پپو یار تنگ نہ کر ..................زریاب شیخ

zaryab sheikh

محفلین
پپو زمانہ قدیم کا لفظ ہے سب سے پہلے یہ کب استعمال ہوا یہ تو شاید پپو کو ہی پتہ ہوگا، پپو کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے بعض بچے بہت خوبصورت ہوتے ہیں تو انسان بے ساختہ کہتا ہے "کیا پپو بچہ ہے"اس لفظ کو معاشرے میں تھوڑا معیوب سمجھا جاتا ہے کیوں کہ لوگ لڑکیوں کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں ، کالج کے باہر کھڑے بھونڈ جب کسی کی بیٹی کو دیکھتے ہیں تو ہاتھ کے اشارے سے کہتے ہیں وہ دیکھ کیا پپو بچی ہے تیری بھابی ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ واقعی میں بھابی بن جاتی ہے اور وہ بےچارا دور سے دیکھتا ہی رہ جاتا ہے، پپو ہونے کے بہت فائدے ہوتے ہیں ہر کوئی پیار بھری نظروں سے دیکھتا ہے، بس کوشش کریں کہ آپ کو پشاور کا کوئی بندہ نہ دیکھے، دکاندار آپ کے گال پر چٹکی لے کر دو روپے چھوڑ بھی دیتا ہے اور ایسی لڑکیاں جو سیرت سے زیادہ صورت پر مرتی ہیں پپو ان کا چہیتا ہوتا ہے، اس کے برعکس اگر کوئی لڑکی پپو ہو تو اس پر سب کی نگاہ بری ہی پڑے گی، معاشرے میں اس کیلئے جینا اتنا آسان نہ ہوگا، وہ جب بھی باہر نکلے گی لوگ اس کو دیکھ کر اپنے دماغ کے شیطان کو کنٹرول نہیں کر پائیں گے، پپو ہونا ایک نعمت ہے لیکن آج کے فتنوں کے دور میں زحمت بنتا جارہا ہے، جس معاشرے میں لوگ آنکھوں سے ہی عزت لوٹ لیتے ہیں وہاں پپو بچوں کا جینا بہت ہی مشکل ہے، اللہ نے اسی لئے پردہ فرض قرار دیا ہے جب کوئی پپو بچی پردہ کرے گی تو دشمن کی گندی نگاہوں سے محفوظ رہے گی، ایک پپو بچی کیلئے صرف اس کا شوہر ہی پپو ہے اور اسے یہ ہی حکم ہے کہ اپنے شوہر کے سامنے پپو بن کر رہے، ایک مسلمان لڑکی جب اپنے آپ کو اپنے شوہر کیلئے بچا کر رکھتی ہے تو ساری زندگی اپنی شوہر کی نظر میں پپو ہی رہتی ہے۔
 
Top