرھتا ہو
پینے کو تو پی لوں گا پر شرط ذرا سی ہے
بغداد کا سافی ہو منہاج کا میخانہ
تو سوچئے کہ عام ناظر کیا خیال کرے گا؟؟؟؟ایک ایسا شعر جس سے حمد میں ایک ایسا تصرف کیا جائے کہ حمدیہ اشعار کا رخ باری تعالیٰ کے بجائے جناب شیخ الاسلام کی طرف ہو جائے ؟؟؟
قدم بوسیوں پر قدم بوسیاں ہورہی ہوں سجدے کے اشعار آ رہے ہوں منہاج کی تعریف کی جارہی ہو تو یہ چیز بھائی گمراہ ہی کر سکتی ہے راہ صواب پر نہیں لا سکتی۔۔شیخ الاسلام کو اسلام کا محافظ ہونا چاہیے کہیں سے اگر بدعت، شرک و گمراہی کی کوئی گرد دامن عقیدہ مسلمان پر نظر آئے تو اس کو صاف کرنے والے ہونا چاہیے اپنے عمل سے سنت و حق کی راہ اجاگر کرنے والا ہونا چاہیے ایسا نہیں کہ وہ عمل کرے جو بعد میں دیکھنے والوں اور ایسے لوگوں کے لیے جو ویسے ہی مزاروں کو سجدہ بڑے شوق سے کرتے ہوں اور جنھوں نے پیروں کو معبود حاجات بنا رکھا ہو، کے لیے سند عمل بد بن جائے۔

لیکن پھر بھی اگر جناب طاہر صاحب کی نیت صاف ہے تو اس معاملے کی وضاحت کھلے عام خود ان کو ہی کرنی چاہیے بجائے کسی ترجمان کو بیچ میں ڈالنے کہ اور ساتھ ساتھ منہاج والوں کو بھی مشکوکانہ حرکتیں کرنے کے بجائے یہ ویڈیو‌خود اپنی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کر دینی چاہیے اور ساتھ ہی جناب طاہر صاحب کا وضاحتی بیان بھی تاکہ ہر کوئی خود ہی اس ویڈیو کو دیکھ کر صحیح فیصلہ کر سکے۔
 
یہاں ایک اور بات کا بھی میں ذکر کرنا چاہوں گا ایک اپنے اس جوابی موقف میں بھی منہاج والوں نے جس قسم کی زبان استعمال کی ہے ان کو ایسی زبان استعمال نہیں کرنی چاہیے ۔ کسی کو نابیا، جاہل، حامل عقئد باطلہ و مذموم مقاصد،عدل و انصاف سے عاری، شرپسند، بدبخت و جاہل وغیرہ وغیرہ قرار دینے سے منہاج کا موقف ثابت نہیں ہو سکتا۔ اگر فریق بھی کہیں غصے میں آ کر ایسی زبان منہاج یا جناب طاہر صاحب کے بارے میں استعمال کرے تو معاملہ علمی بحث کے بجائے گالم گلوچ کی طرف چلا جائے گا۔پھر منہاج القران انٹر نیشنل ایک دینی ادارہ ہے اس کو بہر کیف دینی تعلیمات کو ذہن میں رکھ کر جواب دینا چاہیے۔
یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ طاہر صاحب کوئی نبی تو ہیں نہیں کہ ان شخصیت کی مخالفت خود اللہ کی مخالفت قرار دے دی جائے وہ اپنے بعض معاملات کی بنا پر معذرت کے ساتھ لیکن ایک متنازعہ شخصیت ہیں ان کا تعلق بنیادی طور پر بریلوی مکتبہ فکر سے ہے اور میں نے خود متعدد بریلوی علما ( کہ بہت تو میرے وقف کار ہیں ) کو ان کے بارے میں شدید باتیں کرتے سنا ہے۔
ایسے حالات میں منہاج کو اور بھی زیادہ محتاط رہنا چاہیے۔
 

سویدا

محفلین
اکبر الہ آبادی کے ایک شعر کا مفہوم کچھ یوں‌ہے :

