رشید احمد صدیقی چارپائی-رشید احمد صدیقی

مسٹر گرزلی

محفلین
چار پائی
رشید احمد صدیقی
(1)
چار پائی اور مذہب ہم ہندوستانیوں کا اوڑھنا بچھوڑنا ہے ۔ ہم اسی پر پیدا ہوتے ہیں اور یہیں سے مدرسہ آفس جیل خانے کونسل یا آخرت کا راستہ لیتے ہیں چار پائی ہماری گھٹی میں پڑی ہوئی ہے ۔ ہم اس پر دوا کھاتے ہیں دعا اور بھیک بھی مانگتے ہیں کبھی فکر سخن کرتے ہیں اور کبھی فکر قوم اکثر فاقہ کرنے سے بھی باز نہیں آتے ہم کو چار پائی پر اتنا ہی اعتماد ہے جتنا برطانیہ کو آئی سی ایس پر شاعر کو قافیہ پر یا طالب علم کو غل غپاڑے پر ۔ چار پائی کی پیڑھی دور چل کر دیو جانس کلبی کے خم سے جا ملتی ہے کہا جاتا ہے کہ تمام دنیا سے منہہ موڑ کر دیو جانس ایک خم میں جا بیٹھا تھا۔ ہندوستانی تمام دنیا کو چار پائی کے اندر سمیٹ لیتا ہے ۔ ایک نے کثرت سے وحدت کی طرف رجوع کیا ۔ دوسرے نے وحدت میں کثرت کو سمیٹا ۔ ہندوستانی ترقی کرتے کرتے تعلیم یافتہ جانور ہی کیوں نہ ہو جائے اس سے اس کی چار پائیت نہیں جدا کی جا سکتی ۔ اس وقت ہندوستان کو دو معرکے درپیش ہیں ۔ ایک سوراج کا دوسرا روشن خیالی کا ۔ دراصل سوراج اور روشن خیال بیوی دونوں ایک ہی مرض کی دو علامتیں ہیں ۔ دونوں چارپائیت میں مبتلا ہیں ۔ سوراج تو وہ ایسا چاہتا ہے جس میں انگریز کو حکومت کرنے اور ہندوستانی کوگالی دینے کی آزادی ہو ۔ اور بیوی ایسی چاہتا ہے جو گریجوایٹ ہو لیکن گالی نہ دے ۔ اس طور پر ہندوستانی شوہر اور تعلیم یافتہ بیوی کے درمیان جو کھینچ تان ملتی ہے اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ شوہر چار پائی پر سے حکومت کرنا چاہتا ہے اور بیوی ڈرائنگ روم سے گھنٹی بجاتی ہے ۔ روشن خیال بیوی شہرت کی آرزو مند ہوتی ہے دوسری طرف شوہر یہ چاہتا ہے کہ بیوی تو صرف فرد خاندان ہونے پر صبر کرے اور خود فخرخاندان نہیں بلکہ فخر کائنات قرار دیاجائے ۔ موتی لال نہر و رپورٹ سے پہلے ہندوستانیوں پر دو مصیبت نازل تھیں ۔ ایک ملیریا کی دوسری مس میوالمعروف بہ مادر ہندکی ۔ ملیریا کا انسداد کچھ تو کو نین سے کیا گیا بقیہ کا کثرت اموات سے مس میو کے تدارک میں ہندو مسلمان دونوں چار پائی پر سربزانو اور چوراہوں پر دست و گریباں ہیں ۔ نہر و رپورٹ اور مادر ہندو دونوں میں ایک نسبت ہے ایک نے مسلمانوں کے سیاسی حقوق کو اہمیت نہ دی دوسری نہ ہندوؤں کے معاشرتی رسوم و روایات کی توہیں کی ! مادر ہند کے بارے میں چار پائی نشینوں کی یہ رائے ہے کہ اس کتاب کے شائع ہونے سے ان کو ہندوستانیوں سے زیادہ مس میو کے بارے میں رائے قائم کرنے کا موقع ملا ان کا یہ بھی خیال ہے کہ اگر سارے ہندوستان سے شمار واعداد اور مواداکٹھا کرنے کے بجائے موصوفہ نے صرف ہم ہندوستانیوں کی چار پائی کا جائزہ لیا ہوتا تو ان کی تصنیف اس سے زیادہ دلچسپ ہوتی جتنی کہ اب ہے ۔ چار پائی ہندوستانیوں کی آخری جائے پناہ ہے فتح ہو یا شکست وہ رخ کرے گا ہمیشہ چار پائی کی طرف ۔ پھر وہ چار پائی پر لیٹ جائے گا ۔ گائے گا ، گالی دے گا یا مناجات بدرگاہ قاضی الحاجات پڑھنا شروع کر دے گا ۔ فن جنگ یا فن صحافت کی رو سے آج کل اس طرح کے وظائف ضروری اور نفع بخش خیال کئے جاتے ہیں ۔ جس طرح ہر مالدار شریف یا خوش نصیب نہیں ہوتا اس طرح ہر چار پائی نہیں ہوتی ۔ کہنے کو تو پلنگ پلنگڑی چوکھٹ مسہری ۔ سب پر اس لفظ کا اطلاق ہوتا ہے لیکن سیاسی لیڈروں کے سیاسی اور مولویوں کے مذہبی تصور کے مانند چار پائی کا صحیح اکثر متعین نہیں ہوتا۔ چار پائی کی مثال ریاست کے ملازم سے دے سکتے ہیں ۔ یہ ہر کام کے لیے ناموزوں ہوتا ہے اس لیے ہر کام پر لگادیا جاتا ہے ایک ریاست میں کوئی صاحب ولایت پاس ہو کر آئے ریاست میں کوئی اسامی نہ تھی جو ان کو دی جا سکتی ۔ آدمی سوجھ بوجھ کے تھے راجہ صاحب کے کانوں تک یہ بات پہنچا دی کہ کوئی جگہ نہ ملی تو وہ لاٹ صاحب سے طے کر آئے ہیں ۔راجہ صاحب ہی کی جگہ پر اکتفا کریں گے ۔ ریاست میں ہلچل مچ گئی۔ اتفاق سے ریاست کے سول سرجن رخصت پر گئے ہوئے تھے نہ ان کی جگہ پر تعینات کر دیئے گئے کچھ دنوں بعد سول سرجن صاحب واپس آئے تو انجینئر صاحب پر فالج گرا ۔ ان کی جگہ ان کو دے دی گئی ۔ آخری بار یہ خبر سنی گئی کہ وہ ریاست کے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ہو گئے تھے اور اپنے ولی عہد کو ریاست کے ولی عہد کا مصاحب بنوا دینے کی فکر میں تھے۔ یہی حالت چار پائی کی ہے فرق صرف یہ ہے کہ ان ملازم صاحب سے کہیں زیادہ کار آمد ہوتی ہے ! فرض کیجئے آپ بیمار ہیں سفر آخرت کا سامان میسر ہو یا نہ ہو اگر چار پائی آپ کے پاس ہے تو دنیا میں آپ کو کسی اور چیز کی حاجت نہیں دوا کی پڑ یہ تکئے کے نیچے جو شاندہ کی دیگچی سرہانے رکھی ہوئی ۔ بڑی بیوی طبیب چھوٹی بیوی خدمت گزار چار پائی سے ملا ہوا بول و براز کا برتن چار پائی کے نیچے میلے کپڑے مچھر ، بھنگے گھر یا محلے کے دو ایک بچے جن میں ایک آدھ زکام خسرے میں مبتلا! اچھے ہو گئے تو بیوی نے چار پائی کھڑی کر کے غسل کر ا دیا ورنہ آپ کے دشمن اسی چار پائی پر لب گورلائے گئے ۔ ہندوستانی گھرانوں میں چار پائی کو ڈرائنگ روم ، سونے کا کمرہ ، غسل خانہ ، قلعہ ، خانقاہ ، خیمہ ، دواخانہ ، صندوق ، کتاب گھر ، شفاخانہ ، سب کی حیثیت کبھی کبھی بہ یک وقت ورنہ وقت وقت پر حاصل رہتی ہے ۔ کوئی مہمان آیا ، چار پائی نکالی گئی اس پر ایک نئی دری بچھا دی گئی جس کے تہہ کے نشان ایسے معلوم ہوں گے جیسے کسی چھوٹی سی آراضی کو مینڈوں اور نالیوں سے بہت سے مالکوں میں بانٹ دیا گیا ہے اور مہمان صاحب معہ اچکن ، ٹوپی ، بیگ بغیچی کے بیٹھ گئے ۔ اور تھوڑی دیر کے لیے یہ معلوم کرنا دشوار ہو گیا کہ مہمان بیوقوف ہے یا میزبان بدنصیب ! چار پائی ہی پر ان کا منہ ہاتھ ھلوایا اور کھانا کھلایا جائے گا اور اسی چار پائی پر یہ سورہیں گے سو جانے کے بعد ان سے مچھر مکھی اس طرح اڑائی جائے گی جیسے کوئی پھیری والا اپنے خونچہ پر سے جھاڑو نما مور چھل سے مکھیاں اڑا رہا ہو ۔ چار پائی پر سوکھنے کے لیے اناج پھیلایا جائیگا۔ جس پر تمام دن چڑیاں حملے کرتی دانے چگتی اور گالیاں سنتی رہیں گی کوئی تقریب ہوئی تو بڑے پیمانے پر چار پائی پر آلو چھیلے جائیں گے ۔ ملازمت میں پنشن کے قریب ہوتے ہیں تو جو کچھ رخصت جمع ہوئی رہتی ہے اس کو لے کر ملازمت سے سکبدوش ہو جاتے ہیں اس طرح چار پائی پنشن کے قریب پہنچی ہے تو اس کو کسی کال کوٹھڑی میں داخل کر دیتے ہیں اور اس پر سال بھر کا پیاز کا ذخیرہ جمع کر دیا جاتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

