پاکستان کے کچھ وفاقی وزرا نیویارک میں ۔۔۔۔

فرخ

محفلین
کل صبح ایک ای میل میں یہ تصاویر موصول ہوئیں اور اسکے ساتھ تھوڑی سی رپورٹ بھی، سوچا، یہاں پوسٹ ہی کرتا چلوں،شائید حکومت کے حمائیتی لوگوں کو کچھ سمجھ لگے۔
آپ نے کبھی لیموزین دیکھی ہے؟ یقیناً کچھ لوگوں‌نے نہیں بھی دیکھی ہوگی۔میں نے بھی نہیں‌دیکھی،لیکن کیمرے کے آنکھ سے محفوظ شدہ کچھ تصاویر میں‌دیکھی جاسکتی ہے:

01.jpg
جی ہاں باہر سے دیکھنے میں‌کچھ ایسی ہی ہوتی ہے۔ اب ذرا اندر کے حالات کا ایک منظر ملاحظہ فرمائیے:
02.jpg
مجھے نہیں پتا کہ آپ اس سے کتنا متاثر ہوئے ہونگے، مگر ہمیں ملنے والی رپورٹ کے مطابق اسکا کرایہ تقریباً 500 ڈالر فی گھنٹہ ہے۔ جو تقریباً پاکستانی 40,000 روپیہ بنتا ہے۔​

اب پاکستان کے غریب عوام جو پتا نہیں کس کس جگہ اپنے خون پسینے کی کمائی سے ٹیکس دیتے پھرتے ہیں اور غربت اور اسی طرح کے دیگر ٹیکسوں کے نظام میں جکڑے ہوئے ہیں، اسطرح کی عیاشی یقینا ً نہیں برداشت کر سکتے، بلکہ عام عوام تو کیا، متوسط اور شائید کچھ امیر طبقات کے لوگو بھی اسے برداشت نہ کر سکیں، مگر وہ حکومت جو عوام کا خون نچوڑ کر پیسے کماتی ہے، اسکے وزرا، عوام کی کمائی کہاں لُٹا رہے ہیں، ذرا ملاحظہ کیجئے:​
03.jpg

جی ہاں کچھ لوگوں نے بالکل صحیح پہچاناہوگا ان وزراٗ کو۔ جنہوں نے نہیں پہچانا، انکے لیئے بتا دیتا ہوں۔ یہ موجودہ دور کی پیپلز پارٹی حکومت کے دو وزراٗ ہیں۔ نذر گوندل اور لیموزین گاڑی کے دروازے سے اترتے ہوئے قمرالزمان کائرہ ۔ جنہیں آپ اکثر ٹی وی کے چینلز پر ملاحظہ بھی کرتے ہونگے۔
موصول شُدہ رپورٹ کے مطابق انہیں نیویارک کے شہر کی تقریبا ً دوگھنٹے اسی لیموزین میں سیر کروائی گئی۔ یعنی 80,000 روپیہ تو دوگھنٹے میں اڑا دیا گیا۔
اور استقبال کچھ یوں ہوا:
04.jpg

اور یہاں بھی کچھ نچھاور کیا جا رہا ہے:​

05.jpg

اور ان نچھاور ہونے والے کاغذوں کو سب پہچانتے ہیں، خاص طور پر حکومت اور اسکے چمچے جماعتوں کے ممبران تو خاص طور پر ان کاغذوں پر نظر رکھتے ہیں اور انکا رنگ کھل کھل جاتا ہے انہیں دیکھ کر۔ یہ کوئی پھول نہیں، بلکہ انہیں عرف عام میں امریکہ ڈالر کہتے ہیں۔ جو آجکل تقریبا ً 80 روپے کا ایک ملتا ہے۔ اور اسکا کچھ حساب پتا نہیں چل سکا کہ یہ کتنی تعداد میں وارے گئے۔:sick:

اب آپ یقینا ً یہ بھی سوچ رہے ہونگے کہ میاں وہاں ان ڈالروں کیا بارش کو کون لوٹے گا۔ یہ آپ ان حضرات کی خوشیوں سے اندازہ لگا سکتے ہیں:​