مذہبی بحث میں کبھی ‌الجھا ہی نہیں‌
فالتو عقل مجھ میں‌تھی ہی نہیں‌
 
ایک مرتبہ فاروق بھائی نے اس طرح کے مشرکانہ اطوار کے بارے میں ایک نظم پوسٹ کی تھی۔
شرک ایک مخصوص خیال کو کہتے ہیں۔ یہ مخصوص خیال یا انڈرسٹینڈنگ (یا مس انڈرسٹینڈنگ:)) اگر کسی بھی عمل میں پایا جائے تو اس عمل کو شرکیہ عمل کہا جا تا ہے۔ کوئی بھی عمل بذاتِ خود شرک نہیں ہوتا بلکہ اگر اسکے پیچھے موجود پوائنٹ آف ویو یا خیال یا نیّت شرک ہوسکتی ہے۔ ۔ ۔ اب اتنی سی تمہید کے بعد اس سارے واقعے کو دیکھیں اور نیّتوں کا حال اللہ کے علم کے سپرد کریں تو خالی خولی عمل رہ جاتا ہے اور یہ عمل بذاتِ خود شرک نہیں ہوتا وگرنہ فرشتوں کا آدم کو سجدہ کرنا، اللہ کا اس سجدے کا حکم دینا، یعقوب علیہسلام کا حضرت یوسف کو سجدہ کرنا سب معاذ اللہ شرک ٹھرے گا اور اس مزعومہ شرک سے انکار پر شیطان شاباش کا حقدار ہوجائے گا:)۔ ۔ ۔اور جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہوا کہ دست بوسی اور قدم بوسی بھی معاذاللہ شرک ٹھریں گے۔ ۔ ۔ خود ہی انداذہ کر لیجئے اس بات کے کونسیکوینسز کا۔
لہذا بات آکر نیّت پر ٹھرتی ہے اور نیت کا حال آپ یا میں نہیں جانتے۔ ہمیں تو کسی بھی مسلمان سے حسنِ ظن کا حکم ہے۔ یعنی جہاں تک ہوسکے اسکی ایک پازیٹیو توجیہہ پیش کی جائے۔ یہی مسلمانی کا تقاضا ہے۔:)
 
فاروق سرور خان صاحب نے یہ ویڈیو اپنی سائٹ پر اپلوڈ کر دی ہے جس کو دیکھنی ہو ڈاون لوڈ کر کہ دیکھ سکتا ہے
http://openburhan.net/tahiulqadri.flv
نوٹ "
آبی صاحب نے جو جوابی موقف ترجمان منہاج کا دیا ہے وہ بھی منہاج کی ویب سائٹ پر موجود ہے ۔ بہتر ہے کہ منہاج اپنے اس موقف کے ساتھ وہ اصلی ویڈیو بھی اپ لوڈ کر دے اس کے بعد لوگ اپنے رجحان کے مطابق خود ہی فیصلہ کر سکیں گئے۔
منہاج کا موقف یہاں آپ دیکھ سکتے ہیں۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
شرک ایک مخصوص خیال کو کہتے ہیں۔ یہ مخصوص خیال یا انڈرسٹینڈنگ (یا مس انڈرسٹینڈنگ:)) اگر کسی بھی عمل میں پایا جائے تو اس عمل کو شرکیہ عمل کہا جا تا ہے۔ کوئی بھی عمل بذاتِ خود شرک نہیں ہوتا بلکہ اگر اسکے پیچھے موجود پوائنٹ آف ویو یا خیال یا نیّت شرک ہوسکتی ہے۔ ۔ ۔ اب اتنی سی تمہید کے بعد اس سارے واقعے کو دیکھیں اور نیّتوں کا حال اللہ کے علم کے سپرد کریں تو خالی خولی عمل رہ جاتا ہے اور یہ عمل بذاتِ خود شرک نہیں ہوتا وگرنہ فرشتوں کا آدم کو سجدہ کرنا، اللہ کا اس سجدے کا حکم دینا، یعقوب علیہسلام کا حضرت یوسف کو سجدہ کرنا سب معاذ اللہ شرک ٹھرے گا اور اس مزعومہ شرک سے انکار پر شیطان شاباش کا حقدار ہوجائے گا:)۔ ۔ ۔اور جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہوا کہ دست بوسی اور قدم بوسی بھی معاذاللہ شرک ٹھریں گے۔ ۔ ۔ خود ہی انداذہ کر لیجئے اس بات کے کونسیکوینسز کا۔
لہذا بات آکر نیّت پر ٹھرتی ہے اور نیت کا حال آپ یا میں نہیں جانتے۔ ہمیں تو کسی بھی مسلمان سے حسنِ ظن کا حکم ہے۔ یعنی جہاں تک ہوسکے اسکی ایک پازیٹیو توجیہہ پیش کی جائے۔ یہی مسلمانی کا تقاضا ہے۔:)

آپ کا شکریہ کہ آپ نے مجھ جیسے کم علم کو شرک کے معنی سمجھانے کی کوشش کی۔ اللہ تعالی ہم سب کو حق کو حق سمجھنے اور اس کی اتباع کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور باطل کو باطل سمجھنے اور اس سے اجتناب کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
غیر اللہ کو سجدہ کرنے کو میں شرک ہی کہوں گا، خواہ اس کی کتنی ہی ثقیل اور فلسفیانہ توجیہات نہ پیش کر دی جائیں۔ میری عادت نہیں ہے کہ میں اس طرح کے مباحث میں شریک ہوں اور نہ ہی میری (کم) علمی حیثیت اس طرح کے مباحث کی متحمل ہے۔ لیکن اس ویڈیو کو دیکھنے کے بعد کم از کم میرے ذہن میں اس کے متعلق کوئی ابہام نہیں ہے۔ اگر میرے الفاظ سے کسی کی دل شکنی ہوئی ہے تو احادیث کی تاویل کے ذریعے اس طرح کی شخصیت پرستی کو جائز قرار دینا مجھے بھی نہیں پسند آیا ہے۔ حساب برابر۔
 

