محمداحمد
لائبریرین
غزل
پسِ غبار جواِک آشنا سا چہرا ہے
وہ مجھ کو بُوجھ رہا ہو اگر تو اچھّا ہے
اب ایک عمر کی محرومیوں کے بعد یہ وصل
فریبِ دیدہ ودل ہے کہ خواب دیکھا ہے
عجب نہیں کہ ہمارے بھی لب ہنسے ہوں کبھی
ہجومِ غم میں بھلا کس کو یا د رہتا ہے
مری نظر میں یہ انداز بے یقینی کا
فریبِ عہدِ بہاراں کے بعد سیکھا ہے
ہزار سایۂ دیوار و در میں ہوں لیکن
مرے وجود میں اک بے کنار صحرا ہے
کوئی بھی رُت ہوں کھلیں پھول نہ امیدی کے
سدا بہار تو بس نخل آرزو کا ہے
یہ ابر کیسا جو بے کیف کر گیا مجھ کو
وہ دُھوپ کیا ہوئی جس سے بدن جُھلستا ہے
پیرزادہ قاسم
پسِ غبار جواِک آشنا سا چہرا ہے
وہ مجھ کو بُوجھ رہا ہو اگر تو اچھّا ہے
اب ایک عمر کی محرومیوں کے بعد یہ وصل
فریبِ دیدہ ودل ہے کہ خواب دیکھا ہے
عجب نہیں کہ ہمارے بھی لب ہنسے ہوں کبھی
ہجومِ غم میں بھلا کس کو یا د رہتا ہے
مری نظر میں یہ انداز بے یقینی کا
فریبِ عہدِ بہاراں کے بعد سیکھا ہے
ہزار سایۂ دیوار و در میں ہوں لیکن
مرے وجود میں اک بے کنار صحرا ہے
کوئی بھی رُت ہوں کھلیں پھول نہ امیدی کے
سدا بہار تو بس نخل آرزو کا ہے
یہ ابر کیسا جو بے کیف کر گیا مجھ کو
وہ دُھوپ کیا ہوئی جس سے بدن جُھلستا ہے
پیرزادہ قاسم