پروفیسر غازی علم دین کی کتاب "لسانی مطالعے" کے بارے میں سوال

طالب سحر

محفلین
پروفیسر غازی علم دین کی ایک کتاب "لسانی مطالعے" مقتدرہ قومی زبان نے غالباً 2012 میں شائع کی تھی۔ پچھلے دنوں کسی نے بتایا کہ پروفیسر صاحب نے اِس کتاب میں اردو زبان میں مستعمل عامیانہ اور غیر معیاری الفاظ کے ساتھ ساتھ ایسے محاورات کی بھی نشاندہی کی ہے جن کے استعمال کو وہ غیر مذہبی سمجھتے ہیں، مثلاً
قاضی جی کے گھر کے چوہے بھی سیانے
فرشتوں کو خبر نہ ہونا
فرشتے کا گزر نہ ہونا
بسم اللہ ہی غلط
یہ کتاب میں نے نہیں پڑھی ہے۔ اگرمحفلین میں سے کسی نے یہ کتاب پڑھی ہے، تو یہ درخواست ہے کہ پروفیسر صاحب کے استدلال پر اپنی رائے دیں۔
۔
 
آخری تدوین:

عدنان عمر

محفلین
جزاک اللہ۔ میں نے بھی یہ کتاب نہیں پڑھی البتہ میں پروفیسر غازی علم دین کے موقف کا حامی ہوں کہ اُردو بولتے یا لکھتے وقت ایسے محاورات یا ضرب الامثال کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے جن سے بلاوسطہ یا بالواسطہ ہمارے دین کی توہین کا پہلو نکلتا ہو۔ آپ نے چار محاورے درج کیے، ان کے علاوہ مزید محاورے اورکہاوتیں بھی ہیں، مثلاً:

ملّا کی دوڑ مسجد تک
آنتوں کا قل ہو اللہ پڑھنا
قل اعوذیے
یاد اللہ ہونا

فی الوقت تو یہی یاد آرہے ہیں لیکن مزید بھی موجود ہیں۔ میرے خیال میں ایسے محاوارات اور کہاوتوں کی ایک فہرست ضرور مرتب ہونی چاہیے۔
مذکورہ بالا کتاب کو گوگل کیا تو کتاب کے تعارف کے حوالے سے یہ لنک ملا۔ ملاحظہ فرمائیے:
http://www.express.pk/story/271280/
 
انسانوں کی مسلمانی تو خیر سے ہم نے اچھی طرح دیکھ لی۔ اب یہی رہ گیا ہے کہ جلیبیوں، برفیوں، ویب گاہوں، زبانوں اور محاوروں وغیرہ پہ اسلام نافذ کیا جائے۔
اللہ جانتا ہے کہ دین کی سب سے بڑی توہین یہی ہے کہ اسے قلب و نظر کی پاکیزگی اور انسان دوستی جیسے عظیم مقاصد کی بجائے اس قسم کے گھٹیا اور معمولی معاملات سے نتھی کر دیا جائے۔ انسان کتنا کم عقل اور کج رو ہے۔
قرآن اٹھا کر دیکھیے۔ جن قوموں پر عذاب آئے یا اتمامِ حجت کے لیے انبیا مبعوث ہوئے ان کے جرائم کیا اور کس نوعیت کے تھے؟ کیا وہ تمام قومیں بدمعاملگی کی وجہ سے ماخوذ نہیں ہوئیں؟ کیا ان پر خدا کے قہر کا سبب حقوق اللہ سے بے نیازی تھی یا حقوق العباد کی پامالی؟
کس قوم پر خدا کو نہ ماننے کے سبب عذاب آیا؟ کس قوم پر عبادات کی کمی کی وجہ سے گرفت ہوئی؟ کس قوم پر ایک خاص لباس یا ایک خاص رسم یا ایک خاص زبان وغیرہ سے بے اعتنائی کے سبب ابتلا نازل ہوا؟ ازروئے قرآن کسی ایک پر بھی نہیں۔ لعنت ہے اس ملا اور اس عالم اور اس فقیہ پر جو رب کے فرامین سے اعتنا نہیں کرتا اور اس سے وہ بات منسوب کرتا ہے جو اس نے نہیں فرمائی۔
جب حضرت محمدﷺ مبعوث ہوئے اور قرآن نازل ہوا تو اہلِ کتاب کے حالات کیا تھے؟ بالکل یہی جو آج امتِ غیر مرحوم کے ہیں۔ وہ عبادات میں تیز تھے۔ روایات میں ثقہ۔ رسوم و رواج کے پابند۔ احکامِ دین کے طومار ان کے سروں پر بندھے تھے۔ مگر کردار کی کون سی خوبی تھی جو ان میں باقی رہ گئی تھی؟ آدم کا کون سا بیٹا تھا جو ان کے شر سے محفوظ تھا؟ پھر بھی دینِ موسیٰ و عیسیٰ کے کون سے نکتے اور مسائل تھے جو انھیں ازبر نہ تھے؟ افسوس کہ ہم نے ان سے وہ سبق نہ سیکھا جو ہمیں ان کے انجام سے بچا لیتا اور وہ سبق سیکھنے میں سرعت دکھائی جس نے ہمیں بھی ان کی سی لعنت کا مورد ٹھہرا دیا۔
پروفیسر صاحب کی بابت یہی کہا جا سکتا ہے کہ جیسے بنی اسرائیل کے علما ان کے زوال کی علامت تھے ویسے ہی ہمارے فضلا ہم پر ہمارے رب کا عذاب ہیں۔ وہ بھی دین کو مضحکہ خیز اشیا پر محصور کرتے تھے، اِن کی خیرخواہی بھی اسلام کے لیے استہزا کے سوا کچھ پیدا نہیں کرتی۔ ان ظالموں کے لیے تو میرے دل سے دعا بھی نہیں نکلتی کیونکہ تاریخِ عالم گواہ ہے کہ ایسی مچھلیاں پتھر چاٹے بغیر واپس نہیں آتیں۔
انسان کی عمر خواہ چھ ہزار برس ہو یا چھ لاکھ برس، ایک بات طے ہے۔ اس سے زیادہ کودن اور مفسد مخلوق دنیا میں کوئی نہیں۔ ارتقا کا ڈھکوسلا ایک طرف، تاریخ کے اتنے لمبے سفر میں، ہزاروں مثالوں اور مشاہدوں کے ساتھ اور لاکھوں انبیا کی رہنمائی میں یہ کوڑھ مغز اتنا نہیں سیکھ سکا کہ خیر کیا ہے اور شر کیا ہے۔ اسے یہ تک معلوم نہیں ہو سکا کہ اسے خدا کا حق ادا کرنے کے لیے نہیں بلکہ بندوں کی دوستداری کی خاطر پیدا کیا گیا ہے۔ اس پدی کے سر پر ہنوز یہ سودا سوار ہے کہ اسے خدا کا بندہ بننا ہے۔ وہ حق ادا کرنا ہے جو فرشتے ادا نہیں کر سکے۔ اس کج فہم کو یہ خبر آج تک نہیں ہوئی کہ دکھوں میں پستے ہوئے انسانوں کی مسیحائی کس کے ذمہ ہے۔ اس کام کے لیے یہ احمق خدا کا انتظار کرتا ہے۔ ان الانسان لفی خسر!
تو کارِ زمیں را نکو ساختی
کہ با آسماں نیز پرداختی؟​
 

