چیف جسٹس آف پاکستان معطل

قیصرانی

لائبریرین
ایک یہ ربط دیکھیئے گا

up56.gif


دیگر اصل لنک کو میں تلاش کر رہا ہوں
 

نبیل

تکنیکی معاون
اب شاید وہ زمانہ نہیں رہا ہے کہ اخبارات میں صرف وہی چھپ سکتا تھا جو کچھ وزات اطلاعات کی پریس ایڈوائس میں ہوتا تھا۔ مجھے تو یہی نظر آ رہا ہے کہ عوام کے جذبات کا لاوا بالآخر ابل پڑا ہے اور حکومت کے لیے اس کو کنٹرول کرنا ممکن نہیں رہے گا۔

میرا مقصد حکومت کے مخالفین کو فرشتے قرار دینا نہیں ہے۔ جب یہ اقتدار میں تھے تو انہوں نے بھی عدلیہ کے ساتھ یہی کچھ کیا تھا۔ لیکن یہ اس چیز کی جسٹیفیکیشن نہیں ہے کہ پھر سے کوئی حکومت چیف جسٹس کو زبردستی اس کے عہدے سے الگ کردے۔ اس کی قانون میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن جس ملک میں قانون مذاق بن چکا ہو وہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ جہاں ایک فرجی آمر ایک فراڈ ریفرنڈم کے ذریعے صدر بن جائے اور ساتھ ہی فوج کا سربراہ بھی رہے وہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

ویسے وصی ظفر کا بین الاقوامی میڈیا کے سامنے گالم گلوچ پر اتر آنا زیادہ حیرانی کی بات نہیں ہے۔ یہاں کسی کو بھی بات کرنے کی تمیز نہیں ہے۔ خود جنرل صاحب نے اپنے دورہ امریکہ کے دوران کہا تھا کہ پاکستان میں جس عورت نے امیر بننا ہوتا ہے وہ اپنا rape کروا لیتی ہے۔ ان الفاظ پر جنرل نے کبھی معذرت بھی نہیں کی کہ وہ شرمندہ ہونا نہیں جانتے۔ یہاں جنرل صاحب کے الفاظ کو کس صوبے کی تہذیب کا قصور قرار دیا جائے؟
 

مہوش علی

لائبریرین
اس فورم میں موجود تمام افراد کے متعلق میرا یقین ہے کہ وہ "صدق دل" سے پاکستان کے لیے محبت رکھتے ہیں اور اپنے فہم کے مطابق اسکی مشکلات کا حل نکالنا چاہتے ہیں۔

مگر مسئلہ یہ ہے کہ ان کے فہم ایک مقام پر آ کر ایک دوسرے سے ٹکرا جائیں گے، اور اصل امتحان اُسی وقت شروع ہوتا ہے کہ آراء کے اس ٹکراؤ کو کیسے ھینڈل کیا جائے۔

پاکستانی جمہوریت اور حکومت کے حوالے سے آپ سب کی آراء قابلِ احترام، لیکن اب میں اپنی کم فہمی کے باوجود اپنی رائے کا اظہار کرنے جا رہی ہوں، اور مقصد کسی کی دل شکنی نہیں بلکہ ہر کسی کی رائے میرے لیے محترم ہے۔

\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\

موجودہ صدرِ پاکستان کی مخالفت مندرجہ ذیل دھڑے کا رہے ہیں:


1۔ جمہوریت پسند دھڑے (مثلا پیپلز پارٹی، نواز لیگ، ۔۔۔) اور ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو جمہوریت کو "خدائی نظام" سمجھتے ہیں۔

2۔ ۔ مذھبی دھڑے (ان میں تمام تر ذیلی مذھبی دھڑے شامل ہیں)۔ یہ لوگ بھی جمہوریت کا نعرہ بلند کرتے ہیں مگر حقیقت میں اگر یہ خود حکومت میں آئیں تو یہ طالبان طرز حکومت بنائیں گے جہاں جمہوریت تو ایک طرف، آزادیِ رائے بھی حاصل نہ ہو گی۔


///////////////////////////////

مذھبی دھڑوں کو اب ایک طرف رکھتے ہیں، اور "جمہوریت کے نام لیوا دھڑوں" کی طرف چلتے ہیں۔


کیا پاکستان میں جمہوری نظام ایک آئیڈیل نظام ہے؟

یہ ایک بہت ہی اہم سوال ہے جسکا جواب کوئی نہیں دیتا اور ہر کوئی آنکھیں موند کر بیٹھا ہے۔

میرا جواب ہے کہ 100 فیصدی مغربی طرز کی جمہوریت پاکستان کے حالات کے حساب سے زہرِ قاتل ہے۔

۔ جب تک پاکستان میں لسانی، ذات پات، وڈیرہ شاہی، ۔۔۔۔۔۔ اور ان جیسی دیگر بیماریاں موجود ہیں، اُس وقت تک یہ نظام پاکستان میں ترقی لانے کی بجائے اسے قتل ہی کر ڈالے گا۔

(موجودہ 70 عدد بدمعاش وزراء کی ٹیم پر تو اعتراض ہے، مگر میں اس میں کچھ اور چیز دیکھ رہی ہوتی ہوں، اور وہ یہ کہ یہ بدمعاش وزراء پچھلی تمام "قانونی جمہوری حکومتوں" کا ہی پھل ہیں۔
اور میں کس طرح بھول جاؤں کہ جب تک موجودہ صدر ایک نگران صدر رہے، اُن کی ٹیم بہت ہی Talented افراد پر مشتمل تھی اور اسی ٹیم نے پاکستان کو بحرانوں سے نکالا تھا۔
پھر انہی جمہوریت کے چیمپئینز کے پریشر کی وجہ سے الیکشنز ہوتے ہیں، اور اُن میں وہی کھوٹے سکے پارلیمنٹ میں لا کر بٹھا دے جاتے ہیں۔
تو اب ان کھوٹے سکوں اور ناکارہ ہتھیاروں سے ہی صدر صاحب کو جنگ لڑنا تھا۔ اس میں اگر اُنہوں نے کوئی اپنی مرضی کا بندہ شامل کیا ہے، تو وہ وزیرِ اعظم شوکت عزیز تھے اور مجھے انکی شان میں کوئی قصیدہ پڑھنے کی ضرورت نہیں۔


تو میں یہ بات نہیں بھول سکتی کہ ان 70 عدد بدمعاش وزراء کی کابینہ کے اصل ذمہ دار صدرِ پاکستان نہیں، بلکہ جمہوریت کے یہ چیمپیئنز ہیں۔ اور اگر کوئی یہ حقیقت نہیں دیکھتا اور ان 70 عدد بدمعاش وزراء کی کابینہ کا قصوروار موجودہ صدر کو ٹہراتا ہے، تو میری نظر میں یہ کوتاہ بینی ہے اور حالات سے ناانصافی۔