06.jpg


انہی تصاویر کے ساتھ ملنے والی رپورٹ کے مطابق تقریباً 16,000 ڈالر بھارتی رقاصاؤں پر خرچ کئے گئے یا وارے گئے۔​

مجھے ویسے زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ پاکستان میں اسوقت کس قسم کے حالات ہیں اور ہمیں اپنے ملکی حالات کے لئے کتنی رقم کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں اسوقت تقریبا 25 لاکھ افراد بے گھر ہیں۔ سوات سے آئے ہوئے مہاجرین ایک بہت بڑا المیہ ہے جس کے لیے پاکستانی حکومت دوسرے ممالک سے مدد کی اپیلیں کرتی نظر آتی ہے۔
اور اپنے آقا کے شہر میں جا کر اسی حکومت کے لوگ جس قسم کی عیاشی کرتے نظر آرہے ہیں کیا یہ دیکھ کر کوئی کہہ سکتا ہے کہ انکا ملک مسائل میں مبتلا ہے؟​

دھشتگردی کا واویلا اور پروپیگنڈا کر کے امریکہ اور دیگر ممالک سے مدد مانگنے والے اس مدد کا کیا کر رہے ہیں یہ کوئی ڈھکی چُھپی بات نہیں۔​

اور یہ بھی بات اب کچھ درست نظر آتی ہے، کہ سوات اور دیگر علاقوں میں شورش ، اور جنگوں کی بناید پر اصل فائدہ اُٹھانے والے کون لوگ ہیں۔​

میرے پاس صرف اپنے ملک کے لیے دعا ہے، کیونکہ میں بھی بہت سے عوام کی طرح بے اختیار ہوں اور اس برائی اور حکومتی فتنوں کے خلاف کوئی عملی قدم نہیں اُٹھا سکتا۔​

اللہ میرے پاکستان کو اپنی بہترین حفظ و امان میں رکھے اور ایسے غدار صفت لوگوں کو اور انکے چمچوں کوتباہ کن انجام سے دوچار کرے۔اور عوام کو راہِ راست دکھائے اور پاکستان کو مضبوطی عطا کرے۔ آمین، ثم آمین۔
:(
 

راشد احمد

محفلین
بے شرم، بے غیرت وزیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قمرالزمان کائرہ نے ایک امریکی کلب میں‌ شراب پی کر ہنگامہ آرائی اور گالی گلوچ کی تھی۔
 

شمشاد

لائبریرین
بہت شکریہ فرخ یہ سب شریک محفل کرنے کا۔ اور یہ بھی تو لکھنا تھا کہ ان کے سرغنہ صدر پاکستان جس ہوٹل میں ٹھہرے تھے، اس کا ایک رات کا کرایہ 5،000 ڈالر تھا۔ یعنی کہ چار لاکھ روپے۔
 

فرخ

محفلین
بہت شکریہ فرخ یہ سب شریک محفل کرنے کا۔ اور یہ بھی تو لکھنا تھا کہ ان کے سرغنہ صدر پاکستان جس ہوٹل میں ٹھہرے تھے، اس کا ایک رات کا کرایہ 5،000 ڈالر تھا۔ یعنی کہ چار لاکھ روپے۔

شمشاد بھائی، یہ بات تو غالبا ًپہلے ہی ٹی وی چیلنز پر منظر عام پر آچُکی ہے۔ مجھے دراصل کل کی ایک ای میل میں‌ایک دوست نے یہ سب کچھ بھیجا تھا۔
اور وہ تو سرغنہ ہے، ظاہر ہے زیادہ عیاشی کریگا۔:sick:
 

زینب

محفلین
تو کیا ہوا کچھ عیاشیاں سامنے آجاتی ہیں باقی کی کرتوت چھپی رہتی ہیں۔۔۔۔۔ ان کے "ابے" کا ملک ہے عوام ان کے ہتھ بندھی غلام جو مرضی کریں۔۔۔
 