عدنان عمر

محفلین
پروفیسر صاحب کی بابت یہی کہا جا سکتا ہے کہ جیسے بنی اسرائیل کے علما ان کے زوال کی علامت تھے ویسے ہی ہمارے فضلا ہم پر ہمارے رب کا عذاب ہیں۔ وہ بھی دین کو مضحکہ خیز اشیا پر محصور کرتے تھے، اِن کی خیرخواہی بھی اسلام کے لیے استہزا کے سوا کچھ پیدا نہیں کرتی۔
بحیثیت مسلمان ہمارے کردار کے لیے ہی نہیں بلکہ ہماری گفتار کے لیے بھی نمونہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارک ہے۔
دین کو اشیاء میں محصور نہیں کیا جاتا بلکہ رب تعالی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں خیالات، گفتار اور کردار کو دین کے مطابق کیا جاتا ہے۔ اور جو کام کسی کی محبت میں کیا جائے وہ بوجھ نہیں ہوتا۔پاکیزہ خیالات ہی پاکیزہ گفتار اورپاکیزہ کردار کو جنم دیتے ہیں۔
اپنی گفتگو میں ان نزاکتوں کا خیال رکھنا بے دینی یا زوالِ امت نہیں۔
میں جو کہہ رہا ہوں خود اس پر عمل نہیں کرتا لیکن درست کو درست اور غلط کو غلط کہنے کا استحقاق ضرور رکھتا ہوں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی درست سمجھ عطا فرمائے۔
 
بحیثیت مسلمان ہمارے کردار کے لیے ہی نہیں بلکہ ہماری گفتار کے لیے بھی نمونہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارک ہے۔
دین کو اشیاء میں محصور نہیں کیا جاتا بلکہ رب تعالی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں خیالات، گفتار اور کردار کو دین کے مطابق کیا جاتا ہے۔ اور جو کام کسی کی محبت میں کیا جائے وہ بوجھ نہیں ہوتا۔پاکیزہ خیالات ہی پاکیزہ گفتار اورپاکیزہ کردار کو جنم دیتے ہیں۔
اپنی گفتگو میں ان نزاکتوں کا خیال رکھنا بے دینی یا زوالِ امت نہیں۔
میں جو کہہ رہا ہوں خود اس پر عمل نہیں کرتا لیکن درست کو درست اور غلط کو غلط کہنے کا استحقاق ضرور رکھتا ہوں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی درست سمجھ عطا فرمائے۔

متفق ہوں۔
 
پروفیسر غازی علم دین کی ایک کتاب "لسانی مطالعے" مقتدرہ قومی زبان نے غالباً 2012 میں شائع کی تھی۔ پچھلے دنوں کسی نے بتایا کہ پروفیسر صاحب نے اِس کتاب میں اردو زبان میں مستعمل عامیانہ اور غیر معیاری الفاظ کے ساتھ ساتھ ایسے محاورات کی بھی نشاندہی کی ہے جن کے استعمال کو وہ غیر مذہبی سمجھتے ہیں، مثلاً