اور اچھا، یہ کوتاہ بینی اب آگے بڑھے گی۔

مجھے بھی لگ رہا ہے کہ عوام صدر صاحب کے مخالف ہو گئی ہے۔

مگر یہ کوتاہ بینی پھل یہ لائے گی اور موجودہ صدرِ پاکستان تو شاید رخصت ہونے کو ہیں، مگر اُن کے بعد یہ جمہوریت ہمیں پھر انہی جیسے 70 عدد بدمعاش وزراء کی ٹیم عطا کرے گی۔ جو پھر مہنگائی کو نہ روک پائیں گے، اور ایسے ہی تحریکیں چلیں گی اور پھر وہ حکومت بھی گرا دی جائے گی۔

///////////////////////////////////////

ایک اور بات سن لیجئے، میں یورپ کے جس ملک میں موجود ہوں، اسکی نیشنل اسمبلی میں نظر ڈالیں تو حیرت ہو گی کہ ایک بھی ممبر ایسا نہیں جسے عوام نے اس لیے منتخب کیا ہو کہ وہ اپنے علاقے کا سب سے بڑا بدمعاش تھا، یا اُس کی ملک فیملی تھی، یا وہ چوہدری تھا، یا وہ کسی لسانی گروہ سے تعلق رکھتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ ہر دوسرا بندہ یہاں اپنے اپنے سبجیکٹ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھتا ہے اور صرف اور صرف اپنی ذاتی لیاقت کے بل بوتے پر عوام نے اسے سلیکٹ کیا ہے۔

\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\

ایک اور بات سن لیں۔

آج جو لوگ موجودہ صدرِ پاکستان کے خلاف ہے، وہ کل خود آپس میں دستِ و گریباں ہونے والے ہیں۔ یہ چھوٹے چھوٹے گروہ ہیں، جو آپس میں مل کر مشترکہ اپوزیشن کی صورت میں شاید موجودہ صدر کی حکومت کو گرا لیں، مگر اس کے بعد جمہوریت کے یہ علمبردار ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچتے نظر آئیں گے۔

یہ طوائف الملوکیت یقینا پاکستان کے لیے بہت ہی نقصان دہ ہو گی۔ اس وقت پاکستان کو ایک انتہائی مضبوط حکومت کی ضرورت ہے جو کہ مختلف اداروں میں ایک خاص مدد تک ایک تسلسل قائم رکھے۔

\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\

موجودہ صدرِ پاکستان کے متعلق بہت سے اراکین یہاں یہ رائے رکھتے ہیں کہ وہ بہت ناکارہ شخص ہیں۔

آپکی آراء سر آنکھوں پر، لیکن اگر مجھے اپنی آزاد رائے قائم کرنے کا حق ہے تو صدر صاحب کے متعلق پڑھنے کے بعد، اور اُنکے انٹرویز سننے کے بعد مجھے وہ بہت Talented انسان دکھائی دیے، جو کہ پاکستان کے بہت وفادار ہیں اور بہت سے بحرانوں سے پاکستان کو نکال سکیں ہیں۔

یقینی طور پر ہر انسان کامل نہیں ہوتا، اور اُن میں بھی کچھ منفی پہلو ہیں، لیکن یہ منفی پہلو کس میں نہیں ہوتے؟ مگر بات یہ ہے کہ ہر چیز Realative ہے اور وہ یہ کہ نواز حکومت ہو، یا محترمہ بینظیر صاحبہ، میں موجودہ صدر کو ان پر یقینی طور پر فوقیت دیتی ہوں۔ اور جبتک آپ میں سے کوئی مجھے موجودہ صدر سے کوئی بہتر حل سامنے پیش نہیں کرتا، اُس وقت تک تو میں انہی کو سپورٹ کروں گی۔

دیکھئیے، یہ کوتاہ بینی ہی تو ہے کہ آپ Relative چیز کو چھوڑ کر ہر چیز کو Absolute زاویے میں دیکھنے لگیں۔ موجودہ حکومت کو تو گرا دیا جائے، مگر مستقبل پر نظر نہ رکھی جائے کہ آنے والی حکومت کیا ہوگی اور کیسی ہو گی، اور کل ہمیں اس سے زیادہ آنسو بہانے پڑیں جتنے کہ آج ہم بہا رہے ہیں۔

کیا واقعی آپکا خیال ہے کہ کل جب پھر سے انہی جیسے 70 بدمعاش وزراء کی کابینہ بنے گی تو ملک میں غربت کم ہو جائے گی؟

\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\

میرے نزدیک جمہوریت کی اصل روح یہ نہیں ہے کہ "عوام کے ووٹ" بلکہ "سب سے بہتر بندہ"

اور اسی طرح "آزادیِ رائے" ہے جمہوریت کا سب سے میٹھا پھل۔

مگر حیرت ہے کہ اس آزادیِ رائے پر موجودہ حکومت کو کسی نے کریڈٹ نہیں دیا، بلکہ نئی نئی تھیوریاں پیش کر کے اس احسن فعل پر بھی اعتراضات ہیں۔۔۔۔۔ یعنی مجھے یہ تھیوری صرف الہامی لگ رہی ہے کہ موجودہ حکومت نے آزادیِ رائے صرف اس لیے دی تھی تاکہ عریانیت پھیلائی جائے۔ تو اس کے لیے لوگوں کو صدام حسین اور شاہِ ایران جیسے آمروں کو دیکھنا چاھئے جنہوں نے میڈیا سے صرف فحاشی پھیلائی، مگر کیا مجال تھی جو اپوزیشن کے ایک آواز بھی میڈیا سے بلند ہو جاتی۔
بلکہ صدام حسین نے تو پورے پورے خاندانوں کو نیست و نابود کر دیا اور قتلِ عام مچائے رکھا اور شراب و فحاشی بھی پھیلاتا رہا۔


چلیں، اب موضوع پھیل رہا ہے، چنانچہ میں اسے ختم کرتی ہوں۔ میرا مقصد صرف اپنی رائے کا اظہار تھا جو میں نے کر دیا۔ یقینی طور پر یہ آپ میں سے بہت سوں کی آراء کے خلاف ہے، بہرحال جسطرح میں آپکی آراء کا احترام کرتی ہوں، امید ہے کہ آپ بھی میری رائے کا احترام کریں گے۔


لیکن آخر میں صرف جیسبادی صاحب سے ایک سوال۔۔۔۔۔ شروعِ اسلام میں سربراہِ مملکت، جنگوں کی قیادت اور قاضی ۔۔۔۔۔ یہ سب عہدے ایک ہی شخص میں جمع تھے ۔۔۔۔۔ تو کیا آپکی نظر میں یہ سب کے سب لوگ آمر تھے؟ اور کیا تمام آمر بُرے ہوتے ہیں؟
 

