السلام علیکم!

اپنی ایک نظم آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں، میری شاعری اور جوانی کے ابتدائی دنوں کی یہ نظم آج بھی مجھے میرا عزم یاد دلاتی ہے اور سمت کے تعین میں رہنمائی کرتی ہے۔ اگر اصلاح ہو جائے تو کہیں پیش کرنے کے قابل ہو جاؤں۔

پچھلی خزاں کے پتے

جیسے ہوں پچھلی خزاں کے پتے
یوں بھی ہیں کبھی خواب بکھرتے

مگر تم خواب بکھرنے نہ دینا
کسی کو خود پر ہنسنے نہ دینا

پھول سے دام ہیں بَچتے رہنا
فریب بے نام ہیں تکتے رہنا


یوں نہ ہو تُو تھک جائے
آبلہ پا ہوں یا بھٹک جائے

رستے میں پتھر کے بت دیکھنا
مگر پیچھے مڑ کے مت دیکھنا

جو راہ سے کھو جاتے ہیں
وہ پتھر کے ہو جاتے ہیں


ایک اضافی شعر بھی ہے اس کا، ویسے تو شاید ساری ہی بے وزنی ہو اساتذہ کی نظر میں پر یہ شعر کچھ مجھے بھی نہیں جچ رہا

ہر شام لوٹتے پنچھی دیکھتی ہیں
وہ آنکھیں راہ تیری دیکھتی ہیں



ٹیگز: محمد اسامہ سَرسَری , مزمل شیخ بسمل , نیرنگ خیال , سید زبیر , زبیر مرزا , نیلم , بھلکڑ , غدیر زھرا , محمد بلال اعظم , مہدی نقوی حجاز , ملائکہ ، محمداحمد ، نمرہ ، سید ذیشان ، فاتح ، محمد یعقوب آسی ، الف عین , محمد خلیل الرحمٰن ,
 

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہہہہہہہہہ
سچ ہی نظم کیا محترم بھائی
مگر تم خواب بکھرنے نہ دینا
کسی کو خود پر ہنسنے نہ دینا

پھول سے دام ہیں بَچتے رہنا
فریب بے نام ہیں تکتے رہنا
 

الف عین

لائبریرین
بہت خوب، بس غلطی یہ ہے کہ ردیف قافیہ موجود ہے!! اس کو بحر میں کرنے کی کوشش

جیسے ہوں پچھلی خزاں کے پتے
یوں بھی ہیں کبھی خواب بکھرتے


÷÷جیسے پچھلی خزاں کے پتے ہیں
خواب ایسے کبھی بکھر جائیں

مگر تم خواب بکھرنے نہ دینا
کسی کو خود پر ہنسنے نہ دینا


۔۔تم مگر خواب کو بکھرنے نہ دو
نے کوئی ہنسنے کی اجازت ہو

پھول سے دام ہیں بَچتے رہنا
فریب بے نام ہیں تکتے رہنا

۔۔پھول سے دام ہیں ان سے بچنا
دھوکے بے نام ہیں، ان سے بچنا

یوں نہ ہو تُو تھک جائے
آبلہ پا ہوں یا بھٹک جائے
÷÷یوں نہ ہو، تو کہیں بھٹک جائے

آبلہ پا ہو اور تھک جائے

رستے میں پتھر کے بت دیکھنا
مگر پیچھے مڑ کے مت دیکھنا
÷÷راہ میں کوئی بت جو پاؤ تم

پیچھے مڑ کر کبھی نہ دیکھوتم


جو راہ سے کھو جاتے ہیں
وہ پتھر کے ہو جاتے ہیں

÷÷راستے سے جو لوگ کھو جائیں
جیسے پتھر کے بت سے ہو جائیں

قوافی پر غور کرو، میں نے وہ بھی بدل دئے ہیں۔ پتے، بکھرتے۔ بکھرنے، ہنسنے۔ بچتے، تکتے۔ بُت اور مَت قافیہ نہیں ہوتے، کیوں۔۔ اس پر غور کرو۔
تھک بھٹک اور ہو، کھو درست قوافی ہیں، (لیکن اس شعر میں ’جاتے ہیں‘ وزن میں نہیں آتا)
 

الف عین

لائبریرین
بہت خوب، بس غلطی یہ ہے کہ ردیف قافیہ موجود ہے!! اس کو بحر میں کرنے کی کوشش

جیسے ہوں پچھلی خزاں کے پتے
یوں بھی ہیں کبھی خواب بکھرتے


÷÷جیسے پچھلی خزاں کے پتے ہیں
خواب ایسے کبھی بکھر جائیں

مگر تم خواب بکھرنے نہ دینا
کسی کو خود پر ہنسنے نہ دینا


۔۔تم مگر خواب کو بکھرنے نہ دو
نے کوئی ہنسنے کی اجازت ہو

پھول سے دام ہیں بَچتے رہنا
فریب بے نام ہیں تکتے رہنا

۔۔پھول سے دام ہیں ان سے بچنا
دھوکے بے نام ہیں، ان سے بچنا

یوں نہ ہو تُو تھک جائے
آبلہ پا ہوں یا بھٹک جائے
÷÷یوں نہ ہو، تو کہیں بھٹک جائے

آبلہ پا ہو اور تھک جائے

رستے میں پتھر کے بت دیکھنا
مگر پیچھے مڑ کے مت دیکھنا
÷÷راہ میں کوئی بت جو پاؤ تم

پیچھے مڑ کر کبھی نہ دیکھوتم


جو راہ سے کھو جاتے ہیں
وہ پتھر کے ہو جاتے ہیں

÷÷راستے سے جو لوگ کھو جائیں
جیسے پتھر کے بت سے ہو جائیں

قوافی پر غور کرو، میں نے وہ بھی بدل دئے ہیں۔ پتے، بکھرتے۔ بکھرنے، ہنسنے۔ بچتے، تکتے۔ بُت اور مَت قافیہ نہیں ہوتے، کیوں۔۔ اس پر غور کرو۔
تھک بھٹک اور ہو، کھو درست قوافی ہیں، (لیکن اس شعر میں ’جاتے ہیں‘ وزن میں نہیں آتا)
 
Top