شمشاد

لائبریرین
اسلام میں غیر اللہ کو سجدہ کرنا منع ہے۔ حدیث شریف میں ہے جس کا مطلب کچھ یوں ہے کہ " رسول اللہ صلی اللہ نے فرمایا اگر غیر اللہ کو سجدہ جائز ہوتا تو میں عورتوں کو حکم دیتا کہ اپنے خاوندوں کو سجدہ کیا کرو۔"
 
اسلام میں غیر اللہ کو سجدہ کرنا منع ہے۔ حدیث شریف میں ہے جس کا مطلب کچھ یوں ہے کہ " رسول اللہ صلی اللہ نے فرمایا اگر غیر اللہ کو سجدہ جائز ہوتا تو میں عورتوں کو حکم دیتا کہ اپنے خاوندوں کو سجدہ کیا کرو۔"
بالکل ٹھیک بات یہی ہے کہ اسلام میں غیر اللہ کو سجدہ ممنوع ہے۔ لیکن اسکو شرک نہیں کہا گیا۔ شرک ہوتا تو فرشتے اور پیغمبر یہ شرک کبھی نہ کرتے۔ اسکو ممنوع اسلئیے قرار دیا گیا محمّدی شریعت میں کہ اس میں شرک سے مشابہت ہے۔ عرب کے لوگ جو سراسر شرک میں لت پت تھے انکی اصلاح کیلئے ہر ایسا عمل جو شرک سے ذرا بھی مشابہت رکھتا ہو ممنوع قرار دے دیا گیا۔ لہذا یہ فقہ کا مسئلہ ہے، عقائد کا نہیں۔ فقہ کی رو سے ایسا کرنا غلط ہے۔
ہم لوگ بھی جو کعبے کی طرف منہ کرکے سجدہ کرتے ہین دراصل کعبے کو سجدہ نہیں کرتے بلکہ سجدہ اس ذات کو ہوتا ہے جو ہر قسم کی قید سے پاک ہے۔ لیکن اسی بات کو نہ سمجھتے ہوئے اور محض ظاہری عمل کو بنیاد بناتے ہوئے ہندو لوگ بھی جھٹ مسلمانوں پر اعتراض جڑ دیتے ہیں کہ "آپ لوگ بھی تو مٹی پتھر کی ایک عمارت کو سجدہ کرتے ہیں۔ تو لہذا شرک تو یہ بھی ہوا"۔ ۔ ۔ کیا خیال ہے؟;)
 

dxbgraphics

محفلین
منہاج القرآن کی ویب سائٹ پر ان کا موقف پڑھا تو پڑھ کر افسوس ہوا کہ انہوں نے شیخ صاحب کی شخصیت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کے برابر کرنے کی کوشش کی ہے ۔

استفراللہ الذی لا الہ الا ھوالحی القیوم و اتوب الیہ
اللہ طاہر قادری صاحب کو ہدایت نصیب کرے
 

مہوش علی

لائبریرین
از ابن حسن:
قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں طاہر القادری ایک محفل سماع میں مشغول ہیں قوال بطور خاص ان کے لیے لکھا ہو کلام پڑھ رہے ہیں لوگ بھنگڑا ڈال رہے ہیں ساتھ ساتھ وقفے وقفے سے ان میں سے ہی کچھ افراد آتے ہیں اور باقاعدہ طاہر القادری کو سجدہ کرتے ہیں اور اس پر طاہر القادری ان کو منع کرنے کے بجائے ان کی پیٹھ تھپکتے اور گویا حوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔

اگر پرخاش نہ ہوتی تو نظر آ جاتا کہ یہ سجدہ نہیں بلکہ قدم بوسی تھی جسکی وجہ سے طاہر القادری صاحب اس سے ایسے منع بھی نہیں کر سکتے تھے کہ یہ حرام کام ہو۔
مگر نہیں، انہیں 80 فیصد قدم بوسی کے کیسز کے بعد ایک کیس میں شک پیدا ہوا کہ قدم کچھ انچ کے فاصلے پر تھا۔۔۔۔ اور بس پھر کیا تھا، ان کی دلی مرادیں بر آئیں، شک کا بیچ بو کر اس پر تناور درخت کھڑا کیا اور سجدے کے الزام کا واویلا اٹھا دیا۔
اہل انصاف فیصلہ کر لیں کہ یہ حسن ظن ہے یا پرخاش۔