قیصرانی

لائبریرین
مہوش بہن، آپ نے ماشاء اللہ سے اپنا نقطہ نظر بہت عمدگی سے بیان کیا۔ مجھے آپ کی ہر بات سے اتفاق ہے۔ بہت خوب :)
 

قیصرانی

لائبریرین
مہوش علی نے کہا:
آپ کو یاد ہے کہ بی بی سی نے ایک دفعہ ایک اور بہت بڑی غلط فہمی پھیلا دی تھی کہ صدرِ پاکستان کے حکم سے ایک انگریزی نظر نصاب میں داخل کی گئی ہے، اور یہ نظر جارج بُش کے لیے لکھی گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔ حالانکہ نظم شامل کرنے والے صاحب ایک لمبی باریش کے مالک تھے اور بُش سے نفرت کرتے تھے۔ ۔۔۔۔۔۔ بہرحال اس سب چیز کا الزام صدر صاحب پر لگا تھا اور 99 فی صد لوگوں نے بی بی سی کی اس رپورٹ پر اعتمادکر لیا تھا۔
اب یہ دیکھئیے ذرا دو خبریں۔ ایک دوسرے کے متضاد۔ دونوں‌ بی بی سی پر موجود ہیں۔ ایک پندرہ مارچ اور دوسری سولہ مارچ کی۔ اس پر اب کیا کہا جائے

rbd.jpg


rbd1.jpg
 

زیک

مسافر
مہوش علی نے کہا:
کیا پاکستان میں جمہوری نظام ایک آئیڈیل نظام ہے؟

آئیڈیل؟ نہیں بالکل نہیں مگر چرچل نے کہا تھا:

[align=left:f1a993e4a7][eng:f1a993e4a7]Many forms of Government have been tried, and will be tried in this world of sin and woe. No one pretends that democracy is perfect or all-wise. Indeed, it has been said that democracy is the worst form of government except all those other forms that have been tried from time to time.[/eng:f1a993e4a7][/align:f1a993e4a7]

جب تک پاکستان میں لسانی، ذات پات، وڈیرہ شاہی، ۔۔۔۔۔۔ اور ان جیسی دیگر بیماریاں موجود ہیں، اُس وقت تک یہ نظام پاکستان میں ترقی لانے کی بجائے اسے قتل ہی کر ڈالے گا۔

ان اختلافات کو کم کرنے کے لئے institutions کی ضرورت ہے۔ وہ کہاں سے آئیں گے اور کیسے؟ کیا آپ نے دنیا میں جمہوریت کی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے؟

(موجودہ 70 عدد بدمعاش وزراء کی ٹیم پر تو اعتراض ہے، مگر میں اس میں کچھ اور چیز دیکھ رہی ہوتی ہوں، اور وہ یہ کہ یہ بدمعاش وزراء پچھلی تمام "قانونی جمہوری حکومتوں" کا ہی پھل ہیں۔

اگر پھل ہی کی بات ہے تو بھٹو پھل تھا آمر ایوب کا! نواز پھل تھا آمر ضیاء کا!!

اس وقت پاکستان کو ایک انتہائی مضبوط حکومت کی ضرورت ہے جو کہ مختلف اداروں میں ایک خاص مدد تک ایک تسلسل قائم رکھے۔

کیا ایوب جیسی مضبوط حکومت جس نے 1965 کی جنگ شروع کی اور ہاری اور بنگالیوں کو ملک سے دور کیا؟ کیا یحیٰی جیسی مضبوط حکومت جس نے ملک کے دو ٹکڑے کئے؟ کیا ضیاء جیسی مضبوط حکومت جس نے اسلام کا نام بدنام کیا؟ کیا مشرف جیسی مضبوط حکومت؟ اوہ سوری یہ تو 31، 32 سال ہو گئے اور پاکستان بنے ابھی 60 سال نہیں ہوئے۔

صدر صاحب کے متعلق پڑھنے کے بعد، اور اُنکے انٹرویز سننے کے بعد مجھے وہ بہت Talented انسان دکھائی دیے، جو کہ پاکستان کے بہت وفادار ہیں اور بہت سے بحرانوں سے پاکستان کو نکال سکیں ہیں۔

وہی مشرف جو کارگل کے “ہیرو“ ہیں؟

میرے نزدیک جمہوریت کی اصل روح یہ نہیں ہے کہ "عوام کے ووٹ" بلکہ "سب سے بہتر بندہ"

آپ کو جمہوریت کا بھی سبق دینا پڑے گا؟ بات بہتر بندے کی نہیں بہتر نظام کی ہے۔

شروعِ اسلام میں سربراہِ مملکت، جنگوں کی قیادت اور قاضی ۔۔۔۔۔ یہ سب عہدے ایک ہی شخص میں جمع تھے ۔۔۔۔۔ تو کیا آپکی نظر میں یہ سب کے سب لوگ آمر تھے؟ اور کیا تمام آمر بُرے ہوتے ہیں؟

آمر اچھے بھی ہوتے ہیں اور برے بھی۔ بات ایک آمر کے اچھے یا برے ہونے کی نہیں بلکہ ایسے نظام کی ہے جہاں شخص یا حکومت کی تبدیلی کے باوجود نظام بخوبی چلتا رہے۔

اور اگر ہم نے ساتویں صدی عیسوی ہی طرف دیکھنا ہے تو پھر ہمیں صدر نہیں امیر المؤمنین یا شہنشاہ کی ضرورت ہے۔

بحث کچھ موضوع سے ہٹتی جا رہی ہے۔ اس کے لئے معذرت۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
مہوش، فوج کا سربراہ بھی دوسرے سرکاری ملازمین کی طرح حکومت کا تنخواہ دار ہوتا ہے اور اسے کوئی حق حاصل نہیں ہوتا کہ جب چاہا ملک کے ریڈیو ٹی وی سٹیشنوں پر قبضہ کرکے اپنے نجات دہندہ ہونے کا اعلان کر دے۔ فوج کا ملک کا تختہ الٹنا دستور کو توڑنا اور غداری کے مترادف ہے۔ ہم لوگوں کی آمروں کی حمایت میں گن گانا ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔ یہاں ہر حملہ آور کو خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ پاکستان کی فوج کی گزشتہ ساٹھ سال میں کیا کارگزاریاں رہی ہیں اور ان کا ملکی سلامتی پر کیا اثر پڑا ہے، اس کے لیے الگ سے پورا باب لکھنا پڑے گا۔ یہاں صرف اتنا کہوں گا کہ جس حکومت کے قیام کا کوئی اخلاقی جواز نہ ہو اس کا سارا وقت اپنے اقتدار کی بقا اور دوام کے ہتھکنڈوں میں گزرتا ہے جیسے کہ پاکستان کی موجودہ حکومت کر رہی ہے۔