تو کیا ہوا کچھ عیاشیاں سامنے آجاتی ہیں باقی کی کرتوت چھپی رہتی ہیں۔۔۔۔۔ ان کے "ابے" کا ملک ہے عوام ان کے ہتھ بندھی غلام جو مرضی کریں۔۔۔

آپ کا "جٹیانہ" انداز کبھی کبھی بڑا خوبصورت ہوتا ہے :rollingonthefloor:

صحیح کہا کہ ان کے "ابے" کا ملک ہے۔ ان کی عیاشیاں اور جو کچھ "جنگ برائے امن" کے نام پر امریکہ ان سے کروا رہا ہے اس کا صلہ تو ان کو مل ہی رہا ہے۔

ویسے ہمت علی بھائی کی اس وقت شدت سے کمی محسوس ہو رہی ہے۔ زرداری کے بڑے زبردست چاہتے والے ہیں۔ ایسے دھاگوں میں ان کی خاموشی دیکھ کر بڑی ہنسی آتی ہے
 

راشد احمد

محفلین
طیبہ ضیاء چیمہ

ایک امریکی خاتون ماہر نفسیات کے پاس گئی اور اپنی ذہنی حالت بیان کرتے کہا کہ میں ہر غلطی اور گناہ کا مورد الزام خود کو ٹھہراتی ہوں۔ اپنے تمام مسائل کا ذمہ دارہ خود کو سمجھتی ہوں۔ میں زندہ نہیں رہنا چاہتی۔ ماہر نفسیات نے کہا کہ تم خود کو مجرم سمجھنا چھوڑ دو گی تو تمہاری پریشانی ختم ہو جائیگی۔ خاتون بولی کہ پھر میں کس کو لعن طعن کروں، کس پر اپنا غصہ اتاروں؟ ماہر نفسیات نے مشورہ دیا کہ ’’تم شیطان کو Curse کیا کرو۔ گاڈ نے شیطان پیدا ہی اس لئے کیا ہے کہ اسکے بندے اپنے تمام جرائم اور گناہوں کا ذمہ دار شیطان کو ٹھہرائیں‘‘۔ پاکستانیوں کا بھی یہی حال ہے۔ امریکہ نہ ہوتا تو اپنے مسائل اور محرومیوں کا ذمہ دار کس کو ٹھہراتے؟ علماء کرام، مذہبی، سماجی اور سیاسی تنظیمیں اپنی کمزوریوں کا مورد الزام کس کو ٹھہراتیں۔ امریکہ جسے شیطان بھی بولا جاتا ہے اس پرلعن طعن اور بددعائوں سے پاکستانی اپنا غم و غصہ ٹھنڈا کر لیتے ہیں۔ امریکہ نہ ہوتا تو حکمران دوروں کو جواز بنا کر عیاشی کیلئے کہاں جاتے؟ امریکہ نہ ہوتا تو اقتدار کیلئے کس کا دروازہ کھٹکاتے؟ جرنیلوں کا کیا بنتا؟ امریکہ نہ ہوتا تو ابلیس کا کاروبار بھی ٹھپ ہو جاتا۔ پاکستانیوں کی تسلی کیلئے ابلیس کبھی امریکہ بن جاتا ہے کبھی بھارت، کبھی روس، کبھی اسرائیل اور کبھی حامد کرزئی کا روپ دھار لیتا ہے۔