اسکے باوجود جو لوگ اس پر سجدے کرنے اور پھر طاہر القادری صاحب پر انکی پیٹھ تھپتھپانے کا الزام لگا رہے ہیں، انکے لیے بعینہ انہی الفاظ میں میں انکی مذمت کروں گی:
١۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے زندگی بھر کبھی کسی کو یہ اجازت نہیں دی کہ انہیں سجدہ کرے۔ سجدہ تو دور کی بات ہے، وہ ہمیشہ اپنے عقیدت مندوں کو اپنے ہاتھ چومنے سے بھی منع کرتے ہیں۔ اُنہوں نے کبھی اپنی ذات کے لیے پاؤں چومنے کا عمل پسند نہیں کیا۔ ٢۔ دمشق میں منعقد ہونے والی محفلِ سماع کے ویڈیو کلپ میں بھی وہ قدم بوسی کے لیے جھکنے والے شخص کو اپنے ہاتھوں سے ہٹاتے ہوئے واضح نظر آرہے ہیں۔ لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ اس ویڈیو پر تبصرہ کرنے والے بعض ''نابینوں'' نے اِسے شاباش سے تعبیر کیا ہے۔
انسان ہر کسی کو خوش نہیں کر سکتا۔ اور خاص طور پر اُن کو جو شکوک کے سمندر پیدا کرنا چاہتے ہیں۔

۔ پہلی بات یہ کہ قدم بوسی فعل حرام نہیں جو اس پر کوئی "انتہائی شدید و سخت" رویہ اختیار کیا جاتا۔
۔ مگر پھر بھی طاہر القادری صاحب کو یہ فعل اپنی ذات کے لیے پسند نہیں۔
۔ اور وہ لوگوں کو قدم بوسی کرتے وقت ہٹاتے ہیں، اور پھر شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی پیٹھ تھپتھپاتے ہیں کہ یہ محبت کا درس ہے۔ مگر "نابینا" نہیں، بلکہ "دلوں میں پرخاش" رکھنے والوں کے لیے کافی ہے کہ وہ الزام لگا سکیں کہ طاہر القادری اپنے آپ کو سجدہ کروانے کے لیے ان کی پیٹھ تھپتھپا رہے تھے۔
آپ لوگوں سے درخواست ہے کہ پھر سے ایک مرتبہ ویڈیو کو دیکھیں اور فیصلہ کریں کہ آیا طاہر القادری صاحب اپنے آپ کو سجدے کروانے کے لیے انکی پیٹھ تھپتھپا رہے ہیں، یا پھر انکا پہلا ری ایکشن یہ ہے کہ وہ ان لوگوں کو قدم بوسی کرتے وقت ہاتھ سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں اور صرف اسکے بعد وہ پیار و شفقت سے ان لوگوں کو گلے لگاتے ہیں یا انکی پیٹھ تھپتھپاتے ہیں؟

از ابن حسن:
یہاں اگر ویڈیو موجود ہوتی اور لوگ اس کو دیکھ سکتے تو بات بالکل صاف ہو جاتی۔ ہو سکتا ہے کہ طاہر صاحب کمر درد میں مبتلا ہوں اور اچانک سجدہ کرنے والوں کو نہ روک سکتے ہوں لیکن کیا اس محفل میں ایک بار ہی یہ اعلان نہ کیا جاسکتا تھا کہ طاہر صاحب اس عمل کو ناپسند کرتے ہیں اور لوگ ایسا نہ کریں ؟؟؟؟ کیا ایسا کوئی بھی اعلان طاہر صاحب کی طرف سے اس محفل میں کیا گیا؟؟
ان حضرات کی شرائط کو تو کوئی پورا نہیں کر سکتا اور انہوں نے ہر حالت میں الزام لگانے کا کوئی نہ کوئی بہانہ ڈھونڈ ہی لینا ہے۔
قدم بوسی کوئی ایسا فعل نہ تھی جو حرام ہوتی۔ اگر طاہر القادری صاحب اس سے بالکل بھی نہ روکتے، تب بھی اس پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا تھا۔
ایک طرف طاہر القادری صاحب نے اس چیز کو اپنے لیے ذاتی طور پر پسند نہیں کیا، اوردوسری طرف انہوں نے یہ ضرورت نہ سمجھی کہ پوری محفل کو درہم برہم کرتے ہوئے بیچ میں اعلان کریں کہ اگرچہ یہ سنت رسول ص سے ثابت شدہ مستحب فعل ہے، مگر چونکہ مجھے اپنی ذات کے لیے پسند نہیں اس لیے آپ اس سے باز رہیے۔
اب ان لوگوں سے سوال ہے کہ ثابت کیجئے کہ طاہر القادری پر شرعی طور پر لازم و واجب تھا کہ انکی عائد کردہ شرط کے مطابق محفل درہم برہم کرتے ہوئے یہ اعلان کرتے کہ وہ اس مستحب فعل سے باز رہیں۔
میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ ان لوگوں کو کوئی کبھی خوش کر سکتا ہے اور نہ انکی اپنی طرف سے جاری کردہ شرائط کو کوئی پورا کر سکتا ہے۔ یہ اسلامی شریعت کی شرط نہیں، بلکہ انکی اپنی جاری کردہ شریعت کی شرط ہے جو ہر قدم پر بدل سکتی ہے۔