اگر مغربی جمہوریت پاکستان کے معاشرے کے اعتبار سے آئیڈیل نظام حکومت نہیں ہے تو اس کا متبادل ڈھونڈنا صرف عوام کے نمائندوں کا حق ہے۔ آخر ہم لوگوں پر یہ تاثر کیوں چھایا ہوا ہے کہ صرف فوج کے جرنیل ہی سب ٹھیک کر سکتے ہیں۔ پاکستان غالباً دنیا کا واحد ملک ہے جہاں یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر تک فوج کے جنرل ہیں۔ پاکستان کی فوج کا باقی دنیا کی افواج کے مقابلے میں اگر کوئی امتیاز ہے تو ان کی ہاؤسنگ سوسائٹیاں ہیں۔ شاید دنیا کی کسی اور فوج کو اس بڑے پیمانے پر اور اتنی سستی ہاؤسنگ میسر نہیں ہے۔ ایک یہ بھی بڑی وجہ نظر آتی ہے اپنے ہی ملک کو بار بار فتح کرنے کی۔

اسلام کے شروع کے دور میں بھی عہدوں کو الگ کرنا شروع کر دیا گیا تھا۔ اس کا تعلق عقیدے سے نہیں بلکہ تمدن کے ارتقا سے ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں قضا کے عہدے پر نہایت احتیاط سے تقرری کی جاتی تھی۔ حضرت عمر کو خود سے بعض اوقات عدالت میں پیش ہونا پڑا اور انہوں سے اس کا خاص خیال رکھا کہ ان سے امیرالمومنین ہونے کے ناتے کوئی امتیازی سلوک روا نہ رکھا جائے۔ میرے خیال میں ہمیں خلفائے راشدین کی مثال دیتے ہوئے احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ اگر ان کے دور میں فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک سے مر جائے تو وہ اس کے ذمہ دار ہوں گے۔ اس کے مقابلے میں آج کا دور دیکھ لیں جہاں لوگ بیروزگاری، افلاس اور بھوک سے تنگ آ کر خود کشیاں کر رہے ہیں اور دوسری جانب روشن پاکستان کا نعرہ لگایا جا رہا ہے۔

ایک مضبوط اور مستحکم حکومت وہ عذر ہے جس کو بنیاد بنا کر اس وقت تمام عالم اسلام پر سامراجیت کے پٹھو اپنا پنجہ گاڑے ہوئے ہیں۔ انڈونیشیا میں پارلیمنٹ کی سو سیٹیں فوج کے لیے مختص تھیں۔ ترکی میں فوج وہاں کی "سیکولر" اقدار کی حفاظت کے لیے اصل اقتدار پر قابض رہتی ہے، ویسے ہی جیسے پاکستان کی فوج ہماری نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرتی رہتی ہے۔۔ جغرافیائی سرحدیں چاہیں سکڑتی رہیں۔ اگر اسی دلیل کو مان لیا جائے تو عراق میں صدام حسین کی حکومت کیا بری تھی؟ اس کے دور میں یوں شیعہ سنی ایک دوسرے کا گلہ تو نہیں کاٹ رہے تھے۔ صدام حکومت کے ظلم کے بارے میں بھی وہاں کے لوگ یہی عذر پیش کرتے تھے کہ یہ ایک مضبوط اور مستحکم حکومت کے لیے ضروری ہوتا ہے۔

اور آخر فوج سے ہی مضبوط اور مستحکم حکومت کی توقع کیوں رکھی جاتی ہے؟ فوجی جنرلز کو فوج کی کمانڈ کرنے کی ٹرنینگ دی جاتی ہے نہ کہ حکومتیں چلانے اور سیاسی معاملات سنبھالنے کی۔ اس کا ثبوت پاکستان کی ساٹھ سالہ تاریخ ہے جہاں فوج ہر محکمے کا نظام چلانے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔

پاکستان کے سیاستدان جتنے بھی نااہل ہوں، ہمیں کبھی تو ملک کی ترقی کی جانب قدم اٹھانا ہے۔ انڈیا ہم سے کئی گنا بڑا ملک ہے جہاں رہنے لوگوں کی زبانوں اور عقائد میں diversity بھی بہت زیادہ ہے۔ وہاں کسی کو ایک مضبوط اور مستحکم حکومت کے قیام کا خیال نہیں آتا۔ واچپائی نے الیکشن ہارنے کے بعد کہا تھا کہ ہم ہار گئے لیکن جمہوریت جیت گئی۔ اب تو بنگلہ دیش والے بھی تعلیم اور معیشت کے میدانوں میں ہم سے آگے نکل رہے ہیں۔ ذرا مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی تفصیلات پڑھ لیں تو معلوم ہو جائے گا کہ اس طرح کی مضبوط اور مستحکم حکومتوں کے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں۔
 

آصف

محفلین
مہوش آپ کو شخصیات کے اثرات سے نکل کر آئینی اور ادارتی بنیادوں پر سوچنا چاہئیے۔
اسلام اور جمہوریت کو ایک دوسرے سے متصادم ظاہر کرکے آپ صرف جنرل پرویز مشرف جیسی غیرقانونی حکومت کی امداد کر رہی ہیں۔ مطلق العنان خلیفہ کا تصور بہت قدیم ہو چکا ہے۔ اس متروک اور خیالی تصور کو بنیاد بنا کر آپ فاشزم کی گرتی ہوئی بنیادوں کو تقویت نہ دیں۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
چیف جسٹس کے غیر فعال، معطل یا اب جبری رخصت کے بارے میں اتنا کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے کہ مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن یہاں جاری بحث دیکھ کر میرا دل بھی چاہا کہ کچھ کہوں۔
چیف جسٹس پر جو الزام لگائے گئے ہو سکتا ہے وہ صحیح ہوں اوریہ بھی بجا اس قدر مراعات مانگنا بھی غلط ہے لیکن کیا وہ واحد ایسے فرد تھے جنھوں نے ایسا کیا؟ کیا ہماری بیورو کریسی اور فوجی حکومت میں باقی سب متقی اور پرہیز گار ہیں؟ کیا ہمارے صدر صاحب اور ان کے ساتھی قائم مقام وزیرِ اعظم چوہدری شجاعت حسین جب حکومتی خرچے پر اپنے حامیوں کی فوج کو عمرے جیسے مقدس فریضے کی ادائیگی کے لئے لے کر جاتے ہیں تو ان کو کبھی خیال نہیں آیا کہ یہ نا جائز مراعات ہیں؟ اگر وزراء کے لئے مرسڈیز گاڑیاں امپورٹ کی جا سکتی ہیں تو قوم ایک ایسے شخص کو چند مراعات استعمال کرنے پر شاید اتنا قصوروار نہیں سمجھتی جو اتنی جراء ت رکھتا ہے کہ سوموٹو ایکشن لے کر ان سینکڑوں خاندانوں کی فریاد سنے جن کی کہیں شنوائی نہیں ہے۔۔ جو ایک عرصے سے اپنے پیاروں کو ڈھونڈ رہے ہیں جن کو حکومت نے جہادی تنظیموں کے ساتھ کام کرنے کے الزام میں پکڑ رکھا ہے لیکن آج تک نہ تو ان پر فردِ جرم عائد کی ہے اور نہ ہی ان کے ورثاء کو ان کی خبر دی ہے۔۔۔