ایک پاکستانی حج کو گیا‘ وہاں سے پلٹا تو افسردہ تھا‘ کہنے لگا کہ جب شیطان کو کنکریاں مارنے گیا تو اپنے تما م گناہ، جرائم اور کمزوریاں میرے سامنے آکھڑی ہوئیںکہ اتنی مسافت اور تھکاوٹ کی کیا ضرورت تھی یہ کام تم گھر بیٹھے بھی کر سکتے تھے۔ شیطان تیرے اندر ہے باہر نہیں، اپنے وجود کو کنکریوں سے لہو لہان کر لیا کرو، گھر بیٹھے تمہارا حج ہو جائیگا۔ لوگ شیطان کے سامنے کھڑے ہو کر بھی امریکہ کو بددعائیں دے رہے ہوتے ہیں۔ امریکہ کتنا خوش نصیب ہے کہ لوگ اسے اللہ کے گھر جا کر بھی یاد کرتے ہیں بالخصوص مذہنی پیشواء اور سیاسی جماعتوں کی زندگی کا آسر ہی امریکہ کو لعن طعن کرنا ہے جبکہ صاحب اقتدار ’’امریکہ امریکہ‘‘ کی تسبیح جپتے ہیں۔ صدر زرداری نے بھی دورہ امریکہ کے دوران پاکستانیوں کو یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ امریکہ ہمارا ہمدرد ہے۔ ہمارا دوست ہے۔ ہمارا خیر خواہ ہے۔ اسکے ساتھ نبھا کر رکھنا ہے تو اسے Curse کرنا چھوڑ دو۔

امریکہ کو شیطان سمجھنا اور لعن طعن کرنا حکمرانوں کا نہیں ہمیشہ اپوزیشن کا مرض رہا ہے۔ نواز لیگ کا مسئلہ وکھری ٹائپ کا ہے۔ انہیںابھی تک واضح نہیں ہو سکا کہ امریکہ اور حکومتی پارٹی میں بڑا شیطان کون ہے۔ اس تذبذب کا شکار وہ کبھی اپوزیشن میں ہوتے ہیں اور کبھی حکومت کیساتھ۔ امریکہ میں کارکنان کو بھی یہی حکم ہے کہ بحیثیت اپوزیشن پی پی کیساتھ فاصلہ رکھیں لیکن اسکے خلاف مظاہروں میں شرکت سے بھی گریز کریں۔