اور جہاں تک شریعت میںسجدہ یا سجدہ تعظیمی کی بات ہے، تو اس سلسلے میں طاہر القادری صاحب نے کھل کر اسلامی شریعت کو بیان کیا ہے۔ اسکا ایک حوالہ میں اوپر دے چکی ہوں۔ نیز مزید حوالے آبی کی پوسٹ میں موجود ہیں:
سجدہ تو بہت دور کی بات ہے۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے خطابات اور کتب میں جابجا غیر اللہ کے لیے سجدہ عبادت کو شرک اور سجدہ تعظیمی کو حرام قرار دیا ہے۔ حوالہ کے لیے ان کی دو جلدوں پر مشتمل کتاب التوحید اور دوسری کتاب تعظیم اور عبادت ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔

از ابن حسن:
ایک صاحب جن کو شیخ الاسلام ہونے کا دعوہ ہے وہ ایک ایسی محفل سماع میں شریک ہوتے ہیں جہاں حمدیہ اشعار پڑھے جارہے تھے۔اس دوران لوگ آ آ کر قدم بوسی کا شرف حاصل کرتے ہوں اور اس طرح کہ قدم بوسی سجدہ تعظیمی لگتی ہو۔ قدم بوسی ہو لیکن بوسہ قدم نظر نہ آئے۔

اور اس طرح کہ قدم بوسی سجدہ تعظیمی لگتی ہو۔ ۔۔۔۔۔۔۔ یہ دماغی خلل ہے جو انہیں قدم بوسی سجدہ تعظیمی لگتی ہے۔
قدم بوسی ہو لیکن بوسہ قدم نظر نہ آئے۔۔۔۔۔۔۔ یہ دماغی خلل جو انہیں بوسہ قدم نظر نہ آئے

از ابن حسن:
پھر اچانک ایک شعر وارد ہوتا ہو
جس جا نظر آتے ہو سجدے وہیں کرتا ہوں
اس سے نہیں کچھ مطلب کعبہ ہو یا بت خانہ
لیکن سننے والا اپنے دل کو تسلی دیتا ہو کہ یہ شعر تو خداوند کریم کی شان میں کہا گیا اسی دوران ایک اور بار ایک اور شخص قدم بوسی کا شرف حاصل کرتا ہو پھر دو اشعار کے بعد اچانک قوال یہ شعر پرھتا ہو
پینے کو تو پی لوں گا پر شرط ذرا سی ہے
بغداد کا سافی ہو منہاج کا میخانہ

تو سوچئے کہ عام ناظر کیا خیال کرے گا؟؟؟؟ایک ایسا شعر جس سے حمد میں ایک ایسا تصرف کیا جائے کہ حمدیہ اشعار کا رخ باری تعالیٰ کے بجائے جناب شیخ الاسلام کی طرف ہو جائے ؟؟؟

پینے کو تو پی لوں گا پر شرط ذرا سی ہے
بغداد کا سافی ہو منہاج کا میخانہ

اس شعر سے میں کہاں یہ کہا جا رہا ہے کہ طاہر القادری صاحب کو سجدے کرو؟ "منہاج" کی تصرف کے بعد بھی یہ چیز کہیں نہیں نکلتی کہ اس سے طاہر القادری صاحب کو سجدے کرنے کا کہا جا رہا ہو۔ مگر وہ جب کے دل و دماغ پرخاش زدہ ہوں، وہ ہر صورت میں کوئی نہ کوئی بہانہ نکال کر شکوک پیدا کریں گے اور اس بنیاد پر دوسروں پر ناحق سنگین الزامات لگانے کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔
اللہ تعالی ان لوگوں کو ہدایت دے اور ان پرخاشوں کو انکے دلوں سے دور فرمائے۔ امین۔
 

محسن حجازی

محفلین
آپ کا شکریہ کہ آپ نے مجھ جیسے کم علم کو شرک کے معنی سمجھانے کی کوشش کی۔ اللہ تعالی ہم سب کو حق کو حق سمجھنے اور اس کی اتباع کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور باطل کو باطل سمجھنے اور اس سے اجتناب کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
غیر اللہ کو سجدہ کرنے کو میں شرک ہی کہوں گا، خواہ اس کی کتنی ہی ثقیل اور فلسفیانہ توجیہات نہ پیش کر دی جائیں۔ میری عادت نہیں ہے کہ میں اس طرح کے مباحث میں شریک ہوں اور نہ ہی میری (کم) علمی حیثیت اس طرح کے مباحث کی متحمل ہے۔ لیکن اس ویڈیو کو دیکھنے کے بعد کم از کم میرے ذہن میں اس کے متعلق کوئی ابہام نہیں ہے۔ اگر میرے الفاظ سے کسی کی دل شکنی ہوئی ہے تو احادیث کی تاویل کے ذریعے اس طرح کی شخصیت پرستی کو جائز قرار دینا مجھے بھی نہیں پسند آیا ہے۔ حساب برابر۔

زبردست۔
یہ الفاظ کو گھما پھرا کر فیض روحانی چشتیہ کشتیہ پشتیہ کی باتیں کرکے غلط کو صحیح ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ غلط بات غلط ہے۔
لکم دینکم ولی دین۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
3۔ محمود غزنوی صاحب اور آبی ٹو کول صاحب کی دو پوسٹوں سے دو نئی باتیں سامنے آئی ہیں

