چیف جسٹس آف پاکستان معطل

مہوش علی

لائبریرین
بی بی سی کی رپورٹنگ سے میں بھی مطمئین نہیں ہوں۔ بلکہ بالکل مطلمئین نہیں ہوں۔ پاکستان کے حوالے سے انکی مثبت رپورٹیں شاذ و ناز ہی دیکھنے میں آتی ہیں۔ عموما انہیں ہر چیز میں برائی دکھائی دے رہی ہوتی ہے اور یہ بھی رائی کا پہاڑ بنا کر پیش کرتے ہیں تاکہ انکی کوریج زیادہ سے زیادہ دھماکہ اور مصالحہ دار ہو۔

ابھی میڈیا کی وجہ سے ڈس انفارمیشن یہ تھی کہ جج صاحب کو حبسِ بے جا میں رکھا ہوا ہے، کسی سے ملنے کی اجازت نہیں، فون لائنز کاٹ دی گئی ہیں، خاندان والوں کو ایک کمرے میں بند کر دیا گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔

جی ہاں، یہ تھی میڈیا کی کوریج۔

اس لیے وزیرِ قانون کی بدتمیزی سے صرفِ نظر، مگر یہ اللہ کا بندہ اگر اتنے زور سے ان الزامات کی نفی نہیں کرتا تو میں بھی ان افواہوں پر یقین کر لیتی۔ بلکہ اعتزاز احسن صاحب اور پاکستان سے سوالات پوچھنے والے حضرات ابھی تک وزیرِ قانون کو جھٹلا رہے تھے اور مسلسل ڈس انفارمیشن پھیلا رہے تھے کہ جج صاحب نظر بند ہیں۔

\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\

قیصرانی بھائی،

آپ کو یاد ہے کہ بی بی سی نے ایک دفعہ ایک اور بہت بڑی غلط فہمی پھیلا دی تھی کہ صدرِ پاکستان کے حکم سے ایک انگریزی نظر نصاب میں داخل کی گئی ہے، اور یہ نظر جارج بُش کے لیے لکھی گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔ حالانکہ نظم شامل کرنے والے صاحب ایک لمبی باریش کے مالک تھے اور بُش سے نفرت کرتے تھے۔ ۔۔۔۔۔۔ بہرحال اس سب چیز کا الزام صدر صاحب پر لگا تھا اور 99 فی صد لوگوں نے بی بی سی کی اس رپورٹ پر اعتمادکر لیا تھا۔
 

خرم

محفلین
مہوش بہنا تو کیا جج صاحب سے ہر کسی کو ملنے کی آزادی ہے؟ اور وہ جو زبردستی انہیں سرکاری گاڑی میں‌ لے جانے کی کوشش تھی اور ان کو دھکے دینا تھا وہ کیا تھا؟ میں مانتا ہوں کہ میڈیا سب کچھ ہمیشہ صد فی صد درست نہیں کہتا مگر یہ بھی مانتا ہوں کہ جج صاحب کے معاملہ کی رپورٹنگ کافی حد تک ٹھیک ہی کی جا رہی ہے۔ اب آج جیو کے دفتر پر حملہ ہوا ہے، اور مزے کی بات ہے کہ حکومت کہہ رہی ہے کہ پولیس کا یہ حملہ دراصل حکومت کے خلاف سازش ہے۔ اب اس دلیل پر آپ اور ہم مل کر اپنا سر پیٹیں کہ سر دھنیں یہ میری سمجھ میں نہیں آ رہا۔ بلوچستان اور فاٹا کے سنگلاخ پہاڑوں میں اپنی عملداری قائم کرنے کے لئے طاقت کا استعمال کرنے والی حکومت اسلام آباد میں‌سازش کا شکار ہو گئی؟ بات میری عقل سے کافی اونچی ہے، آپ میں سے کسی کی سمجھ میں آئی؟ :?
 

