پیا رنگ کالا کیسی ہے ؟

عدنان عمر

محفلین
پاکستانی معروف تجزیہ نگار حسن نثار تو بیسیوں بار سائنسدانوں کی یہی تعریف کر چکے ہیں یعنی جو شخص بلا تفریق تمام انسانوں کا بھلا کرے وہ صوفی ہے۔
میری نظر میں: جو شخص خالق کی محبت میں اُس کی مخلوق کی بلا تفریق اور بے غرض خدمت کرتا ہے، وہ صوفی بننے کے راستے پر قدم رکھتا ہے۔
 

arifkarim

معطل
میری نظر میں: جو شخص خالق کی محبت میں اُس کی مخلوق کی بلا تفریق اور بے غرض خدمت کرتا ہے، وہ صوفی بننے کے راستے پر قدم رکھتا ہے۔
تصوف کو مذہب یا دین سے جوڑے بغیر سمجھنے کی کوشش کریں۔ ہر صوفی مذہبی نہیں ہو سکتا۔
 

عدنان عمر

محفلین
تصوف کو مذہب یا دین سے جوڑے بغیر سمجھنے کی کوشش کریں۔ ہر صوفی مذہبی نہیں ہو سکتا۔
اگر دین یا مذہب سے تعلق نہ جوڑیں تو پھر صوفی کہنے کی کیا ضرورت ہے؟ خادمِ انسانیت کیوں نہ کہہ دیا جائے؟ یا اور کوئی موزوں نام رکھ لیجیے تاکہ اللہ کی رضا کے لیے خدمتِ خلق کرنے والے اور مذہب سے بالاتر ہوکر خدمتِ خلق کرنے والے میں تفریق کی جاسکے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
نور سعدیہ شیخ وجدان اور تصوف کیا ایک ہی چیز ہے؟

انسانی جسم کو جب پیدا کیا گیا تو اس کو روح اور گوشت کے ساتھ پیدا کیا گیا ۔ روح کو انسانی حواس کے ساتھ جوڑ دیا گیا ۔ ہمارے حواس اس روح سے سگنلز پاتے رہتے ہیں اور ہمارا ضمیر انسان کے اندر روحانی وجود نمو کرنا شُروع کردیتا ہے ۔ روح کا سفر علم کے جس راستے پر ہوگا وہیں اس کو وساوس گھیرے رکھیں گے ۔ انہی وساوس کے تاریکیوں کو یقین کامل میں بدلتے انسانی وجدان روشنی پاتا ہے ۔ یہ ایک ایسی باطنی قوت ہوتی ہے جس کو کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ ہم جب اپنی تمام خیالات کو ایک خیال پر مرکوز کردیتے ہیں تو اسی سمت میں ایک سوچ بیدا ہوجاتی ہے ۔ اس سوچ کے بیداری کے بعد ہمارے ذہن میں کوئی نئے خیالات جو کسی کتاب ، کسی استاد یا کسی بھی علم کے بیرونی ذریعے کی دین نہیں ہوتے ۔۔۔ہمیں ملنا شروع ہوجاتے ہیں ۔۔۔۔۔اسی قوت کو وجدان کہا جاتا ہے جو ہمارے شعور میں بندی چاند کی مانند منزلیں طے کرتی ہے ۔ اور جب چودھویں کا چاند چڑھ جاتا ہے تو سمجھ لیں کہ سورج سے ملنے والی روشنی کا رخ چاند کی طرف ہوگیا یا گویا کہ انسانی روح کی مثال سورج کی سی ہوگئی جب اس کی وجدانی صلاحیتیں بیدار ہوگئی ۔ تصوف صوفیت سے نکلا لفظ ہے جس کے معانی ہیں اپنی نفی کرکے انسانیت کی خدمت کرنا ہے ۔یہ ایک راستہ ہے جو مسافر اختیار کرتا ہے تاکہ متعین راستے پر سفر کرتے منزل کی جانب پہنچ سکے ۔ اس راستے پر انسان پر ان حقائق کا ادارک ہوتا ہے جو نئی دریافتوں یا نئی ایجادات کا باعث بنتا ہے یا ایسی حقیقت روبرو ہوجاتی ہے جس کی بدولت عالم کی سچائیاں انسانی باطن پر منکشف ہوجاتی ہیں
 