:sick::nailbiting:
یہاں ایک اور بات کا بھی میں ذکر کرنا چاہوں گا ایک اپنے اس جوابی موقف میں بھی منہاج والوں نے جس قسم کی زبان استعمال کی ہے ان کو ایسی زبان استعمال نہیں کرنی چاہیے ۔ کسی کو نابیا، جاہل، حامل عقئد باطلہ و مذموم مقاصد،عدل و انصاف سے عاری، شرپسند، بدبخت و جاہل وغیرہ وغیرہ قرار دینے سے منہاج کا موقف ثابت نہیں ہو سکتا۔ اگر فریق بھی کہیں غصے میں آ کر ایسی زبان منہاج یا جناب طاہر صاحب کے بارے میں استعمال کرے تو معاملہ علمی بحث کے بجائے گالم گلوچ کی طرف چلا جائے گا۔پھر منہاج القران انٹر نیشنل ایک دینی ادارہ ہے اس کو بہر کیف دینی تعلیمات کو ذہن میں رکھ کر جواب دینا چاہیے۔
یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ طاہر صاحب کوئی نبی تو ہیں نہیں کہ ان شخصیت کی مخالفت خود اللہ کی مخالفت قرار دے دی جائے وہ اپنے بعض معاملات کی بنا پر معذرت کے ساتھ لیکن ایک متنازعہ شخصیت ہیں ان کا تعلق بنیادی طور پر بریلوی مکتبہ فکر سے ہے اور میں نے خود متعدد بریلوی علما ( کہ بہت تو میرے وقف کار ہیں ) کو ان کے بارے میں شدید باتیں کرتے سنا ہے۔
ایسے حالات میں منہاج کو اور بھی زیادہ محتاط رہنا چاہیے۔

السلام علیکم ابن حسن بھائی ! سب سے پہلے تو مجھے آپ کا مجھ خاکسار کو صاھب کہنا اچھا نہیں لگا کیونکہ ہم دونوں ہی یہاں پر ایک عرصے سے ہیں اور ایکدوسرے سے نظریاتی اختلاف ہونے کے باوجود ہم نے ہمیشہ ایکدوسرے کو بھائی کہہ کر ہی مخاطب کیا ہے لہزا آپ اب بھی مجھے بھائی ہی کہتے تو اچھا تھا کیونکہ لفظ صاحب میں مجھے اپنے لیے غیریت محسوس ہوئی :grin: خیر آپ نے بہت خوب تبصرہ فرمایا ویڈیو پر مجھے آپ کی بہت سی باتوں سے اتفاق ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ ویڈیو میں جو حرکات ہورہی تھیں ان کے فقہی جواز اور عدم جواز کی بحث ایک طرف مگر ڈاکٹر طاہر القادری صاحب جیسے بڑے عالم دین کا جو منصب ہے اس کا تقاضا یہ تھا کہ اول تو حرکات ہونے ہی نہ دی جاتیں اور اگر کوئی ایک آدھ آدمی ایسا کر گزرتا تو ان کو کو سختی سے روکنا چاہیے تھا اس عمل کو ۔ ۔ ۔ ڈاکٹر صاحب کی زات اپنے حلقوں میں بھی اور مخالف حلقوں میں بھی بلا شبہ متنازعہ ہے اور مجھے بھی کئی معاملات میں ذاتر طور پر ڈاکٹر صاحب سے اختلاف رہتا ہے مگر ان سب کے باجود اس بات سے بھی ہرگز صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ ان کی دین اسلام کے لیے بہت سی خدمات ہیں لہذا میں اپنی زاتی رائے کی حد تک اس بات کا قائل ہوں کہ جب بھی ایسی کسی بڑی شخصیت کے بارے میں گفتگو کی جائے اور اس پر تنقید روا ٹھرے تو تنقید کو فنی اعتبار سے ہی روا رکھا جانا چاہیے نہ کے شخصی اعتبار سے کسی کی بھی کردار کشی کی جانی چاہیے ۔ ۔ ۔باقی ایک بار پھر دہراؤں گا کہ ڈاکٹر صاحب اپنے تمام تر علمی مقام کے باوجود ایک انسان ہیں اور ان سے بھی غلطیوں کا امکان رہتا ہے لہذا اس ویڈیو میں جو بھی معاملہ ہوا تھا اسپر ڈاکٹر صاحب کو اپنے معتقدین کے ساتھ سختی سے پیش آنا چاہیے تھا تاکہ وہ آئندہ اس قسم کی حرکات سے گریز کریں ۔ ۔ ۔
والسلام
 