قیصرانی

لائبریرین
خرم نے کہا:
ترقی یافتہ ممالک میں تو میڈیا کی رپورٹیں عدالتوں کے لئے ممد ہوتی ہیں، ہمارے ہاں کیونکہ انصاف کے کئی معیار ہیں اس لئے دوسروں کی تقلید ہمارے لئے ممکن نہیں‌ہے۔ ہمیں تو مانند حیوان عوام چاہئیں جن کے مال پر ہم عیش کر سکیں اور جب اور جیسے جی چاہے ہانک سکیں۔
میڈیا کی رپورٹس سے اگر مراد یہ رپورٹس ہیں جن میں ایک ہی صفحے پر لکھا ہو کہ فلاں جج نے چیف جسٹس سے فون پر بات کی اور اسی صفحے پر لکھا ہو کہ تمام فون کاٹ دیئے جا چکے ہیں۔ یا یہ خبر کہ چیف جسٹس کے زیر استعمال تمام گاڑیاں بذریعہ لفٹر اٹھا لی گئی (یعنی حکومت کے پاس چابیاں نہیں تھیں) بعد ازاں صرف ایک گاڑی واپس کر دی گئی اور وہ بھی چابیوں‌ کے بغیر (حالانکہ چیف جسٹس کی طرف سے چابیاں نہ دیے جانے کی وجہ سے ہی لفٹر استعمال ہوا ہوگا) تو معذرت۔ باقی میڈیا رپورٹس کی مدد سے ترقی یافتہ دنیا میں حل ہونے والے چند کیسز کی مثال ہی دے دیں تو شاید میں کچھ سمجھ سکوں
 

قیصرانی

لائبریرین
مہوش علی نے کہا:
قیصرانی بھائی،

آپ کو یاد ہے کہ بی بی سی نے ایک دفعہ ایک اور بہت بڑی غلط فہمی پھیلا دی تھی کہ صدرِ پاکستان کے حکم سے ایک انگریزی نظر نصاب میں داخل کی گئی ہے، اور یہ نظر جارج بُش کے لیے لکھی گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔ حالانکہ نظم شامل کرنے والے صاحب ایک لمبی باریش کے مالک تھے اور بُش سے نفرت کرتے تھے۔ ۔۔۔۔۔۔ بہرحال اس سب چیز کا الزام صدر صاحب پر لگا تھا اور 99 فی صد لوگوں نے بی بی سی کی اس رپورٹ پر اعتمادکر لیا تھا۔

بالکل درست کہا۔ ہم لوگ تو وہ قوم ہیں‌ جو کوے کے پیچھے دوڑ پڑیں گے، کان کو ہاتھ لگا کر نہیں دیکھیں گے



آج اتنے دن بعد فن لینڈ میں ریڈیو پر یہ خبر نشر ہوئی ہے کہ پاکستانی حکومت کی عمارات پر چند مذہبی لیڈروں اور وکلاء نے حملہ کیا اور ان پر آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستانی صدر نے چیف جسٹس کو ان کے عہدے پر کام کرنے سے روک دیا ہے

اس خبر کو بی بی سی سے یا وائس آف امریکہ سے مقابلہ کرکے دیکھیں۔ فرق صاف ظاہر ہے
 

قیصرانی

لائبریرین
خرم نے کہا:
مہوش بہنا تو کیا جج صاحب سے ہر کسی کو ملنے کی آزادی ہے؟ اور وہ جو زبردستی انہیں سرکاری گاڑی میں‌ لے جانے کی کوشش تھی اور ان کو دھکے دینا تھا وہ کیا تھا؟ میں مانتا ہوں کہ میڈیا سب کچھ ہمیشہ صد فی صد درست نہیں کہتا مگر یہ بھی مانتا ہوں کہ جج صاحب کے معاملہ کی رپورٹنگ کافی حد تک ٹھیک ہی کی جا رہی ہے۔ اب آج جیو کے دفتر پر حملہ ہوا ہے، اور مزے کی بات ہے کہ حکومت کہہ رہی ہے کہ پولیس کا یہ حملہ دراصل حکومت کے خلاف سازش ہے۔ اب اس دلیل پر آپ اور ہم مل کر اپنا سر پیٹیں کہ سر دھنیں یہ میری سمجھ میں نہیں آ رہا۔ بلوچستان اور فاٹا کے سنگلاخ پہاڑوں میں اپنی عملداری قائم کرنے کے لئے طاقت کا استعمال کرنے والی حکومت اسلام آباد میں‌سازش کا شکار ہو گئی؟ بات میری عقل سے کافی اونچی ہے، آپ میں سے کسی کی سمجھ میں آئی؟ :?

خرم بھائی، اگر کسی اہم شخصیت کے خلاف کوئی مقدمہ چل رہا ہے، تو کیا اسے لوگوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے؟ تاکہ کل کو کوئی بھی چیف جسٹس کے خلاف کچھ بھی کر جائے اور سارا الزام حکومت کے سر؟ یعنی چت بھی اپنی پت بھی اپنی

اگر چیف جسٹس سیاسی رہنما بننے کے چکر میں‌ پیدل مارچ کرنا چاہ رہے ہوں اور آپ اس کی حفاظت کے لئے یا اس کو مزید متنازعہ ہونے سے بچانے کے لئے کچھ کریں تو وہ الٹا دھکے دینے کی بات کہلائی جائے گی؟