صائمہ شاہ

محفلین

فرقان احمد

محفلین
دیکھا جائے تو ہر فرد کا اپنا ایک خاص مزاج اور دنیا کو دیکھنے کا ایک خاص زاویہ ہوتا ہے، چاہے وہ فرد اپنے ان رویوں اور مزاج سے خود بھی آگاہی رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو۔ مذہبی افراد، جو اک ذرا آزادی کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور ملاؤں کے پیش کردہ مذہبی ورژنز سے متفق نہیں ہوتے، تاہم یہ سمجھتے ہیں کہ کائنات کا نظام چلانے والی کوئی برتر ہستی موجود ہے، تو وہ اپنی اس سوچ کو عملی رخ دینے کے لیے مختلف لبادے اوڑھ لیتے ہیں۔ لفظی بازی گری الگ ہے تاہم انہیں زیادہ تر صوفی، درویش، مستانہ، ولی، دیوانہ اور نہ جانے کیا کچھ کہا جاتا ہے۔ ان میں شاید بعضے افراد ڈھونگ بھی رچاتے ہوں گے تاہم ہمیں خوش گمانی کا رویہ اپنانا چاہیے۔ ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ شریعت کے دائرے میں رہ کر ہی زندگی گزارنا بہترین طریقہ ہے تاہم ان ملاؤں کے پیش کردہ شریعتی ورژن دیکھ کر کبھی کبھار تو سچ مچ جی چاہتا ہے کہ ہم بھی صوفی، درویش، جوگی یا مستانے دیوانے بن جائیں۔ :)
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
تصوف کو ہم مذہب سے الگ نہیں کرسکتے ہیں ۔ انسان جب ایک حقیقت کے قریب ہوتا ہے تو اس پر انکشاف ہوتا ہے ، وہ اپنے ''کل ''سے جدا نہیں ہے ۔ انسان اسی تگ دو میں اپنی زندگی تیاگ دیتا ہے اور اللہ کی خاطر بندوں کا ہوجاتا ہے جبکہ سائنس دان یا دیگر لوگ اس کیٹیگری میں شمار نہیں کیے جاسکتے کیونکہ بھلے وہ کام بھلائی کا کرتے ہیں مگر ان کا مقصد اپنے خیال تک رسائی یعنی وجدان کی بیداری کے بعد ختم ہوجاتا ہے ۔ میرے نزدیک کوئی ولی اپنا مذہب شریعت سے علیحدہ نہیں کرتا ہے ۔ ہمارے آج کل کے جتنے بھی مولانا ہیں انہوں نے نقالی کا دین اپنا لیا ہے جبکہ صوفی لوگ نقل کے بجائے زمانے کو دیکھتے استدلالی بنیادوں پر مذہب سے نکلے کچھ نقاط نکالتے ہیں ۔ اسلام کے سدا بہار ہونے کی وجہ اس کا مسلسل بدلنا ہے ۔ اس کے کچھ قوانین ساکت ہیں اور کچھ متحرک ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہی عین اسلام ہے ۔
 

عدنان عمر

محفلین
اسلام کے سدا بہار ہونے کی وجہ اس کا مسلسل بدلنا ہے ۔ اس کے کچھ قوانین ساکت ہیں اور کچھ متحرک ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہی عین اسلام ہے ۔
اگر مناسب سمجھیں تو اِس نکتے کو تفصیل سے سمجھا دیجیے، مستند حوالوں اور مثالوں کے ساتھ۔
 

فرقان احمد

محفلین
تصوف کو ہم مذہب سے الگ نہیں کرسکتے ہیں
یہاں تک تو آپ سے صد فی صد متفق ہوں۔ ایک انسان کو جب یہ احساس ہو جائے کہ کائنات کا نظام چلانے والی کوئی برتر ہستی موجود ہے تو وہ بہرصورت مذہبی تو ہو ہی جاتا ہے، ہاں کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ مذہبی ملاؤں کی تنگ نظری کے سبب وہ قطار سے باہر نکل جاتا ہے۔ تاہم ایسے افراد بھی دنیا میں موجود ہیں جو مذہب پر یقین نہیں رکھتے، خدا پر ایمان نہیں رکھتے، تاہم انسانیت کے محسن کہلائے جا سکتے ہیں۔ شاید ان کے بارے میں ہم کوئی حکم نہیں لگا سکتے اور ان کا معاملہ اللہ پاک کے سپرد کر دینا چاہیے۔ انسانیت کی خدمت کے جذبے سے سرشار یہ افراد بھی کمال آئیٹم ہیں، ہمیں ان کی نفسیات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے اور ان سے بلاضرورت تعصب روا نہیں رکھنا چاہیے۔ دلوں کا حال تو بس اللہ پاک ہی جانتے ہیں۔ ہو سکتا ہے، حتمی سچائی کی تلاش کے سفر میں ان کے سوچنے سمجھنے کا انداز ہم سے جدا ہو اور رب تعالیٰ کو ان کی یہ ادا بھا جائے۔
 

