فرخ
محفلین
کل صبح ایک ای میل میں یہ تصاویر موصول ہوئیں اور اسکے ساتھ تھوڑی سی رپورٹ بھی، سوچا، یہاں پوسٹ ہی کرتا چلوں،شائید حکومت کے حمائیتی لوگوں کو کچھ سمجھ لگے۔
آپ نے کبھی لیموزین دیکھی ہے؟ یقیناً کچھ لوگوںنے نہیں بھی دیکھی ہوگی۔میں نے بھی نہیںدیکھی،لیکن کیمرے کے آنکھ سے محفوظ شدہ کچھ تصاویر میںدیکھی جاسکتی ہے:
جی ہاں باہر سے دیکھنے میںکچھ ایسی ہی ہوتی ہے۔ اب ذرا اندر کے حالات کا ایک منظر ملاحظہ فرمائیے:
جی ہاں کچھ لوگوں نے بالکل صحیح پہچاناہوگا ان وزراٗ کو۔ جنہوں نے نہیں پہچانا، انکے لیئے بتا دیتا ہوں۔ یہ موجودہ دور کی پیپلز پارٹی حکومت کے دو وزراٗ ہیں۔ نذر گوندل اور لیموزین گاڑی کے دروازے سے اترتے ہوئے قمرالزمان کائرہ ۔ جنہیں آپ اکثر ٹی وی کے چینلز پر ملاحظہ بھی کرتے ہونگے۔
موصول شُدہ رپورٹ کے مطابق انہیں نیویارک کے شہر کی تقریبا ً دوگھنٹے اسی لیموزین میں سیر کروائی گئی۔ یعنی 80,000 روپیہ تو دوگھنٹے میں اڑا دیا گیا۔
اور استقبال کچھ یوں ہوا:
آپ نے کبھی لیموزین دیکھی ہے؟ یقیناً کچھ لوگوںنے نہیں بھی دیکھی ہوگی۔میں نے بھی نہیںدیکھی،لیکن کیمرے کے آنکھ سے محفوظ شدہ کچھ تصاویر میںدیکھی جاسکتی ہے:
مجھے نہیں پتا کہ آپ اس سے کتنا متاثر ہوئے ہونگے، مگر ہمیں ملنے والی رپورٹ کے مطابق اسکا کرایہ تقریباً 500 ڈالر فی گھنٹہ ہے۔ جو تقریباً پاکستانی 40,000 روپیہ بنتا ہے۔
اب پاکستان کے غریب عوام جو پتا نہیں کس کس جگہ اپنے خون پسینے کی کمائی سے ٹیکس دیتے پھرتے ہیں اور غربت اور اسی طرح کے دیگر ٹیکسوں کے نظام میں جکڑے ہوئے ہیں، اسطرح کی عیاشی یقینا ً نہیں برداشت کر سکتے، بلکہ عام عوام تو کیا، متوسط اور شائید کچھ امیر طبقات کے لوگو بھی اسے برداشت نہ کر سکیں، مگر وہ حکومت جو عوام کا خون نچوڑ کر پیسے کماتی ہے، اسکے وزرا، عوام کی کمائی کہاں لُٹا رہے ہیں، ذرا ملاحظہ کیجئے:
جی ہاں کچھ لوگوں نے بالکل صحیح پہچاناہوگا ان وزراٗ کو۔ جنہوں نے نہیں پہچانا، انکے لیئے بتا دیتا ہوں۔ یہ موجودہ دور کی پیپلز پارٹی حکومت کے دو وزراٗ ہیں۔ نذر گوندل اور لیموزین گاڑی کے دروازے سے اترتے ہوئے قمرالزمان کائرہ ۔ جنہیں آپ اکثر ٹی وی کے چینلز پر ملاحظہ بھی کرتے ہونگے۔
موصول شُدہ رپورٹ کے مطابق انہیں نیویارک کے شہر کی تقریبا ً دوگھنٹے اسی لیموزین میں سیر کروائی گئی۔ یعنی 80,000 روپیہ تو دوگھنٹے میں اڑا دیا گیا۔
اور استقبال کچھ یوں ہوا:
اور یہاں بھی کچھ نچھاور کیا جا رہا ہے:
اور ان نچھاور ہونے والے کاغذوں کو سب پہچانتے ہیں، خاص طور پر حکومت اور اسکے چمچے جماعتوں کے ممبران تو خاص طور پر ان کاغذوں پر نظر رکھتے ہیں اور انکا رنگ کھل کھل جاتا ہے انہیں دیکھ کر۔ یہ کوئی پھول نہیں، بلکہ انہیں عرف عام میں امریکہ ڈالر کہتے ہیں۔ جو آجکل تقریبا ً 80 روپے کا ایک ملتا ہے۔ اور اسکا کچھ حساب پتا نہیں چل سکا کہ یہ کتنی تعداد میں وارے گئے۔
اب آپ یقینا ً یہ بھی سوچ رہے ہونگے کہ میاں وہاں ان ڈالروں کیا بارش کو کون لوٹے گا۔ یہ آپ ان حضرات کی خوشیوں سے اندازہ لگا سکتے ہیں:
انہی تصاویر کے ساتھ ملنے والی رپورٹ کے مطابق تقریباً 16,000 ڈالر بھارتی رقاصاؤں پر خرچ کئے گئے یا وارے گئے۔
مجھے ویسے زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ پاکستان میں اسوقت کس قسم کے حالات ہیں اور ہمیں اپنے ملکی حالات کے لئے کتنی رقم کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں اسوقت تقریبا 25 لاکھ افراد بے گھر ہیں۔ سوات سے آئے ہوئے مہاجرین ایک بہت بڑا المیہ ہے جس کے لیے پاکستانی حکومت دوسرے ممالک سے مدد کی اپیلیں کرتی نظر آتی ہے۔
اور اپنے آقا کے شہر میں جا کر اسی حکومت کے لوگ جس قسم کی عیاشی کرتے نظر آرہے ہیں کیا یہ دیکھ کر کوئی کہہ سکتا ہے کہ انکا ملک مسائل میں مبتلا ہے؟
پاکستان میں اسوقت تقریبا 25 لاکھ افراد بے گھر ہیں۔ سوات سے آئے ہوئے مہاجرین ایک بہت بڑا المیہ ہے جس کے لیے پاکستانی حکومت دوسرے ممالک سے مدد کی اپیلیں کرتی نظر آتی ہے۔
اور اپنے آقا کے شہر میں جا کر اسی حکومت کے لوگ جس قسم کی عیاشی کرتے نظر آرہے ہیں کیا یہ دیکھ کر کوئی کہہ سکتا ہے کہ انکا ملک مسائل میں مبتلا ہے؟
دھشتگردی کا واویلا اور پروپیگنڈا کر کے امریکہ اور دیگر ممالک سے مدد مانگنے والے اس مدد کا کیا کر رہے ہیں یہ کوئی ڈھکی چُھپی بات نہیں۔
اور یہ بھی بات اب کچھ درست نظر آتی ہے، کہ سوات اور دیگر علاقوں میں شورش ، اور جنگوں کی بناید پر اصل فائدہ اُٹھانے والے کون لوگ ہیں۔
میرے پاس صرف اپنے ملک کے لیے دعا ہے، کیونکہ میں بھی بہت سے عوام کی طرح بے اختیار ہوں اور اس برائی اور حکومتی فتنوں کے خلاف کوئی عملی قدم نہیں اُٹھا سکتا۔
اللہ میرے پاکستان کو اپنی بہترین حفظ و امان میں رکھے اور ایسے غدار صفت لوگوں کو اور انکے چمچوں کوتباہ کن انجام سے دوچار کرے۔اور عوام کو راہِ راست دکھائے اور پاکستان کو مضبوطی عطا کرے۔ آمین، ثم آمین۔