میرا خیال ہے کہ امریکہ میں یا دنیا میں‌موجود کسی بھی دیگر ملک سے زیادہ ہمارا میڈیا آزاد ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ہمارا میڈیا اب مادر پدر آزاد ہونا چاہ رہا ہے

میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ فیصلہ چاہے کچھ بھی ہو، ہفتے دس دن سے زیادہ یہ معاملہ کسی کو یاد نہیں رہنا۔ ہمیں تب تک نیا کھلونا مل جائے گا کھیلنے کو، سیاستدانوں کی پیٹ پوجا کرادی جائے گی اور ملاؤں کو لالی پاپ مل جائے گا
 

پاکستانی

محفلین
سب باتیں بالکل ٹھیک مگر یہ بھی تو دیکھیں نا تازہ ترین خبر کے لئے ہم سب سے پہلے بی بی سی کے پیچھے ہی بھاگتے ہیں۔
 

پاکستانی

محفلین
مشرف واقعی کسی ایشو کو ختم کرنے اور نئے ایشو کو جنم دینے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا، آخر امریکہ کے ساتھ یاری ہے، اس کے کرتوت بھی تو ایسے ہیں نا کہ فرماتا کچھ ہے، دکھاتا کچھ ہے اور کرتا کچھ اور ہے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
مہوش، مجھے وصی ظفر کے رویے کو پنجاب کی تہذیب کے ساتھ نتھی کرنے والی بات سمجھ نہیں آئی۔ وصی ظفر ایک غیر قانونی حکومت کا ایک غیر مہذب نمائندہ ہے۔ اس کا کسی صوبے کی تہذیب کو الزام دینا ٹھیک نہیں ہے۔ تہذیب کسی ایک صوبے کی میراث نہیں ہے اور نہ ہی بد تہذیب لوگ کسی ایک مخصوص صوبے سے تعلق رکھتے ہیں۔
 

خرم

محفلین
قیصرانی بھائی جب جج صاحب چیف جسٹس ہی نہیں تو ان کی حفاظت کے کیا معنی؟ اپنی حکومت کی گزشتہ کارستانیوں کو دیکھتے ہوئے یہ قیاس کرنا تو مشکل نہیں کہ یہ تمام اقدامات انہوں نے کے بعد دیگرے کئے ہوں گے۔ مہوش بہنا نے جو اقتباسات دئیے ہیں ان کی بھی یہی تک لگتی ہے۔ پہلے کسی صاحب نے فون کاٹنے کا کہا ہوگا اور پھر احتجاج پر کسی اور صاحب نے فون لگا دینے کا کہا ہوگا۔ یہی کام گاڑیوں‌کے معاملہ میں ہوگا۔ باقی جہاں‌ تک بات سرکاری گاڑی کی ہے تو جب ایک بندہ کے پاس کوئی سرکاری عہدہ ہی نہیں تو سرکاری گاڑی کیوں؟ اسی طرح جج صاحب کوئی قتل عمد کے ملزم تو نہیں کہ ان کی حفاظت کے لئے دسیوں پولیس والے تعینات کر دئیے جائیں۔ اسی طرح آج کا جیو کے دفتر پر حملہ بھی ایک مثال ہے جس میں‌حکومت کے وزراء کہتے ہیں کہ یہ حکومت کے خلاف سازش ہے اور حکومت اس سے خود بے خبر ہے۔ مشرف حکومت کے جھوٹ بولنے کے گزشتہ ریکارڈز کو دیکھتے ہوئے ان کی اس بات پر بھی یقین کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔

مہوش بہنا وصی ظفر کی بد تہذیبی کو پنجابی تہذیب کا شاخسانہ تو قرار نہ دیں۔ دشنام طرازی تو کسی بھی زبان میں کی جاسکتی ہے۔ میاں محمد بخش، بابا بلھے شاہ، سلطان باہو، شاہ حسین، وارث شاہ اور استاد دامن کی زبان کو ایسا الزام تو نہ دیں نا۔
 

محسن حجازی

محفلین
جناب مشرف صاحب کے عشاق پر اب تو کھل جانا چاہیے کہ ان کی اوقات کیا ہے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ یہ صاحب عقل سے بالکل پیدل ہیں یا پھر underestimation کا شکار ہو جاتے ہیں یا پھر ان کے فیصلے کوئی اور کرتا ہے۔۔۔

ستر کے ستر وزیر وہ لوگ ہیں جو اپنے علاقے کے بدمعاش ہیں چاہے وصی ظفر ہو یا فیصل صالح حیات یا شیخ رشید۔۔۔