یہ کتاب میں نے نہیں پڑھی ہے۔ اگرمحفلین میں سے کسی نے یہ کتاب پڑھی ہے، تو یہ درخواست ہے کہ پروفیسر صاحب کے استدلال پر اپنی رائے دیں۔
۔

السلام علیکم!
میں نے ابھی تک اس کتاب کے بارے میں نہیں سنا تھا۔آپ کی ہی وساطت سے معلوم ہوا ہے۔ پروفیسر صاحب کے استدلال پر رائے کتاب دیکھنے کے بعد ہی دی جا سکتی ہے لیکن یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ الفاظ کے پس منظر سے نا واقفیت یا دین سے دوری کے سبب اکثر احباب ایسے کفریہ فقرے بول جاتے ہیں جنہیں نہ بھی بولا جائے تو کچھ خاص فرق نہیں پڑتا۔ اس ضمن میں مولانا الیاس عطارقادری صاحب کا ایک رسالہ دیکھا تھا جس میں گانوں کے کفریہ بول کا ذکر موجود تھا۔ بہت خوبصورت اور معلوماتی رسالہ تھا۔ شاید دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ پر موجود بھی ہو۔
 
بحیثیت مسلمان ہمارے کردار کے لیے ہی نہیں بلکہ ہماری گفتار کے لیے بھی نمونہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارک ہے۔
دین کو اشیاء میں محصور نہیں کیا جاتا بلکہ رب تعالی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں خیالات، گفتار اور کردار کو دین کے مطابق کیا جاتا ہے۔ اور جو کام کسی کی محبت میں کیا جائے وہ بوجھ نہیں ہوتا۔پاکیزہ خیالات ہی پاکیزہ گفتار اورپاکیزہ کردار کو جنم دیتے ہیں۔
اپنی گفتگو میں ان نزاکتوں کا خیال رکھنا بے دینی یا زوالِ امت نہیں۔
آپ گفتگو کو کسی اور طرف لے جا رہے ہیں۔
مطلب کی بات صرف اس قدر ہے کہ بنی نوعِ انسان کے اس عظیم محسن کی زندگی سے، جسے دنیا محمدِ عربیﷺ کے نام سے جانتی ہے، آپ اس قسم کے لسانی جہاد کی کوئی مثال پیش کر سکتے ہیں؟
کیا ہم عرب کے بدوؤں سے بھی زیادہ وحشی ہیں؟ کیا ہماری ہیچ مایہ زبان ان کی لغتِ طناز سے بھی زیادہ تیکھی ہے؟ کیا ہمارے شعرا اور ادبا کے ہاں ان کے فصحا و بلغا سے بھی زیادہ مبتذل مضامین ملتے ہیں؟ کیا ہمارے محاورے ان سے بھی زیادہ رکیک ہیں؟ اگر نہیں اور یقیناً نہیں تو کیا رسولِ اکرمﷺ نے لسانِ عرب کی اصلاح کا بیڑا اسی طرح اٹھایا تھا جس طرح آپ لوگ ہلکان ہو رہے ہیں؟
مؤرخینِ اسلام ہنستے ہیں کہ جب طارق اندلس پر حملہ آور ہوا تو مسیحی علما سوئی کی نوک پر بیٹھ پانے والے فرشتے گن رہے تھے۔ مجھے ہنسی آتی ہے کہ فاتحِ اندلس کے فرزندانِ معنوی کے پاس بھی آج لے دے کے مہماتِ لسانیہ رہ گئی ہیں جن سے وہ امتحانِ دست و بازو کر رہے ہیں۔
یاد رکھیے۔ موسیٰؑ اللہ کے رسول تھے۔ ان کی قوم اگر پٹ گئی تو اس لیے نہیں کہ ان کا پیغام نعوذ باللہ غلط تھا بلکہ اس لیے کہ قوم غلط تھی۔ عیسیٰؑ جلیل القدر نبی تھے۔ ان کا پیغام حق تھا۔ ان کی قوم ظالم نکلی۔ محمد مصطفیٰﷺ کا پیغام الوہی تھا۔ ان کی بھی قوم اپنے پیشروؤں کے قدم پر چل نکلی ہے۔ ڈھٹائی کی حد یہ ہے کہ مانتے بھی نہیں کہ ہم پر زوال آ چکا ہے۔ ہم خدا کی اسی پکڑ میں آ چکے ہیں جس کا مذکور ہمارے اکابر اممِ سابقہ کی ذیل میں کیا کرتے تھے۔
قبلہ و کعبہ، آپ کی اردو کفارِ ہند کی اسی طرح مرہون ہے جس طرح صوفیائے عرب و عجم کی۔ یہ زبان جس نے سنسکرت، پنجابی، برج بھاکا وغیرہ جیسی ہندوانہ زبانوں کی کوکھ میں پرورش پائی ہے، اس کے حقوقِ ملکیت آپ نے کب حاصل کیے؟ کیا اردو آئندہ صرف مسلمانوں کی زبان ہوا کرے گی؟ کیا لوگوں کو اسلام کی طرح اردو کے دائرے سے بھی خارج کر دیا جایا کرے گا؟ ہندوستان کی مٹی سے پیدا ہو کر آپ اسی ہندوستان کے ثمرِ شیریں اردو کی رگِ جاں قطع کریں گے اور خدا خوش ہو جائے گا؟
میں اطلاعاً عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اگر ایسا ممکن ہو بھی گیا تو یہ ہرگز کوئی بےنظیر کارنامہ نہیں ہو گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب کوئی قوم وحشت و بربریت کی انتہا کو پہنچتی ہے تو وہ اسی طرح تمدن اور ثقافت سے بیر پال لیتی ہے۔ کتب خانے جلائے جاتے ہیں۔ لسانی بنیادوں پر زندگی اور موت کے فیصلے ہوتے ہیں۔ رہن سہن اور اوڑھنے بچھونے کی رسوم کا اختلاف فرشتوں کے اس قول کی تصدیق کا سبب بنتا ہے کہ آدم زمین پر خون بہائے گا۔ مفتوح کی تاریخ اور تہذیب کو مسخ کر کے اپنی درندگی کا ثبوت دیا جاتا ہے۔ اہلِ نظر کے لیے یہ سب نیا نہیں۔ مگر آرزو رہتی ہے کہ کاش ایسا نہ ہو۔
میں جناب طالب سحر سے شرمندہ ہوں کہ بغیر کتاب کو پڑھے اس بحث میں کود پڑا ہوں۔ مگر بایں ہمہ میں حضور کو یقین دلاتا ہوں کہ جس شخص کی تحقیقی صلاحیتوں پر اس قسم کا زنگ چڑھا ہو اس کی کتاب میں کبھی پڑھوں گا بھی نہیں۔ استغفراللہ۔ دین انسانوں کے لیے آیا تھا یا زبانوں کے لیے؟ کپڑوں کے لیے؟ ڈاڑھیوں کے لیے؟ معاذ اللہ۔ ایسے علما سے بعید نہیں کہ کل کلاں کھیرے کو شلوار پہنانے کی قرارداد پاس کر دیں کہ یہ بقولِ جوشؔ فحش سبزی ہے۔ جب ذی ہوش دین سے منہ پھیر لیں تو اسلام بیچارے کے پاس اپنے نفاذ کے لیے بے جان چیزوں سے رجوع کرنے کے سوا چارہ ہی کیا رہ جاتا ہے؟
چو کفر از کعبہ بر خیزد، کجا ماند مسلمانی؟​
 

