پہلا کالم

یوسف-2

محفلین
column-1.jpg


column-2.jpg


column-3.jpg


column-4.jpg

پس نوشت: یادش بخیر،جب ہم نے اپنے لکھنے لکھانے کے مشغلہ کو صحافت کا روپ دیا تو کالم نویسی بھی شروع کردی۔ سب سے پہلا کالم جو غالبا" 1986 میں شائع ہوا،آپ کی نظر ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
پہلا کالم
قارئین کے پُرزور اصرار پر – زور کس پر ہوا "اصرار" پر۔ اور اصرار کس بات پر ہے یہ ہم بتلانے سے سختی سے انکار کرتے ہیں۔ ہاں تو قارئین کے پُرزور اصرار پر ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم بھی اب باقاعدگی سے کالم لکھا کریں گے۔ اور ہماری تحریروں کے جملہ حقوق ہمارے ہی نام محفوظ ہونگے۔ اس میں ہمارے علاوہ کسی اور کو دخل اندازی کی اجازت صرف اسی حد تک ہو گی جس حد تک وہ ہمارے لئے سود مند ہو۔ مثلاً مدیر محترم کو ہمارے اس کالم سے استفادہ کرنے کی اجازت صرف اس لئے ہو گی کہ وہ اسے "او کے" کر سکیں۔ کاتب صاحب صرف اس بنیاد پر اسے ہاتھ لگا سکیں گے کہ ہاتھ لگائے بغیر وہ کتابت جو نہیں کر سکتے۔ پروف ریڈر صاحب اپنی عینک کی اوٹ سے محض اس بنا پر ہمارے کالم پر نظر عنایت فرمانے کے اہل ہوں گے کہ وہ اس کی نوک پلک درست یا غلط (حسب ضرورت و حسب منشاء) کر سکیں۔ اس کے علاوہ کسی اور کو ہمارے اس کالم میں دخل در معقولات و نامعقولات کی ہرگز اجازت نہیں ہو گی۔ ہاں بلا اجازت وہ سب کچھ کر سکتے ہیں۔​
قارئیں کرام! کالم لکھنے کی ذمہ داری تو ہمارے قلم ناتواں پر ہو گی، لیکن پڑھنا آپ کا کام ہو گا یعنی لکھے عیسیٰ پڑھے موسیٰ – ہاں! اس سلسلے میں نہ آپ کو مجھ سے پوچھنے کی اجازت ہو گی کہ میں یہ کالم کس سے لکھواتا ہوں، نہ ہی میں آپ سے یہ دریافت کرنے کی جرات کروں گا کہ آپ کالم کس سے پڑھوا کر سنتے ہیں۔ البتہ جب کبھی ہمارا دل لکھتے لکھتے اکتانے لگے (یا بالفاظ دیگر کالم لکھ کر دینے والا بعض ناگزیر وجوہات کی بناء پر کبھی کالم لکھ کر دینے سے انکار کر دے) اور آپ کالم دیکھ کر ہی بوریت محسوس کرنے لگیں (مطلب یہ کہ کالم پڑھ کر سنانے والا پڑھنے کے بعد بوجوہ سنانے سے انکار کر دے) تو ہم اپنے فرائض آپس میں بدل بھی سکتے ہیں۔ ہم بلا تکلف اسے اپنے نام نامی اسم گرامی کے ساتھ اس کالم میں شائع کر کے پڑھ یا پڑھوا لیا کریں گے۔​
 