واشنگٹن کے بعد نیویارک میں صدر زرداری کیلئے استقبالیہ دیا گیا۔ پاکستان سفارتخانہ کی جانب سے واشنگٹن میں دیئے گئے عشایہ میں قریبََا دو ہزار پاکستانی مدعو تھے جس پر پانچ لاکھ ڈالر کا خرچہ ہوا۔ یہ سارا پیسہ عوام کا ہے جسے امریکہ میں عیاشیوں اور تقریبات پر لٹایا جاتا ہے‘ سترہ کروڑ عوام بجلی کو ترس رہے ہیں‘ دس لاکھ سے زیادہ بے گھر ہے‘ لاکھوں بھوکے مر رہے ہیں جبکہ پاکستان کا دوسرا امیر ترین شخص انکا صدر ہے اور اسے رومال بھی خریدنا ہو تو سرکار کے خزانے سے خریدتا ہے۔ صدر زرداری کو ’’مشکوک دورہ نیویارک‘‘ میں بھی پاکستانی سفارتخانہ کی جانب سے استقبالیہ دیا گیا جسے پیپلز پارٹی کا شو کہنا زیادہ مناسب ہو گا جو کہ جیالوں کی بدتمیزی اور بدنظمی کی نظر ہو گیا۔ ہوٹل کے ہال میں موجود چار سو بندوں نے تماشہ دیکھا۔ امریکہ میں رہتے ہوئے بھی مہذب نہ بن سکے۔ صدر اوبامہ اپنے نائب صدر کے ساتھ ڈی سی کے ریستوران میں اچانک پہنچ گئے۔ عام شہری کی طرح قطار میں کھڑے ہو کر برگر کا آرڈر دیا۔ گورے اپنے لیڈر کو اپنے درمیان دیکھ کر حیران ہوگئے لیکن نظم و ضبط نہیں توڑا۔ کسی نے آگے بڑھ کر اوبامہ سے ہاتھ نہیں ملایا‘ ہنگامہ ہوا نہ ہلڑ بازی ہوئی‘ جذبات بے قابو ہوئے اور نہ ہی نعرے بازی ہوئی‘ ڈسپلن قائم رہا جبکہ پاکستان کا صدر اپنی ہی پارٹی کے دنگا فساد سے خوفزدہ سٹیج چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے۔ ہم گوروں کو لعن طعن کرتے ہیں اور یہ ہم پر ہنستے ہیں۔ صدر پاکستان کے اعزاز میں منعقد کی گئی تقریب میں قومی ترانہ بجا اور نہ ہی بابائے قوم کی تصویر وہاں موجود تھی۔ پی پی کی تقریبات میں جئے بھٹو کے نعرے ہی اول و آخر رہے۔ تقریب میں مسلم لیگ نے بھی شرکت کی البتہ یہ مظاہرے میں شامل نہیں ہوئے۔ ہوٹل کے باہر امریکی پالیسی، ڈرونز حملے، کراچی میں بارہ مئی کا واقعہ، پشتونوں کا واقعہ، سوات کے حالات، بلوچستان کی صورتحال کیلئے مظاہرہ بھی ہوا جسکی کوریج نہیں ہوئی‘ نیویارک میں سرکاری وفد کی رنگ رلیاں لوکل صحافیوں سے ڈھکی چھپی نہیں ہوتیں اور نہ ہی اسے ’’ذاتی فعل‘‘ کہہ کر نظرانداز کیا جا سکتا ہے۔ یہ لوگ اسلامی مملکت پاکستان کے نمائندے ہیں۔ ایک باریش وفاقی وزیر کی نیویارک کے نامور علاقے فاٹی سیکنڈ سٹریٹ کی ایک معروف بار میں ایک گورے کیساتھ تلخ کلامی ہو گئی۔ اس سے پہلے کہ بات بڑھتی میزبان دوست ’’عوام کے خادم‘‘ کو بار سے نکال کر لے گئے۔ وزیر نے خبر کی تردید کرنا چاہی تو مخبروں نے لائٹ برائوں رنگ کی جیپ پلیٹ نمبر 08268MS جس میں وزیر صاحب بار سوار تھے کی معلومات پیش کیں تو تردید سناٹے میں تبدیل ہو گئی۔ عوام کے خادم جب فاٹی سیکنڈ سٹریٹ کی چکا چوند روشنیوں میں غرق ہوتے ہیں تو وطن کے اندھیروں کو بھول جاتے ہیں۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر کا نیویارک کے پرل کانٹی نینٹل ہوٹل کے اپارٹمنٹ 1455 میں پانچ روز قیام رہا۔ ملاقاتوں اور سرگرمیوں کو میڈیا سے مخفی رکھا گیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ غیر ملکی طاقتوں نے اپنی عورتوں اور پالیسیوں کو آلہ کار بنا کر مسلمان حکمرانوں کو نقصان پہنچایا اور انکے ملک و قوم کو بدنام کیا۔ سکیورٹی والوں نے مشرقی یورپ سے تعلق رکھنے والی تین لڑکیوں کو اپارٹمنٹ میں جانے سے روکا لیکن حسین حقانی کے کہنے پر انہیں بلا پوچھ گچھ آنے جانے کا اجازت نامہ بھی بنوا دیا۔ عام انسان ذاتی زندگی کے قول و فعل ذمہ دار خود ہے لیکن ایک حساس اور ذمہ دار عہدہ پر فائز شخصیت اپنے لوگوں کے سامنے کھلی کتاب کی طرح ہونا چاہئے۔ وہ اپنے عوام کو جوابدہ ہے۔ اسکے کردار، افعال، معاملات ذاتی نہیں بلکہ سترہ کرور عوام کیساتھ منسلک ہیں۔ سرکار کا 5 روزہ دورہ واشنگٹن 9 دن تک جاری رہا جبکہ پاکستان میں گھمسان کی جنگ جاری ہے۔ عوام کی زندگی اور موت کا مسئلہ بنا ہوا ہے ’’آر یا پار‘‘ ’’اب نہیں تو کبھی نہیں‘‘ کی صورتحال بنی ہوئی ہے۔ لاکھوں انسان بے گھر ہیں اور حکمران گھر سے باہر ہے؟ ملک کے سنگین حالات میں سرکاری وفد کا دورہ امریکہ اور ’’نجی مصروفیات‘‘ پر پاکستانی کمیونٹی ناخوش ہے۔ امریکی میڈیا بھی طنز کر رہا ہے۔ امریکی چینل کے مشہور مزاحیہ شو کے میزبان Jon Stewart, نے صدر زرداری کے سی این این چینل میں دیئے جانیوالے انٹرویو کو تضحیک کا نشانہ بناتے اور اسکی چند جھلکیاں دکھاتے ہوئے کہا کہ اس وقت جبکہ پاکستان میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ طالبان اسلام آباد سے ساٹھ کلو میٹر دور ہیں، پاکستانی صدر امریکہ آیا ہوا ہے اور کہتا ہے کہ اسکے ملک کو طالبان سے کوئی خطرہ نہیں ہے جبکہ ہم سے امداد کا مطالبہ بھی کرتا ہے۔ صدر کے دورہ امریکہ کے بارے میں لکھنے اور بولنے کو اور بھی بہت کچھ ہے لیکن…