دوست

محفلین
بس جی ہمیں تو آج یہ احساس ہوا کہ عرصہ آٹھ برس سے لسانیات میں جھک مار رہے تھے۔ مولانا صاحب بازی لے گئے اور ہم کفار کی لکھی کتب پڑھ پڑھ کر پنجابی والی گھِیسی کرتے رہ گئے۔
 

طالب سحر

محفلین
بددیانتی ہو گی اگر میں خود اپنی رائےمحفلین سےشیئر نہ کروں۔ جیسا کہ میں نے بتایا کہ کتاب میں نے نہیں پڑھی ہے، لیکن اوپر دی گئی مثالوں سے لگتا ہے کہ پروفیسر صاحب کے معیار بہت کڑے اور موقف بہت زیادہ شدید ہے۔ اب تک جو بہت تھوڑا سا نمونہ دیکھا ہے، اُس کی وجہ سے میں پروفیسر صاحب کی اِس رائے سے غیر متفق ہوں۔ یہ نہیں ہے کہ الفاظ اور محاورے value-neutral ہوتے ہیں، لیکن میرا خیال ہے کہ کسی فعل کے لئے ارادہ یا intent کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔
مذکورہ بالا کتاب کو گوگل کیا تو کتاب کے تعارف کے حوالے سے یہ لنک ملا۔ ملاحظہ فرمائیے:
http://www.express.pk/story/271280/
شکریہ عدنان عمر ۔ گوگل ہی سے انتظار حسین صاحب کی تحریر (جو پہلے ایکپرس اخبار میں اور بعد میں مقتدرہ کے اخبارِ اردو میں چھپی تھی ) ملی ہے۔ یہ بھی دیکھیے:
http://nlpd.gov.pk/uakhbareurdu/august2012/Aug_13.html
میں جناب طالب سحر سے شرمندہ ہوں کہ بغیر کتاب کو پڑھے اس بحث میں کود پڑا ہوں۔ مگر بایں ہمہ میں حضور کو یقین دلاتا ہوں کہ جس شخص کی تحقیقی صلاحیتوں پر اس قسم کا زنگ چڑھا ہو اس کی کتاب میں کبھی پڑھوں گا بھی نہیں۔
راحیل فاروق ، کتاب تو میں نے بھی نہیں پڑھی ہے اورپروفیسر صاحب کے اِس سلسلے میں اب تک کے معلوم خیالات سے میں بھی اختلاف رکھتا ہوں لیکن کتاب میں ضرور پڑھوں گا تاکہ اس سلسلے میں بہتر رائے بنائی جا سکے۔
 

طالب سحر

محفلین
بس جی ہمیں تو آج یہ احساس ہوا کہ عرصہ آٹھ برس سے لسانیات میں جھک مار رہے تھے۔ مولانا صاحب بازی لے گئے اور ہم کفار کی لکھی کتب پڑھ پڑھ کر پنجابی والی گھِیسی کرتے رہ گئے۔