مسٹر گرزلی

محفلین
(2)
ایک دفعہ دیہات کے ایک میزبان نے پیاز ہٹا کر اس خاکسار کو ایسی ہی ایک پنشن یافتہ چار پائی پر اس کال کوٹھڑی میں بچھا دیا تھا اور پیاز کو چار پائی کے نیچے اکٹھا کر دیا گیا تھا اس رات کو مجھ پر آسمان کے اتنے ہی طبق روشن ہو گئے تھے جتنی ساری پیازوں میں چھلکے تھے اور یقینا چودہ سے زیادہ تھے ۔ فراق اور وصال بیماری و تندرستی تصنیف و تالیف سرقہ اور شاعری سب سے چار پائی ہی پر نپٹتے ہیں ۔ بچے بوڑھے اور مریض اس کو بطور پاخانہ غسل خانہ کام میں لاتے ہیں کبھی ادوان کشادہ کر دی گئی کبھی بنا ہوا حصہ کاٹ دیا گیا اور کام بن گیا پختہ فرش پر گھسیٹئے تو معلوم ہو کوئی ملڑی ٹینک مہم پر جا رہا ہے یا بجلی کا تڑا قاہو رہا ہے کھٹملوں سے نجات پانے کے لیے جو ترکیبیں کی جاتی ہیں اور جس جس آسن میں چار پائی نظر آتی ہے یا جو سلوک اس کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے ان پر غور کر لیجئے تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ہندوستانی بیوی کا تخیل ہندوستانیوں نے چار پائی ہی سے لیاہے! دو چار پائیاں اس طور پر کھڑی کر دیں کہان کے پائے آمنے سامنے ہو گئے ان پر ایک کمل دری یا چادر ڈال دی ۔ کمرہ تیار ہو گیا گھر میں بچوں کو اس طرح کا حجرہ بنانے کا بڑا شوق ہوتاہے ۔ یہاں وہ ان تمام باتوں کی مشق کرتے ہیں جو ماں باپ کو کرتے دیکھتے ہیں ایٹن اور ہیرو انگلستان کے دو مشہور پبلک اسکول ہیں ان کے کھیل کے میدان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ واٹر لو کی تاریخی جنگ یہیں جیتی گئی تھی۔ میرا کچھ ایسا خیال ہے کہ ہندوستان کی ساری مہم ہم ہندوستانی چار پائی کے اسی گھروندے میں سر کر چکے ہوتے ہیں ۔ برسات کی سڑی گرمی پڑ رہی ہو کسی گھریلو تقریب میں آپ دیکھیں گے کہ محلہ نہیں سارے قصبہ کی عورتیں خواہ وہ کسی سائز عمر ، مزاج یا مصرف کی ہوں رونق افروز ہیں اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ہر عورت کی گود میں دو ایک بچے اور زبان پر پانچ سات کلمات خیر ضرور ہوں گے کتنی زیادہ عورتیں کتنی کم جگہ میں آجاتی ہیں اس کا اندازہ کوئی نہیں کر سکتا جب تک کہ چار پائی کے بعد کسی یکہ اور تانگہ پر ان کو سفر کرتے نہ دیکھ چکا ہو یہ اللہ کی مصلحت اور ایجاد کرنیوالے کی پیش بینی ہے ہانکنے والے اور گھوڑے دونوں کی پشت سواریوں کی طرف ہوتی ہیں اگر کہیں یہ سواریوں کو دیھکتے ہوتے تو یقینا غش کھا کر گر پڑے ۔ چارپائی ایک اچھے بکس کابھی کام دیتی ہے تکیہ کے نیچے ہر قسم کی گولیاں جن کے استعمال سے آپ کے سوا کوئی اور واقف نہیں ہوتا ایک آدھ روپیہ ، چند دھیلے پیسے ، اسٹیشنری ، کتابیں ، رسالے ، جارے کے کپڑے ، تھوڑا بہت ناشتا ، نقش سلیمانی ، فہرست دواخانہ ، سمن ، جعلی دستاویز کے کچھ مسودیے یہ سب چار پائی پر لیٹے لیٹے ان میں سے ہر ایک کو اجالا ہو یا اندھیرا صحت کے ساتھ آنکھ بند کرکے نکال لیتے اور پھر رکھ دیتے جیسے حکیم نابینا صاحب مرحوم اپنے لمبے چوڑے بکس میں سے ہر مرض کی دوائیں نکال لیتے اور پھر رکھ دیتے ۔ حکومت بھی چار پائی ہی پر سے ہوتی ہے ۔ خاندان کے کرتا دھرتا چار پائی ہی پر براجمان ہوتے ہیں ۔ وہیں سے ہر طرح کے احکام جاری ہوتے رہتے ہیں اور ہر گناہ گار کوسزا بھی وہیں سے دی جاتی ہے آلات سزا میں ہاتھ پاؤں زبان کے علاوہ ڈنڈا ، جوتا ، تاملوٹ بھی ہیں جنہیں اکثر پھینک کر مارتے ہیں ۔ یہ اس لیے کہ توقف کرنے میں غصہ کا تاؤ مدھم نہ پڑجائے اور ان آلات کو مجرم پر استعمال کرنے کے بجائے اپنے اوپر استعمال کرنے کی ضرورت نہ محسوس ہونے لگے ۔ چار پائی ہی کھانے کا کمرہ بھی ہوتی ہے باور چی خانہ سے کھانا چلا اور اس کے ساتھ پانچ ساتھ چھوٹے بڑے بچے اتنی ہی مرغیاں دو ایک کتے ، بلی اور بے شمار مکھیاں آپہنچیں ۔ سب اپنے قرینے سے بیٹھ گئیں ، صاحب خانہ صدر دسترخواں ہیں ایک بچہ زیادہ کھانے پر مار کھاتا ہے ۔ دوسرا بدتمیزی سے کھانے پر تیسرا کم کھانے پر چوتھا زیادہ کھانے پر اور بقیہ اس پر کہ ان کو مکھیاں کھائے جاتی ہیں ۔ دوسری طرف بیوی مکھی اڑاتی جاتی ہے اور شوہر کی بدزبانی سنتی اور بدتمیزی سہتی جاتی ہے ۔ کھانا ختم ہوا ۔ شوہر شاعر ہوئے تو ہاتھ دھو کر فکر سخن میں چار پائی ہی پر لیٹ گئے کہیں دفتر میں ملازم ہوئے تو اس طرح جان لے کر بھاگے جیسے گھر میں آگ لگی ہے اور اور کوئی مذہبی آدمی ہوئے تو اللہ کی یاد میں قیلولہ کرنے لگے بیوی بچے بدن دبانے اور دعائیں سننے لگے ۔ کوئی چیز خواہ کسی قسم کی ہو کہیں گم ہوئی ہو ہندوستانی اس کی تلاش کی ابتداء چار پائی سے کرتا ہے اس میں ہاتھی سوئی بیوی بچے موزے مرغی چور کسی کی تخصیص نہیں ۔ رات میں کھٹکا ہوا اس نے چار پائی کے نیچے نظر ڈالی خطرہ بڑھا تو چار پائی کے نیچے پناہ لی زندگی کی شاید ہی کوئی ایسی سرگرمی ہو جو چار پائی یا اس کے آس پاس نہ انجام پائی ہو ۔ چار پائی ہندوستان کی آب و ہووا تمدن و معاشرت ضرورت اور ایجاد کا سب سے بھر پور نمونہ ہے ۔ ہندوستان اور ہندوستانیوں کے مانندڈھیلی ڈھالی شکستہ حالی بے سرو سامان لیکن ہندوستانیوں کی طرح غالب اور حکمران کے لیے ہر قسم کا سامان راحت فراہم کرنے کے لیے آمادہ ۔ کوچ اور صوفے کے دلدادہ اور ڈرائنگ روم کے اسیر اس راحت و عافیت کا کیا اندازہ لگاسکتے ہیں جو چار پائی پر میسر آتی ہے ! شعراء نے انسان کی خوشی اور خوشحالی کے لے کچھ باتیں منتخب کر لی ہیں مثلا سچے دوست شرافت فراغت اور گوشہ چمن ہندوستان جیسے غریب ملک کے لیے عیش و فراغت کی فہرست اس سے مختصر ہونی چاہیے ۔ میرے نزدیک تو صرف ایک چار پائی ان تمام لوازم کو پورا کر سکتی ہے ۔ بانوں کی ٹوٹی ہوئی چار پائی ہے جسے مکے کے کھیت میں بطور مچان باندھ دیا گیا ہے ہر طرف جھومتے لہلہاتے کھیت ہیں بارش نے گردو پیش کو شگفتہ و شاداب کر دیا ہے دور دور جھیلیں جھمکتی جھلکتی نظر آتی ہیں جن میں طرح طرح کے آبی جانور اپنی اپنی بولیوں سے برسات کی علمداری اور مزیدای کا اعلان کرتے ہیں ۔ مچان پر بیٹھا ہوا کسان کھیت کی رکھوالی کر رہا ہے اس کے یہاں نہ آسائش ہے نہ آرائش نہ عشق و عاشی ، نہ علم و فضل نہ دولت و اقتدار لیکن یہ سب چارپائی پر بیٹھے ہوئے اسی کسان کی محنت کا کرشمہ ہیں ۔ پھر ایک دن آئے گا جب اس کی پیداوار کو چور مہاجن یا زمیندار لوٹ لیں گے اور اسی چار پائی پر اس کو سانپ ڈس لے گا اور قصہ پاک ہو جائے گا ۔ برسات ہی کا موسم ہے ۔ گاؤں میں آموں کا باغ کبھی دھوپ کبھی چھاؤں کوئل کو کتی ہے ہو الہکتی ہے گاؤں میں لڑکے لڑکیاں دھوم مچا رہی ہیں کہیں کوئی پکا ہوا آم ڈال سے ٹوٹ کر گرتا ہے سب کے سب جھپٹتے ہیں ۔ جس کو مل گیا وہ ہیرو بن گیا جس کو نہ ملا اس پر سب نے ٹھٹھے لگائے ۔ یہی لڑکے لڑکیاں جو اس وقت کسی طرح قابل التفات نظر نہیں آتیں کسے معلوم آگے چل کر زمانہ اور زندگی کی کن نیر نگیوں کو اجاگر کریں گے کتنے فاقے کریں گے کتنے فاتح بنیں گے کتنے نامور اور نیک نام کتنے گمنام و نافرجام اور یہ خاکسار ایک کھری چار پائی پر اس باغ میں آرام فرما رہا ہے چار پائی باغبان کی ہے ۔ باغ کسی اور کا ہے لڑکے لڑکیاں گاؤں کی ہیں میرے حصہ کا صرف آم ہے ایسے میں جو کچھ دماغ میں نہ آئے تھوڑا ہے یا جو تھوڑا دماغ میں ہے وہ بھی نکل جائے تو کیا تعجب ! پھر عالم تصور میں ایسی کائنات تعمیر کرنے لگتا ہوں جو صرف میرے لیے ہے جو میرے ہی اشارے پر بنتی بگڑتی ہے مجھے خالق کا درجہ حاصل ہے اپنے مخلوق ہونے کا وہم بھی نہیں گزرتا نہ اس کا خیال کہ زمانہ کسے کہتے ہیں نہ اس کی پروا کہ زندگی کیا ہے دوسروں کو ان کا اسیر دیکھ کر چونک پڑتا ہوں پھر یہ محسوس کرکے کہ میں ان لوگوں سے اور خود زمانہ اور زندگی سے علیحدہ بھی ہوں اونگھنے لگتا ہوں ممکن ہے اونگھنے میں پہلے سے مبتلا ہوں ۔
 