شمشاد

لائبریرین
قبل اس کے کہ ہمارا کالم منظر عام آ کر دنیائے علم و ادب پر چھا جائے، ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ چند باتیں کالم سے متعلق، متعلقین سے کرتے چلیں۔ سب سے پہلے ہم کاتب محترم سے کچھ عرض کرنا چاہیں گے کہ ہم کراماً کاتبین کے بعد انہین سے ڈرتے ہیں۔ کیونکہ انہی کی برادری کی شوخئی طبع کے باعث ہمارے ساتھ اکثر ع​
ہم دعا (غیر منقوط) لکھتے رہے وہ دغا (منقوط) پڑھتے رہے​
کا سا معاملہ رہا ہے۔ کاتب محترم سے ہماری دو گزارشات ہیں اول تو یہ کہ وہ گھر سے دفترجانے سے کچھ دیر پہلے ہمارا کالم تحریر کرنے سے گریز فرمایا کریں۔ کیونکہ قلم قبیلہ والے بزرگوں سے سنا ہے کہ ایسا کرنے سے کالم پر درون خانہ کے سیاسی حالات کی چھاپ پڑنے کا اندیشہ رہتا ہے۔ اور ہم سیاست سے ویسے ہی دور بھاگتے ہیں جیسے بی سیاست بی شرافت سے دور بھاگتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ ہمارے تحریر کردہ لفظوں بلکہ نقطوں تک کے ہیر پھیر سے گریز کیجیے گا۔ کیونکہ ع​
نقطوں کے ہیر پھیر سے خدا بھی ہوتا ہے جدا​
ہم تو کسی شمار قطار میں بھی نہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کی ذرا سھی بھول سے یوسف ثانی یوسف آنجہانی ہو جائے۔ نتیجتاً آپ کے پاس تعزیتی پیغامات کی بھرمار ہو جائے جسے کتابت کرتے کرتے خود آپ کے اپنے تئیں تعزیت کرنے کی نوبت آن پہنچے۔ علاوہ ازیں کالم کے لفظوں اور سطور کے درمیان ہمیشہ مناسب جگہ چھوڑا کیجئے گا کہ ہم بین السطور بھی بہت کچھ کہنے کے عادی ہیں۔ ایسا نہو ہو کہ ہم بین السطور کچھ کہنا چاہیں اور آپ سطور کے درمیان کچھ کہنے کے لئے جگہ ہی نہ چھوڑیں۔​
پروف ریڈر صاحبان سے بس اتنا کہنا ہے کہ اس کالم کی کتابت کے لئے ہدایت نامہ کتابت کروا کر ہم کاتب محترم کے حوالے پہلے ہی کر چکے ہیں۔ آپ کتابت شدہ مواد کی اصلاح کی کوشش ہر گز نہ کیجئے گا۔ اگر کوئی جملہ یا لفظ مہمل نظر آئے یا آپ کی سمجھ میں نہ آئے تو سمجھ لیجئے گا کہ زیر نظر تحریر تجریدی ادب کا نمونہ ہے۔ عنقریب آپ پر یہ بات واضح ہو جائے گی کہ ہمارا ہر کالم تجریدی ادب کا شاہکار ہوتا ہے۔ اگر آپ کے وسائل اجازت دیں تو آپ اپنے خرچ پر ہمارے تجریدی کالم پر مذاکرہ یا سیمینار وغیرہ منعقد کروا کر علم و ادب کی خدمت کے ساتھ ساتھ اپنی خدمت بھی کر سکتے ہیں، ہمیں کوئی اعتراض نہ ہو گا۔ یہ پیش کش لامحدود مدت کے لئے اور سب کے لئے ہے۔ آخر میں ایک بات ہم آپ کو چپکے سے بتاتے چلیں کہ یہ ساری باتیں ہم نے آپ سے نہیں بلکہ کسی اور سے کہی ہیں۔ بھئی دیکھیں نا! اگر ہم ان سے یہ باتیں براہ راست کہیں تو پھر ہمارا کالم کون چھاپے گا۔​
اللہ نہ کرے کبھی سنسر بورڈ کی نظر ہمارے کالم پر پڑے تاہم حفظ ماتقدم کے طور پر ہم سنسر بورڈ کے معزز ارکان سے یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ کالم کی روز افزوں مقبولیت سے خوفزدہ ہو کر اگر حکام بالا ہمارے کالم کو سنسر کرنے کا خیال ظاہر کریں تو بورڈ ہمیں اردو لغت کی ضخیم سی جلد (جس میں قابل اعتراض لفظوں کو سنسر کر دیا گیا ہو) پیشگی ارسال کرے۔ آئندہ ہم اپنا کالم اسی جلد کے سنسر شدہ الفاظ سے تحریر کیا کریں گے۔ اس طرح آپ پڑھنے کی زحمت سے بھی بچ جائیں گے اور کالم سنسر (یعنی سیلف سنسر) بھی ہو جایا کرے گا۔ سیاست تو خیر ہمارا موضوع ہے ہی نہیں۔ البتہ ہم آپ سے یہ وعدہ بھی کرتے ہیں کہ ہمارا کالم فحاشی سے بھی پاک ہو گا۔ ہم "دلبرداشتہ" جیسے الفاظ کو ہمیشہ واوین بلکہ خطوط وحدانی کے اندر لکھا کریں گے تاکہ آپ غلطی سے بھی ایسے الفاظ کے بیچ وقف کر کے اسے فحش نہ قرار دے بیٹھیں۔​
چلتے چلتے ہم مشتہرین حضرات کو بھی مطلع کرتے چلیں کہ وہ ہمارے کالم کی مقبولیت سے جائز و ناجائز فائدہ اٹھانے کے لئے ہمارے کالم کے بیچ یا آس پاس اپنے اشتہارات شائع کروانے سے گریز کریں۔ اور اگر اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لئے ایسا ناگزیر ہو تو شعبہ اشتہارات کے بعد ہم سے بھی رجوع کریں تاکہ حسب ضرورت ان کی جیب ہلکی اور اپنی جیب بھاری کر کے ملکی اقتصادی توازن کو برقرار رکھا جا سکے۔​
 
Top