حوالہ نوائے وقت
 

فرخ

محفلین
تو کیا ہوا کچھ عیاشیاں سامنے آجاتی ہیں باقی کی کرتوت چھپی رہتی ہیں۔۔۔۔۔ ان کے "ابے" کا ملک ہے عوام ان کے ہتھ بندھی غلام جو مرضی کریں۔۔۔

:laughing:
یہ اشارہ تو زرد۔آری کی طرف لگ رہا ہے۔ میں‌سوچ رہا تھا کہ انہوں نے یہ "ابا" کہاں سے "لبا" تھا۔ :rolleyes:
 

زینب

محفلین
آپ کا "جٹیانہ" انداز کبھی کبھی بڑا خوبصورت ہوتا ہے :rollingonthefloor:

صحیح کہا کہ ان کے "ابے" کا ملک ہے۔ ان کی عیاشیاں اور جو کچھ "جنگ برائے امن" کے نام پر امریکہ ان سے کروا رہا ہے اس کا صلہ تو ان کو مل ہی رہا ہے۔

ویسے ہمت علی بھائی کی اس وقت شدت سے کمی محسوس ہو رہی ہے۔ زرداری کے بڑے زبردست چاہتے والے ہیں۔ ایسے دھاگوں میں ان کی خاموشی دیکھ کر بڑی ہنسی آتی ہے

میں‌جٹی ہی تو ہوں۔پنجاب کی۔:rollingonthefloor:

ارے ہمت علی یہاں کہاں۔۔۔۔۔آپ کو اتنی وڈی خبر نہیں پتا ہمت علی غداری کی حمایت سے کب سے دستبردار ہو چکے ہیں :rollingonthefloor:
 

فرخ

محفلین
آپ کو نہیں پتا چور چوروں کو سو گلیاں گھوم کے بھی مل جاتے ہیں :rollingonthefloor:(پنجابی کی کہاوت تھی اردو میں‌کہ):rollingonthefloor:

:laughing:

لیکن میں اس دن کے انتظار میں ہوں جب "چوروں کو پڑ گئے مور" والا معاملہ ہو جائے گا :hurryup:

وہ پنجابی کا کوئی گانا بھی ہے جس کا مصرعہ ہے:
او کُج پتا نئی اوندا، چوراں نوں پیندے کیویں مور۔۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
ایسے لوگ تو وقت پڑنے پر گدھے کو بھی باپ بنا لیتے ہیں۔ آپ لاٹریوں کی بات کرتے ہیں۔
 

خرم

محفلین
ہمارے ہمت بھائی ہی "تیر" پر ٹھپا لگانے کا مشورہ دیا کرتے تھے۔ اب کہیں نظر نہیں آرہے؟:battingeyelashes:
جب تک پاکستانی شخصیت پرستی کے سحر سے باہر نہیں‌نکلیں‌گے اور اصولوں کو اجتماعی طور پر نہیں‌اپنائیں گے، یہ دھن دھنادھن جاری رہے گا کہ خالی باتوں سے کبھی کچھ نہیں‌ہوا اور نہ ہوگا۔
 
Top