جیہ

لائبریرین
واہ بہت خوب ۔ ایک دفعہ پھر پڑھ کر مزا آگیا۔ بہت شکریہ اتنی اچھی تحریر شیئر کرنے کے لیے
 

الف عین

لائبریرین
مسٹر گرزلی نے رشید ساحب کا انتخاب یہاں جمع کر دیا ہے۔ اور کچھ ہو گیا تو اس کی ای بک بنائی جا سکتی ہے۔ جوجو تم بھی کچھ ٹائپ کر سکتی ہو؟ تمہارے پاس تو کتاب ہوگی ہی۔۔۔ اور کوئی ٹائپ کرنے میں دل چسپی رکھتا ہو تو بتا دیں۔ اس کو میں Scan کر کے بھی اپ لوڈ کر سکتا ہوں کہیں۔
 

جیہ

لائبریرین
مسٹر گرزلی نے رشید ساحب کا انتخاب یہاں جمع کر دیا ہے۔ اور کچھ ہو گیا تو اس کی ای بک بنائی جا سکتی ہے۔ جوجو تم بھی کچھ ٹائپ کر سکتی ہو؟ تمہارے پاس تو کتاب ہوگی ہی۔۔۔ اور کوئی ٹائپ کرنے میں دل چسپی رکھتا ہو تو بتا دیں۔ اس کو میں Scan کر کے بھی اپ لوڈ کر سکتا ہوں کہیں۔

بابا جانی۔ ٹائپنگ میری بس کی بات نہیں۔ یہ جو چند مزاحیہ اقتباس ٹائپ کیے ، وہ بھی تین تین قسطوں میں ٹائپ کیے
 
Top