دوست ،آپ کے مزاح کی داد دیتا ہوں، لیکن پروفیسر صاحب کوئی ثقہ قسم کے مولانا تو ہیں نہیں۔ انتظار صاحب کے مطابق "گورنمنٹ کالج میر پور، آزاد کشمیر میں تدریس کے شعبہ سے وابستہ ہیں" ، اور اُن کی دو تحریروں کو جناب الف عین نے اپنی ترتیب دی ہوئی کتاب "الفاظ و معنی" [ربط] میں شامل بھی کیا ہے۔
 
آخری تدوین:
راحیل فاروق ، کتاب تو میں نے بھی نہیں پڑھی ہے اورپروفیسر صاحب کے اِس سلسلے میں اب تک کے معلوم خیالات سے میں بھی اختلاف رکھتا ہوں لیکن کتاب میں ضرور پڑھوں گا تاکہ اس سلسلے میں بہتر رائے بنائی جا سکے۔
میرِؔ بددماغ کی جو چند باتیں ذہن پر نقش ہو گئیں ان میں سے ایک وہ مشہور جملہ ہے جو انھوں نے لکھنؤ کے سفر میں کسی شخص سے کہا تھا:
خیر، آپ کا شغل ہے۔ میری زبان خراب ہوتی ہے!
زبان تو خیر ہماری کیا بگڑنی مگر ضبط کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے کا قوی اندیشہ ہے۔ :):):)
 

فرقان احمد

محفلین
معاملہ یہ ہے کہ لسانیات کے حوالے سے ایسے مباحث چلتے رہتے ہیں اور مذہب سے وابستہ افراد جب کبھی ایسے موضوعات کو اپنے خاص زاویے سے دیکھتے پرکھتے ہیں تو ان سے اختلاف رکھنے والوں کی بھی کمی نہیں ہوتی۔ دیکھا جائے تو ہر کسی کو ایک خاص دائرہء کار میں رہتے ہوئے اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کا حق ہونا چاہیے۔ ہاں، ایسا ہو کہ پروفیسر صاحب ہاتھ میں بندوق تھامے اپنا کہا لکھا منوانے چل پڑیں تو پھر حد سے تجاوز ہے۔ جب تک ایسا نہیں ہے، تب تک 'ستے خیراں نے'، ہر کوئی اپنی بات کہے اور کہتا چلا جائے، کیا فرق پڑتا ہے؟ انتظار حسین کا کالم بھی اس حوالے سے نظر سے گزرا۔ انہوں نے اپنے من کی بات کہہ دی۔ ان کے پیچھے کون لٹھ لے کر پڑا! کوئی نہیں! اور شاید پڑنا بھی نہیں چاہیے۔ علمی سطح پر یہ بحث مباحثے چلتے رہیں تو مناسب رہتا ہے۔ ویسے مجھے سب سے زیادہ حیرت اس بات پر ہوئی کہ پروفیسر صاحب کو اس ضرب المثل پر بھی اعتراض ہے کہ قاضی جی کے گھر کے چوہے بھی سیانے۔ یہ تو خیرحد ہی ہو گئی!
 

فرخ منظور

لائبریرین
شعروں میں اب جہاد ہے، روزہ نماز ہے
اُردو غزل میں جتنے تھے کُفّار مر گئے
مصرعوں کو ہم نے، نعرۂ تکبِیر کر دِیا
گِیتوں کے پُختہ کار گُلوکار مر گئے
(بشیر بدر)
 
دلچسپ موضوع پر ایک دلچسپ کتاب لگتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے گویا اس کتاب کو ادبی و لسانی اندازِ فکر کی بجائے خالصتاً مذہبی نکتہ نظر سے لکھا گیا ہوگا۔ ادھر ہماری قومی و معاشرتی سوچ کا انداز گزشتہ کچھ دہاائیوں سے کچھ اس قدر شدت پسندانہ اور عدم برداشت کا حامل ہوچکا ہے کہ فی زمانہ ہم اس قسم کی تحقیق کے متحمل نہیں ہوسکتے۔

بہت دن نہیں گزرے، خالقِ حقیقی کے لیے استعمال ہونے والا اردو کا ایک خوبصورت لفظ ’’خدا‘‘ تقریباً " متروک" کردیا گیا ۔ ذیل میں ہم ان خوبصورت الفاظ و تراکیب کی ایک فہرست پیش کرتے ہیں جن میں اس لفظ کو استعمال کیا گیا تھا۔
کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے
خدا کا شکر ہے
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
خدا کی شان ہے
خدارا!
خداوندا!
خدائے بزرگ و برتر

یہی حال لفظ الٰہی کا ہوا۔ طے پایا کہ خالقِ حقیقی کے لیے صرف لفظ اللہ لکھا اور بولا جائے گا۔ ہمیں اپنے پسندیدہ پکوان حلیم کا نام لینے سے بھی روک دیا گیا کہ حلیم اللہ پاک کا صفاتی نام ہے نام ہے لہٰذا اس پکوان کو دلیم ، کھچڑا یا کسی اور نام سے پکارا جائے۔ جن جن لوگوں کے نام خالقِ کائینات کے صفاتی ناموں پر رکھے گئے تھے ان کے ناموں کے ساتھ عبد لگا نا لازمی قرا ر دیا گیا۔ مثلاً قادر کو عبدالقادر، کہنے لگے۔ البتہ علی کو عبدالعلی نہ کیا گیا۔​
 