جیو کی لایئو کوریج روکنے کے لیے پولیس نے سارا آفس تباہ کر دیا یہ تو آپ سب نے دیکھا۔۔۔۔
چیف جسٹس کو نظر بند کیا گیا لیکن ہر وزیر پیٹ بھر کر جھوٹ بول رہا ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں۔ کیمرے دکھا رہے ہیں کہ ان کے گھر سے ایک کلومیٹر پہلے ہی سخت پہرہ ہے کوئی جا نہیں سکتا نہ فون نہ اخبار نہ ٹی وی۔۔۔ پر وزراء فرماتے ہیں کہ ایسا کچھ نہیں۔۔۔۔

میڈیا کی آزادی کی اصل غایت منی اسکرٹ تک جانا تھا لیکن یہی آزادی گلے پڑ گئی! وصی ظفر نے خود اے آر وائے ون پر کہا کہ "او جی یہ تو ہماری پھر غلطی ہوئی جو اتنی آزادی دے دی آپ کو" اس دوران انہوں نے میزبان کو دھمکایا بھی اور کہا کہ آپ کو بات کرنے کی تمیز نہیں ہے ایسے سوال کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔۔۔
آفتاب شیر خان پاؤ نے طلعت حسین کے منہ پر جھوٹ بولا اور کہا کہ جیو والوں نے ایک پولیس اہلکار کو یرغمال بنا رکھا تھا جسے چھڑانے کے لیے پولیس کو حملہ کرنا پڑا تو اس بات پر طلعت حسین نے سختی سے تردید کی اور کہا کہ ویڈیو ٹیپس موجود ہیں تو موصوف نے تلخ لہجہ اختیار کیا اور کہا کہ آپ "Dispute پیدا کر رہے ہیں۔۔۔۔
ان لوگوں کی اخلاقی حالت بہت پتلی ہے۔۔۔ اللہ ہی حافظ ہے اس ملک کا۔۔۔
باہر بیٹھ کر روشن خیالی کی باتیں بہت اچھی لگتی ہیں۔۔۔ اس ملک کی حدود میں قدم دھر کر دیکھیے کہ کیا تصویر ہے۔۔۔ آٹا 6 روپے کلو سے 17 روپے تک چلا گیا ہے۔۔۔ دال 30 سے 80 تک چلی گئی ہے۔۔۔ چینی 16 سے 32۔۔۔۔ گھی 40 سے 80۔۔۔۔
بہرطور۔۔۔ مجھے اگرچہ ڈر ہے کہ اٹھا لیا جاؤں یا کسی اور طریقے سے نقصان پہنچایا جائے لیکن پھر بھی۔۔۔ بد ترین آمریت۔۔۔
ابھی PEMRA کو ہدایت ہے کہ کسی چینل پر کوئی تبصرہ کوئی رپورٹ اس معاملے پر نشر نہ ہو۔۔۔ اسلام آباد سیل نہیں کریں گے لیکن مکمل سیل کر دیا نہ کوئی آ سکتا تھا نہ جا سکتا تھا۔۔۔ اس کے باوجود اتنی تعداد میں لوگ چیف جسٹس کی صرف ایک جھلک دیکھنے پہنچ گئے۔۔۔لوگوں نے والہانہ گھیر لیا لپٹ گئے۔۔۔ الحمداللہ اس معاشرے میں ایک منصف کی اتنی قدر تو باقی ہے۔۔۔ کہ لوگ اس کی گاڑی کے آگے بچھ جائیں عقیدت کا اظہار کریں۔۔۔
اے اللہ انصاف کرنے والے کے ساتھ انصاف کر۔۔۔۔
سلام ہے اس پاکستانی سپوت پر جو جھکا نہیں بکا نہیں۔۔۔
 

مہوش علی

لائبریرین
نبیل نے کہا:
۔ وصی ظفر ایک غیر قانونی حکومت کا ایک غیر مہذب نمائندہ ہے۔

اصل میں پاکستان میں مختلف علاقوں کی تہذیت اتنی مسخ ہو چکی ہے کہ برائی کو برائی نہیں سمجھا جاتا۔ اور میں اسی چیز کو ہدفِ تنقید بنانا چاہ رہی تھی (اور یقینا پورا پاکستان ہمارا ہے اور ساری تہذیبیں ہماری ہیں)۔

اور مسئلہ اس سے گھمبیر ہے کیونکہ یہی وصی ظفر پچھلے دور میں ایک قانونی حکومت کے نمائندے تھے۔ اور یقینا اسمبلی میں بیٹھنے والے بہت سے لوگ اسی معیار کے ہیں۔