صائمہ شاہ

محفلین
تصوف کی بنیاد فلاح اور بھلائی کی ہے عجز اور انکساری کے ساتھ اور اس کی مثال ہر صوفی کے ہاں ملے گی ۔ تصوف کی سادگی آپ کو قدرت اور عاجزی سے جوڑے رکھتی ہے ۔ میری نظر میں تصوف خالق اور مخلوق کے احترام اور ربط کا نام ہے جو انسانیت کی بھلائی سے جڑا ہے اور یہی صوفی کسی بھی مذہب کا ہو انسانیت اور بھلائی کا ہی پرچار کرے گا۔
 

آوازِ دوست

محفلین
دینِ محمدی یا مذہبِ اسلام میری ناقص رائے میں دیگر مذاہب کی طرح ایک طے شدہ طریقہءکار ہے جیسے اِس سے پہلے دینِ ابراہیمی ، دینِ موسوی یا دینِ مسیح تھا۔ حضورﷺ چالیس برس کی عمر مبارک میں باقاعدہ عہدِ نبوت میں داخل ہوئے پھر کئی مواقع پر بالخصوص خطبہء حج الوداع میں اُن کی زبانِ مبارک سے یہ پیغام ملا کہ اسلام بطورِ دین اللہ نے پسند کیا ہے۔ اچھامسلمان ہونے کےلیے اچھا انسان ہونا ضروری ہےاور مجھے یقین ہے کہ مسلم اور غیر مسلم کی تفریق سے قطع نظر اچھے اور بُرے انسان کبھی ایک جیسے انجام کے حقدار نہیں ہو سکتے :)
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
اگر مناسب سمجھیں تو اِس نکتے کو تفصیل سے سمجھا دیجیے، مستند حوالوں اور مثالوں کے ساتھ۔
خواتین سے حوالے مانگنا اور بچوں سے مٹھائی، ایک ہی بات ہے۔ پسند بہت کرتے ہیں پر دیتے نہیں!
لائٹ آجائے تو کوشش کی جا سکتی ہے حوالے کے ساتھ بات کروں
. کمال ہے راحیل بھائ. آپ خواتین کے متعلق اتنا اچھا ظن رکھتے ہیں:)
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
تصوف کو ہم مذہب سے الگ نہیں کرسکتے ہیں ۔ انسان جب ایک حقیقت کے قریب ہوتا ہے تو اس پر انکشاف ہوتا ہے ، وہ اپنے ''کل ''سے جدا نہیں ہے ۔ انسان اسی تگ دو میں اپنی زندگی تیاگ دیتا ہے اور اللہ کی خاطر بندوں کا ہوجاتا ہے جبکہ سائنس دان یا دیگر لوگ اس کیٹیگری میں شمار نہیں کیے جاسکتے کیونکہ بھلے وہ کام بھلائی کا کرتے ہیں مگر ان کا مقصد اپنے خیال تک رسائی یعنی وجدان کی بیداری کے بعد ختم ہوجاتا ہے ۔ میرے نزدیک کوئی ولی اپنا مذہب شریعت سے علیحدہ نہیں کرتا ہے ۔ ہمارے آج کل کے جتنے بھی مولانا ہیں انہوں نے نقالی کا دین اپنا لیا ہے جبکہ صوفی لوگ نقل کے بجائے زمانے کو دیکھتے استدلالی بنیادوں پر مذہب سے نکلے کچھ نقاط نکالتے ہیں ۔ اسلام کے سدا بہار ہونے کی وجہ اس کا مسلسل بدلنا ہے ۔ اس کے کچھ قوانین ساکت ہیں اور کچھ متحرک ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہی عین اسلام ہے ۔