آخری تدوین:

عدنان عمر

محفلین
مطلب کی بات صرف اس قدر ہے کہ بنی نوعِ انسان کے اس عظیم محسن کی زندگی سے، جسے دنیا محمدِ عربیﷺ کے نام سے جانتی ہے، آپ اس قسم کے لسانی جہاد کی کوئی مثال پیش کر سکتے ہیں؟
کیا ہم عرب کے بدوؤں سے بھی زیادہ وحشی ہیں؟ کیا ہماری ہیچ مایہ زبان ان کی لغتِ طناز سے بھی زیادہ تیکھی ہے؟ کیا ہمارے شعرا اور ادبا کے ہاں ان کے فصحا و بلغا سے بھی زیادہ مبتذل مضامین ملتے ہیں؟ کیا ہمارے محاورے ان سے بھی زیادہ رکیک ہیں؟ اگر نہیں اور یقیناً نہیں تو کیا رسولِ اکرمﷺ نے لسانِ عرب کی اصلاح کا بیڑا اسی طرح اٹھایا تھا جس طرح آپ لوگ ہلکان ہو رہے ہیں؟
برادرِ محترم! میں نے اپنے مراسلے میں مختصراً بات کی تھی، اب کھول کر بیان کردیتا ہوں۔ ہر مسلمان کے لیے نبی کریم ﷺ کی سیرتِ مبارک اسوہِ حسنہ ہے۔ نبی کریم ﷺ کا اندازِ گفتگو اور اخلاق بھی ہمارے لیے کامل نمونہ ہے۔ میری معلومات کے مطابق سرورِ دو عالمﷺ کی زبانِ مبارک سے ایسے الفاظ کبھی ادا نہیں ہوتے تھے جن سے معاذ اللہ دین یا دینی شعائر کی توہین کا پہلو نکلتا ہو۔ ہم مسلمان اُردو بولیں یا دنیا کی کوئی بھی زبان بولیں، ہمیں گفتار و اخلاقِ رسول اکرم ﷺ کی پیروی کرنی چاہیے۔اس میں کسی زبان کی قید نہیں بلکہ عمومیت ہے۔ ہمارے لیے نمونہ نبی کریم ﷺ کا اندازِ گفتگو ہے، عرب بدّؤں کا اندازِ گفتگو اور عربی زبان میں پایا جانے والا ایسا لٹریچر ہمارے لیے پسندیدہ نہیں ہونا چاہیے جس میں مبتدل مضامین ملتے ہوں۔
مؤرخینِ اسلام ہنستے ہیں کہ جب طارق اندلس پر حملہ آور ہوا تو مسیحی علما سوئی کی نوک پر بیٹھ پانے والے فرشتے گن رہے تھے۔ مجھے ہنسی آتی ہے کہ فاتحِ اندلس کے فرزندانِ معنوی کے پاس بھی آج لے دے کے مہماتِ لسانیہ رہ گئی ہیں جن سے وہ امتحانِ دست و بازو کر رہے ہیں۔
آپ فاتحِ اندلس کے فرزندانِ معنوی میں کن کن افراد کو شامل اور کن کن کو خارج کررہے ہیں؟ گستاخی معاف! کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ صرف مہماتِ لسانیہ والوں کو فاتحِ اندلس کے فرزندانِ معنوی قرار دے رہے ہوں اور باقیوں کو اس اعزاز سے محروم کررہے ہوں؟
یاد رکھیے۔ موسیٰؑ اللہ کے رسول تھے۔ ان کی قوم اگر پٹ گئی تو اس لیے نہیں کہ ان کا پیغام نعوذ باللہ غلط تھا بلکہ اس لیے کہ قوم غلط تھی۔ عیسیٰؑ جلیل القدر نبی تھے۔ ان کا پیغام حق تھا۔ ان کی قوم ظالم نکلی۔ محمد مصطفیٰﷺ کا پیغام الوہی تھا۔ ان کی بھی قوم اپنے پیشروؤں کے قدم پر چل نکلی ہے۔ ڈھٹائی کی حد یہ ہے کہ مانتے بھی نہیں کہ ہم پر زوال آ چکا ہے۔ ہم خدا کی اسی پکڑ میں آ چکے ہیں جس کا مذکور ہمارے اکابر اممِ سابقہ کی ذیل میں کیا کرتے تھے۔
متفق۔
قبلہ و کعبہ، آپ کی اردو کفارِ ہند کی اسی طرح مرہون ہے جس طرح صوفیائے عرب و عجم کی۔ یہ زبان جس نے سنسکرت، پنجابی، برج بھاکا وغیرہ جیسی ہندوانہ زبانوں کی کوکھ میں پرورش پائی ہے، اس کے حقوقِ ملکیت آپ نے کب حاصل کیے؟ کیا اردو آئندہ صرف مسلمانوں کی زبان ہوا کرے گی؟ کیا لوگوں کو اسلام کی طرح اردو کے دائرے سے بھی خارج کر دیا جایا کرے گا؟ ہندوستان کی مٹی سے پیدا ہو کر آپ اسی ہندوستان کے ثمرِ شیریں اردو کی رگِ جاں قطع کریں گے اور خدا خوش ہو جائے گا؟