دوسری بات یہ کہ یہ بھی تسلیم کہ افتخار چوہدری نے اپنے اختیارات کا نا جائز استعمال کیا ہو گا اور ایسی صورت میں احتساب ہونا بھی چا ہیے لیکن کیا اس کے لئے صحیح حکمتِ عملی استعمال کی گئی؟؟ ایک ملک کے چیف جسٹس کو بالوں سے پکڑ کر کس طرح کھینچا گیا۔۔ اس کی بیوی کے ساتھ کس طرح بدتمیزی کی گئی کیا اچھی تصویر پیش کی گئی مذہب، کلچر اور روایات کی۔ ساری دنیا نے یہ منظر دیکھا۔۔۔ جس حکومت نے ہمیں پتھر کے دور میں دھکیلے جانے سے بچانے کے لئے ایک فون کال پر ہی افغانستان اور طالبان کے بارے میں اپنی حکمتِ عملی وضع کر لی تھی اسی حکومت نے خود ایسے حالات پیدا کر دئیے ہیں کہ بے بس پاکستانی عوام اپنے آپ کو فراعنہء مصر کے دور میں محصور محسوس کر رہی ہے۔۔۔

مشرف واقعی Talented ہیں جس کمالِ خوبصورتی سے وہ سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانک رہے ہیں وہ واقعی ایک ٹیلنٹڈ حکمران کر سکتا ہے۔۔۔۔ hats off for such a Talented Leader...اور اس سے بڑھ کر ان کی ٹیم بہت ٹیلنٹڈ ہے۔ اس قدر شستہ اورمہذب گفتگو بھلا کی ہوگی کسی کابینہ ممبر نے جیسی ہمارے وزیرِ قانون کرتے ہیں۔۔۔ کیوں نہ ہو آخر کو گریجویٹ اسمبلی کے ممبر ہیں۔۔۔

۔ جب تک پاکستان میں لسانی، ذات پات، وڈیرہ شاہی، ۔۔۔۔۔۔ اور ان جیسی دیگر بیماریاں موجود ہیں، اُس وقت تک یہ نظام پاکستان میں ترقی لانے کی بجائے اسے قتل ہی کر ڈالے گا
ان بیماریوں کو کون ختم کرے گا؟؟ کیا فوجی حکومت جس کی دلچسپی ہر شعبے میں فوج کو داخل کرنے اور اپنے افسروں کو نوازنے میں ہے( تازہ ترین مثال حاضر سروس اور ریٹائرڈ جرنیلوں کو گوادر میں پلاٹس کی الاٹمنٹ ہے۔۔واضح رہے کہ افتحار چوہدری نے اس معاملے کا بھی نوٹس لیا تھا)۔۔۔ 1999 سے لیکر 2007 تک ان میں سے کتنی بیماریوں کو ختم کیا گیا ہے؟؟؟

تو اب ان کھوٹے سکوں اور ناکارہ ہتھیاروں سے ہی صدر صاحب کو جنگ لڑنا تھا۔ اس میں اگر اُنہوں نے کوئی اپنی مرضی کا بندہ شامل کیا ہے، تو وہ وزیرِ اعظم شوکت عزیز تھے

:) شاید آپ کو نہیں معلوم کہ ان سب کھوٹے سکوں کا انتخاب صدر صاضب نے خود کیا ہے۔۔ ہماری ساری کابینہ اور اس کا ہیڈ صدر صاحب کی اپنی چوائس ہے جناب۔۔۔ اور
so called جمہوری حکومت اصل میں کٹھ پتلی حکومت ہے اور ماشاء اللّہ ہمارے صدر صاحب اس فن میں بھی یدِ طولیٰ رکھتے ہیں۔۔ شوکت عزیز کو جس طرح اسمبلی ممبر بنایا گیا وہی کافی ہے باقی لوگوں کی سلیکشن کی اصلیت جاننے کو۔۔۔

شروعِ اسلام میں سربراہِ مملکت، جنگوں کی قیادت اور قاضی ۔۔۔۔۔ یہ سب عہدے ایک ہی شخص میں جمع تھے ۔۔۔۔۔ تو کیا آپکی نظر میں یہ سب کے سب لوگ آمر تھے؟ اور کیا تمام آمر بُرے ہوتے ہیں؟

صرف خلفاء راشدین (رض) ہی ان سارے عہدوں کو بیک وقت بخوبی نبھانے کے اہل تھے اور یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ سب لوگ یہ اس قابل ہیں کہ وہ ایسا کر سکیں۔۔۔ خلفاء راشدین کی تربیت آنحضورصعلم نے خود فرمائی تھی۔۔ جیسا کہ نبیل نے کہا کہ ہمیں ایسےcomaparisons کرتے ہوئے احتیاط کرنی چاہیے اور یہ بھی کہ خلفاء راشدین کے دور میں سے عدلیہ اور نظامت کو علیحدہ کر دیا گیا تھا۔۔۔ تب مالِ غنیمت کی تقسیم سے غیر مطمئن ایک عام شہری کی درخواست پر خلیفہء وقت کو عدالت میں طلب کر کے وضاحت مانگ لی گئی تھی اور اب عدالت کے از خود نوٹس لینے اور ایک کیس( سٹیل مل کیس) میں حکومتی intentions کے خلاف فیصلہ دینے کی پاداش میں ملک کے چیف جسٹس کے ساتھ جو کچھ کیا گیا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔۔۔

مزید یہ کہ آمر کی تعریف یہ نہیں کہ ایسا فرد جو ان سب عہدوں پر بیک وقت فائز ہو۔
“آمر وہ ہے جو عوام اور رائے آمہ کی مرضی کے خلاف خود کو عوام پر مسلط کرے
 