اگر مناسب سمجھیں تو اِس نکتے کو تفصیل سے سمجھا دیجیے، مستند حوالوں اور مثالوں کے ساتھ۔
اسلام بدل نہیں رہا ہے۔ اس کی بنیاد وہی ہے جو صدیوں پہلے تھی یہ صدیوں پہلے بھی اسی طرح آج کے دور سے ہم آہنگ تھا جیسا کہ ہم آج اسے دیکھتے ہیں۔ اس کے لیے مستند حوالوں اور زیادہ مثالوں کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ اس کا نہ بدلنا نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور دیگر عبادات کے نہ بدلنے سے ظاہر ہے۔ اسلام میں اجتہاد تو قبول کیا جاسکتا ہے، تبدیلی نہیں۔ یعنی اگر کوئی یہ کہے کہ نماز پڑھتے ہوئے آپ جب ہاتھ باندھتے ہیں تو پیٹ پر باندھیے اور اتنا اوپر تو اس اونچائی میں فرق تو ہوسکتا ہے، لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ سجدوں اور رکوعات کی تعداد بدل دی جائے۔ دعائیں تبدیل کردی جائیں۔ نماز اردو میں پڑھنا شروع کردی جائے۔ یہ نہیں ہوسکتا۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ کوئی نیا مسئلہ درپیش ہو تو اس میں اجتہاد سے اپنی اپنی رائے جو جائز محسوس ہوتی ہو، اپنا لی جائے، لیکن یہ اختلاف بھی اسی صورت میں قبول کیا جاسکتا ہے جب اجتہاد کرنے والے دین پر اور شریعت پر پوری طرح کاربند ہوں۔ ہر شخص کی اجتہادی رائے صائب قرار نہیں دی جاسکتی۔ یہ اسلام کا بدلنا اور نہ بدلنا ہے جسے سمجھنا بہت آسان ہے۔ کسی حوالے کی ضرورت نہیں۔
 
اسلام بدل نہیں رہا ہے۔ اس کی بنیاد وہی ہے جو صدیوں پہلے تھی یہ صدیوں پہلے بھی اسی طرح آج کے دور سے ہم آہنگ تھا جیسا کہ ہم آج اسے دیکھتے ہیں۔ اس کے لیے مستند حوالوں اور زیادہ مثالوں کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ اس کا نہ بدلنا نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور دیگر عبادات کے نہ بدلنے سے ظاہر ہے۔ اسلام میں اجتہاد تو قبول کیا جاسکتا ہے، تبدیلی نہیں۔ یعنی اگر کوئی یہ کہے کہ نماز پڑھتے ہوئے آپ جب ہاتھ باندھتے ہیں تو پیٹ پر باندھیے اور اتنا اوپر تو اس اونچائی میں فرق تو ہوسکتا ہے، لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ سجدوں اور رکوعات کی تعداد بدل دی جائے۔ دعائیں تبدیل کردی جائیں۔ نماز اردو میں پڑھنا شروع کردی جائے۔ یہ نہیں ہوسکتا۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ کوئی نیا مسئلہ درپیش ہو تو اس میں اجتہاد سے اپنی اپنی رائے جو جائز محسوس ہوتی ہو، اپنا لی جائے، لیکن یہ اختلاف بھی اسی صورت میں قبول کیا جاسکتا ہے جب اجتہاد کرنے والے دین پر اور شریعت پر پوری طرح کاربند ہوں۔ ہر شخص کی اجتہادی رائے صائب قرار نہیں دی جاسکتی۔ یہ اسلام کا بدلنا اور نہ بدلنا ہے جسے سمجھنا بہت آسان ہے۔ کسی حوالے کی ضرورت نہیں۔
فقہ حنفیہ کے مطابق نماز مادری زبان میں پڑھی جا سکتی ہے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
اگر مناسب سمجھیں تو اِس نکتے کو تفصیل سے سمجھا دیجیے، مستند حوالوں اور مثالوں کے ساتھ۔

اسلام کی بنیاد دو طرح کے حقوق پر رکھی گئ. ایک حقوق جو اٹل قسم کے ہیں. جن پر دوسری بات نہیں ہوسکتی ہے. ان کو حقوق اللہ کہتے ہیں. دوسری قسم کے حقوق: حقوق العباد ہیں. ان حقوق کے بارے میں " بنیاد " قران پاک میں موجود ہے. اسلام چونکہ انسانیت سے منسلک اک مذہب ہے. صرف کلمہ کا اقرار ہمیں مسلمان ہونے کا شرف بخشتا ہے. خرد سے واجب الادا لفظ: ''لا الہ الا اللہ " کے بعد ہم پر شرع کا نفاذ ہوجاتا ہے.شریعت سے مراد انسانی قانون کے مطابق زندگی گزارنا ہے. اسلامی قانون کے درج ذیل ماخذ ہیں. جن میں سے کچھ بنیادی اور کچھ ماخوذ ہیں ....

