پشاور حملہ : دہشت گرد طالبان کی کمر پر ٹیٹو

قیصرانی

لائبریرین
میں ابھی اپنی صرف اس بات کا جواب دے رہا ہوں جو تم نے کوٹ کیا ہے ۔
اگر کوئی ملکی ،غیر ملکیوں کو اجرت پر دہشت گردی کے لیئے استعمال کرے تو یہ کیا " غیر ملکی ہاتھ " کہلائے گا ۔میں ابھی حقائق کی بات نہیں کر رہا بلکہ تیکنکی اعتبار سے " غیر ملکی پشت پناہی " کی اصطلاح کا دفاع کر رہا ہوں ۔ کیونکہ تم نے میری پوسٹ کے اعتراض میں میری تیکنکی غلطیوں کی طرف ہی نشان دہی کی تھی ۔ ;)
اب کیا کہوں، تم خود ہی میدان چھوڑ رہے ہو۔ چلو تم ہی فاتح اور تم ہی مفتوح :) ہنسو کھیلو، گاؤ بجاؤ اور وغیرہ وغیرہ۔ اور سناؤ۔ کیا ہو رہا ہے؟
 

ظفری

لائبریرین
اب کیا کہوں، تم خود ہی میدان چھوڑ رہے ہو۔ چلو تم ہی فاتح اور تم ہی مفتوح :) ہنسو کھیلو، گاؤ بجاؤ اور وغیرہ وغیرہ۔ اور سناؤ۔ کیا ہو رہا ہے؟
میں ابھی اور بھی محاذوں پر مصروف ہوں ۔ دیکھ تو رہے ہو ۔ پھر بھی پیچھے پڑے ہوئے ہو ۔ :grin:
 

ظفری

لائبریرین
اس لئے تو تمہیں فاتح قرار دے دیا اور حال احوال پوچھ رہا ہوں یارا :)
یار تمہاری باتوًں سے پرانا دور یاد آگیا ۔ محب علوی کو یہاں سائنٹیس بنا دیا گیا ہے وہ اب ادھر ادھر نہیں آتا ۔ رضوان کا پتا نہیں کہ فکرِ معاش کی فکر میں کہاں ہے ۔ شمشاد بھائی آج کل بھابی کی دھمکی کے بعد گپ شپ کے دھاگوں سے اجتناب کرتے ہوئے پائے جا رہے ہیں ۔ اوہ ۔۔۔ بات موضوع سے غیر متعلق ہوگئی ہے ۔ لہذا گپ شپ پر بات ہوتی ہے ۔ ;)
 

قیصرانی

لائبریرین
یار تمہاری باتوًں سے پرانا دور یاد آگیا ۔ محب علوی کو یہاں سائنٹیس بنا دیا گیا ہے وہ اب ادھر ادھر نہیں آتا ۔ رضوان کا پتا نہیں کہ فکرِ معاش کی فکر میں کہاں ہے ۔ شمشاد بھائی آج کل بھابی کی دھمکی کے بعد گپ شپ کے دھاگوں سے اجتناب کرتے ہوئے پائے جا رہے ہیں ۔ اوہ ۔۔۔ بات موضوع سے غیر متعلق ہوگئی ہے ۔ لہذا گپ شپ پر بات ہوتی ہے ۔ ;)
واقعی، ہمارا گولڈن دور تھا وہ بھی یار۔ کیا یاد کرا دیا۔ باس کی شکل کافی تھی دن اداس کرنے کے لئے :(
 
ایئر پورٹ کے جس مقام پر یہ حملہ ہوا ہے ادھر میرا ننھیال ہے اور ایئرپورٹ ماموں وغیرہ کے گھر سے صرف پچاس قدم کے فاصلے پر ہے یعنی جس جگہ سے حملہ ہوا۔۔۔۔۔ ہائے کیا دن تھے جب ہم چھوٹے تھے تو ایئر پورٹ کے پاس یعنی کھڑے ہو کر یعنی ایئر پورٹ کی دیوار جو کہ ہمارے بچپن کے زمانے میں صرف خاردار تار کی ایک معمولی سی باڑ تھی تو اس وقت جہاز کو صرف 10 فٹ کے فاصلے سے اڑتا دیکھتے تھے۔
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