یقیناً اُردو زبان کا بیج برصغیر کی زمین سے ہی پھوٹا ہے اور اُردو زبان کی ترقی میں غیر مسلموں کا نمایاں حصہ ہے۔ کوئی بھی زبان کسی کی ملکیت نہیں ہوتی اور ہو بھی نہیں سکتی، ہاں زبان بولنے والے اپنے اپنے دین، اقدار اور اخلاق کے مطابق اس زبان کو بولتے ہیں۔ مثلاً اردو بولنے والے بہت سے لوگ اردو میں گالیاں دیتے ہیں لیکن مہذب افراد ایسا نہیں کرتے۔ تو کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ گالیاں نہ دینے والوں نے اردو گالیوں کو اُردو زبان کے دائرے سے خارج کردیا ہے؟ اردو بولنے والے مسلمان اگر خالقِ حقیقی کے لیے ’بھگوان‘ کے بجائے ’اللہ‘ اور ’خدا‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو کیا اس سے یہ معنی نکلتا ہے کہ ’بھگوان‘ کا لفظ اردو زبان کا حصہ نہیں ہے؟ زبان کا ذخیرۂ الفاظ تو اتنا وسیع ہوتا ہے کہ عموماً بڑے بڑے ماہرینِ زبان بھی کسی پیشے کی مخصوص علمی اور فنی اصطلاحات پر مکمل عبور نہیں رکھتے؟ تو کیا جن الفاظ سے ماہرینِ زبان واقف نہیں، وہ دائرہِ زبان سے خارج ہوگئے؟ اُردو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں ہے لیکن اگر مسلمان اُردو بولتے ہوئے اپنی دینی اقدار کا پاس و لحاظ کریں تو کیا حرج ہے؟
میں اطلاعاً عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اگر ایسا ممکن ہو بھی گیا تو یہ ہرگز کوئی بےنظیر کارنامہ نہیں ہو گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب کوئی قوم وحشت و بربریت کی انتہا کو پہنچتی ہے تو وہ اسی طرح تمدن اور ثقافت سے بیر پال لیتی ہے۔ کتب خانے جلائے جاتے ہیں۔ لسانی بنیادوں پر زندگی اور موت کے فیصلے ہوتے ہیں۔ رہن سہن اور اوڑھنے بچھونے کی رسوم کا اختلاف فرشتوں کے اس قول کی تصدیق کا سبب بنتا ہے کہ آدم زمین پر خون بہائے گا۔ مفتوح کی تاریخ اور تہذیب کو مسخ کر کے اپنی درندگی کا ثبوت دیا جاتا ہے۔ اہلِ نظر کے لیے یہ سب نیا نہیں۔ مگر آرزو رہتی ہے کہ کاش ایسا نہ ہو۔
آپ اُردو یا کوئی بھی زبان بولنے میں احتیاط برتنے کو وحشت و بربریت سے منسوب کررہے ہیں، حیرت ہے۔ کیا محتاط اندازِ گفتگو کا مطلب تمدن اور ثقافت سے بیر پالنا ہے اور اس کا نتیجہ کتب خانے جلانے پر نکلتا ہے؟ کوئی بھی شخص صرف اپنی تحریر کے بل پر میری یا آپ کی زباں بندی نہیں کرسکتا، لسانی بنیادوں پر زندگی اور موت کے فیصلے کیا خاک صادر کرے گا۔ گذارش ہے کہ رہن سہن اور اوڑھنے بچھونے کی رسوم کے اختلاف،زمین پر خون بہانے اور مفتوح کی تاریخ اور تہذیب کو مسخ کرنے کو آپ اندازِ گفتگو سے مت جوڑے ورنہ بصد احترام یہ سب آپ کی ’مہماتِ لسانیہ‘ گردانی جائیں گی۔
دین انسانوں کے لیے آیا تھا یا زبانوں کے لیے؟ کپڑوں کے لیے؟ ڈاڑھیوں کے لیے؟ معاذ اللہ۔ ایسے علما سے بعید نہیں کہ کل کلاں کھیرے کو شلوار پہنانے کی قرارداد پاس کر دیں کہ یہ بقولِ جوشؔ فحش سبزی ہے۔ جب ذی ہوش دین سے منہ پھیر لیں تو اسلام بیچارے کے پاس اپنے نفاذ کے لیے بے جان چیزوں سے رجوع کرنے کے سوا چارہ ہی کیا رہ جاتا ہے؟
دین انسانوں کے لیے ہی آیا ہے اور دین میں ہی آدابِ گفتگو، آدابِ لباس اور آدابِ مو تراشی موجود ہیں۔ براہِ مہربانی یہ فرما دیجیے کہ وہ علماء جو کھیرے کو شلوار پہنانے اور فحش سبزی قرار دینے کی بات نہیں کرتے، کیا وہ آپ کے لیے قابلِ قبول ہیں یا آپ اُن کا اعمال نامہ بھی اُن کے بائیں ہاتھ میں تھمانے کا ارادہ رکھتے ہیں؟
 