خرم

محفلین
مہوش بہنا آپکے سوالات اور خیالات پر تو کافی بات ہو گئی۔ سب سے پہلے تو یہ کہنا چاہوں گا کہ جو آپ کے خیالات ہیں وہ بہت سارے لوگوں کے ذہن میں ہیں مگر آپ کے سوالات میں‌ہی ان کے جوابات بھی موجود ہیں۔ چلیں اگر صدر مشرف عوامی تحریک سے نہ جائیں مگر بالفرض اگر ان کا جہاز “اوا میں پٹ گیا“ تو پھر ملک کی باگ دوڑ کون‌سنبھالے گا؟ میں آپکی اس بات سے متفق ہوں‌کہ صد فیصد مغربی جمہوریت ہمارے معاشرہ کے لئے زہر قاتل ہے۔ میرا نظریہ یہ ہے کہ جمہوریت تو ہمارا ماضی اور مستقبل ہے مگر مغربی نہیں بلکہ ایسی جمہوریت جس کی جڑیں اسلامی اقدار میں پیوست ہوں۔ باقی جہاں تک عوام کا تعلق ہے تو عوام تو ہر ملک میں اسی طرح کے ہوتے ہیں۔ انہی عوام نے قائد اعظم کے ساتھ ملکر پاکستان بنایا تھا وہی عوام آج پاکستان بھی بچا سکتے ہیں مگر مسئلہ عوام کا نہیں قیادت کا ہے۔ آج بھی اگر پاکستان کے عوام کو کسی قیادت پر اس کے ایماندار اور اپنے سے مخلص ہونے کا یقین ہو جائے تو یہی عوام ہر آمر کے خلاف لڑ جائیں گے۔

آپ نے بات کی مشرف صاحب کے ہونہار ہونے کی تو بہنا ایک اوسط سی ذہنیت والے صاحب ہیں موصوف اور نرگسیت کے مرض میں‌بری طرح مبتلا ہیں۔ اکیڈمی میں اپنے پہلے دن سے لے کر جنرل بننے تک موصوف نے کبھی کوئی کارنامہ سر انجام نہیں‌دیا اور شاید اسی وجہ سے انہیں نوازشریف نے جنرل بنایا تھا۔ کارگل کی بہت بات ہوتی ہے مگر یہ کوئی نہیں بتاتا کہ ہمارے فوجیوں کی سپلائی لائن کٹ گئی تھی اور اگر انہیں پیچھے نہ بلایا جاتا تو وہ تمام کے تمام شہید ہو جاتے۔ یہ تھا ان کا عسکری کمال۔ اسی وجہ سے نواز شریف کو امریکہ بھیجا گیا اور اسی وجہ سے واجپائی نے مذاکرات میں شمولیت سے انکار کر دیا تھا۔
میں ذاتی طور پر نوازشریف، بے نظیر، الطاف حسین اور مجلس عمل میں سے کسی کا بھی حامی نہیں ہوں‌ مگر اس کا یہ مطلب نہیں‌کہ ڈنڈے کے زور پر جس کا جی چاہے ملک پر قبضہ کرلے۔ آرمی چیف ایک معمولی سا ملازم ہوتا ہے حکومت پاکستان کا اور اس کا کام حکومت کے فرامین پر عمل درآمد کروانا ہوتا ہے حکومت پر قبضہ کرنا نہیں۔ جس چیز کی پاکستان کو ضرورت ہے وہ ایک ایسا نظام ہے جو عوام کی فلاح و بہبود کے نظریات پر استوار ہو اور ان کا امین بھی ہو
 

قیصرانی

لائبریرین
میرا خیال ہے کہ باری باری اگر تبصرہ جات کئے جائیں تو مہوش بہن کو جواب دینے میں‌ آسانی رہے۔ اس طرح‌ تو بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ ایک ٹیم بنا کر مخالفت پر اتر آئے ہیں :roll:
 

نبیل

تکنیکی معاون
گفتگو نے جو رنگ لیا ہے وہ محض اتفاق ہے۔ یہ عام ڈسکش ہی ہو رہی ہے اور کوئی ٹیم نہیں بنی ہوئی۔
 

مہوش علی

لائبریرین
قیصرانی نے کہا:
مہوش علی نے کہا:
آپ کو یاد ہے کہ بی بی سی نے ایک دفعہ ایک اور بہت بڑی غلط فہمی پھیلا دی تھی کہ صدرِ پاکستان کے حکم سے ایک انگریزی نظر نصاب میں داخل کی گئی ہے، اور یہ نظر جارج بُش کے لیے لکھی گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔ حالانکہ نظم شامل کرنے والے صاحب ایک لمبی باریش کے مالک تھے اور بُش سے نفرت کرتے تھے۔ ۔۔۔۔۔۔ بہرحال اس سب چیز کا الزام صدر صاحب پر لگا تھا اور 99 فی صد لوگوں نے بی بی سی کی اس رپورٹ پر اعتمادکر لیا تھا۔
اب یہ دیکھئیے ذرا دو خبریں۔ ایک دوسرے کے متضاد۔ دونوں‌ بی بی سی پر موجود ہیں۔ ایک پندرہ مارچ اور دوسری سولہ مارچ کی۔ اس پر اب کیا کہا جائے

rbd.jpg


rbd1.jpg

شکریہ قیصرانی بھائی،

میں بی بی سی کا ایک زاویے سے مطالعہ کر رہی ہوں، اور مجھے لگ رہا ہے کہ بی بی سی کی پلاننگ یہ ہوتی ہے کہ ان چھوٹے ممالک میں حکومتوں کو مضبوط نہیں ہونے دینا چاہیے۔ (کیونکہ مضبوط حکومتیں مغرب کے خلاف بغاوت بھی کر سکتی ہیں)۔

یہ ایک Long Time Project ہے، اور ہو سکتا ہے کہ میری تھیوری غلط ہی ہو اور بی بی سی کا مقصد صرف دھماکے دار خبریں دے کر اپنے میڈیا کو پرکشش بنانا ہی ہو۔۔۔۔
 

مہوش علی

لائبریرین
زکریا:

[align=left:599712387b]
Many forms of Government have been tried, and will be tried in this world of sin and woe. No one pretends that democracy is perfect or all-wise. Indeed, it has been said that democracy is the worst form of government except all those other forms that have been tried from time to time.