  • سنت اور کتاب اللہ ...یہ دو بنیادی ہیں ...
  • اجماع
  • استحصان
  • قیاس ..
  • روایت

حضور پاک صلی علیہ والہ وسلم کے زمانے میں ایک عورت آپ سے ملنے آئی اور کہا کہ میری والدہ نے حج کی بابت قسم کھائی تھی اور حج ادا کیا بغیر وفات پاگئی تو کیا میں حج ادا کروں ۔۔۔؟

قران پاک اس حوالے سے کوئی قانون موجود نہیں ہے ۔ حضور پاک صلی علیہ والہ وسلم نے قیاس سے کام لیتے ہوئے کہا: باپ مرجائے تو اس کے قرض کی ادائیگی کون کرے گا ؟ تو اس عورت نے کہا کہ وہ کرے گی تو اس لحاظ سے حج کا ادا کرنا قیاس عمل قراد دیا گیا ۔۔۔۔ حضور پاک صلی علیہ والہ وسلم کے اس عمل سے سب سے پہلے امام ابو حنفیہ نے ''قیاس '' سے کام لیا ۔ آپ ایک کام کیا کرتے کہ کوئی بات قران پاک اور سنت دونوں میں موجود ہو تو آپ حضور پاک صلی علیہ والہ وسلم کے عمل کو اس پر ترجیح دیتے تھے ۔۔۔

قران پاک میں تعزیزات اور سزا کے بارے میں قوانین بتائے گئے ۔۔۔تعزیرات وہ سزائیں جن پر چھوٹ دی جاسکتئ ہے جبکہ سزا یا حد کا نفاذ ان قوانین پر ہوتا ہےجس سے معاشرے کو نقصان پہنچتا ہے ۔ اس لحاظ سے اعمال کو درج ذیل میں کیٹیگزائر کر دیا گیا ہے
  • حلال
  • محتسن
  • مباح
  • مکروہ
  • حرام
اس لحاظ حرام کیسے ایسے ہیں جن پر حد کا نفاذ ہوتا ہے ۔۔۔۔ مگر ان قوانین میں بدالاؤ کیا جاسکتا ہے ۔۔۔ حضرت عمر فاروق رض نے دوران جنگ قطع یدع کا منع فرما دیا تھا ۔۔۔۔۔چوری کے عمل کی سزا کے لیے کئی مواقع پر باوجود سفارشات کے قرار پایا ۔۔ایک کام جو جناب رسول پاک صلی علیہ والہ وسلم کرچکے تھے اس کو ہم کیسے بدل سکتے ہیں اس کے لیے ''اجماع '' کو عمل میں لایا گیا ۔۔۔اجماع کو ''consensus of opinion'' بھی کہتے ہیں ۔اجماع پوری امت کی مرضی سے بھی عمل میں لایا جاسکتا ہے اور مجتہد بندوں کی ایک جماعت بھی ایک رائے پر متفق ہوتے اجماع کرسکتی ہے ۔ یہ اجماع کی رائے اس وقت تک قائم رہ سکتی ہے جب تک اس کمیٹی کے تمام ارکان میں سے ایک بھی زندہ رہے ۔۔۔