اور خرم بھائی:

مہوش بہنا وصی ظفر کی بد تہذیبی کو پنجابی تہذیب کا شاخسانہ تو قرار نہ دیں۔ دشنام طرازی تو کسی بھی زبان میں کی جاسکتی ہے۔ میاں محمد بخش، بابا بلھے شاہ، سلطان باہو، شاہ حسین، وارث شاہ اور استاد دامن کی زبان کو ایسا الزام تو نہ دیں نا۔

میں تو بس امید کرتی ہوں کہ بابا بلھے شاہ کے دور میں معاشرے کی یہ حالت نہ ہو جیسی کہ آجکل کے معاشرے کی ہے (جہاں گالیاں عام بول چال میں اتنی عام ہیں کہ انہیں برا نہیں سمجھا جا رہا)۔

دیکھیں،

بابا بلھے شاہ قابلِ احترام،
اہل پنجاب، پنجاب کی زبان، پنجاب کی ثقافت۔۔۔۔ یہ سب چیزیں قابلِ احترام۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر اس معاشرے میں ایک برائی ہے کہ گالیاں بہت عام ہیں۔ بے شک برے لوگ ہر تہذیب اور ہر معاشرے میں موجود ہوتے ہیں، مگر کچھ معاشرے میں بیماری اتنی بڑھ جاتی ہے کہ وہ معاشرے اس برائی کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔

مثال کے طور پر شاید Homosexuality کے کچھ مریض ہر قوم میں پائے جاتے ہوں، مگر قوم لوط میں یہ عمل اتنا بڑھا کہ یہ قوم کی پہچان بن گئی اور قران نے بھی انہیں اسی حوالے سے متعارف کروایا۔

پنجاب کے معاشرے میں گالیاں دینے کا رواج کچھ زیادہ ہے۔ اس چیز پر آج تنقید کرنے کی ضرورت ہے۔ (یاد رکھئیے، پاکستان میں میری فیملی کی اپنی جڑیں پنجاب سے جُڑی ہوئی ہیں۔۔۔۔ )۔

\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\

مسئلہ یہ ہو رہا ہے کہ وزیر قانون کی اس بیہودگی کی وجہ سے توجہ اصل مسئلہ سے ہٹ گئی ہے اور حکومت پر کسی اور حوالے سے تنقید شروع ہو گئی ہے۔ ؎

دیکھئیے، کسی چیز سے انصاف بہت مشکل کام ہوتا ہے۔ اور کچھ احمقوں کی احمقانہ حرکتوں کی وجہ سے یہ اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔ بہرحال، ہمارا فرض ہے کہ ان احمقوں سے بھی انصاف کریں اور انکی Stupidity کو بیچ میں نہ آنے دیں

مثال کے طور احمدی نجات کی حماقت سے دوسری جنگ عظیم میں یہودی قتلِ عام کا سارا رخ مسلمانوں کے طرف ہو گیا، جبکہ احمدی نژاد کہنا چاہ رہا تھا کہ اس یہودی قتلِ عام کی سزا فلسطینیوں کو کیوں۔

لہذا، میری عرض صرف یہ ہے کہ جذبات میں آئے بغیر، ہر چیز پر غور و فکر کرنے کے بعد (اور حماقتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے) کسی ایک مسئلے پر رائے قائم کرنی چاہیے۔
 

جیسبادی

محفلین
ہر نیا آنے والا ڈکٹیٹر (فوجی آمر) پہلے سے زیادہ بے شرم ہوتا ہے۔ ضیا صاحب نے تو مارشل لاء لگایا تھا (یعنی سچ بولا تھا)۔ جمہوریت بجالی کے بعد وردی اتار دی۔

مشرف صاحب کو یہ توفیق نہیں ہوئی، اور مارشل لاء کے بغیر چڑھ بیٹھے۔ (یعنی شروع سے ہی جھوٹ پر بنیاد تھی۔) اور CEO بن گئے، پھر وزیر اعظم رکھ لیا اور صدر بن گئے، ساتھ وردی میں بھی رہے۔

اگلا آنے والا ڈکٹیٹر نہ صرف وزیر اعظم کو ہٹایا کرے گا، بلکہ چیف جسٹس کا عہدہ بھی خود لے لیا کرے گا۔ جب فوج کا نظام part-time چیف چلا سکتا ہے، تو سپریم کورٹ کا بھی part-time CJ چلا سکتا ہے۔

اس فورم پر apologists کی کیا شان ہے، وہ اس پر بھی آمر کی حمایت میں ہی زور کلیدی تختہ صرف کیا کریں گے۔
 
Top