چند اشعار ۔۔ زھراء علوی

زھرا علوی

محفلین
جو ساعت ہو گئی رخصت، قضا تھی
جو لمحہ آج ٹہرا ہے ، امر ہے ۔۔

یہ فیضِ عشق ہی تو ہے کہ میں ہوں
میرے دل میں سویرا ہے، سحر ہے ۔۔

جو میری روح میں شامل ہے، تُو ہے
بظاہر تو نہیں دکھتا !!!!!!! مگر ہے ۔۔

وہی مرکوز ہے نقطے میں صاحب
جبھی ہر لفظِ معجز معتبر ہے !!!

اداسی ہی اداسی چار سو ہے
یہ میرا دل ہے یا وحشت نگر ہے


زھراء علوی
 

محمد وارث

لائبریرین
خوبصورت اشعار ہیں زہرا صاحبہ۔

جو میری روح میں شامل ہے، تُو ہے
بظاہر تو نہیں دکھتا، مگر ہے

واہ واہ بہت خوب
 

زھرا علوی

محفلین
ما شاء اللہ کیا خوب پیش کش ہے بٹیا۔ :)

بہت شکریہ بھیا جی :)
واہ! پہلا اور تیسرا شعر کمال ہیں۔



خوبصورت اشعار ہیں زہرا صاحبہ۔

جو میری روح میں شامل ہے، تُو ہے
بظاہر تو نہیں دکھتا، مگر ہے

واہ واہ بہت خوب

بہت شکریہ داد کے لیے آپ احباب کا ۔۔:)
ایک اور شعر بھی شامل کیا ہے ۔۔ ضرور دیکھیے گا ۔۔
 

رانا

محفلین
جو میری روح میں شامل ہے، تُو ہے
بظاہر تو نہیں دکھتا !!!!!!! مگر ہے ۔۔
بہت خوب۔
 

فاتح

لائبریرین
ایک اور شعر بھی شامل کیا ہے ۔۔ ضرور دیکھیے گا ۔۔
وہ ہے مرکوز اک نقطے میں صاحب
جبھی ہر لفظِ معجز معتبر ہے !!!
دو باتیں اپنی رائے کے طور پر عرض کرنا چاہوں گا:

اول، اُس کا ایک نقطے میں مرکوز ہونا ہر لفظِ معجز کے معتبر ہونے کا ثبوت کیونکر ہوا؟

دوم، اس انداز میں کلمۂ تخاطب "صاحب" کا استعمال مرد حضرات تو ایک دوسرے کو بلانے کے لیے دوست یار کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں لیکن میں نے خواتین کو یہ کلمہ یوں استعمال کرتے نہیں سنا۔ ہاں اگلے زمانہ میں کہ جب شوہروں کا نام لینا پرلے درجے کی بد تہذیبی مانا جاتا تھا، خواتین اپنے شوہروں کو مخاطب کرنے کے لیے ان کا نام لینے کی بجائے صرف "صاحب" کہہ کر مخاطب کیا کرتی تھیں لیکن اس کے سوا نہیں۔
 

مغزل

محفلین
زھرا،
جیتی رہو گڑیا، اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ، مزید کچھ شعر بھی کہو، تا کہ غزل ہوجائے ، اللہ شاد و کامران کرے ، آمین
فاتح بھائی کی بات کسی حد تک درست ہے کہ خواتین کے ہاں صاحب کا لفظ شاعری میں برتنے عموماً احتراز برتا گیا ( یا پھر نسائی لہجے سے نے اسے گردانا ہی نہیں یا نظر انداز ہوگیا) ، مگر یہ کوئی دلیل نہیں کہ نہ برتا جائے ، صاحب کی ذیل میں عرض ہے کہ صاحب کا جوہر ’’صحب ‘‘ ہے ،(جس سے ملا جائے ، یا میل جو ل رکھا جائے) اسی سے صاحب صحابہ یا صحابیہ ہے ، اگلے زمانوں میں خاندانی افراد زوج اور مصاحب کے لیے بھی ’’ صاحب ‘‘ برتا کیے ۔
"ارے بھائی بات سمجھا کرو .... یہ مجھ سے کیسے ممکن ہے کہ میں اس کو چھوڑ دوں محض بیوی صاحب کی خاطر۔" ( 1963ء، قاضی جی، 205:3 )
سو اس پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا ، معنوی اعتبار سے بھی ضمیرِ تخاطب کنایہ یا محاورتاَ ہے ، جب کہ اصل سے بھی مراد مذکورمخاطب ہے ۔
وہ ہے مرکوز اک نقطے میں صاحب ۔۔۔۔۔۔ کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ و ہی مرکوز ہے نقطے میں صاحب
کرنے سے وہی جواز پیدا ہوجائے گا، جو موجودہ مصرعے میں خاصا مبہم ہے ،۔ اور اعتراض بھی دور ہوجائے گا، جبکہ میرے نزدیک موجودہ صورت میں بھی واضح ہے۔
والسلام
تمھارا بھائی
 

الف عین

لائبریرین
واقعی آخری شعر میں ہی نہ صرف ’صاحب‘ بلکہ ’حرف معجز معتبر‘ بھی کھٹک رہا ہے مجھے۔ نقطے میں مرکوز تو کوئی بھی ہو سکتا ہے (اگر ہو سکتا ہے تو۔۔۔)، اس میں جنس کی تخصیص تو نہیں ہوتی،
وہ ہے مرکوز اک نقطے میں صاحب
جبھی ہر لفظِ معجز معتبر ہے !!!
اس کو یوں کہا جائے تو؟؟؟
وہی مرکوز (یا دوسرا بہتر لفظ) ہے نقطے کی صورت (یا کچھ اور بہتر صورت)
تبھی ہر حرف حرفِ معتبر ہے
 

زھرا علوی

محفلین
آخری شعر حضرت علی علیہ السلام کے ایک قول کے تناظر میں کہا ہے، جب تک وہ قول نہ پڑھا ہو اس شعر کا موضوع سمجھنا میرے خیال میں کسی کے لیے بھی مشکل ہے ۔۔
جہاں تک لفظ صاحب کے استعمال کا تعلق ہے اگر خواتین کو اس کے استعمال کی اجازت نہیں تو میں اس کو بدلنے کی کوشش کرتی ہو ں ۔۔
حرفِ معجز قرآن کریم کے استعارے کے لیے میں نے استعمال کیا ، اگر ہی ترکیب غلط ہے تو بھی ضرور بتایئے ۔۔
 

مغزل

محفلین
میرے خیال میں تو زھرا ، آپ قاری کو ہی طے کرنے دیں تو ٹھیک ہے ، اگر آپ اپنا نکتہ نظر بیان کریں گی تو شعر کا حسن متاثر ہوگا۔ صاحب کا استعمال ٹھیک ہے ، کوئی بھی لفظ کسی کی میراث نہیں ۔ ادب میں تو بالخصوص اس کی آزادی ہوتی ہے ۔
 
اچھے اشعار ہیں
لیکن کیا واقعی یہ آپ کی اپنی تخلیق ہے ؟
اگر ہے تو آپ نے سے گزارش ہے کہ کوشش تیز کریں۔اگر یہ چشمے کے آثار ہیں تو اس سے ایک دریا بن سکتا ہے۔
 
Top