ايک لحاظ سے اس واقعے کے بعد جس قسم کی آراء سامنے آئ ہيں، وہ کوئ زيادہ حيران کن نہيں ہيں۔ بدقسمتی سے گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان ميں ايک حلقے کی يہی سوچ رہی ہے۔ جب بھی دہشت گردوں کی جانب سے پرتشدد کاروائ کی جاتی ہے تو تمام تر توجہ اور کاوشيں يہ ثابت کرنے پر صرف ہوتی ہيں کہ کسی طرح يہ ثابت کيا جائے کہ ان دہشت گردوں اور مجرموں کا سرے سے کوئ وجود ہی نہيں ہے۔ دہشت گردی کی مذمت اور مسلئے پر پر مغز اور تعميری بحث کے ذريعے مثبت اور ديرپا حل تلاش کرنے کی بجائے "بيرونی عناصر" اور "امريکی سازش" جيسے نعرے لگا کر اپنی تمام ذمہ داريوں سے ہاتھ صاف کر ليے جاتے ہيں۔

امريکی حکومت کا ہميشہ يہ موقف رہا ہے کہ دہشت گرد مجرم ہيں جو اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کے ليے مذہب کا سہارا ليتے ہيں۔ پاکستانی حدود کے اندر ازبک اور چيچين دہشت گردوں کی موجودگی کسی کے ليے باعث حيرت نہيں ہونی چاہيے۔ پاکستان کی حکومت اور عسکری قيادت اس حقيقت سے بخوبی آگاہ ہے۔ اس ضمن ميں آپ کی توجہ سال 2009 ميں پاک فوج کے سربراہ جرنل اشفاق کيانی کے ايک بيان کی جانب دلوانا چاہوں گا جس ميں انھوں نے وزيرستان ميں فوجی آپريشن کے موقع پر انھی حقائق کو ان الفاظ ميں واضح کيا تھا کہ "جنوبی وزيرستان ميں آپريشن نڈر اور حب الوطن محسود قبائل کے خلاف نہيں ہے بلکہ ان عناصر کے قلع قمع کے ليے ہے جنھوں نے خطے کا امن غارت کر ديا ہے۔ اس آپريشن کا ہدف ازبک دہشت گرد، غير ملکی عناصر اور مقامی عسکريت پسند ہيں"

http://archives.dawn.com/archives/38727

يہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ ستمبر 25 2000 کو امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ نے اسلامک موومنٹ آف ازبکستان (آئ ايم يو) نامی تنظيم کو دہشت گرد تنظيموں کی لسٹ ميں شامل کر کے اسے کالعدم قراد دے ديا تھا۔ زيادہ اہم بات يہ ہے کہ اس تنظيم کے حوالے سے امريکی حکومت نے جو تفصيلات جاری کی تھيں ان ميں يہ واضح کر ديا گيا تھا کہ آئ ايم يو کا طالبان اور تحريک طالبان پاکستان کے ساتھ گٹھ جوڑ ہے۔ يہی نہيں بلکہ اس تنظيم نے يورپ اور وسطی ايشيا کی رياستوں سے بڑی تعداد ميں ہرکارے اپنی صفوں ميں شامل کيے ہيں اور ان کی توجہ کا مرکز افغانستان اور پاکستان ميں تشدد کی کاروائيوں کو فروغ دينا ہے۔