آبی ٹوکول

محفلین
آپ کا شکریہ کہ آپ نے مجھ جیسے کم علم کو شرک کے معنی سمجھانے کی کوشش کی۔ اللہ تعالی ہم سب کو حق کو حق سمجھنے اور اس کی اتباع کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور باطل کو باطل سمجھنے اور اس سے اجتناب کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
غیر اللہ کو سجدہ کرنے کو میں شرک ہی کہوں گا، خواہ اس کی کتنی ہی ثقیل اور فلسفیانہ توجیہات نہ پیش کر دی جائیں۔ میری عادت نہیں ہے کہ میں اس طرح کے مباحث میں شریک ہوں اور نہ ہی میری (کم) علمی حیثیت اس طرح کے مباحث کی متحمل ہے۔ لیکن اس ویڈیو کو دیکھنے کے بعد کم از کم میرے ذہن میں اس کے متعلق کوئی ابہام نہیں ہے۔ اگر میرے الفاظ سے کسی کی دل شکنی ہوئی ہے تو احادیث کی تاویل کے ذریعے اس طرح کی شخصیت پرستی کو جائز قرار دینا مجھے بھی نہیں پسند آیا ہے۔ حساب برابر۔
السلام علیکم نبیل بھائی !
سب سے پہلے تو مجھے آپ سے شکایت ہے کہ( اب پتا نہیں میری شکایت بجا ہے یا نہیں ) آپ ہم سب کے بڑے ہیں لیکن لیکن میں نے اکثر نوٹ کیا ہے کوئی بھی معاملہ ہو آپ اپنے بات کو عجیب دھونس والے لہجے میں پیش کرتے ہیں جو کہ میں سمجھتا ہوں کہ آپ جس منصب پر فائز ہیں اس کے لائق نہیں ۔ ۔
باقی محمود بھائی نے جو بات پیش کی وہ بلاشبہ نقل اور عقل دنوں کے اعتبار سے حق ہے اور اس کو پیش کرنے میں انھوں کوئی تاویل نہیں کی بلکہ ان کی تائید میں قرآن و سنت دونوں کے بے شمار شواہد موجود ہیں
بلاشبہ شرک دینا سلام میں ایک سنگین جرم ہے لہزا اس اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو شرک کسی کھیل یا تماشے کا نام نہیں اور نہ ہی اپنی حقیقت کےا عتبار سے یہ کسی ظاہری عمل کا نام ہے بلکہ بنیادی طور پر شرک ایک عقیدے یا نظریے کا نام ہے ۔ ۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم کوئی بھی بات اپنی ذہنی استعداد کے خلاف دیکھتے ہیں تو جھٹ سے اس پر انتہائی معنٰی فٹ کرکے فتاوی کی شکل میں پیش کردیتے ہیں ۔ ۔
جبکہ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارا یہ رویہ انتہائی سنگین ہے لہذا ہمیں ہمیشہ افراط و تفریط سے بچنا چاہیے اور اعتدال کی راہ اختیار کرنی چاہیے اور خاص طور پر ایسے معاملات کے جن کے ساتھ ہمارے دیگر مسلمان بھائیوں کے ایمان کا مسئلہ جڑا ہوا ہو ۔ ۔
شرک کے معاملے میں شریعت نے بہت سختی برتی ہے لہذا ایسے تمام افعال جو کہ اپنے ظاہری ہیئت کذائیہ میں شرک کے مشابہ ہوں اگر کوئی بھی مسلمان انکا نظریاتی طور پر ارتکاب کرتا ہے تو پھر وہ مسلمان نہیں رہتا بلکہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے لہزا یہی وجہ ہے کہ دوسری طرف کسی بھی مسلمان کو بلا تحقیق کافر کہنے والے پر بھی حدیث کے مفھوم کی رو سے سخت وعید آئی ہے لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم شرک کے حکم کی سختی تو دیکھتے ہیں مگر دوسری طرف یہ نہیں دیکھتے ہیں کہ ایک مسلمان کو بلا تحقیق کافر (مشرک)کہنا اس سے بھی بڑا جرم ہے ۔ ۔
 