  • جیسے امام ابن تیمیہ نے اجماع کیا : اسلامی مملکت میں چرچ یا مندر کا بننا حرام ہے ۔اس بات پر متفق ہوتے ایک قانون بن گیا ۔۔۔
  • طلاق بائن یا ایک سے زائد شادی یا واراثت یا سزا کے قوانین و قصاس کے باتیں انہی اصولوں کے تحت بدلے جاسکتے ہیں ۔۔۔حضور پاک صلی علیہ والہ وسلم کے زمانے میں تصاویر نہیں تھیں مگر ان کو بتوں سے قیاس کرتے قوانین بنا لیا گیا ۔۔۔ وغیرہ ۔۔اس کی بہت سی مثالیں اسلامی قانون میں مل جائیں گی ۔۔۔اگر ادھر لکھنے بیٹھوں تو پوسٹ بہت لمبی ہوجائے گی۔۔۔
  • روایات کا استعمال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عربوں میں بہت سی روایات ایسی تھیں جن کو حضور پاک صلی علیہ والہ وسلم نے جاری رہنے دیا مگر کچھ بدل دی گئیں ۔۔۔۔۔۔۔ان پر قیاس کرتے ہوئے ہم موجود زمانے کے لحاظ سے قوانین بنا سکتے ہیں ۔۔
  • اسلام کے دو چیزیں ''سنت اور قران پاک '' بنیاد ہیں جیسے ایک درخت کی لکڑی بمع جڑ ۔۔۔اس کے پتے وہ حصہ ہیں جو زمانہ حال کے ساتھ بدلتے جاتے ہیں ۔۔یوں اسلام ایک مستقل مذہب بھی ہیں اور ایک لچک دار معاشرت کا حامل نظام بھی جس میں کوئی جبر نہیں ہے ۔۔۔۔اب سنت اور قران پاک کو "بنیاد " جانتے ہوئے " اجتہاد " جو اجماع " قیاس " استحصان " راوایت " سے ماخوذ ہے بدلتا رہتا ہے. یعنی اجتہاد یا ماخوذ قوانین بدلتے رہتے ہیں اور اللہ کے احکامات میں کوئ بدلااو نہیں ... " ماخوذ " چونکہ زمانے کے مطابق "شرح " ہوتی ہے اس لیے اس کو زمانے کے مطابق بدلا جا سکتا ہے

  • پرانے زمانے میں دو شادیوں یا اس سے زائد شادی کی اجازت اس وجہ سے مل جاتی تھی ( یہ صرف ایک وجہ ہے ) کہ لوگ جنگوں میں شہید ہوجاتے تھے اورعورتوں کی کثرت جبکہ بچوں کے ذریعے نسل بڑھانے کے لیے اس کی اجازت کے اس کو ''مباح '' قراد دیا گیا مگر اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی ۔ اب چونکہ جنگیں بدل گئیں ہیں تو یہ قانون بھی بدل چکا ہے یا بدلا جاسکتا ہے
  • طلاق بدعت : اس کا قران پاک یا سنت میں کہیں رواج نہین ہے ۔۔یہ بھی اموی بادشاہوں کے اجماع کا نتیجہ ہے ۔۔۔
  • میرے نزدیک اسلام کے مستقل اور بدلتے رہنے کا اشارہ اس ضمن میں تھا ۔۔۔مگر اس کا بڑا نقصان اس صورت میں ہوتا جب علماء کی بڑی جماعت مفاد پرست ہو ۔۔۔جیسا کہ اگر عورتوں کے حق میں پارلیمنٹ سے بل پاس ہوا ہے تو علماء حضرات نے قران پاک کی سورہ النساء کی آیت کا حوالہ دیتے ''یضربون '' سے اخذ کیا ہے کہ عورت کو اتنا مارا جاسکتا ہے کہ اس کی ہڈی نہ ٹوٹے ۔۔۔۔ عورت چاہے اس مار سے مرجائے مگر ہڈی نہ ٹوٹے ۔۔۔۔۔۔۔ عقل سے کام لیتے امام ابو حنفیہ کی زندگی کی بہت سی مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے قیاس یا اجماع کے نتیجے میں حضور پاک صلی علیہ والہ وسلم کی عملی زندگی کو ترجیح دی ۔۔۔جیسا کہ حضور پاک صلی علیہ والہ وسلم نے کبھی اپنی کسی بیوی پر کبھی ہاتھ اٹھایا ؟ اس کے حق میں کوئی بھی دلیل نہیں دے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
  • قانون بنانے والے یا مجتہد کے لیے ضروری ہے کہ بالغ ، عاقل ، اور عربی پر پورا عبور رکھنے کے ساتھ ، جملہ قوانین اسلام کا عامل ہو
میں نے اپنے علم کے مطابق وضاحت دے دی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس سے اتفاق کرنا یا نہ کرنا آپ کی اپنی مرضی ہے ۔۔میں تو بہت سے حوالے عبدالرحیم شاہ ، یا ایف ۔ڈی کے دی سکتی ہوں یا کسی قانون کے حوالے سے احادیث کی روایت کرسکتی ہوں مگر میں ان ابحاث سے دور بھاگتی ہوں جہاں سے اختلاف زیادہ نکلیں ۔۔۔
 
آخری تدوین:
Top