http://www.state.gov/j/ct/rls/crt/2011/195553.htm#imu

ا
يک طرف تو پاکستانی حکومت خود بارہا يہ تسليم کر چکی ہے کہ گزشتہ 10 برسوں کے دوران امريکہ نے پاکستان کو دفاع اور فوجی اداروں کے استحکام اور دہشت گردی کے خاتمے کے ليے کئ بلين ڈالرز کی امداد دی ہے اور اس ضمن ميں مزيد امداد کی درخواست بھی کی جاتی ہے اور دوسری جانب ايسے مبصرين اور رائے دہندگان بھی موجود ہيں جو پھر بھی بغير کسی منطق کے امريکہ ہی کو پاکستان ميں دہشت گردی کا ذمہ دار بھی قرار ديتے ہيں۔ پاکستان فوج کی مدد اور پھر اسی فوج پر حملے کر کے امريکہ کو بھلا کيا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔

جہاں تک خودکش حملوں کا سوال ہے تو امريکہ کے پاس ايسے"تربيت يافتہ مجاہد" نہيں ہيں جو پاکستان کے عام لوگوں کو قتل کرنے کے ليے اپنی جان کا نذرانہ دينے کے ليے تيار ہوں۔ خودکش حملہ آور ايک دن ميں تيار نہيں ہوتا۔ اس کے ليے مہينوں کی تربيت اور برين واشنگ کی ضرورت ہوتی ہے۔

انتہا پسند اور دہشت گرد تنظيميں اور انکے پيرو کار جو صرف "مارو اور مارتے چلے جاؤ" کی پاليسی پر عمل پيرا ہيں وہ نہ امريکہ کے دوست ہيں اور نہ ہی پاکستانی عوام کے۔ دہشت گردی کی يہ واقعات صرف پاکستان ميں نہيں ہو رہے، حقيقت يہ ہے کہ يہ دہشت گرد جو کم سن بچوں کو خودکش حملہ آوروں ميں تبديل کر کے برطانيہ، عراق، الجزائر، پاکستان اور افغانستان سميت دنيا کے کئ ممالک ميں بغير کسی تفريق کے بے گناہ انسانوں کا خون بہا رہے ہيں، يہ کسی اخلاقی اور مذہبی قدروں يا روايات کو مقدم نہيں سمجھتے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

سید زبیر

محفلین
فواد !
سیدھی سادی بات ہے​
امریکہ کے دشمنوں اور پاکستان کے دشمنوں میں فرق ہے​
امریکہ کے دشمن ویت نام ، صومالیہ ، سوڈان ، یمن ، لبیا ،عراق ، افغانستان اور پاکستان سمیت مسلم ممالک ہیں​
جبکہ​
پاکستان کے دشمن امریکہ ، امریکی پروردہ پاکستانی اور دیگر ممالک کے تحریک طالبان پاکستان نما عالمی دہشت گرد ، اسرائیل اور بھارت ہیں ۔​
امریکہ کی تاریخ ہے کہ​
ہوئےتم دوست جس کے​
،دشمن اس کا آسماں کیوں ہو​
 

قیصرانی

لائبریرین
فواد !
سیدھی سادی بات ہے​
امریکہ کے دشمنوں اور پاکستان کے دشمنوں میں فرق ہے​
امریکہ کے دشمن ویت نام ، صومالیہ ، سوڈان ، یمن ، لبیا ،عراق ، افغانستان اور پاکستان سمیت مسلم ممالک ہیں​
جبکہ​
پاکستان کے دشمن امریکہ ، امریکی پروردہ پاکستانی اور دیگر ممالک کے تحریک طالبان پاکستان نما عالمی دہشت گرد ، اسرائیل اور بھارت ہیں ۔​
امریکہ کی تاریخ ہے کہ​
ہوئےتم دوست جس کے​
،دشمن اس کا آسماں کیوں ہو​
اس میں ایک چھوٹی سی ترمیم کرنے کی جسارت کروں گا

پاکستان کے دشمنوں میں امریکی عوام نہیں بلکہ خارجہ پالیسی بنانے والوں کی اکثریت ہے جو حکومتِ امریکہ کو اپنے نظریات پر چلاتے ہیں
 
Top