[/align:599712387b]

اور پھر:

ان اختلافات کو کم کرنے کے لئے institutions کی ضرورت ہے۔ وہ کہاں سے آئیں گے اور کیسے؟ کیا آپ نے دنیا میں جمہوریت کی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے؟


زکریا،

آپ نے بالکل صحیح باتیں کی ہیں، اور یہی چیزیں میرا خواب ہیں۔

مگر پھر ایک وقت آیا جب مجھے احساس ہونے لگا کہ یہ "کتابی جمہوریت" کتابوں میں اچھی ہے یا پھر مغربی ممالک میں، مگر پاکستان میں یہ نظام "برادری ازم" کی وجہ سے بالکل الٹے نتائج لائے گا، اور لاتا ہی چلا جائے گا۔

تو پھر مجھے لگا کہ اس "کتابی جمہوریت" سے نکل کر ہمیں پاکستان کے حوالے سے عملی پہلو دیکھنا چاہیے۔

دیکھیں، آپ انسٹیٹوشنز کی بات کر رہے ہیں، اور آپکی بات بالکل صحیح ہے کہ اداروں کو مضبوط ہونا چاہیے تاکہ افراد آتے جاتے رہیں، مگر نظام پر کوئی فرق نہ پڑے۔

مگر کیا یہ "کتابی جمہوریت" ہمیں ایسے انسٹیٹوشنز دے سکی؟؟؟

اگر انسٹیٹیوشن کے مثال دیکھنی ہے تو صرف پارلیمنٹ کے انسٹیٹیوشن کو ہی دیکھ لیں، جہاں آج بھی وہی بدمعاش 70 وزراء کی کابینہ ہے، اور کل بھی یہی ہونے والا ہے۔


دیکھیں، ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے۔ نواز شریف اور بینظیر بھٹو کے ادوار میں کوئی بھی انسٹیٹیوشن مضبوط نہیں ہوا، بلکہ ہر جگہ پہلے سے زیادہ کرپشن ہی آئی، اور وہ پہلے سے زیادہ کمزور ہی ہوئے۔

اور ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے، اور مجھے لگا کہ اگر یہ لوگ ایسے ہی قانونی جمہوریت کو چلاتے رہے تو بہت جلد پاکستان ہی دم توڑ جائے گا (یعنی چیزوں کی حدیں پار ہو جائیں گی)۔


\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\

ایک چیز اور واضح کر دوں، اور وہ یہ کہ میرے نزدیک ذیل کی چیزوں میں فرق ہے:

۔ ضیاء صاحب اور انکی فوج

۔ مشرف صاحب اور انکی فوج

اگرچہ کہ فوج کی وجہ سے ہی یہ دونوں حضرات آگے آئے، مگر پھر بھی ان میں فرق ہے۔ میری نظر میں ضیاء صاحب کے پاس "وژن" کی بہت کمی تھی۔ اُنکے پاس بہت مواقع تھے کہ تعلیم و صنعت و حرفت کے میدان میں پاکستان کو بہت آگے لے جائیں (اور یہ چیزیں صرف اس لیے ممکن تھیں کہ اُنکی حکومت بہت مضبوط تھی اور وہ قوم کے لیے بڑے بڑے قدم اٹھا سکتے تھے)۔

مگر افسوس کہ ضیاء صاحب نے یہ تمام مواقع گنوا دیے، اور وہ اچھے آمر ثابت نہیں ہوئے۔

ضیاء صاحب کے مقابلے میں مشرف صاحب پاکستان کی ترقی کے لیے ایک وژن رکھتے ہیں اور قوم کے اہم مسائل کو ایڈریس کر رہے ہیں (جیسے ڈیمز وغیرہ اور علیحدگی پسند تحریکیں وغیرہ) ۔ [منتخب جمہوری حکومتیں ڈیمز جیسے اہم معاملے پر صرف سیاست ہی کرتی آئیں اور اگلے بیس سال تک شاید صرف سیاست ہی کرتی رہتیں)۔


چنانچہ ضیاء صاحب کے گناہوں کو بھی مشرف صاحب کے کھاتے میں ڈال دینا کچھ صحیح بات نہیں ہو گی۔

\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\

نبیل بھائی،

آپ نے جن حقائق کا ذکر کیا ہے، میں بھی اُن پر غور کرتی آئی ہوں اور آپکی یہ باتیں مجھے بالکل بجا لگی ہیں اور انصاف پر پوری اترتی ہیں۔
(جنرل مشرف میرے رشتہ دار ہیں، اور نہ میں فوج کی حامی ہوں، بلکہ فوج کے کردار پر کئی حوالے تنقید رکھتی ہوں)

صرف ایک جگہ بات پھنستی ہے۔ آپ نے لکھا ہے کہ:

اگر مغربی جمہوریت پاکستان کے معاشرے کے اعتبار سے آئیڈیل نظام حکومت نہیں ہے تو اس کا متبادل ڈھونڈنا صرف عوام کے نمائندوں کا حق ہے ۔۔۔۔

کیا آپ ان عوامی نمائندوں کی بات کر رہے ہیں جہاں بننی والی کابینہ 70 عدد بدمعاشوں پر مشتمل ہے؟؟؟

کیا آپ کے خیال میں "برادری ازم، بدمعاشی اور لسانیت جیسے Evils کی بنیاد پر منتخب ہونے والے یہ نام نہاد عوامی نمائندے اس بات کی اجازت دیں گے کہ ایسا نظام ملک میں آئے جو انہی کی بدمعاشی، لسانیت اور برادری ازم کے ناک کاٹ کر رکھ دے؟؟؟

مجھے یہاں آپ سے اختلاف اس لیے کرنا پڑا کہ ان عوامی نمائندوں کی تمنا میں مجھے لگا کہ پاکستان جلد اپنی موت مر جائے گا۔

میں بھی ہر ادارے میں فوج کی موجودگی کے خلاف ہوں، مگر میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں ہر چیز کو "تقابلی" سطح سے دیکھ رہی ہوتی ہوں۔

اور جب میں نے تقابل کیا تو مجھے ان فوجی افسران کے مقابلے میں مجھے وہ نام نہاد عوامی نمائندے نظر آئے کہ جنکا خمیر لسانیت و بدمعاشی پر اٹھا ہے۔

پھر اس تقابلی نظر نے مجھ سے کہا کہ فوجی افسر بے شک سول اداروں کے لیے آئیڈیل نہیں، مگر پھر بھی یہ واحد پاکستانی ادارہ ہے جہاں پاکستانی عوام کے ایک حصے کو نظم و ضبط کی صحیح تربیت ملتی ہے۔۔۔۔۔۔۔

اور نتیجہ یہ سامنے آیا کہ وہ پاکستانی یونیورسٹیز، جو کہ سال ہا سال سے سول افسران کے تحت چل رہی تھیں، وہاں ساڑھے تین سال کا انجیئنرنگ کورس 6 سال میں مکمل ہوتا تھا۔ عوامی نمائندہ طلبہ تنظیموں نے تعلیمی درسگاہوں کو پتا نہیں کون کون سے میدانوں میں تبدیل کیا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔

لیکن پھر میں دیکھتی ہوں کہ ایک فوجی آمر آتا ہے (جو پچھلے فوجی آمر ضیاء صاحب سے مختلف ہے) اور اُسکے دور میں یونیورسٹیز میں پھر تعلیمی ماحول صحیح ہوتا ہے اور ایک طالب علم اپنے مقررہ وقت میں ہی تعلیم مکمل کر کے باہر آ جاتا ہے۔


اب آپ خود بتائیں کہ میں یہ "علم الیقین" آ جانے کے بعد اس کو کیسے جھٹلا دوں؟


خیر، پوسٹ بہت لمبی ہو گئی ہے۔ باقی باتیں بعد میں۔ انشاء اللہ۔


والسلام۔
 

زیک

مسافر
مہوش علی نے کہا:
مگر پھر ایک وقت آیا جب مجھے احساس ہونے لگا کہ یہ "کتابی جمہوریت" کتابوں میں اچھی ہے یا پھر مغربی ممالک میں، مگر پاکستان میں یہ نظام "برادری ازم" کی وجہ سے بالکل الٹے نتائج لائے گا، اور لاتا ہی چلا جائے گا۔

تو پھر مجھے لگا کہ اس "کتابی جمہوریت" سے نکل کر ہمیں پاکستان کے حوالے سے عملی پہلو دیکھنا چاہیے۔

دیکھیں، آپ انسٹیٹوشنز کی بات کر رہے ہیں، اور آپکی بات بالکل صحیح ہے کہ اداروں کو مضبوط ہونا چاہیے تاکہ افراد آتے جاتے رہیں، مگر نظام پر کوئی فرق نہ پڑے۔

مگر کیا یہ "کتابی جمہوریت" ہمیں ایسے انسٹیٹوشنز دے سکی؟؟؟

کیا ہم نے کبھی جمہوریت کو چلتے بھی دیا ہے؟ پاکستان کی کوئی جمہوری حکومت بتائیں جس نے اپنی ٹرم پوری کی ہو اور پھر الیکشن ہوئے ہوں۔

یہ ادارے ایک دن یا 5 سال میں نہیں بنتے بلکہ وقت لیتے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے انیسویں صدی کی امریکی سیاست کرپٹ نہیں تھی؟ کیا وائکنگ جو جیوری کے نظام کے شاید خالق ہیں ان میں فیوڈلزم اور برادری‌ازم نہیں تھا؟ :wink:

کیا ہم موجودہ پارلیمنٹ کو الزام دے سکتے ہیں جبکہ سب کو پتہ ہے کہ اصل طاقت مشرف ہی ہے؟

ایک چیز اور واضح کر دوں، اور وہ یہ کہ میرے نزدیک ذیل کی چیزوں میں فرق ہے:

۔ ضیاء صاحب اور انکی فوج

۔ مشرف صاحب اور انکی فوج

وقت وقت کی بات ہے۔ آپ ان دونوں کی اپنی کرسی کے لئے کوششوں کا تقابل کریں تو معلوم ہو گا کہ ایک ہی سکرپٹ پڑھا تھا دونوں نے۔ مشرف کے کئی اقدامات کا سن کر مجھے ایک deja vu کا سا احساس ہوتا ہے۔

جیسے ڈیمز وغیرہ اور علیحدگی پسند تحریکیں وغیرہ) ۔

کیا ڈیم بننا شروع ہوا؟ کیا علیحدگی‌پسند تحریکیں ختم ہو گئیں؟ کیا بلوچستان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی؟

میں بھی ہر ادارے میں فوج کی موجودگی کے خلاف ہوں، مگر میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں ہر چیز کو "تقابلی" سطح سے دیکھ رہی ہوتی ہوں۔

حکومت اور جمہوریت کے تقاضے فوج کی تربیت سے بہت مختلف ہوتے ہیں۔ فوج کو ٹریننگ دی جاتی ہے جنگ کے حوالے سے۔ ان کا مائنڈسیٹ سیاست اور حکومت سے میل نہیں کھاتا۔ جب فوج کو حکومت میں گھسا دیا جائے تو فوج فوج نہیں رہتی بلکہ سیاسی پارٹی بن جاتی ہے۔ وہ لڑنے سے بھی جاتی ہے اور حکومت میں بھی کوئی کمال نہیں دکھا پاتی۔ یہی ہم پاکستان میں دیکھ رہے ہیں۔ 1965 کی جنگ شروع کی اور کچھ نہ پایا۔ 1971 میں اپنے ہی ہم‌وطنوں کو مارا، آدھا ملک بھی کھویا اور منہ بھی کالا ہوا۔ کارگل میں بیکار میں اتنی جانیں ضایع کیں۔

فوجی افسر بے شک سول اداروں کے لیے آئیڈیل نہیں، مگر پھر بھی یہ واحد پاکستانی ادارہ ہے جہاں پاکستانی عوام کے ایک حصے کو نظم و ضبط کی صحیح تربیت ملتی ہے۔۔۔۔۔۔۔

ملک کو چلانے کے لئے نظم و ضبط کافی نہیں ہوتا۔ اور فوجی ٹریننگ کے حوالے سے بھی دیکھیں تو میرے کئی جاننے والے جو فوجی معاملات میں مجھ سے کافی زیادہ علم رکھتے ہیں وہ پاکستانی فوج کو دنیا میں کسی کھاتے میں نہیں گردانتے۔

اور نتیجہ یہ سامنے آیا کہ وہ پاکستانی یونیورسٹیز، جو کہ سال ہا سال سے سول افسران کے تحت چل رہی تھیں، وہاں ساڑھے تین سال کا انجیئنرنگ کورس 6 سال میں مکمل ہوتا تھا۔ عوامی نمائندہ طلبہ تنظیموں نے تعلیمی درسگاہوں کو پتا نہیں کون کون سے میدانوں میں تبدیل کیا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔

جی میں اور نبیل انہی یونیورسٹیوں سے پڑھے ہوئے ہیں۔ جس غنڈہ‌گردی کا آپ ذکر کر رہی ہیں وہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے۔ ساری یونیورسٹیوں کا نہیں کہہ سکتا مگر مجھے خیال ہے کہ انجینیرنگ یونیورسٹی میں حالات مشرف سے پہلے ہی بہتر ہو چکے تھے۔
 

آصف

محفلین
پرویز مشرف کی ذہنی سطح اور آئینی قد کاٹھ اس بات سے بدرجۂاتم سامنے آ جاتے ہیں:

pervezjp3.jpg

"قوم کیلئے یہی بہت ہے کہ ہم آئین کی پیروی کر رہے ہیں"

یہ ہوئی نہ بات! انہیں یہ بھی فرمانا چاہئیے کہ اس سے زیادہ تفصیل جاننے کی نہ قوم کو حاجت ہے نہ مجھے بتانے کی ضرورت!
 
Top