باذوق

محفلین
شرک ایک مخصوص خیال کو کہتے ہیں۔ یہ مخصوص خیال یا انڈرسٹینڈنگ (یا مس انڈرسٹینڈنگ:)) اگر کسی بھی عمل میں پایا جائے تو اس عمل کو شرکیہ عمل کہا جا تا ہے۔ کوئی بھی عمل بذاتِ خود شرک نہیں ہوتا بلکہ اگر اسکے پیچھے موجود پوائنٹ آف ویو یا خیال یا نیّت شرک ہوسکتی ہے۔ ۔ ۔ اب اتنی سی تمہید کے بعد اس سارے واقعے کو دیکھیں اور نیّتوں کا حال اللہ کے علم کے سپرد کریں تو خالی خولی عمل رہ جاتا ہے اور یہ عمل بذاتِ خود شرک نہیں ہوتا وگرنہ فرشتوں کا آدم کو سجدہ کرنا، اللہ کا اس سجدے کا حکم دینا، یعقوب علیہسلام کا حضرت یوسف کو سجدہ کرنا سب معاذ اللہ شرک ٹھرے گا اور اس مزعومہ شرک سے انکار پر شیطان شاباش کا حقدار ہوجائے گا:)۔ ۔ ۔اور جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہوا کہ دست بوسی اور قدم بوسی بھی معاذاللہ شرک ٹھریں گے۔ ۔ ۔ خود ہی انداذہ کر لیجئے اس بات کے کونسیکوینسز کا۔
لہذا بات آکر نیّت پر ٹھرتی ہے اور نیت کا حال آپ یا میں نہیں جانتے۔ ہمیں تو کسی بھی مسلمان سے حسنِ ظن کا حکم ہے۔ یعنی جہاں تک ہوسکے اسکی ایک پازیٹیو توجیہہ پیش کی جائے۔ یہی مسلمانی کا تقاضا ہے۔:)
ویسے تو آپ کے اس فلسفے کا اس قدر بہترین جواب نبیل نے دیا ہے کہ انہیں ایک عدد ایوارڈ سے ضرور نوازا جانا چاہئے :)
کوئی بھی عمل بذاتِ خود شرک نہیں ہوتا بلکہ اگر اسکے پیچھے موجود پوائنٹ آف ویو یا خیال یا نیّت شرک ہوسکتی ہے
واہ واہ ! کیا نکتہ عظیم ارسال فرمایا ہے۔
اب اس فلسفے کے مطابق تو ہندوستان بھر میں جو بت پرست ہندو بنیے بتوں کے سامنے سر جھکا رہے ہیں یا لیٹے جا رہے ہیں ، وہ مشرک نہیں ، بلکہ توحید کے علمبردار ہوئے کہ ان کی نیت کا حال ہمیں کیا معلوم ! جیسا کہ آپ نے خود اقبال کیا :
لہذا بات آکر نیّت پر ٹھرتی ہے اور نیت کا حال آپ یا میں نہیں جانتے۔

ایک اور مثال لے لیں ۔۔۔۔ طلاق دی جاتی ہے زبان سے
اب کوئی شوہر صاحب ، باقاعدہ طلاق کے کوئی سال بھر بعد یہ نعرہ لگاتے ہوئے طلاق یافتہ بیوی سے زبردستی رجوع کرنا چاہیں
میری نیت تو طلاق دینے کی نہیں‌ تھی !!
تو ۔۔۔۔۔ ؟؟
تو غالباَ اُس وقت یہ واقعہ دیکھ کر ہمارے محمود غزنوی صاحب فرمائیں گے :
نیّتوں کا حال اللہ کے علم کے سپرد کریں تو خالی خولی عمل رہ جاتا ہے
یعنی طلاق محض ایک خالی خولی عمل ہے !!
طلاق کے بعد بھی اگر نیت ٹھیک ہے ۔۔۔۔ تو جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے ;)


واہ ! کیا من موجی شریعت نکال رکھی ہے یار دوستوں نے ، سبحان اللہ !! :)
 
اور اس طرح کہ قدم بوسی سجدہ تعظیمی لگتی ہو۔ ۔۔۔۔۔۔۔ یہ دماغی خلل ہے جو انہیں قدم بوسی سجدہ تعظیمی لگتی ہے۔
قدم بوسی ہو لیکن بوسہ قدم نظر نہ آئے۔۔۔۔۔۔۔ یہ دماغی خلل جو انہیں بوسہ قدم نظر نہ آئے


[arabic]وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلاماً[/arabic] (القرآن)

یہ میرا جواب مہوش کے لیے ہے، جو اب میرے خیال میں کسی علمی و شائستہ گفتگو کی اہل نہیں۔


اور اردو محفل کی انتظامیہ سے میں اول تو یہ جاننا چاہوں گا کہ یہ حصہ ایک عدد ماڈریٹر کے تحت ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ یہاں کسی قسم کی غیر اخلاقی اور نا شائستہ گفتگو جگہ نہ پا سکے۔ تو ان محترمہ کی یہ پوسٹ جس میں براہ راست اتنا شدید ذاتی حملہ کیا گیا ہے وہ کیسے یہاں جگہ پا گئی؟
2۔ اس سے پہلے کئی افراد مہوش کی ناشائستہ گفتگو کی شکایت کر چکے ہیں حال میں میں گرائیں صاحب نے اس کے خلاف آواز اٹھائی تھی، میں اردو محفل انتظامیہ سے اپیل کرتا ہوں کہ اس فورم کے اخلاقی معیار کو برقرار رکھنے کے لیے ایسے افراد کے خلاف کوئی ایکشن ضرور لیں اور پھر یہ کسی ایک ممبر کی شکایت نہیں بلکہ جیسا کہ میں نے عرض کیا ان کے متاثرین کی تعداد کافی زیادہ ہے۔


جواب آبی ٹو کول بھائی نے بھی دیا ہے اور آبی بھائی خود طاہر صاحب کو پسند کرتے ہیں لیکن کیا کسی قسم ناشائستہ روی یا تلخی ان کے جواب میں جگہ پا سکی؟؟؟ کاش بعض افراد دینی تعلیمات کے ایک بہت بڑے باب اخلاقیات کے بارے میں کچھ بنیادی باتیں ہی پڑھ لیں۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top