محمداحمد

لائبریرین
پروفیسر غازی علم دین کی ایک کتاب "لسانی مطالعے" مقتدرہ قومی زبان نے غالباً 2012 میں شائع کی تھی۔ پچھلے دنوں کسی نے بتایا کہ پروفیسر صاحب نے اِس کتاب میں اردو زبان میں مستعمل عامیانہ اور غیر معیاری الفاظ کے ساتھ ساتھ ایسے محاورات کی بھی نشاندہی کی ہے جن کے استعمال کو وہ غیر مذہبی سمجھتے ہیں، مثلاً

یہ کتاب میں نے نہیں پڑھی ہے۔ اگرمحفلین میں سے کسی نے یہ کتاب پڑھی ہے، تو یہ درخواست ہے کہ پروفیسر صاحب کے استدلال پر اپنی رائے دیں۔
۔

ویسے کیا پروفیسر صاحب نے جن محاوروں کو "غیر مذہبی" قرار دیا ہے ۔ نشاندہی کے باوجود اُن کے استعمال پر کفر اور واجب القتل ہونے کا فتویٰ بھی دیا ہے؟

بہت سے شرکائے گفتگو کی جذباتیت سے ایسا ہی تاثر ملتا ہے۔
 
عدنان عمر بھائی، میرا لہجہ شاید زیادہ تلخ ہو گیا۔ آپ نے درگزر فرمایا۔ رہنمائی فرمائی۔ میں سرتاپا ممنون ہوں۔
جہاں تک موضوع زیرِ بحث کا تعلق ہے تو میں شاید جذباتی ہو جانے کی وجہ سے اپنا نکتۂِ نظر واضح نہیں کر سکا۔ مدعا یہ تھا کہ دین کا تعلق بے جان و بے حس اشیا سے نہیں ہوتا بلکہ ذی ہوش و باشعور انسان سے ہوتا ہے۔ زبانیں، کپڑے، جوتے، سواریاں، اشیائے خورد و نوش وغیرہم مسلمان یا کافر نہیں ہوتیں نہ ان پر ایسے معیارات لاگو کرنا عقل مندی یا دین داری ہے۔
جب کردار میں عقائد کا رنگ پیدا ہو جاتا ہے تو ماحول میں ضروری تبدیلیاں خود بخود پیدا ہو جاتی ہیں۔ ان کے لیے الگ سے کسی جہاد کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مثلاً کوئی عورت شہوات پر قابو پا لیتی ہے تو آپ کو اسے لباس کی موزونیت کا درس نہیں دینا پڑتا۔ درخت کی جڑ کو پانی پہنچتا ہے تو شاخیں خود بخود سیراب ہو جاتی ہیں۔ مگر پتوں کو تر کرنے سے ضروری نہیں کہ پودا پنپتا بھی رہے۔
علمائے عصر کا المیہ جہاں تک میں سمجھا ہوں یہ ہے کہ یہ اصول کی بجائے فروع پر اسلام نافذ کرنے سے امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ اس رویے نے جو مضحکہ خیز مظاہر پیدا کیے ہیں وہ آپ کی نظر سے نہیں گزرے یا پھر شاید آپ نے کبھی ان پر تنقیدی نگاہ نہیں ڈالی۔ چندے قبل ایک عاشقِ رسولﷺ کا مدنی طیارہ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ موصوف نے موٹر سائیکل کو ہرا رنگنے کے بعد غالباً اس پر نعتیہ اشعار بھی لکھے ہوئے تھے۔ سواری میں کچھ اور تبدیلیاں بھی ایسی کی گئی تھیں کہ اس 'طیارے' کی ہیئت کذائی دیکھنے کے بعد اچھے خاصے مسلمان مرتد ہو جائیں۔
میرا مؤقف یہی ہے کہ اسلام کو کردار اور معاملات پر نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ بقولِ اقبالؒ اس ننگِ یہود قوم پر آپ اسلام کا ظاہری روغن جتنا چاہیں کر دیں اس سے اسلام کی تذلیل کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہو گا۔
اگر ملت میں کردار اور ایمان کی روشنی پیدا ہو گئی تو آپ کو زبان کی اصلاح کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی جیسے آپ کے رسولﷺ کو نہیں پڑی۔ ورنہ موٹر سائیکل تو مدنی طیارہ بن ہی گیا ہے۔ اردو بھی مدنی زبان بن گئی تو ہم کیا اکھیڑ لیں گے؟
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی، نہ صاحبِ کشاف​
 

سید عمران

محفلین
اتنی بحث ہوئی۔۔۔ حالاں کہ مدعا تو نہایت واضح تھا۔۔۔کہ ادب کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔۔۔ تہذیب یافتہ، شریف اور شائستہ گھرانوں کا یہ طرہ امتیاز ہے۔۔۔۔ اور سورہ حجرات میں اللہ تعالیٰ نے چند بے تکلف دیہاتیوں کو ’’اُخرُج یامحمد‘‘ کہنے پر فہمائشی اور نبی کے ادب پر آیات نازل فرمادیں۔
 
Top